السبت، أكتوبر 18، 2014

نمائندگان ملک و ملت کے نام ایک پیغام


رحمت کلیم امواوی
(جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ،نئی دہلی)

انسانی سماج و معاشرے کا یہ اپنا اصول ہے کہ اگر وہ کسی شخص کو اپنے درمیان بہت ہی معتبر اور باعزت گردانتا ہے،ہر قسم کے امتیازات سے انہیں نوازتا ہے تو واضح رہے کہ یہی سماج ان محبتوں کی ناقدری کرنے پر اسی شخص کو اس انداز میں ذلیل و خوار کرتا ہے کہ اس کا تصور کبھی خواب خیال میں بھی نہیں کرتا۔معاشرے کی تشکیل و تعمیر بڑے اچھوتے اور انوکھے انداز میں ہوتی ہے ۔ ہمیشہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ معاشرے کی خوش رنگ آب و ہوا کبھی بدلنے نہ پائے اور معاشرے کی فطرت کا یہ ایک مضبوط حصہ ہے کہ وہ ہر مجال میں اپنا ایک ترجمان یا نمائندہ چاہتا ہے،چاہے وہ سیاسی ہو،ثقافتی ہو،تعلیمی ہو یا صحافتی وغیرہ اور پھر اس چاہت کے پیچھے جو حکمت عملی کار فرما ہوتی ہے اور معاشرے کے جو مطالبات ہوتے ہیںوہ یہ کہ سماجی فلاح و بہبودی کیلئے ہر وہ کام کیے جائیںجو امکان کے دائرے میں آتے ہیں۔بجائے یہ کہ اپنا وقت غیر ضروری چیزوں کی نذر کریں ہمیشہ اس بات کی کوشش ہو نی چاہیے کہ سماج اور ملک وملت کو مستحکم کرنے کیلئے پوری توانائی کے ساتھ قدم بڑھائیں۔اب یہ سوال بر محل معلوم ہو تاہے کہ بنیای طور پر کن نمائندگان یا رہنماں سے اس قسم کی امید رکھتے ہیں؟میں یہ واضح کر دوں کہ سماج ایک چھوٹا سا حصہ ہو تا ہے کسی بھی ملک کا اور کئی معاشرے کے انسلاک کے بعد ایک ملک کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔لیکن سماجی سطح سے لیکر ملکی پیمانے تک ہر ان حضرات سے معاشرے کی یہ توقع ہوتی ہے جو ان کے سماج اور ملک کی نمائندگی سرکاری یا غیر سرکاری طور پر کر رہے ہوتے ہیں ۔چاہے وہ سیاسی میدان میں ہوں،مذہبی میدان میں ہو ں یا تعلیمی و ثقافتی وغیرہایک سوال اور یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے نمائندگان کا کردار اس حوالے سے کیا ہے؟میں تاریخ کے پیچ و خم میں الجھنے کے بجائے حالیہ دنوں جو پاسبان ملک وملت کا رول دیکھنے کو مل رہا ہے اس حوالے سے اس سوال کا جواب دینا مناسب سمجھتا ہوں۔عہد حاضر میں سماجی سطح سے لیکر ملکی پیمانے تک ہمارے نمائندگان کا جو رول رہا ہے اس کے مشاہدے کے بعد یہ فیصلہ کرنے میں بڑی آسانی ہو جاتی ہے کہ ہمارے بیشتر نام نہاد رہنماں کے پاس معاملے کے تئیں فہم و ادراک کا شعور نہیں ہے۔واضح لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں دخل اندازی کی تمیز نہیں ہے اور کونسی چیز غیر ضروری ہے ،کس معاملے میں ان کی مداخلت غیر ضروری ہے وغیرہ وغیرہ ان چیزوں کی تفریق کے ملکہ سے ہمارے بیشتر سیاسی ،مذہبی اور صحافتی ترجمان ناآشنا ہیں۔ البتہ ایک بات تو صاف ہے کہ ان تمام نمائندگان پر شہرت کا بھوت زبردست انداز میں سوار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ اس فراق میں رہتے ہیں کہ کب موقع ملے جب ہم عوام کے درمیان سرخرو ہو جائیں اور راتوں رات شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچ جائیں۔
مذکورہ تمام باتیں (الزامات) کسی بھی ناحیہ سے غلط اور بے بنیاد نہیں ہیں بلکہ یہ تمام بڑی مضبوط سچائی ہے جن کی تائید و توثیق کیلئے ہمارے پاس ڈھیروں دلائل ہیں۔آئیے ماضی قریب کا سہارا لیتے ہوئے اس حقیقت کو سامنے لانے کی کوشش کرتے ہیں۔آج سے تقریباًآٹھ دس سال قبل ہندوستان کی مشہور و معروف ٹینس اسٹار کھلاڑی ثانیہ مرزا کے لباس پر بڑے عجیب و غریب انداز میں علمائے کرام کی ایک جماعت وایلا مچانے لگی اور طرح طرح کی بیان بازیاں بھی ہوئیں۔جس پر ان حضرات کو ثانیہ مرزا نے یہ کہہ کر خاموش کر دیا تھا کہ’دیکھنا ہے تو میرے کھیل کو دیکھیں میرے اسکاٹ اور پاں کو نہ دیکھیں‘۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ کھیل تنگ لباس کے بغیر نہایت ہی مشکل ہے اور پھریہ کہ ثانیہ مرزا کونسا ہمارے اسلام کو ملک و بیرون ملک (Represnt)پیش کرتی ہے کہ علمائے کرام برہم ہوکر سیدھے میڈیا کے سامنے آگئے۔ ثانیہ مرزا نام رکھ لینا کیا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ پوری طرح مسلمان ہے؟ تھوری دیر کیلئے اگر ہم اسے مان بھی لیں کہ وہ مسلمان کے زمرے میں ہے تو پھر ہمیں یہ یاد رکھنی چاہیے کہ اس کا گھر خاندان دور دور تک اسلامی نہیں، مغرب زدہ ہے۔اس کے باوجود بھی علمائے کرام کی یہ کوشش تھی کہ مرزا کو اسلامیات کا جامہ پہنائیں تو پھر یہ طریقہ کہ ڈائریکٹ میڈیا کے سامنے آکر ثانیہ کے خلاف بولنا شروع کر دیں غلط تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دو چند لوگ ثانیہ کے پاس جاتے اور اسے اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے تو پھر یہ ایک مہذبانہ طریقہ ہو سکتا تھا اور بہت حد تک اس میں کامیابی ملنے کی امید بھی کی جا سکتی تھی۔شاہ رخ خان جو کہ ہندوستانی فلمی جگت کا بادشاہ کہلاتا ہے ایک مرتبہ کسی شخص نے خان کے حوالے سے سوال کیا کہ آیا شاہ رخ خان مسلم ہیں یا نہیں؟ اس پر بھی علمائے کرام نے مستقل فتوے صادر کرکے انہیں کافر گردانا۔ اسی طرح سے جب شاہ رخ خان سروگیٹ(Surrogate) کی مدد سے ایک بچے کے باپ بنے تو پھر علمائے امت فتوی در فتوی اس انداز میں دینے لگے کہ خان بھی ایک وقت کیلئے گھبرا گئے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔علاوہ ازیں ایک اور فتوی آیا ہے کہ شاہ رخ خان یا سلمان خان نام رکھنا صحیح نہیں ہے۔اس فتوی کی وجہ جو بتائی جا رہی ہے وہ یہ کہ شاہ رخ خان اور سلمان خان دونوں خاص طور پر اپنی فلمیں عید و بقرعید کے موقع پر ریلیز کرواتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کا رجحان ان کی فلموں کی طرف زیادہ بڑھتا جا رہا ہے، مذہبیات سے دور کرنے میں ان کی فلمیں اہم رول اداکررہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا سلمان یا شاہ رخ خان نام رکھنے سے یہ رجحان کم ہو جائے گا؟کیا ان کی فلمیں دیکھنے والوں کا نام شاہ رخ یا سلمان ہی ہوتا؟اور پھر اب تک کیا کسی کے شاہ رخ یا سلمان نام رکھنے پر ان دونوں اداکار پر کوئی اثر ہوا ہے جو نام نہ رکھنے کی صورت گمان کیا جا رہا ہے؟معمولی سی بات ہے کہ آپ اپنی اصلاح خود کریںبجائے یہ کہ نام ،بال ،لباس کا سہارا لیکر مخالفت کا جھوٹا ڈھنڈوڑاپیٹیں۔مذہبی رہنماں کے علاوہ سیاسی ،سماجی نمائندگان کا بھی اگر آپ جائزہ لیں گے تو معلوم ہو گا کہ معاملہ ’نہلے پے دہلہ‘کے مانندہے۔یہ لوگ بھی کم نہیں ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال بالی ووڈ دبنگ سلمان خان کے خلاف احتجاج و مظاہرہ ہے۔ٹیلی ویژن کا مشہور شو’بگ باس‘کے سیزن آٹھ کا افتتاح ہو رہا تھا۔سلمان خان بطور ہوسٹ(Host) موجود تھے۔ ماڈل(Model)مختلف قسم کی لباس میں ریمپ(Ramp)پر اتر رہی تھی۔اسی میں ایک ماڈل ایسے تنگ لباس میں تھی جس پر عربی میں’اللہ‘لکھا ہوا تھا۔اب یہ خبر موقع پرست نام نہاد مسلم رہنماں اور قلم کاروں کو لگ گئی ۔پھر کیا تھا سیاسی لیڈران نے تو باضابطہ طور پر چند مسلم نوجوانوں کو مذہبی جذبات کا حوالہ دے کر احتجاجی اکھاڑے میں اتر آئے اور جم کر مظاہرے کیے،کیس درج کیا گیا،معافی کا مطالبہ کیا گیا،کفر کا فتوی صادر کرنے کی دھمکی دی گئی وغیرہ وغیرہساتھ ہی ساتھ کچھ شہرت پسند قلم کاروں نے بھی اس کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوششیں کی اور سلمان خان کے خلاف قرطاس در قرطاس سیاہ کرتے چلے گئے۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ سلمان خان جو عربی اور اردو کے ایک لفظ سے واقف نہیں وہ کیا جا نتا ہے کہ عربی میں اللہ اور خدا کیسے لکھا جاتا ہے اور پھر سلمان خان یا شاہ رخ خان یہ تو گانے بجانے والے لوگ ہیں ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،یہ لوگ دیوی دیتاں کے سامنے بھی ہاتھ جوڑتے ہیں ،گرجا گھر کی سیر کرتے ہیں،پھر مسجد بھی آتے ہیں ،ان کا تو کبھی کوئی مذہب رہا ہی نہیں۔پھر سلمان خان بگ باس کا مالک تو نہیں اسے پیسہ دیا جاتا تو وہ اس پروگرام کو ہوسٹ کرتا ہے۔تو یہ ہنگامہ بے معنی کیوں؟میں سلمان یا شاہ رخ کسی شخصیت (Personality)کا فین(Fan)نہیں ہوںاور ناہی کسی خاص شخص کو پسند کرتا ہوں البتہ ہر کسی کی اچھائیوں کو ضرور قبول کرتا ہوں چاہے وہ دوست ہو یا دشمن،مسلم ہو یاغیر مسلم۔لیکن بات یہ ہے کہ ہمیں ان کے خلاف ایسے موضوع پر بولنا جس کا وہ خود گمان نہیں کر سکتا ہو کیا معنی رکھتا ہے؟ مشہور شاعر وسیم بریلوی نے بہت خوب کہا ہے کہ
                        کونسی بات کہاں ،کیسے ،کہی جاتی ہے
                         یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
جموں کشمیر میں جب سیلاب کی وجہ سے نفسی نفسی کا عالم تھا ،کھانے پینے اور دیگر راحتی اشیاءکی انہیں سخت ضرورت تھی تب ہمارے نام نہاد رہنماءبجائے یہ کہ ان متاثرین کی امداد کیلئے مضبوطی سے آگے آئیں اور تن من دھن سے ان کی معاونت کریں یہ لوگ سلمان خان کے خلاف میڈیا میں شہرت بٹورنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔جس وقت ہندوستان میں صفائی مہم کی مدد سے گندگیوں کے خاتمے کیلئے ایک خوشگوار پہل کی جارہی تھی اس وقت چند نام نہاد سیاسی رہبران اور کچھ سماجی تنظیم اس کی تاریخ کو موضوع بنا کر اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گاندھی جینتی اب تک ہر سال نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا جا تا رہا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس حوالے سب باشندگان ہند کو اب تک ملا کیا؟اگراب اسی بہانے صفائی کا پیغام عام کیا جا رہا ہے تو پھر اس میں مضائقہ کیا ہے۔یہ تو اچھی بات ہے کہ اس گاندھی جینتی پر ہندوستانی عوام کو ’سووچھ بھارت ابھیان‘کی تحریک ملی۔پھر اس پر چہ می گوئیاں کہ یہ گاندھی جینتی ہے ،اس دن صفائی مہم کا آغاز گاندھی کی شان میں گستاخی ہے،گاندھی کو جھارو لگانے کے جیسا ہے وغیرہ وغیرہ بالکل بے بنیاد اور غیر ضروری ہے۔گاندھی جو خود صفائی ستھرائی کے تئیں ہمیشہ بیدار رہے اور اس کو ہمیشہ ترجیح دیا،اور اس کی اپیل بھی کی ،ایسے میں بجائے نکتہ چینی کے اگریہ کہا جاتا تو کیا خوب ہوتا کہ گاندھی جینتی کی مناسبت سے گاندھی جی کے ایک پیغام کو عام کر نا خوشگوار عمل ہے ۔

خلاصہ کلام یہ کہ ہمارے پاسبان قوم و ملت کیلئے وقت آگیا ہے کہ اپنی اہمیت آپ سمجھیں اور کس مقام پر ان کی پیش قدمی کی ضرورت ہے اس احساس کو زیادہ سے زیادہ پنپنے دیں۔وقت وحالات کب کس چیز کے متقاضی ہیں اس تمیز کو ضرور بروئے کار لائیں۔عوام کی امید اور ان کی تمناں کوٹھیس پہنچانے ،غیر ضروری کاموں کو بغرض تشہیر کرنے کے بجائے ملک و ملت ،سماج و معاشرہ کو مستحکم کرنے کیلئے مضبو ط قدم اٹھائیں قبل اس سے کہ معاشرہ آپ کا قدم اکھاڑ دے۔اللہ ہمارے رہنماں کو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے:آمین

هناك تعليق واحد:

Safat Alam Taimi يقول...

بہت خوب، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ