الأربعاء، أبريل 09، 2014

شادی کارڈ (افسانہ)

رحمت کلیم امواوی
(جے این یو :9560878428)

میاں جاوید کی شادی پندرہ سال کی عمر ہی میں ان کے والد نے مولوی صغیر کی بیٹی بشری سے کردی تھی،شادی کے فوراً بعد میاں جاوید تعلیمی سفر روک کر ایک پرائیویٹ آفس میں نوکری کرنے لگے ،آفس میں انہوں نے منشی کے عہدے پر رہ کر اس ایمانداری کے ساتھ کام کیا کہ ہر کوئی ان کا گرویدہ ہوگیا ،شادی کو تقریباً سات سال ہوگئے لیکن اب تک میاں جاوید اور بشری کی ازدواجی زندگی میں کوئی پھول نہیں کھل پایا تھا،جبکہ اولاد کی تمنا دونوں کے دلوں میں یکسا ں تھیں ،بشری پنچ وقتہ نماز کے ساتھ ساتھ تہجد بھی پڑھا کرتی تھی،اور اولاد جیسی نعمت عظمی کیلئے خوب دعا کیا کرتی تھی،میاں جاوید بھی عبادت گزار تھے اور اس امید کے ساتھ خوب خیر و خیرات کیا کرتے تھے کہ شاید اب اللہ ہم پر رحم فرماوے اور ہمارا کوئی وارث بنا دے۔
آفس میں حارث میاں جاوید کا سب سے قریبی دوست تھا،ایک دن میاں جاوید نے اپنا سارا درد حارث کے گوش گذار کردی،پھر حارث نے میاں جاوید کو مشورةً کہا کہ اجمیر شریف کا ایک بار دورہ کرلو شاید اس وسیلے سے کوئی فائدہ ہو جائے۔اولاد کی لالچ میںپاگل میاں جاوید دل ہی دل میں یہ ارادہ کرلیا کہ ایک بار اجمیر شریف کی زیارت کر کے دیکھتے ہیں ۔آفس سے ایک ہفتے کی چھٹی لیکر میاں جاوید اپنی اہلیہ کے ہمراہ اجمیر شریف تشریف لے گئے،دونوں نے وہاں خوب منتیں مانیں ،مرادیں پوری کرنے کی دعا مانگیں،اجمیر شریف میں عقیدتمندوں کے جم غفیر کی بیتابی دیکھ میاں جاوید اور بشری کے دلوں کو کچھ اطمینان ہوا،اور دونوں امید بر آنے کا خواب دیکھنے لگے،اور اسی خواب کے عالم میں پورے دو سال گذر گئے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا،اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
میاں جاوید جس آفس میں کام کر رہے تھے اس کی سالانہ قریب ہونے والی تھی اور اس میں کچھ پرانے ورکروں کو اعزاز بھی دیا جانا تھا،جس میں سے ایک میاں جاوید بھی تھے۔وقت معینہ پر میاں جاوید آفس پہنچے اور ایڈیٹوریم میں ایک کونے والی کرسی پر بیٹھ گئے،اعزازات کاسلسلہ شروع ہوا اور سب سے پہلے میاں جاوید کا ہی نام پکارا گیا،بیس ہزار کا ایک چیک اورایک ٹرافی گلدشتہ کے ساتھ میاں جاوید کے ہاتھ میں تھما یا جاتا ہے اور اسٹیج پر ہی لگے کرسی پر بیٹھنے کو کہا جاتا ہے،میاں جاوید کے بعد حارث کانام لیاجاتا ہے ،جب حارث اسٹیج پر جاتا ہے تو اس کے ساتھ اس کی پانچ سالہ ننھی ،چنچل خوبصورت بیٹی زینب بھی انگلی پکڑے ساتھ ساتھ آتی ہے اور خوشی سے اچھل رہی ہوتی ہے،میاں جاوید کو یہ منظر کافی دلبرداشتہ کر دیتا ہے،اور وہ دل کے آنسوں اندر ہی اندر رونے لگتے ہیں جذبات پر قابو کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں مگر ناکام ہوتے ہیں اور دونوں آنکھوں سے گرم گرم آنسو ں نکل پڑتے ہیں ،حاضرین معاملہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آخر میاں جاوید کو کیا ہوگیا،مشارکین میں میاں جاوید کے پڑوسی حاجی اکرام بھی تھے جو اسیٹیج کے بہت قریب آگے والی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے،انہوں نے سمجھ لیا کہ میاں جاوید کو کون سی چیز کی کمی کھل رہی ہے۔شام کو جب تقریب ختم ہوئی اور سارے لوگ اپنے اپنے گھر چلے گئے تو حاجی اکرام میاں جاوید کے گھر پہنچے،دروازے پے دستک دی ،اندرسے آواز آئی کون؟جواب دیا!اکرام،بشری دروازہ کھولی حاجی اکرام نے پوچھا میاں جاوید کہاں ہے؟بشری نے بتایا کہ آفس سے ابھی آئے ہیں ان کے سر میں درد ہے وہ سو رہے ہیں،حاجی اکرام نے کہا میرا نام لے کے کہیے کہ اکرام صاحب ملنا چاہتے ہیں،جب حاجی اکرام میاں جاوید کے پاس پہنچے تو علیک سلیک کے بعد میاں جاوید نے استفسار کیا کہ کیسے آنا ہوا حاجی صاحب؟میاں جاوید سے مخاطب ہوکر حاجی اکرام نے کہا کہ میاں جاوید شادی کو مکمل دس سال ہوگئے،اور اس دس سال میں اولاد کیلئے تم برابر پریشان رہے،کہاں کہاں کا سفر کیااور نہ جانے کتنے دربار کی خاک چھانیایک درد مند دل رکھنے والا انسان تمھاری پریشانیوں کو سمجھ سکتا ہے،میرا ایک مشورہ ہے شاید تمھارے کام آجائے اور کچھ بات بن جائے،ایک بار خانے کعبہ کی زیارت اور حج کے ارادے سے مکہ مکرمہ کا سفر کرلو،وہاں کی دنیا ایک الگ ہی دنیا ہوتی ہے،وہاں رات و دن اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں،وہاں دنیا کے کونے کونے سے لوگ آتے ہیں اور دربار خداوندی میں اپنے مسائل پیش کرتے ہیںاور اللہ انہیں خاص رحم وکرم سے نوازتا ہے،تو بھی ایک بار جاکر دیکھ شاید رحمت خداوندی جوش میں آئے اور تمھاری زندگی میں خوشیاں ڈال دے۔حاجی اکرام کی بات میاں جاوید کے دل کو بھا گئی اور اس سلسلے میں بشری سے رائے لینی چاہی،بشری جو ماں بننے کیلئے اپنے جان کی بازی تک لگا سکتی تھی فوراً حامی بھردی،حج کا موسم آیا ،دونوں میاں بیوی امید و آرزو کا توشہ لیکر مکہ معظمہ تشریف لے گئے،اور انتہائی اہتمام کے ساتھ دونوں نے ارکان حج کی بجا آوری کیں۔میاں جاوید نے کبھی خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر رب العزت سے اولاد مانگی تو کبھی عرفات کے میدان میں دونوں ہاتھ اٹھائے گڑگڑاتے ہوئے بارگاہ الہی میں اپنی درخواشت پیش کی ۔بشری نے کبھی حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے اولاد کو بوسہ دینے کی خواہیش کو اللہ کے نذر کی،تو کبھی صفا و مروہ پر سعی کرتے ہوئے حضرت ہاجرہ کے بیٹے جیسے نیک حلیم وبردبار بیٹے کی تمنا کو مالک دو جہاں سے پوری کرنے کی دعا مانگیحج کی مدت ختم ہوئی ،حجاج کرام اپنے اپنے گھر لوٹے ،میاں جاوید اور بشری بھی اپنے گھر لوٹ آئے،دونوں اندر ہی اندر خوش وخرم تھے اور پر امید بھی۔
حج سے واپسی کو سات ماہ ہو گئے تھے ،میاں جاوید دھیرے دھیرے امید کا دامن چھوڑنے لگے تھے،انہیں ایسا لگنے لگا تھا کہ اب انکا کوئی وارث نہیں ہوگا۔جمعہ کا دن تھا ،میاں جاوید نماز جمعہ پڑھ کے آئے اور آنگن میں کھاٹ ڈال کر دراز ہوگئے،بشری اچانک بیڈ روم سے نکلی اور باتھ روم کی طرف دوڑتے ہوئے گئی،میاں جاوید کھاٹ سے اٹھ بیٹھے،اور باتھ روم کی طرف جانے لگے باتھ روم میں داخل ہونے ہی والے تھے کہ قے کرنے کی آواز سنائی دی،میاں جاوید فوراًپشت کی جانب ہوکر سر آسمان کی طرف اٹھائے باتھروم کی باہری دیوار سے لگ کھڑے ہوگئے اور دونوں مٹھی کو مضبوطی کے ساتھ باندھتے ہوئے دل ہی دل اللہ کا شکریہ بجا لایا،پھر بشری کو سنبھال کر آنگن میں لائے اور کھاٹ پر بیٹھا دیے۔اب دونوں کے آنکھوں میں ایک طرح کی چمک پیدا ہوگئی تھی،جبیں پے مسرت و شادمانی کے آثار لوٹ پوٹ کر رہے تھے،اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ ہولے ہولے مسکرا رہے تھے۔عصر کا وقت ہونے میں ابھی آدھہ گھنٹہ باقی تھا مگر میاں جاوید کھاٹ سے اٹھے اور وضو ءکرکے مسجد پہنچے پھر دو رکعت شکرانہ نماز ادا کی۔
ایک ماہ بعد بشری نے میکے جانے کا ارادہ ظاہر کیا ،میاں جاوید سوچنے لگے کہ اگر بشری اپنے میکے چلی جائےگی تو پھر میں کیسے رہ پاﺅں گا،بشری بھی اس بات کو سمجھ رہی تھی کہ میرے جانے کے بعد میاں جاوید کے کھان پان کا بڑا مسئلہ پیدا ہوجائے گا،بشری کو ایک ترکیب سوجھی اس نے کہا کہ ایسا کریں حاجی اکرام سے اس سلسلے میں بات کر کے دیکھئے کہیں کچھ بات بن جائے،میاں جاوید نے جب حاجی اکرام سے بات کی تو حاجی اکرام نے کہا !میاں جاوید تم بھی کیا بات کرتے ہو،یہ بھی تمھارا ہی گھر ہے ،پوری آزادی کے ساتھ آﺅ ،جاﺅ،کھاﺅ،پیوبشری اپنے میکے چلی گئی اور میاں جاوید حاجی اکرام کے یہاں مستقل کھانا کھانے لگے۔
سموار کا دن تھا ،آفس میں میاں جاوید کو کچھ زیادہ ہی کام کرنے پر گئے تھے،جس کی وجہ سے گھر لوٹنے میں تاخیر ہوگئی،تھکے تھکائے میاں جاوید گھر لوٹے اور مغرب عشاءکی ایک ساتھ نماز پڑھ کر عشائیہ کیلئے حاجی اکرام کے یہاں تشریف لے گئے،کھاناکھاکر لوٹے اور سو گئے،تھکے ہوئے تھے اس لیے بستر پر جاتے ہی نیند آگئی۔رات کے دو بج رہے تھے،کہ میاں جاوید کے موبائل کی گھنٹی بجی ،میاں جاوید آنکھ بند کیے ہوئے ہی بستر پر ہاتھ گھما کر موبائل تلاش کی اور نیم آنکھوں سے اسکرین پر نمبر دیکھا ،نمبر میاں جاوید کی سالی یسری کاتھا،میاں جاوید فوراً اٹھ بیٹھے اور فون اٹھایا،آواز آئی !
ہیلو،جی جا جی :السلام علیکم 
میاں جاوید:وعلیکم السلام ورحمة اللہ
یسری:خیریت سے ہیں جی جا جی؟
میاں جاوید :میں تو ٹھیک ہوں ،پر آپ نے اتنی دیر رات فون کیا ،سب ٹھیک تو ہے؟
یسری:کیا ٹھیک رہے گا،کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے،اور یہ سب آپ ہی نے خراب کیا ہے۔
میاں جاوید :مطلب کچھ سمجھا نہیں،کچھ واضح انداز میں بتائیں گی؟
یسری:ہاں ضرور بتاﺅںگی،لیکن کسی کو آپ بتائیں گے نہیں تو؟
میاں جاوید :بالکل کسی سے نہیں بتاﺅں گا،آپ بتائیے۔
یسری:مبارک ہو آپ کو بیٹا ہوا ہے۔
میاں جاوید :اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے،لیکن بشری کیسی ہے؟
یسری:ہاں آپا ٹھیک ہیں،کوئی خاص پریشانی نہیں ہے،اچھا اب فون رکھتی ہوں جلدی آکر منہ میٹھا کروا دیجیے گا۔
میاں جاوید:ارے یہ بھی کوئی بات کہنے کی ہے ٹھیک ہےخدا حافظ۔
اس خوش خبری کے بعد میاںجاوید نے ایک لمبی سانس لی اور دل سے اللہ کا شکریہ ادا کیا۔
بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں اب کا ہے کو میاں جاوید کو نیند آئے،اس وقت سے فجر تک میاں جاوید جاگتی آنکھوں سے خواب سجانے لگے،اور خیالات کی دنیا میں غوطہ زن ہوگئے۔صبح جب ہوئی تو میاں جاوید فوراً میٹھائی کی دوکان پر پہنچے اور قیمتی میٹھائی لیے سب سے پہلے حاجی اکرام کے گھر پہنچے اور ان کا منہ میٹھ کیا ،حاجی اکرام نے میاں جاوید کو بدھائی دی اور بچے کی سلامتی کی دعاکی۔
سات دن بعد میاں جاوید نے دو موٹا وفربہ بکرے لاکر بیٹے کا عقیقہ کیا اور عندلیب نام رکھا،عندلیب کی پرورش اس کے والدین نے انتہائی لاڈ وپیار کے ساتھ کی،بشری مذہبی تعلیمات سے بہت حد تک آگاہ تھی،چونکہ وہ ایک اسلامی ادارے سے فارغ تھی،اور میاں جاوید عصری تعلیم کے نمائندہ تھے،اس لیے عندلیب کو دینی وعصری بنیادی تعلیمات گھر سے ہی مل گئیں۔عندلیب بڑا ہوا ،اعلی تعلیم کیلئے چھوٹے شہر سے بڑے شہر کا رخ کیا ،والدین بھی مجبور تھے،اوریہ مجبوری عندلیب کے روشن مستقبل کو لیکر تھی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں عندلیب دہلی آیا،اور ایک انجینئر نگ کالج میں داخلہ لے لیا۔عندلیب پڑھنے میں تیز تھا ،بہت کم وقت میں کلاس میں اپنی پہچان بنا لی ،عندلیب کے اخراجات میاں جاوید ہر ماہ وقت معینہ پر بھیجا کرتے تھے،اور اس امید وآس کو لیکر خوش تھے کہ بیٹا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے گا اور ہم انتہائی اہتمام کے ساتھ اس کی شادی کرکے گھر بسا دیںگے۔
کالج میں عندلیب یکے بعد دیگر کئی انعامات حاصل کرکے کلاس کے باہر بھی اپنی پہچان بنا لی۔عندلیب کے کلاس میں فاطمہ نام کی ایک لڑکی بھی تھی،وہ بھی کلاس کے اچھے اسٹوڈنٹس میں سے ایک تھی،فاطمہ ذہین کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی تھی،اس لیے عندلیب بہت جلد اس کی طرف مائل ہوگیا،اور فاطمہ بھی جلد عندلیب کے قریب ہوکر گرل فرینڈ بن گئی،اب دن بہ دن عندلیب کے اخراجات میں اضافہ ہوتا جارہا تھا،جبکہ گھر میں عندلیب کے والد بلڈ پریشر کے شکار ہو گئے تھے اور وہ مسلسل بیمار چل رہے تھے جس کی وجہ سے آمدنی کا بیشتر حصہ میاں جاوید کے علاج و معالجہ میںصرف ہوجاتا تھا،لیکن اس کے باوجود والدین نے عندلیب کو کسی قسم کی پریشانی کا احساس نہیں ہونے دیا۔
کالج میں عندلیب کا آخری سال تھا،امتحان قریب آچکا تھا،عندلیب اور فاطمہ دونوں مل جل کر امتحان کی تیاری کررہے تھے،امتحان ختم ہوا،اس کے بعد عندلیب نے ایک کمپنی میں انٹرویو دی اور بحالی ہوگئی،گھر فون کر کے ابو اور امی کو خوشخبری دی کہ میرا انجینئر نگ مکمل ہوگیا ہے اور مجھے ایک کمپنی میں نوکری بھی مل گئی ہے ۔میاں جاوید اور بشری دونوں بہت خوش تھے کہ بیٹا انجینئر بن گیا ہے۔اب اس کی شادی پورے دھوم دھام کے ساتھ کرنے کیلئے میاں جاوید اور بشری تیاری میں لگ گئے۔ادھر فاطمہ اور عندلیب کے تعلقات بھی مستحکم ہوگئے تھے،کچھ دنوں بعد فاطمہ کی بھی ایک کمپنی میں بحالی ہوگئی،پھر کیا تھا دونوں کے تعلقات اس قدر مضبوط ہوگئے کہ بہت جلد دونوں نے آپس میں شادی کا فیصلہ کرلیا،فاطمہ نے اپنے والدین کو اپنی شادی کی خبر اس لیے نہیں دی کہ انہوں نے فاطمہ کی شادی اپنے قریبی رشتہ دار میں طے کر رکھی تھی جو فاطمہ کو بالکل پسند نہ تھی،اورعندلیب نے اس لیے اپنے والدین کی رائے نہیں لی کہ کہیں وہ انکار کر دیں گے۔بہر کیف دونو ں نے آپس میں شادی کا فیصلہ کر لیا ،تاریخ متعین کی،اور شادی کارڈ بھی چھپوا لیا،عندلیب نے جہاں اپنے دوستوں و احباب کو دعوت نامہ بھیجا وہیں ایک شادی کارڈ اپنے والدین کے نام بھی پوسٹ کردیا،عندلیب نے جو شادی کارڈ اپنے ابو کے نام پوسٹ کیا اس کوپہلے بڑی مضبوطی کے ساتھ پیک کیا،اور بہت بنا ،سنوار کر اس پر برائیکیٹ میں لکھاپیارے ابو وامی جان کے نام،اور پھر پوسٹل ایڈریس درج کرکے ارسال کردیا۔ 
اتوار کادن تھا ،میاں جاوید گھر پر ہی تھے،دوپہر کا کھانا کھا کرقیلولہ کر رہے تھے،دروازے پر ڈاکیہ نے دستک دی ،میاں جاوید فوراًدروازہ کی طرف گئے،اورڈاکیے سے ملاقات کی،ڈاکیہ نے کہا کہ ایک خوبصورت خط آپ کے بیٹے نے بھیجا ہے۔میاں جاوید خط لیکر واپس آنگن میں آئے اور آواز دی !بشری کہاں ہو،دیکھو عندلیب نے خط بھیجا ہے اور اوپر بڑے اچھے انداز میں لکھا ہے پیارے ابو و امی جان کے نام۔بشری دوڑی ہوئی آنگن میں آئی اور انتہائی خوشی کے ساتھ میاں جاوید کے کاند ھے پر دونوں ہاتھ رکھ کے گال ٹیک دی اور بڑے مزے لیکر کہا کہ ذرا کھولیے تو دیکھیں ہمارے شہزادے نے کیا لکھ بھیجاہے،میاں جاوید نے انتہائی پیار و خوشی کے امتزاج کے ساتھ دھیرے دھیرے لفافے کوکھولا،اس میں سے اک مضبوط اور خوبصورت ومنقش کارڈ نکلا،جس کے اوپری حصہ میں لکھا تھا” شادی کا رڈ“ اسکے نیچے بڑے اچھے انداز میں لکھا تھا !عندلیب ہمراہ فاطمہ،تاریخ شادی ۹۲ مئی بوقت شام سات بجے
بشری فوراً کاندھے سے ہاتھ ہٹاکر اپنے منہ پر حیرت سے ہاتھ رکھ لی اور میاں جاوید خط پڑھنے کے ساتھ ہی بے قابو ہوگئے اور جلد ہی زمین پر گڑ پرے،ان کا پورا بدن شل ہوگیا،بشری زور زور سے چلانے لگیحاجی صاحبحاجی صاحبسکینہ چاچیرخسار
آواز سن کر حاجی اکرام کی بیٹی رخسار دوڑتے ہوئے آئی ،اس نے دونوں کو ایسی حالت میں دیکھ فوراً اپنے ابو کو بلا لائی،،حاجی اکرام نے جلدی سے گاڑی منگوا کر میاں جاوید کو ہسپتال میں ایڈمٹ کر وا دیا پھر اطمینان سے باہر بیٹھ گئے،پندرہ منٹ بعد ڈاکٹر اندر سے نکلا اور حاجی اکرام سے کہا !حاجی صاحب :معاف کیجئے مریض کو آدھہ گھنٹہ پہلے ہی دل کا دورہ پڑگیا اور ان کی روح پرواز کر گئی،اب وہ اس دنیامیں نہیں رہے۔حاجی اکرام نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا ! انا للہ و انا الیہ راجعون اور پھرمرحوم میاں جاوید کی لاش کو گھر لے آئے،اس کے بعد حاجی صاحب نے عندلیب کو خبر دی کہ وہ فوراً گھر واپس آئے ،عندلیب جب اصرار کیا کہ آخر معاملہ کیا ہے کچھ بتائیں گے؟تب حاجی اکرام نے کہا کہ تمھارے ابو اب اس دنیا میں نہیں رہے ،اتنا سننا تھا کہ عندلیب نے فون کٹ کر دیا اور ندامت کے آنسو رونے لگا،تھوری دیر بعد عندلیب نے اپنے گاﺅں کے دوست شایان کو فون کیا اور کہا کہ حاجی اکرام صاحب سے یہ کہ دو کہ وہ نہیں آسکتا۔ادھرسکینہ اور رخسار دونوں نے مل کر بشری کے ہاتھ کی چوڑی توڑ ی اور عدت کے سفید لباس میں ملبوس کر دیا،دریں اثنا بشری کو مسلسل غشی طاری ہوتی رہی اور جب ہوش میں ہوتی تو چیخی چلاتی۔سوگوار ماحول میں میاں جاوید کو دفن کر دیاگیا،اور بشری عدت کے بندھن میں بندھ گئی۔اب بشری کے ذہن و دماغ پر جہاں میاں جاوید کے چلے جانے کا لامتناہی غم تھاوہیں بیٹے کے اس ناقابل یقین کرتوت کا ناسور صدمہ اور اسی دونوں ناقابل فراموش سانحے نے بشری کو اندر ہی اندر اس قدر کھوکھلا وکمزور کردیا کہ بشری اس صدمے سے ابر نہیں پائی اور حالت عدت ہی میں اللہ کو پیاری ہوگئی۔

rahmatkalim91@gmail.com

ليست هناك تعليقات: