الأربعاء، أبريل 03، 2013

دین کی تفہیم ، علماء اور دانشوران

ثناءاللہ  صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی

           کچھ اقدامات ، ترقیاں اور پیش رفت بظاہر بہت اچھی ہوتی ہیں اور عام حالات میں ان سے ہم خوش ہی ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار یہ بظاہر خوش کن اقدامات بڑے مسایل پیدا کر دیتے ہیں اور تب ہماری خوشیاں نہ صرف یہ کہ کافور ہو جاتی ہیں بلکہ ہم کف افسوس بھی ملنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ یہ صورت حال بالعموم اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ ترقیاں اور اقدامات اپنی حدوں سے باہر جھانکنے لگتے ہیں اور وہاں تک اپنا دائرہ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں تک ان کی رسائی نہیں ۔ اقبال نے شاید نئی تعلیم اور اس کے اثرات و نتائج کو اسی تناظر میں دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔
ہم نے سمجھا تھا کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئیگا الحاد بھی ساتھ
          امت مسلمہ کا وہ طبقہ جس نے با ضابطہ علماء کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا ہے ۔ عصری علوم سے واقف ہے ۔ دنیاوی طور پر مضبوط م ہے۔ بہت سے معاملات میں روایتی علماء سے آگے ہے ۔ سائنس و ٹکنالوجی کی اچھی معرفت سے بہرہ ور ہے ۔ سیاسی اور سماجی امور میں اپنا اثرو رسوخ رکھتا ہے جب یہ طبقہ دین کی طرف مائل ہوتا ہے ۔ قرآن وحدیث کے مطالعے کی طرف توجہ مبذول کرتا ہے ۔ صوم وصلوۃ کی پابندی کرتا ہے ۔ زندگی کے معاملات میں دینی ہدایات کو برتنے کی کوشش کرتا ہے تو  بلا شبہ خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے ۔ ذہن و دماغ کے بہت سارے زاویے روشن ہونے لگتے ہیں ۔ طبیعت پر انبساط کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور معاشرہ (مسلم معاشرہ) ایسے طبقے کو سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے ۔ اس کا ذکر خیر چلتا ہے ۔ علماء کے مابین قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ عوام میں اہمیت بڑھ جاتی ہے  اور سچ یہ ہے کہ یہ معاملہ ہے ہی ایسا کہ یہ ساری کیفیات پائی جائیں ۔ الحاد و دہریت کے اس دور میں مادیت کے  سیلاب کے بیچ ایسے بلند نظر اورعالی  حوصلہ افراد کا پایا جانا معاشرے کے شاندار ہونے کی دلیل ہے ۔
       لیکن معاملہ بگڑتا تب ہے جب یہ طبقہ LIMITATION)) یعنی اپنی حد تجاوز کرنے لگتا ہے ۔ جب وہ یہ سمجھنے لگتا ہے  کہ دینی معاملات میں بھی وہ صاحب رای ہو سکتا ہے ۔ جب وہ بھی اس جراءت کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے کہ قرآن وحدیث کی تفسیر و توضیح اور دین کی تفہیم و تعبیر وہ بھی کر سکتا ہے ۔ اور جگہوں کے بارے میں تو خیرر ہنے دیجیے لیکن افسوسناک حد تک بر صغیر ہندو پاک کے اندر اس طبقے کی فراوانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں فکری مغالطے ، تعبیری انحرافات اور 'دانشورانہ پاگلپن ' کی بہتات بھی ہے ۔ کبھی کبھی اس طبقے کی صورت حال کو دیکھ کر معین احسن جذبی کا وہ شعر یاد آتا ہے کہ ۔
دھوکہ نہ تھا نظر کا تو پھر اے شب دراز
وہ ہلکے ہلکے صبح کے آثار کیا ہوئے
               اس پوری صورت حال پر کئی ایک پہلؤوں سے نظر ڈالنے کی ضرورت ہے  ، یہ ایک  خطرناک صورت حال ضرور ہے  لیکن اس کے اسباب بھی ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔
علماء اور تفہیم دین : علماء انبیاء کے وارث ہیں ۔ قرآن و حدیث کا علم رکھتے ہیں ۔ محدثین اور فقہاے امت کی کوششوں سے واقف ہیں ۔ دین کے مبادیات اور ان کے اسرار و رموز سے آگاہ ہیں ۔ اس لیے حق تو یہی بنتا ہے کہ تفہیم و تشریح دین کا منصب ان کے ہی پاس رہے اور ہے   بھی ایسا ہی ۔ لیکن مسئلہ تب کھڑا ہو تا ہے  جب بہت سارے مسایل میں علماء قرآن و حدیث کے صریح احکام کے خلاف فقہی گروہ بندیوں کی خاطر غیر عقلی رویہ اپناتے ہیں ۔ اس سے عصری علوم سے بہرہ ور افراد کے ذہن میں علماء کی شبیہ خراب ہوتی ہے اور  پھر وہ علماء سے حق تفہیم و تشریح کو سلب کرلیے جانے کو روا سمجھنے لگتے ہیں ۔
        کبھی کبھار یہ بھی ہوتا ہے کہ علماء دوسرے دانشوران کے اچھے ، صائب اور صحیح آراء کو بھی در خور اعتناء نہیں سمجھتے اور ایسی صورت میں چوںکہ ان دانشوران کے اعتماد کو ٹھیس بھی پہنچتی ہے اور علماء کے تئيں  ان کے تقدس آمیز رویہ کو دھکا بھی لگتا ہے اس لیے وہ خود کو علماء سے الگ اتھاریٹی کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں ۔ اور پھر بڑے بڑے مسایل جنم لیتے ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ کبھی کبھی ہر وہ شخص جس نے مدرسہ کی ڈگری لی ہوتی ہے خود کو  صاحب فتوی عالم کے منصب پر فائز سمجھنے لگتا ہے ۔
                ظا ہر ہیکہ جہاں اس پورے معاملے میں  علماء طبقہ کو احتساب کی دعوت دی جائیگی اور ان سے یہ گذارش کی جائیگي کہ وہ اپنا رویہ بہتر کریں ، ذہن کھلا رکھیں اور سچ کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کریں وہیں دانشور طبقہ کو یہ بتلانا ہی ہوگا کہ اگر علماء کے یہاں کچھ خامی ہے تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ آپ علماء کا  منصب خود کو دے ڈالیں ۔ ایک انجینئر کی تعمیر یا پلان میں کوئی کمی نظرآئے تو ایک غیر انجینئر شخص اس غلطی کی طرف اشارہ کرسکتا ہے نہ یہ کہ وہ انجینئرنگ کا منصب لے لے اور انجینئر کو چلتا کر دے ۔
دانشوران اور تفہیم دین:  دانشور طبقے میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہیں جنہیں دین کے مبادیات ، اصول ، اور اس کی روح سے آگاہی حاصل ہے اوریہ وہ لوگ ہیں جو بلا شبہ قوم کے سرمایہ ہیں اور امت کے لیے عظیم رحمت ۔ لیکن زیادہ تر لوگ وہ ہیں  جو اپنے فیلڈ میں اچھے ہیں لیکن دین کی اساس اور استنباط احکام کے اصول سے پورے طور پر واقف نہیں ہیں ۔ ایک سچ یہ بھی ہے کہ ان کی اکثریت نے دین کو اس کے اصل ماخذ سے نہیں پڑھا ہے بلکہ اس کے  ترجمہ سے ہی استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ان میں بھی د و طرح کے افراد پائے جاتے ہیں ۔ ایک تو وہ ہیں جن کی نیت اچھی ہے اور وہ واقعۃ دین کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں  ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ دین کی خدمت صحیح طریقے اور بہتر زاویے سے کرسکیں ۔ اس کے لیے نہایت ضروری ہے کہ انہیں اصل دین سے متعارف کرایا جائے اوردین کے جو اصل سورس ہیں ان سے نہ صرف یہ کو ان کو آگاہ کیا جائے بلکہ انہیں اس طرح سنوارا جائے کہ پوری امت ان سے استفادہ کر سکے ۔ دانشور طبقے کے اس گروپ کو اس بات کا بھی لحاظ کرنا ہوگا کہ اگر ان کی نیت واقعۃ  اچھی ہے تو پھر نہیں اس بات  کی زبردست کوشش کرنی ہوگی کہ وہ اصل حق سے متعارف بھی ہوں اور اس کو پھیلا بھی سکیں ۔ ان کو اللہ سے دعا کرنا چاہیے کہ وہ غلط فہمیوں کے شکار نہ ہوجائیں اور جوش میں آکر کچھ ایسا نہ کرگزریں جو اصل دین ہو ہی نہیں ۔ اس کے لیے انہیں بہر حال یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ علماء حق سے اپنا رابطہ استوار رکھیں  بصورت دگر راہ حق سے انحراف کے امکانات بڑھ جائین گے ۔
            دانشور طبقہ کا دوسرا گروہ وہ ہے جو بکا ہوا ہے ۔ کرایے کی عقل اور مانگی ہوئی روشنی سے اجالا پھیلانا چاہتا ہے ۔ ہر دینی حکم کو غیر معیاری عقل کی کسوٹی پر تولتا ہے اور دین کی عجیب و غریب تعبیر و تشریح کرکے دین کو اپنے موقف کے مطابق بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔  یہ طبقہ عیار بھی ہے اور ہوشیار بھی ۔ بالعموم دنیاوی ترقیوں اور خوشحالیوں کا سہارا لے کر وہ نقب زنی کی کوشش کرتا ہے لیکن ایسے بد خواہوں کا جواب بھی جوش یا تشدد نہیں ہے ۔ اس کے لیے سب سے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی دینی تربیت اتنی مضبوط رکھیں کہ ان کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہو ۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ وہ دانشور طبقہ جو اچھی نیت کے ساتھ دین کی خدمت کرنا چاہتا ہے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے ذریعے بد خواہوں کا توڑ کیا جائے ۔ ساتھ ہی علماء طبقہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آج کے حالات کو سمجھنے کی ہر ممکن کوشش کریں ۔ وہ تمام وسایل اختیار کیے جائیں جن سے آج کے چیلینجیز کا جواب دیا جاسکے ۔ یاد رہے کہ ہمارا کام سچ واضح کرنا ہے ، سچ قبول کروانا نہیں ۔ بقیہ اللہ تعالی اپنی ذمہ داری ادا کرے گا ۔

ليست هناك تعليقات: