الثلاثاء، أبريل 15، 2014

غیر علماء دعاۃ


ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی  110067

        تاریخ کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ علماء اسلام کے شانہ بشانہ اور دوسرے مسلمانوں نے بھی انجام  د یا ہے ۔ اسلام کے شروعاتی دور کو نگاہوں میں رکھا جائے تو اس میں تاجر حضرات کا زیادہ ہی کردار نظر آئیگا ۔ یوں بھی اسلام ان معنوں ميں کوئی فلسفہ یا تھیوری نہیں جن معنوں میں فلسفہ اور منطق کو سمجھا جاتا ہے ۔ اسلام توکارآمد زندگی  جینے ، آخرت سنوارنے اور بہتر اخلاق و کردار کے ساتھ امن و عافیت کی راہ پر چلتے ہوئے اللہ رب العزت کے مطابق اس ادھار  کی زندگی کو بتانے سے عبارت ہے ۔ یہ زندگی کا وہ دستور ہے جو انسان کو اندر سے مخلص اور باہر سے باعمل بناتا ہے ۔ جو انسان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرتا ہے ۔ خدمت خلق پر ابھارتا ہے ۔ صرف ایک اللہ کی پرستش کی دعوت دیتا ہے ۔ ظلم کو ملیامیٹ کرنے اور انصاف کو قائم کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔ زندگی کے ہر معاملے میں خوف خدا سے دامن بھرے رکھنے اور مفاد پرستی سے روکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ماننے والے تجارت پیشہ افراد جہاں جہاں گئے لوگوں نے ان کو دیکھ کر اسلام قبول کر لیا ۔ باعمل مسلمانوں کو دیکھ جن میں علماء اور غیرعلماء سب شامل تھے ، لوگوں نے اللہ کے اس پیغام کو قبول کیا اور دنیا و آخرت کی سعادت سے ہمکنار ہو ئے ۔
        غیر عملماء دعاۃ کی تاریخ بہت بھرپور اور زبردست ہے ۔ اس میں در اصل اس اسلامی تربیت کا اچھا خاصا حصہ رہا ہے جو عام طور پر مسلمان بچوں  کو ان کے گھروں میں ملتی  رہی ہے ۔ دعوت کے علاوہ بھی اسلامی علوم کی ترویج واشاعت میں غیر علماء افراد کا کردار روشن رہا ہے ۔ آج کی اس سائنٹفک دنیا میں جسے بجاطور پر نالج اکسپلوزن کا دور بھی کہا جاتا ہے ، اس طرف آکر غیر علماء افراد کی دلچسپی نہ صرف یہ کہ اسلامی علوم اور اسلامی تعلیمات کی طرف بڑھی ہے بلکہ ان کے اندر دعوت اسلامی کا جذبہ بھی پروان چڑھا ہے ۔ مختلف ملکوں میں ایسے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے جو باضابطہ علماء نہیں ہيں لیکن جن کے اندر اسلامی علوم اوردعوت کا رجحان تیزی سے پنپ رہا ہے ۔ انتہا پسند ، کم فہم اور کم ظرف قسم کے بعض علماء کی جانب سے ان کی  مخالفت بھی ہورہی ہے جو ظا ہر ہے کہ اپنی ناجائز چودھراہٹ کے ختم ہو جانے کے اندیشے سے پریشان ہيں ۔ اس سلسلے میں بعض باشعور علماء کا کردار بلاشبہ قابل صد ستائش ہے کہ انہوں نے ان کا خیر مقدم بھی کیا ہے اور انہیں کام کی سنگینی سے بھی باخبر کیا ہے اور ساتھ ہی  سنجیدگی اور متانت اپنانے کی تلقین کی بھی  ہے ۔
            ذاتی طور پر مجھے دہلی میں اس دعوت سے جڑے بہت سے نوجوان مسلمانوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملا ہے ۔ ان کے اندر شدید تڑپ ، گہرا احساس ، بھرپور اخلاص اور کام کرنے کا انتھک رویہ دیکھنے کو ملا ہے ۔ اللہ کے یہ بندے ہر اتوار کو مختلف پارکوں ، بازاروں اور دوسرے عوامی جگہوں کا دورہ کرکے قرآن حکیم اور احادیث کی کتابوں کی تقسیم کے ذریعے مسلم اور غیر مسلم حضرات تک صحیح اسلام پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اسٹریٹ دعوت کا یہ نظریہ انتہائي درجے میں کارگر اور مفید ہے ۔ انفرادی ملاقاتوں ، بات چيت اور گفتگو سے وہ مدعو کے مسئلہ کو بھی سمجھتے ہیں اور انہيں سمجھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور ماشاءاللہ کامیابی بھی پاتے ہیں ۔ ان کا نیٹ ورک آہستہ آہستہ پھیل رہا ہے ۔ اللہ کا دین لوگوں تک پہنچ رہا ہے اور ماشاءاللہ توحید کی دعوت عام ہورہی ہے ۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ جیسے ذرائع کا استعمال کرکے یہ فریضہ بحسن و خوبی انجام دے رہے ہيں ۔ ان کی باتیں ایک ایک گھرمیں پہنچ رہی ہیں اور خوب اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ بعض علماء ان کی بعض نادانیوں اور فروگذاشتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور ان کے خلاف محاذ کھولنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔ ایسےلوگوں کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ اپنا کام لینے والا ہے لےہی لے گا ۔ آپ جب اس کام کے لیے اخلاص کے ساتھ میدان میں نہیں آئينگے تو اللہ کسی  نہ کسی سے تو یہ کام لے گا ہی اور وہ لے رہا ہے ۔ بلاوجہ کی مخالفت کرکے اپنی عاقبت بگاڑنے کا کام نہ کریں ۔ جہاں جہاں غلطی نظر آئے وہاں ناصحانہ تنبیہ کی  ضرورت بھی ہے اور یہ آپ کا فریضہ بھی  ہے ۔
       دعوت سے جڑے ہمارے ان بھائیوں کو بھی یاد رکھنا ہوگا کہ وہ بھی بہر حال علماء نہیں ہیں اس لیے خا ص طور سے فتوی وغیرہ کا بوجھ اپنے کاندھوں پر نہ لیں اور صالح اور صاحب علم علماء کی نگرانی ہی میں دعوت کی یہ ذمہ داری ادا کریں ۔ یہ نوجوان بڑا اثاثہ ہيں ۔ اگر ان کی صحیح تربیت ہو جائے تو یہ روایتی علماء سے زیادہ دعوت کا کام کرسکتےہیں ۔ اس لیے کہ ان کی رسائی بھی روایتی علماء سے کہيں زیادہ ہے ۔ اللہ ہمیں بہتر توفیق دے  ۔ آمین

ليست هناك تعليقات: