الخميس، أبريل 24، 2014

خارجی فکر اور موجودہ انتہا پسندی

ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی 110067
       
عالم اسلام ان دنوں بڑی ناگفتہ بہ صورت حال سے دوچار ہے ۔ قدم قدم پہ مسائل کا انبار اور  خارجی سازشوں سے لے کر داخلی پریشانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دراز ہوتا جاتا  ہے ۔ یوں تو بہت سارے زخم ہیں جو رس رہے ہيں لیکن بطور خاص عالم اسلام کو خارجی فکرو نظر کے سرطان نے جکڑ لیا ہے ۔ ہرچہار جانب تکفیر و تفریق اور بغاوت کی مسموم ہوائیں چل رہی ہیں اور سارا تانا بانا بکھرتا ہوا محسوس ہورہا ہے ۔ امت کے جسم کا ایک ایک عضو معطل، اجتماعیت اور وحدت کی دیواروں کی ایک ایک اینٹ ہلی ہوئي سی  ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اب تب امت کے شاندار عمارت کی کہنہ دیوار پاش پاش ہو جائےگی۔  اس صورت حال کو سمجھنے اور اس سے گلو خلاصی کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم خارجی فکر کو سمجھیں اور تاریخی طور پر اس کے اثرات و نتائج کا جائزہ لیں ۔
              احادیث رسول اور آثار صحابہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو خارجی فکر در اصل اپنے آپ کو بافراط صحیح باور کرنے اور دوسروں کو غلط ثابت کرنے  سے عبارت ہے ۔ جس کے نتیجے کے طور پر تکفیر کے فتوے ،ظلم کے ریلے اور  بغاوت کی آندھی آتی ہے لیکن اس کے اوپر دین پسندی اور تقوی و پرہیزگاری کا خوبصورت غلاف بھی چڑھا ہوا ہوتا ہے جس سے عامۃ الناس کا دھوکہ کھاجانا زیادہ ممکن ہو جاتا ہے ۔ دین کا یہ مظہر جسمانی ہوتا ہے اور روح کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔ اس کے بطن سے فتنے ، فساد ، خونریزی اور بغض و عداوت کے جراثیم جنم لیتے ہیں اور الفت و محبت ، خوشحالی و ارتقاء اور سماجی ہم آہنگی کی کلیاں نہ صرف یہ کہ  مرجھا جاتی ہیں بلکہ چمن کا چمن ہی زد میں آجا تا ہے اور ہر طرف تخریب و تہدید کے الو قہقہ لگانے لگتے ہیں ۔ اس سلسلے کی چند احادیث پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہوگا ۔
               ایک حدیث بخاری شریف کے اندر حضرت ابو سعید خدری رضي اللہ عنہ کی روایت سے آئی ہے کہ جب حضرت علی رضي اللہ عنہ نے یمن سے اللہ کے رسول کے حضور سونا روانہ کیا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار گروہوں میں تقسیم کیا اور وہ تھے  الاقرع بن حابس الحنظلی ، عیینہ بن بدر الفرازي، علقمہ بن علاثہ العامری پھر بنی کلاب کا کوئي شخص اور زید الخیر الطائی پھر بنی نبھان کا کوئی ایک فرد۔ ابو سعید الخدری بتلاتے ہیں اس پر قریش والے ناراض ہوگئے اور انہوں نے کہا : آپ نجد کے صنادید کو نواز رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ رہے ہيں ۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے ایسا ان کی تالیف قلب کے لیے کیا ہے ۔ پھر ایک آدمی آیا ۔ اس کی داڑھی گھنی تھی ، گال نکلے ہوئے تھے ، آنکھیں گہری تھیں ، پیشانی اٹھی ہوئی تھی اور سر چھلا ہوا تھا ۔ اس نے کہا : اے محمد اللہ سے ڈرو۔آپ نے فرمایا : اگر میں اللہ کی فرماںبرداری نہ کروں تو اور کون کرے گا ۔ اللہ مجھے سارے زمیں والوں پر امین بناتا ہے اور تم لوگ مجھے امانتدار نہیں سمجھتے ۔  صحابی رسول فرماتے ہیں ۔ پھر وہ آدمی لوٹنے لگا توقوم کے ایک فرد نے اسے قتل کردینے کی اجازت طلب کی ۔خیال ہے کہ وہ حضرت خالد بن الولید تھے ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آدمی کی نسل سے ایسے لوگ ہونگے جو قرآن پڑھینگے اور ان کی گردن سے آگے نہيں اترےگا ۔ وہ اہل اسلام کو قتل کرینگےاور انہيں اہل اوثان کہیںگے ۔ وہ اسلام سے ایسے ہی نکل جائینگے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے ۔ اگرمیں انہيں پالوں تو عاد کی مانند قتل کرونگا ۔ ( رواہ البخاری : 3344 )
     دوسری حدیث بھی حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے اور بخاری شریف ہی میں ہے کہ اسی بیچ کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور آپ حصے تقسیم کررہے تھے ۔  آپ کے پاس بنی تمیم کا ایک آدمی ذوالخویصرہ آیااور بولا : اے اللہ کے رسول انصاف کیجیے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری خرابی ! اگر میں نہ انصاف کروں تو کون انصاف کرے گا ۔ تم تو ناکام و نامراد ہو جاؤ اگرمیں انصاف نہ کروں ۔ اس پر حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اس شخص کی گردن اڑا دوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو ، اس کے ایسے ساتھی ہونگے جن کی نمازاور روزے کے مقابلے میں تم میں کا ایک شخص اپنی نمازاور روزے کو کمتر خیال کرے گا۔ وہ قرآن پڑھینگے جو ان کی گردن سے نیچے نہيں اترے گا ۔ وہ اسلام سے ایسے ہی نکل جائینگے جیسے تیر کمان سےنکلتا ہے ۔ تیر کے اگلے پچھلے بیجچ والے تمام حصوں کو دیکھا جائے اور کچھ بھی نہ ملے ۔ جگر اور خون سے آگے نکل جائے ۔ ان کی نشانی ایک ایسا کالا آدمی ہوگا جس کا ایک بازو عورت کے پستان کی مانند ہوگا یا پھر گوشت کی مانند کہ ڈانواڈول ہے ۔ یہ لوگوں کے اختلاف کے وقت نکلیںگے۔ ( البخاری: 6163 )
      سعید بن جمہان کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ اس وقت ان کی بینائی جا چکی تھی ۔ میں نے کہا کہ میں سعید بن جمہان ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے والد کا کیا ہوا ؟  میں نے کہا کہ ازارقہ نے انہیں قتل کردیا ۔ انہوں نے کہا : ازارقہ پر اللہ کی لعنت ۔ میں نے کہا صرف ازارقہ پر یا سارے خوارج پر ؟ انہوں نے کہا : نہیں ، سارے خوارج پر ۔ میں نے کہا : بادشاہ لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور ان کے ساتھ جو کرتا ہے سو کرتا ہے ۔ سعید بن جمہان کہتے ہیں تو انہوں نے میرا ہاتھ لیا اور اسے زور سے دبایا اور کہا : اے ابن جمہان ، تمہیں سواد اعظم کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ اگر بادشاہ تمہاری بات سنتا ہے تو اس کے گھر جاؤ اور جو کچھ تم جانتے ہو اسے بتاؤ، اگر وہ مان لیتا ہے تو ٹھیک اور نہیں مانتا تو اسے چھوڑ دو ۔ اس لیے کہ تم اس سے زیادہ نہيں جانتے ۔{ رواہ احمد (382/4) واللفظ لہ ، و ابن ماجہ (173 ) و حسنہ الالبانی ( السنۃ لابن ابی عاصم 905 ) }
      اسلام کی طویل تاریخ میں اس فکر نے بڑے پیمانے پر امت کو توڑنے ، پریشان کرنے اور اس کی شوکت کو نقصان پہنچانے کا کام کیا ہے ۔ فتنہ ہمیشہ حق کا لباس پہن کر آتا ہے ۔ بظاہر ظلم کے خلاف آتا ہے ۔ حق کو غالب کرنے کے لیے آتا ہے ۔ لیکن یہ حق وہ نہيں ہوتا جو از روئے شریعت مطہرہ ثابت ہوتا ہے بلکہ وہ ہوتا ہے جو اس کے مدعین اپنی طرف سے سمجھ لیتے ہیں ۔ اسی لیے احادیث کے اندر امیر کی اطاعت پر کافی زیادہ زور دیاگيا ہے اور فاسق و فاجر امیر کی فرمانبرداری کو بھی ضروری قرار دیاگیاہے کہ مبادا امن و امان کی صورت نہ بگڑجائے ۔ یہاں اس سلسلے کی چند احادیث پیش کی جاتی ہیں ۔
       حضرت عبداللہ بن عباس رضي عنہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی کو اپنے امیر کے اندر کچھ ناپسندیدہ چیزنظرآئے تو وہ اس پر صبر کرے ۔  اس لیے کہ جو سلطان سے بالشت بھر الگ نکلا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوئي ( البخاری :7053)
   حضرت زیدبن وہب عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے بعد مفاد پرستی اور ایسی چیزیں ہونگیں جنہیں تم غلط جانوگے ۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم ميں سے اگر کوئي اس وقت کوپالے تو آپ کیاحکم دیتے ہیں ؟  آپ نے فرمایا کہ تم اپنی ذمہ داری اداکرنااور اللہ سے اپنے حق کاسوال کرنا ۔ (  البخاری : 3603)
    حضرت نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے اس وقت کہ جب یزیدبن معاویہ کے وقت میں حرہ کا معاملہ چل رہا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ابوعبدالرحمن کے لیے تکیہ بچھاؤ۔ توانہوں نے کہا کہ میں آپ کے پاس بیٹھنے کے لیے نہیں آیا میں تو آپ کے پاس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث جو میں نے انہيں فرماتے سنا تھا سنانے آیا ہوں ۔ جس نے اطاعت سے ہاتھ اٹھایا اللہ سے قیامت کے دن اس حال میں ملے گا کہ اس کی پاس کوئي حجت نہیں ہوگی اور جو مرگیا اور اس کی گردن میں بیعت نہيں تو وہ جاہیلت کی موت مرا ۔ ( مسلم :1851 )
  یہ چند احادیث ہیں ورنہ اس معاملے میں انہیں مفاہیم کی بہت سی حدیثیں آئی ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ جب تک باضابطہ کفر کا صدور نہ ہو اور امراء نماز پڑھنا نہ ترک کردیں اور جب تک کہ وہ معصیت کا نہ حکم دینے لگیں ۔ اس وقت تک ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے ۔  کیوں؟ اس لیے کہ اس طرح کی بغاوت سے سوائے فتنہ اٹھنے ، خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہونے اور شوکت اسلام کے کمزور ہونے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اسلام کی نظر میں فتنہ کو روکنے کے لیے بعض مظالم اور کمیاں برداشت کرلی جائیں ، یہی حکمت اور دانائی کا راستہ ہے ۔
        تاریخ بتلاتی ہے کہ اس قسم کی ساری کوششیں مضرت رساں ہی رہی ہيں ۔ اب چاہے یہ کوششیں باغیانہ رہیں ہوں جن کا مقصد صرف حصول اقتدار رہا ہو یا پھر ایسی باغیانہ رہیں ہوں جن کا مقصد اصلاح احوال رہا ہو ۔ ہر دو صورت میں نتیجہ غلط ہی رہا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ان الحکم الا للہ کے ذریعہ استدلال کرکے فتنہ اٹھانے والوں کا گروہ رہا ہو یا حجاج بن یوسف کے خلاف اس کے مظالم کی داستان سنا کر اس کے خلاف بغاوت کرنے والے ابن الاشعث کا گروہ انجام کار صرف نقصان ہی ہواہے ۔ نقصان کی یہ داستان ہمیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والے بلوائیوں کی بدمعاشیوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے اور یہی داستان یزید بن معاویہ کے خلاف اٹھنے والے اہل مدینہ کی کوششوں سے بھی باہر آتی ہوئی نظر آتی  ہے ۔ اس سے آگے نکلیے تویزید بن مہلب کی باغیانہ کوشش ہو یزید بن عبدالملک کے خلاف یا پھر محمد بن عبداللہ بن الحسن کی کوششیں ابو جعفر منصور کے خلاف اس طرح کی ہر ایک کوشش سے امت کا شیرازہ منتشر ہوا ہے ۔ طاقت گھٹی ہے اور بے مطلب جانوں کا زیاں ہواہے ۔ تاریخ کے صفحات بتلاتے ہیں کہ ان مساعی نے حق و انصاف کے حصول اور دفع ظلم و ناانصافی کے نام پر کتنا زیادہ ظلم و ستم کو بڑھاوا دیا ہے ۔  خارجی فکرو عمل کی خمیر میں بغاوت کے ساتھ ہی تکفیر و تنفیر کے اجزاء شامل رہے ہيں ۔ اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تکفیر و تنفیر در اصل جہالت اور غرور کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ۔ اور اس باریکی کو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کےاس اسوہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے جو خوارج سے  ان کی گفتگو میں روشن ہو کر سامنے آتا ہے ۔ انہوں نے کہا تھا : میں تمہارے پاس مہاجر و انصار صحابہ کے پاس سے آیا ہوں ۔ اللہ کے رسول کے چچازادبھائی اور ان کے رشتہ داروں کے پاس سے آیا ہوں ۔ اور ان کے اوپر ہی قرآن نازل ہوا ہے تو وہ تم سے زیادہ بہتر اس کا مفہوم و مراد سمجھ سکتے ہیں ۔ اور ان میں سے کوئی بھی تم میں نہیں ہے ۔ {المستدرک للحاکم : (150/2) ، السسن الکبری للبیھقی : (309/9 )}
حق و انصاف کی خاطر راہ بغاوت پر نکلنے والے بھول جاتے ہیں کہ بغاوت و خروج تین شرطوں کے پائے جانے پر ہی ہے ورنہ نہیں ۔ اور تین شرطوں کا تعلق فعل ، اس کو انجام دینے والے فاعل اور اس  صورت حال سے ہے جس میں وہ انجام دیا گیا ۔ فعل میں شرط یہ ہے کہ اس فعل کا کفر واضح ہو اور اس میں تاویل کی کوئ گنجائش نہ ہو جیسے کوئي  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے ، اپنے آپ کو مسلمان نہ بول کر کسی اور دین کا ماننے والا بتلائے ، اسلام کو ظلم و تعدی کا مذہب بتلائے یا اس طرح کی بات کہے کہ اسلام آج کے زمانے کے لائق نہیں ہے ۔ اس طرح کی واضح صورتوں میں جہاں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ایسے افعال کفریہ ہیں اور ان میں تاویل کی کوئي گنجائش نہیں ۔ دوسری شرط کا تعلق فاعل سے ہے اور وہ یہ کہ حاکم جو کفریہ کام کررہا ہے اس کی کوئی تاویل ، کوئی زبردستی اور کوئي مجبوری کی کیفیت نہ بنتی ہو ۔ علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں " تکفیر کا تعلق وعید سے ہے ۔ کیوں کہ ہر چند کہ آدمی کی بات اللہ کے رسول کے کلام کی تکذيب ہو لیکن یہ ممکن ہے کہ آدمی کی شناسائی اسلام سے نئي نئی ہو ، اس کی نشوونما دیہاتوں میں ہوئی ہو ، اس لیے اس قسم کا آدمی صرف اپنے انکار کی وجہ سے کافر نہ گردانا جائيگا جب تک کہ اس کے اوپر حجت نہ ثابت ہو جائے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آدمی نے نصوص جانا ہی نہ ہو یا اگر اس نے سنا ہو تو اسے اس کی صحت کا یقین ہی نہ ہو ۔ یا پھر اس کے سامنے ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہو جس کی وجہ سے اس نے تاویل کی ہو اور تاویل غلط ہوگئي ہو ۔ میں ہمیشہ وہ حدیث یاد کرتا رہتا ہوں  جو صحیحین میں ہے اس آدمی کے بارے میں جس نے کہا تھا کہ اگر میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا پھر مجھے دور لے جانا اور سمندرمیں پھینک دینا ۔ اس لیے کہ قسم بخدا اگر اللہ میرے اوپر قادر ہو گیا تو مجھے ایسے عذاب سے دوچار کرے گا جو اس نے کسی کو نہ دیا ہو ۔ لوگوں نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا۔  اللہ نے اس سے کہا : تم نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے کہا : میں تجھ سے ڈر رہا تھا۔ اور اللہ نے اسے بخش دیا ۔ اس آدمی نے اللہ کی قدرت اور ہلاک کیے جانے کے بعد دوبارہ اٹھانے جانے میں شک کیا۔ بلکہ اس نے یہ اعتقاد کیا کہ وہ دوبارہ نہ اٹھایا جائیگا۔ اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ کفر ہے لیکن وہ جاہل تھا ، جانتا نہیں تھا ۔ وہ مومن تھا اللہ سے ڈرتا تھا کہ اللہ اسے سزا دے گا تو اللہ نے اسے بخش دیا۔ اور اہل اجتہاد میں سے تاویل کرنے والے اسوہ رسول کی پیروی کرنے والے تو اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ انہیں معاف کردیا جائے ۔  ( مجموع الفتاوی : 231/3 )
    جہاں تک صورت حال کا تعلق ہے تو یہ ضروری ہے کہ بری صورت حال کو بدلنے والا آدمی اس صورت حال کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہو ورنہ وہ اس کا مکلف ہی نہیں ہے ۔ اللہ فرماتا ہے ۔ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا ( البقرۃ: 286 )  اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" اگر میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو جہاں تک ہو سکے اس پر عمل کرو"  اور دوسری شرط یہ ہے کہ جو صورت حال ہو اس کے بعد اس سے بری صورت حال پیدا نہ ہو اور اس بات پر تمام اہل اسلام کا اجماع ہے ۔
          اسلام کے ان احکام ، تاریخ کے حقائق اور بغاوت کے ان شروط پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بغاوت و تکفیر کے یہ راستے نہ تو اسلامی رہے ہیں اور نہ کسی بھی شکل میں بہتر نتیجہ دینے والے ۔ لیکن کیا کیا جائے کہ تاریخ کے پیٹ میں موجود عبرت کی ہزاروں مثالیں پڑی ہوئی ہيں اور انسان انہیں غلطیوں کو دہرا رہا ہے ۔
        آج وہ مسلم دنیا جہاں مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہیں وہاں بغاوت و خروج کے فتنے سر اٹھا رہے ہیں اور سارا امن و امان غارت کرکے رکھا ہواہے تو وہيں وہ مسلم معاشرہ جہاں مسلمانوں کے ہاتھوں میں اقتدار نہیں وہاں تکفیر و تفریق کی  چھریاں گھمائی جارہی ہیں ۔ نام نہاد تعلیم یافتہ طبقہ اپنی شیخی بگھارنے میں لگا ہوا ہے اور ایسے ایسے فتوے صادر کیے جارہے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ علماء کی قدر گھٹائی جارہی ہے اور ایسے ایسے نام نہاد علماء منصب فتوی پر متمکن ہیں جنہيں فتوی نویسی کے اصولوں کی کوئی خبر نہیں ۔ دین کے وہ پہلو جن کا تعلق نرمی ، حکمت ، محبت ، انسان دوستی ، صبر ، تحمل اور عفو و درگذر ہے انہيں بالکلیہ فراموش کیا جارہا ہے اور جن کا تعلق وعیدوں سے ہے انہیں زبردستی سیاق و سباق سے کاٹ کر تکفیر و تفریق کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ امت راہ اعتدال کو ترس رہی ہے ۔ اس سلسلے میں اسلامی علوم کے بحر نا پیدا کنار میں شناوری سے محروم جہاں نام نہاد انگریزی تعلیم یافتہ طبقے کا رول ہے جو اپنے ذہن اور خیال کے مطابق دین کا قالب تیار کرتا ہے اور پھر پوری دنیا کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے لگتا ہے اور جو کوئي اس راہ میں آتا ہے اس پر تکفیر کے گولے داغ دیئے جاتے ہیں ۔ وہیں ان مسلک و گروہ پرست علماء کا بھی کم ہا تھ نہیں ہے جو دین کی بنیادوں سے تو اچھی واقفیت نہیں رکھتے البتہ احکام کے بعض مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے تفریق و تکفیر کی کھیتی کرتے   اور مزے سے اپنی دنیا بنا تے  ہیں ۔ مسلم ملکوں میں ایسا کرنے والے اپنی عزیمت سمجھ کررہے ہيں تو غیر مسلم ملکوں میں ایسا کرنے والے اپنی مظلومیت کا رونا روکر کررہے ہیں جبکہ ہر دو جگہ حمکت ، محبت ، نصیحت ، بہتر لائحہ عمل اور کارگر طریقوں سے ان سے زیادہ بہتر نتائج کا حصول ممکن ہے ۔ خارجی فکر کی بنیاد جہالت ، احساس تقوی و پرہیزگاری ، غرور اور تشدد ہے اور بد قسمتی سے آج کی مسلم دنیا اور مسلمانوں کے پاس ہلاک کرنے والے یہ اوزار فراوانی کے ساتھ دستیاب ہیں ۔ اسلام کی سربلندی اور کفر و لادینیت کی بیخ کنی  کے نام پر چلائے جانے والی تحریکوں کے فدائی اے کاش اس اسلام کو جانتے جس کی بنیاد قرآن و سنت ہے اور جو نفرت کے بجائے محبت اور تششد کے بجائے حکمت کا علمبردار ہے ۔


ليست هناك تعليقات: