الاثنين، أبريل 07، 2014

کہ زندگانی عبارت ہے ترے جینے سے

                           تحریر:شائع بن محمد الغبیشی                                               اردو قالب:سیف الرحمان حفظ الرحمان تیمی
جامعہ اسلامیہ ‘مدینہ منورہ
رات کا اکثر حصہ بیت چکا ہوتاہے‘ گھپ اندھیرا ایسا کہ شب ِدیجور کا سماں ہوتا ہے‘ شاہراہِ عام پر ایک شخص کار ڈرائیوکر رہاہوتا ہے‘راستہ پرخطراورگاڑیوں کاہجوم سا ہوتا ہے‘سب اپنی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں  ‘ سبھوں  کو گھر پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے‘ ایسے میں  اس شخص کے کار کی لائٹ اچانک بغیر کسی اشارہ اورتنبیہ کےبند ہوجاتی ہے‘  سامنے گھپ اندہیرا ہے  اور  کار میں بیٹھے سارے مسافر سہم سے جاتے ہیں ‘ ڈرائیور کی حالت اور پتلی ہوجاتی ہے‘ آگے کی گاڑی سے ٹکڑانے اور پیچھے سے ٹھوکرکہانے کے خوف واندیشہ میں  وہ اس قدر گھرجاتا ہے کہ کچھ فیصلہ کرنا مشکل ساہوجاتا ہے   ‘ اس کی بے بسی اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب کار کے عقبی سیٹ پربیٹھا ہوامسافر نیم ہوش حالت میں  دروازہ کھول کرباہر نکل جاتا ہے‘  دیررات ہے اورمنزل پہنچنے کےدھن نے ساری آتی جاتی گاڑیوں  کو بے خود سا کردیا ہے اور ایسے میں  اس بے خود انسان کی پرواہ کرناانہیں ممکن نہیں ‘ ڈرائیورکو یہی   خدشہ ستانے لگتاہے اوروہ کسی طرح اندازے سے ہاتھ  پاؤں مارتا ہوااسے روکنے کی کوشش کرتا ہے ‘کئی بار گڑتاپڑتا اس  تک پہنچتا ہے اور اللہ کی رحمت کہ اسے صحیح سالم پاتاہے-
اس  تصوراتی منظرنامے کو سامنے رکھکر جب میں نے خود کو صاحب واقعہ تصور کیا تو ایک سوال مجھے باربار کوسنے لگا:میری زندگی کی شاہراہ  پراگرچراغِ حیات گل ہوجائے تو.......؟اس سوال کے نہاں خانے سے مجھے ایک ایسی حقیقت کا ادراک ہوا جس سے اکثر ہم غافل ہوتے ہیں ‘وہ یہ کہ شمع‘نور‘ہدایت‘ بصیرت ‘اورروشنی کی انسانی زندگی میں کیا اہمیت ہے ‘رووشنی اور نورہی   میں امن وامان اورسکون واطمئنان کا سامان ہے‘ظلمت وتاریکی تو   تمام تر شقاوت ‘ بے چینی ‘اورسراسیمگی کا باعث ہے-
نور وظلمت کے اس مقارنہ کوسامنے رکھکر بآسانی سمجھاجاسکتا ہے کہ آخر کیوں ایک نوخیز بچہ بھی روشنی اور چمک دمک سے خوش ہوتا اور تاریکی سے موت کی طرح بھاگتا ہے ‘بلکہ ہر شخص بغیر کسی تمیز کے ‘ روشنی  کو پسند کرتا اور اور تاریکی سے دور رہنے کی حتی الوسع کوشش کرتا ہے‘جس کے پاس الکٹرانک ٹارچ  جیسی مشینری روشنی مہیا نہیں ‘ وہ آگ کے ایک انگارے سے ہی سہی ‘ روشنی ضرور حاصل کرتا ہے کہ راہ یابی کے لئے یہ بھی کافی ہے‘گویا ظلمت وتاریکی ہرانسان کے لئے یکساں مکروہ اور مبغوض شیئ ہے  ‘اس کی اس قدر کراہت اورمبغوضیت کے با وصف اس روئے زمین پر ایسے  لوگ آج بھی جی رہے ہیں جو اپنے لئے ایک ایسی ظلمت سے راضی ہیں جودرحقیقت ظاہری تاریکی  سے کہیں زیادہ خطرناک اورشب دیجور کے گھپ اندھیرے سے بھی زیادہ وحشت ناک ہے‘یہ دل کی تاریکی اور اورذہن ودماغ کی ظلمت ہے‘یہ انسان کے لئے اس  بات سے کہیں زیادہ خوفناک ہے کہ تاریک رات میں دورانِ سفراس کا چراغ گل ہوجائے ‘اور وہ سناٹے رات کا مسافر بے رحم تاریکی کے حوالے ہوکر رہ جائے ‘اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ انسانی زندگی کے لئے نورِ ایماں کی کیا قدروقیمت اورضرورت ہے کہ دل اسی سے تاباں وتابندہ ہوتا ہے:کیا وہ شخص جو مردہ تھا اور ہم نے اسے حیات ِنو بخشا ‘اور اسے نور سے سرفراز کیا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے ‘وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں زندگی گزارتا اور وہ اس سے نکلنے  والا بھی نہیں ہے......"(انعام:۱۲۲)تو کیا وہ جس کی زندگی معصیتِ الہی سے مرکب ہو‘اس انسان کے برابر ہوسکتا ہے جس کو اللہ نے ہدایت سے سرفراز کیا اور اس کے دل کو نورِایماں سے منور فرمایا ہے‘ہرگزنہیں‘امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جب دل کی دنیا نیروتاباں ہوتی ہے تو اس پر ہرطرف سے خیروبھلائی کے باراں برستے ہیں‘ بعینہ  جب جہان ِدل تاریک وسنسان  ہوتو ہرجانب سے اس پر شروروفتن کے بادل ٹوٹتے ہیں"(الجواب الکافی:۱۲۵)
ابن قیم رحمہ اللہ نے زندگی اور روشنی کے باہمی رشتے کو اجاگرکرتے ہوئے لکھاہے:حیات‘  انسان کی طاقت وقوت ‘ سماعت وبصارت‘  حیاء وعفت‘  صبروشجاعت‘  اچھائیوں سے اس کی محبت اوربرائیوں  سے اس کی نفرت جیسے اوصاف سے مرکب ہے جب زندگی تواںاورجواں  رہیگی تو یہ سارے صفات بھی اس پہ عیاں رہینگے اورجوں ہی اس کی  زندگی میں  نا توانی آئی ‘ یہ صفات بھی اس سے متاثرہوئے بغیر نہیں  رہ پائینگے ......عین اسی طرح جس قدر اس کا نور ِبصیرت  مکمل اورمنورہوگا‘اسی قدر اس کے لئے حقائق کو سمجھنا اور کائنات کے سرِّنہاں کاادراک کرنا آسان ہوجائیگا(إغاثۃ اللھفان:۱:۲۰)
یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نور کوئی متاع زیست نہیں کہ درہم ودینار دیکرخرید لئے جائیں‘ بلکہ یہ نور ِبصیرت ہے جس مختار کل صرف  اللہ کی ذات ستودہ صفات ہے‘وہ اپنی مشیئت سے جس کو چاہتا اس سے نوازتا ہے"نور علی نور یہدی اللہ لنورہ من یشاء"اور جیے چاہتا ہے اس سے یکسر محروم رکھتا ہے"ومن لم یجعل اللہ لہ نورا فمالہ من نور"(النور:۱۰)
شریعت اسلامیہ میں نبی امین اور قرآن مبین کی زبانی کچھ ایسے اسباب کی رہنمائی کی گئی ہے جن کواختیار کر ایک بندہِ مومن اللہ سے اس نور کی رجاء و التجاء کرسکتا ہے‘ ذیل میں بالاختصار انہیں ذکر کیا جارہا ہے:
۱-اللہ کی محبت ‘ طاعت اور عبودیت:کہ اللہ ہی آسمان وزمین کا نور ہے‘اس کے نور کی مثال اس فانوس کی سی ہے جس میں چراغ ہو اور آبگینہ پوش ہو‘آبگینہ ایسا کہ گویا درخساں ستارہ ہو ‘ اس کی ذاتِ بے نیاز اپنی مشیئت سے جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا اور جسے چاہتا ہے بےگانہ رکھتا ہے.....(نور:۳۵)نبی امی-فداہ أبی وأمی-کی مبارک حدیث ہے :اللہ نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیدا کیا‘ پھر ان پراپنا نور ڈالدیا‘جو اس نور سے بہرہ یاب ہوا وہ ہدایت یافتہ ہوا‘ اور جو اس سے محروم رہا و ہ گمگشتگانِ ہدایت میں سے ہو گیا......."( امام احمد نے اپنے مسند میں اسے روایت کیا اور امام البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
امام  ابن قیم نے إغاثۃ اللھفان ۲:۱۹۷ میں لکھا ہے :محبت ِ الہی کی شان ہی نرالی ہے‘کیوں کہ انسانی دلوں کے لئے طبعی طور پر جوذات سب سے زیادہ محبوب ہوتی ہے وہ  ہے ذاتِ باری‘ معبود ِ حقیقی ‘ ولیِّ یکتا‘ مولائے کل‘ ربِّ واحدواحد‘مدبرعالم ‘ رازقِ خلائق‘ اور موت و حیات کا مالک  اللہ جل جلالہ‘ اس کی محبت ہی روح کی راحت ہے‘دل کا قرار ہے‘ آنکھوں کی ٹھنڈک ہے‘ ذہن ودماغ کی بصیرت ہے‘ ظاہروباطن کا سکون ہے‘ سلیم الطبع انسان کے لئے محبتِ الہی سے بڑھ کر کوئی چیز لذت افزا‘ حلاوت بخش‘ سرور آمیز ‘ اور انسیت خیز نہیں  ‘ گویا ایمانی حلاوت اور رب کی محبت تمام تر نعمتوں سے مافوق اور ساری لذتوں سے بالاتر ہے-
۲-اسلامی اصول اتباعِ رسول:نبی گرامی کی ذات خدائے پاک کابھیجا ہواایک ایسا نور ِ ہدایت ہے جو تا قیامِ قیامت  ہمارے لئے راہنمائے صراطِ مستقیم اور دلیلِ دین قویم ہے‘قرآن کا بیان ہے:اے نبی ہم نے آپ کوگواہ‘ بشارت دینے والا‘ اللہ کے اذن سے اس کی طرف بلانے والا ‘ اور مشعلِ تاباں بناکر بھیجا ہے(احزاب:۴۵-۴۶)اب شک کی کوئی راہ نہیں کہ نبی کی ذات مبارکہ روشن چراغ کی مانند تھی جس سے کفروعدوان کی تاریکیاں چھٹیں اور نورِ بصیرت عام ہوا‘ جو شخص اپنے  ذہن و دل کو نورِ ایماں سے  حرارت یاب کرنا چاہتا ہے ‘ اس کے لئے ہدایت مصطفی اور سنت مجتبی میں اس کا مکمل حل موجود ہے کہ اسی سے ذہن ودل کے درواہوتے اور روحِ حیات کو تسکین ملتی ہے_
 إن الرسول لنور یستضاء بہ                                         مہند من سیوف اللہ مسلول
یقینا رسول ایسے نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے‘اور اللہ کی صیقل زدہ سونتی ہوئی تلوار ہیں-
کیا حسیں تعبیر ہے کہ:
بزغ الصباح بنور وجہک بعدما
غشت    البریۃ   ظلمۃ سوداء
                      فتفتقت بالنور أرکان الدجی                     
وسعی علی الکون  الفسیح ضیاء
           یا سید الثقلین یا نبع الہدی           
یا خیر من سعدت بہ الأرجاء
کہ جب خلائق عالم گھپ اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے تو تیرے چہرء انور کی تابانی سے صبحِ نو نمودار ہوئی‘ اس نور کے آتے ہی تاریکیوں نے اپنے چادر سمیٹ لئے‘اور پوری دنیا نورِ ہدایت سے ضیاء بار ہوگئی ‘ اے انس وجن کے سردار‘رشدہدایت کے سرچشمہ‘ اور خیروبھلائی کے منبع کہ جس کی آمد نے تمام گوشئہ جہاں کو سعادت یافتہ کردیا-
۳-خشیت الہی:اللہ نے اپنے کلام مقدس میں تقوی اختیار کرنے اور خشیت الہی کو اپنانے کے بطور بندہ  مؤمن سے تین نعمتوں کا وعدہ فرمایا ہے:
۱-اپنی دوہری  رحمت  سے سرفراز کرنے کا وعدہ‘ایک حصہ دنیا میں اوردوسرا آخرت میں(یؤتکم کفلین من رحمتہ )
۲-نور سے نوازنے کا وعدہ جس سے تاریکیوں میں راہنمائی حاصل کرسکے(ویجعل لکم نورا تمشون بہ)
۳-گناہوں کی بخشش اور معاصی سے چشم پوشی
اس ربانی وعدہ میں ایک چیز جو سر چڑھ کر بول رہی ہے وہ ہے دین مبین کی یسرت وآسانی اوررب دوجہاں کی اپنے بندوں کے تئیں لطف وعنایت کہ اللہ نے اپنی خشیت کو تمام آسانیوں کا مرکز اور ترک خشیت کو تمام عسرت وتنگی کا باعث قراردیا(التبیان  فی أقسام القرآن:۳۶)
۴-نماز:نماز دین کا ستون ہے‘نبی نے اسے اپنی آنکھوں کا سکون قرار دیا‘اور  اپنے نور سے تعبیر فرمایا ہے‘شیخ ابن عثیمین شرح الأربعین للنووی میں رقمطراز ہیں:فرض ونفل ہردونماز میں نورہے‘دل کا نور ہے‘چہرے کا نور ہے‘حشر کا نورہے ‘حدیث کا اطلاق تمام نور کو شامل ہے‘تجربہ اس کا شاہد ہے‘حاضر دلی اور خشوع و خضوع کے ساتھ جب نماز اداکی جاتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ دل نورانی ہوگیا اورلاریب کہ ایک بے کیف سی لذت محسوس ہوتی ہے‘یہی مفہوم ہے حدیث پاک کا کہ"قرۃ عینی فی الصلاۃ"متعدد احادیث کے اندر مختلف پیرائے میں اس نور کی توضیح وارد ہوئی ہے‘جونماز کی پابندی اور اہتمام کی برکت سے حاصل ہوتاہے‘ اسی سبب سے نماز کو روح کی غذا‘صحت کا محافظ ‘رزق کا ضامن ‘ اور بلاء ومصیبت کا دافع بتا یاگیا ہے‘زاد المعاد میں قدرے تفصیل سے اس پرروشنی ڈالی گئی ہے‘بڑا خوش بخت ہے وہ قدم جو باوضوء وباصفا درِمالک کی طرف بڑھتا ہے اور بڑی دل آویز ہے وہ زندگی جو نماز ‘ذکرِباری اور یادِالہی سے آباد ہے:
       یمشون نحو بیوت اللہ إذاسمعوا          
 "اللہ اکبر"فی شوق وفی جذل
         أرواحہم خشعت للہ فی ادب          
           قلوبہم من جلال اللہ فی وجل        
نجواہم  ربنا! جئناک   طائعۃ   
 نفوسنا ‘وعصینا  خادعالأمل
جب انکی سماعت سے اللہ اکبر کی صداٹکراتی ہے  تو وہ شوق اور خشیت سے لبریزاللہ کے گھر کی طرف چل پڑتے ہیں‘انکی روحیں اللہ کےلئے ادب کے ساتھ خشوع کا مظاہرہ کرتی ہیں‘اور انکے دل جلال ربانی کے سامنے خم ہوتے ہیں‘ وہ زبان حال ومقال سے التجاء کر رہے ہوتے ہیں کہ اے ہمارے رب !ہم نے تمام فریبی آرزوؤں کو ٹھکرادیااور اب تیرے ہی در کے سوالی ہیں ‘ تجھ سے ہی امیدیں رکھتے اور تیری ہی طاعت وعبادت کو سزاوار ٹھراتے ہیں-
 ۵-دعوت الی اللہ:حفظِ حدیث اور ترویجِ حدیث:مسند احمد اور حامع ترمذی کی حدیث ہے‘عبد اللہ ابن مسعود راوی ِ حدیث ہیں:اللہ اس شخص کا چہرہ منور کرے جس نے میری حدیث کو سنا‘ اسے یاد کیا‘ اور ہوبہو دوسرے تک پہنچابا‘ بسا اوقات مدعو داعی سے زیادہ یادرکھنے والا ثابت ہوتا ہے"حضرتِ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا قول منقول ہے:مامن أحد یطلب حدیثا إلا وفب وجھہ نضرۃ"(عون المعبود:۱۰:۹۴) کہ جو شخص طلب حدیث میں مشغول رہتا ہے اس کا چہرہ تروتازہ اور منور ہوتا ہے-
عبد الرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:اگرطلب حدیث ‘ حفظ حدیث اور تبلیغ حدیث کا کوئی او رفائدہ نہ ہوتا سوائے اس دعائے نبوی کے ‘ تو بھی اس کے فائدہ ‘ منفعت اور دارین کی سعادت کے لئے کافی  تھا(تحفۃ الأحوذی:۲:۲۰۲۶)شیخ ابن عثیمین کے نزدیک بھی حدیث کا یہی مفہوم ہے کہ جو میری حدیث کو سنے اور دوسرے تک پہنچائے‘ اللہ اسے کل قیامت کو خوش رو رکھے (شرح ریاض:۴:۵۱۷)–
یہ بنیادی اسباب ہیں جن کو اختیار کر نور الہی سے فیضیابی کی امید کی جاسکتی ہے‘ ان کے علاوہ بھی دیگر اسباب ہیں جن کا ثبوت نصوص شرعیہ سے ملتا ہے‘ ان میں والدین کی فرمانبرداری‘ صبروشکیبائی ‘ بکثؤت نوافل کا اہتمام ‘ صدقات وحسنات کا التزام ‘ جہاد فی سبیل اللہ اور حج لوجہ اللہ‘ شب بیداری اور تہجد گزاری ‘ توبہ وانابت الہی ‘ ذنوب ومعاصی سے بعد ودوری‘ نرم خوئی او رپست نگاہی ‘ باہمی اخوت اور خیر سگالی جیسے مؤمنانہ شمائل و خصائل بدرجہ اتم شامل ہیں-
نور الہی سے فیضیابی کے ثمرات ونتائج:
۱-ظاہری تازگی اور نورانیت‘انشراح صدر اور حقیقی سعادت سے سرفرازی
۲-ضلالت وظلمت سے گلو خلاصی اور ہدایت یافتگی
۳-حسنِ خاتمہ کہ جو مؤمن کا اصل منتہائے غایات ہے
۴-میدانِ حشرمیں عبورِ (پل)صراط کی نفسی نفسی میں سید المرسلین شفیع المذنبین امام الأولین والآخرین  کی مرافقت با سعادت
وخذ لنفسک نورا یستضاء بہ    
 یوم اقتسام الوری الأنوار بالرتب
                                                       فالجسر ذو ظلمات لیس یقطعہ                                                            
إلا بنور ینجی العبد فی  الرکب 
اپنے لئے ایسے نور کا بندوبست کر(ہی)لو کہ جس سے اس دن روشنی حاصل کرسکوکہ جب منزلت و مرتبت کے بقدر نور تقسیم کیا جائیگا
پل صراط ایسی تاریک  ترین جگہ ہے کہ جس کو بسلامت عبور کرنےکے لئے ایسانور الہی  درکار ہے جو نیا پارکردے
۵-دخولِ جنت کا پروانہ کے جس کے ملنے کے بعد انسان پروانہ وار جنت کی طرف لپک پڑیگا(فمن زحزح عن النار وأدخل الجنۃ فقد فاز)
یہ ایسے گراں قدر ثمرات ہیں  جن کے حصول میں نور الہی کا کافی دخول ہے‘ اللہ ہمیں اس نور سے سرفراز فرمائےاور اس نورِ بصیرت کو عام کر اس کے ثمرات سے ہمارے دامن مراد بھردے-
اللہم اجعل فی قلبی نورا وفی بصری نورا وعن یمینی نورا وعن یساری نورا وفوقی نورا وتحتی نورا وأمامی نوراوخلفی نوراوعظّم لی نورا
اللہم اجعلنی ممن یعبر الصراط مع حبیبک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ممن یسعی نورہم بین أیدیہم  وبأیمانہم بشراہم الیوم جنات.......-اللہم آمین
binhifzurrahman@gmail.com

ليست هناك تعليقات: