الأحد، أبريل 13، 2014

نیک مطلب بے وقوف


ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہرلال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067

       ہمارے دوست بے نام خاں ایک ایک پر ایک تھیوری اور فلسفہ دیتے رہتے ہیں ۔ کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے کہ انہيں بھی تھیوری باز کا لقب دے دیا جائے لیکن وہ اپنے لیے خود ہی اتنے القاب و آداب استعمال کرتے رہتے ہیں کہ ایسا کرنے کا کوئی مطلب بھی نہیں بن پاتا ۔ ہمارے دوست کے حساب سے تھیوری بنانے ، پیدا کرنے میں انہيں جتنی دقتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ان سے کہیں زیادہ انہیں منوانے کے لیے  پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ حالانکہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ تھیوری پیدا کرنا آسان ہے لیکن تھیوری کو تھیوری کی حیثيت سے منوا لینا آسان نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دیکھو اگر کوئي تم سے بات کرتے ہوئے کہے کہ آپ بہت سمجھدار آدمی ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ وہ تمہیں ہوشیار سمجھ رہا ہے ۔ پھر وہ سمجھدار اور ہوشیار کا فرق بتلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ سمجھدار آدمی بس سمجھدار ہوتا ہے ۔ وہ چیزوں کو صحیح طریقے سے سمجھتا ہے اور غلط سلط رویے نہیں اپناتا ۔ ایسا آدمی اصلا شریف بھی ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس ہوشیار آدمی کے اندر منافقت اور چاپلوسی کے عناصر پائے جاتے ہیں ۔  وہ معاملہ فہم تو ہوتا ہے لیکن اس کا استعمال عموما غلط طریقے سے اپنے مفاد کے حصول کے لیے کرتا ہے ۔ ایسا آدمی بالعموم شرافت کی نعمت سے محروم ہوتا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی بات کرتے ہوئے تم سے کہے کہ آپ کے اندر سیاسی سوجھ بوجھ پائي جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ آدمی تمہیں مکمل معنوں میں چالباز ، ذلیل اور بے ہودہ سمجھ رہا ہے ۔ اگر وہ زیادہ پڑھا لکھا نہ ہو تو تمہيں کہے گا کہ آپ تو سیاسی آدمی ہیں ۔ اور اس طرح تم ناراض ہو سکتے ہو لیکن پڑھا لکھا آدمی ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ تمہیں اس طرح بے وقوف بناتا ہے کہ بات بھی بن جائے اور بد مزگی بھی نہ ہو ۔ یعنی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ میرے بھائی آج کی دنیا استعاروں پہ ہی چل رہی ہے ۔ اور یوں بھی پڑھا لکھا ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ آدمی غلط سلط چیزوں کو تہذیب سے رکھنا سیکھ جاتا ہے ۔ مہذب انداز میں جھوٹ بولنے کا ہنر جان لیتا ہے ۔ گالی گلوج میں اعتدال و توازن پیدا کرلیتا ہے اور عام فہم الفاظ کی جگہ زیادہ نوکیلے لیکن زرا دیر سے سمجھ میں آنے والے الفاظ استعمال کرنے لگتا ہے ۔ غالب کو جب ذوق سے چھیڑ کرنی تھی تو انہوں نے اپنی لیاقت کا کتنا صحیح فائدہ اٹھایا ۔
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
کہا جاتا ہے کہ جب سراج الدولہ کے پاس اس کے قتل کا فرمان آیا تو اس نے بڑے ہی اعتماد کے عالم میں پڑھا تھا ۔
لاؤ تو قتل نامہ ذرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئي
سراج الدولہ کا واقعہ تو خیر بہادری ، جوانمردی اور شجاعت و بسالت کا غماز ہے لیکن تاریخ میں استعاروں کے استعمال کے ایک پر ایک نمونے ملتے ہیں ۔ پہلے زمانے میں بادشاہوں ، جابر حکمرانوں اور ڈکٹیٹروں کے خلاف آواز اٹھانا بہت مشکل ہوتا تھا ۔ ایسے میں پڑھے لکھے لوگ استعاروں کا ہی استعمال کرتے تھے اور وہ انسانوں کی بجائے جانوروں کے استعاروں سے کام لیتے تھے ۔ جنگلات اور جانوروں کے کرداروں کے ذریعے سماج کی تصویر کشی کی جاتی تھی اور اس طرح بادشاہ وقت کو نصیحت کرنے کا فریضہ انجام دیا جاتا تھا۔ عربی زبان و ادب کی شاہکار تصنیف کلیلہ دمنہ اسی سلسلے کی روشن اور مضبوط کڑی ہے ۔ یہ کتاب اصلا سنسکرت سے فارسی اور فارسی سے عربی میں منتقل کی گئی ہے لیکن کمال کا اسلوب ہے اس کتاب کا ۔ کبھی پرانی ہونے والی نہیں ۔ عباسی دور کی یادگار ہے ۔ کہاجاتا ہے کہ عربی ہندوستانی ادیب مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اس کتاب کو کئی ایک بار پڑھا تھا ۔ خیر یہ باتیں تو از راہ تذکرہ آگئیں ورنہ یہ سچ ہے کہ جو سماج جتنا تعلیم یافتہ اور مہذب ہوتا جائیگا اس کے اندر استعاروں کا نظام اتنا ہی زیادہ مستحکم ہوتا جائیگا ۔ در اصل تعلیم و تہذیب کے بعد بولنا اتنا آسان نہيں ہوتا ۔ سوچنا پڑتا ہے بولنے کے لیے ۔ آدمی اگر پڑھا لکھا اور باشعور نہ ہو تو وہ بغیر سوچے بولتا ہے اس لیے بھر مطلب بولتا ہے ۔ پڑھنے لکھنے کے بعد عام طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ انسان بولے گا تبھی جب تول چکا ہوگا ۔ اسی لیے زیادہ پڑھے لکھے لوگ عام طور سے تقریر نہیں کرپاتے اور معمولی لوگ خوب تقریریں کرتے ہیں ۔ زیادہ پڑھے لکھے لوگ بھی جب زیادہ بولنے لگتے ہیں تو لوگ انہيں جاہلوں کی صف میں ہی رکھ کر دیکھنے لگتے ہیں ۔ اور کمال یہ ہے کہ زیادہ بولنے والے پڑھے لکھے لوگ بھی اول فول ہی بکتے ہیں ۔ اسی لیے کبھی کبھی جاہل لوگ بھی کم بولنے کی عادت ڈال کر اپنے آپ کو دانشمندوں کے زمرے میں رکھوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ یونیورسٹیز کے اندر بعض اساتذہ بھی اسی فارمولے پر عمل کرتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ خاصے کامیاب بھی  ہوتے ہیں ۔
خامشی چھپاتی ہے عیب اور ہنر دونوں
شخصیت کا اندازہ گفتگو سے ہوتا ہے
ایک معروف یونیورسٹی کے صدر شعبہ کے بارے ميں یہ بات خاصی مشہور تھی کہ تقریری امتحانات میں وہ کچھ بولتے ہی نہیں تھے اور اگر کہیں کوئی بات بحث میں آگئي تو وقفے وقفے سے صرف سراٹھا کر مسکرالیتے تھے ۔ اور جب ایک بار بولنے کی مجبوری آگئي تو ان کے شاگردوں کو بہت تکلیف ہوئي کہ سر کو کیوں بولنے پر مجبور کیا گیا جب سر کی مرضی نہیں تھی ۔ ایسے یہ وہ شاگردان تھے جو ان کی جی حضوری کے ذریعے کسی نہ کسی طرح پروفیسرشپ کے متمنی تھے ۔ ورنہ بقیہ طلبہ اور اساتذہ تو مزے میں تھے ۔ یوں بھی بڑے لوگوں کی چوری پکڑ لینے کے بعد چھوٹے لوگ مزہ لینے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں ۔
       ہمارے دوست نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں اگر تمہیں کوئي یہ کہے کہ آپ بہت نیک آدمی ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ آپ بے وقوف ہیں ۔ آپ کو ٹھگا جاسکتا ہے ۔ آپ کے اندر چونکہ معاملہ فہمی نہيں ہے اس لیے اللہ والے بنے ہوئے ہیں ۔ موقع نہيں ملا اس لیے پارسا ہیں ۔ دماغ نہيں کہ کچھ قابل ذکر کارنامہ انجام دے سکیں اس لیے شرافت اور نیکی کا بت ڈھوکر اپنے آپ کو کسی طرح تسلی دینے کی کوشش کررہے ہيں ۔ جو آدمی تمہيں نیک کہ کر تمہاری تعریف کرتا ہے تمہارے پاس سے جب اٹھتا ہے تو سب سے پہلے وہ تمہيں گالی دیتے ہوئے بیوقوف ہی کہتا ہے ۔ اب پچھلے دنوں کی بات ہی کو دیکھ لو ہمارے دوست ہیں ایک مولانا ۔ ان سے لاکھ کہا کہ اپنے بیٹے کی شادی میں کچھ نہ کچھ ڈیمانڈ ضرور رکھیں ۔ لیکن ان کی نیکی ان کے آڑے ہاتھوں آگئی اور اب بے چارے رونا روہے ہيں ۔ سارا سماج ان پر تھو تھو کر رہا ہے اور بے چارے چہرہ چھپائے پھر رہے ہیں ۔ ڈیمانڈ کیا ہوتا تو کم از کم دوچار لاکھ تو مل ہی جاتا ۔ لڑکی والے بات کرتے ہوئے کہ رہے تھے کہ بے وقوف بنا دیا ۔ ایک مرتبہ ہمیں اپنے ایک شناسا کے کاموں میں خلوص و للہیت اور افادیت کی حصہ داری نظر آئی اور ہم  نے انہیں خوش کرنے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کہا کہ بھائی آپ تو ماشاءاللہ کافی نیک ہیں ۔ میرا یہ کہنا تھا کہ وہ ناراض ہوگئے اور کہنے لگے کہ آپ سے ایسی توقع نہيں تھی ۔ میں نے کہا کہ لیکن میں نے تو کچھ ایسا غلط نہیں کہا ۔ دل نے جو محسوس کیا زبان نے ایمانداری سے ادا کردیا۔ اس پر وہ اور ناراض ہوگئے اور کہا : اس کا مطلب آپ مجھے دل سے بے وقوف سمجھتے ہیں ؟  سماج میں نیک کا مطلب بے وقوف ہی ہوتا ہے اسی لیے جس کو موقع ملتا ہے وہی اپنے حساب سے نیک آدمی کو دانشورانہ مشورہ دے ڈالتا ہے ۔ نیک آدمی کو صرف بے وقوف سمجھا جائے تو چلو چلے بھی لوگ ایسے لوگوں کو کمزور بھی کم نہیں سمجھتے ۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی ایسا کرکے آدمی گھاٹے کا سودا بھی کرتا ہے ۔ اصل میں کچھ لوگ جو نیک نہیں ہوتے ہیں وہ بھی نیکوں والی صورت بنا کر لوگوں کو الٹا دھوکہ دیتے ہیں ۔ میرے بھائی نیک ہونے کا یہ معاملہ ہر طرح سے پیچیدہ ہے ۔ اسی لیے نہ تو ہم نیک ہیں اور نہ کسی کو نیک ہونے یا بننے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ آپ کو اگر نیک بلفظ دیگر بے وقوف بننا ہے تو آگے آپ کی مرضی ۔ ہمارے مدرسے کے  زمانے میں کسی طالب علم کے نیک ہونے کا مطلب بے وقوف ہی ہوتا تھا ۔ ایک مرتبہ ہمارے ایک دوست اپنا سارا سامان ایک مسافر کے حوالہ کرکے ٹکٹ لینے گئے ۔ واپس آئے تو مسافر اپنے سفر پر نکل چکے تھے ۔ ہمارے دوست مدرسہ پہنچے تو انہوں نے اپنا واقعہ بتلاتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ  اسی درمیان اس مسافر کی ٹرین آگئی ہوگی اور اس  بے چارے نے  ٹرین پکڑ لیا ہوگا ۔ ہم تمام لوگوں نے ان کی اعلا ظرفی کو سلام نہیں کیا تھا جناب ۔ ہم کہ رہے تھے کہ ہمارے دوست نیک ہیں اور ہم سب اس لفظ کا معنی بھی سمجھ رہے تھے ۔

ليست هناك تعليقات: