رحمت کلیم امواوی
منشیات کے استعمال کا
مسئلہ روزافزوں تشویش کا باعث بنتا جارہا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ہی انسانیت اور انسانی
قدروں کے زوال و فقدان کا سوال بھی منسلک ہے جو ظاہر ہے ہر باشعور فرد اور حساس جماعت
کیلے باعث اضطرار واضطراب ہے بظاہر یہ مسئلہ اتنا مہیب ومہلک نظر نہی آتا کیونکہ اسے
اب تک کے صرف ذاتی نوعیت کا ہی سمجھا گیا ہے اور صرف عادی حضرات کیلے باعث ہلاکت تسلیم
کیا گیا ہے ۔لیکن اب یہ مسئلہ ذات و فرد سے نکل کر افراد و جماعت کا مسئلہ بن چکا ہے
اور اسکے سنگینی و ہلاکت خیزی کا اعتراف دنیا کے ہر گوشے سے کیا جانے لگا ہے اور ہر
طرف سے ببانگ دہل یہ آواز لگائی جا رہی ہے کہ اسے فورا قابو میں کیا جاے اور اس وبا
کو ختم کیا جاے۔
قارئین کرام:منشیات
جو در اصل نشی سے ماخوذ ہے اس کے اندر ہر وہ تمام چیزیں شامل ہیں جس کے استعمال سے
ایک عام آدمی کو نشہ آجائے،جب ہم اسکے ابتدا ئی صورت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو
ہمیں صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ نشہ کی دنیا میں سب سے پہلے حسیس نامی نشو آور شئے
کا انکشاف حسن بن صباح کے ذریعے کیا گیا اسکے بعد زمانے کے ترقی کے ساتھ ساتھ ان اشیا
ءمیں بھی ترقی ہوتی گئی جس کی وجہ کر سگریٹ ،بیڑی، چرس ، گانجہ،بھانگ وغیرہ کا وجود
ہوا اور آج کی اسadvanceترقی یافتہ دور میں ان چیزوں میں بھی کچھ زیادہ
ہی ترقی ہوئی ہے جس کے مثال کے طور ہر آپ آج اعلی سے اعلی قسم کے شراب اور درگس کو
دنیا کے اکثر خطے میںدیکھ سکتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ہلاکت خیز اشیا
کے پھیلاﺅ کا
ذمہ دار کون ہے ؟ جب ہم اس سوال کے تئیں اپنے ذہن پر زور ڈالتے ہیں تو فورا ہما ری
نگاہ حکومت کی طرف اٹھتی ہے اور ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اسکے پھیلاﺅ کا ذمہ دار حکومت ہے خواہ کوئی بھی ہو۔جبکہ ایساکچھ
نہی ہے اور دنیا کی کوئی بھی حکومت اسکے ذمہ دار نہی ہے اور ہو بھی کیسے سکتی ہے ۔
آپ عالمی منظرنامے کا مطالعہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آج دنیا کی عظیم ترین طاقتیں
اس مسئلے کے تئین کتنا محتاط ہیں اور کس قدر بیدار مغزی کے عالم میں اس وبا کے روک
تھام کیلے سعی پیہم کر رہی ہیں ۔چند مثال سے آپ اس بات کو سمجھیں تاکہ حقیقت سامنے
آجائے۔ابھی کچھ دنوں پہلے افغانستان ،ایران ،پاکستان ان تینوں ممالک نے ا سمگلنگ کے
روک تھام کیلئے سہ فریقی تعاون کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان تینون
ممالک کو اس تعاون مین اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات(UNODC) کی معاونت بھی حاصل ہے
،علاوہ ازیں روس اور پاکستان ان دونوں ملکوں نے مل کر سمگلنگ کے روک تھام کیلے ایک
گروپ تشکیل دی ہے اور ساتھ ہی ابھی کچھ دنوں قبل قزاکستان میں ۶ کڑور کے صرفے سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے جسکا مقصد صر ف اور صرف منشیات
کے روک تھام کیلے کام کرنا تھا ،اور ابھی ایک ہفتہ قبل پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف
رضا گیلانی کے بیٹے کو منشیات کے الزام میںگرفتار کر لیا گیا ہے اور پھر ہمارے ہندوستان
میں ۷ لاکھ روپئے کے جرمانے کے ساتھ دس سال کی سزا صرف
اور صرف منشیات کے روک تھام کیلے ہی رکھا گیا ہے ۔اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ جب دنیا
کی بڑی بڑی طاقتیں اس مسئلے کے تئیں اس قد رفکر مند ہوں اور اس طرح اسکے سنگینی کے
خاطر محتاط ہوں پھر اسکے روک تھام کیلے شبانہ روز سعی پیہم بھی کر رہی ہوں تو پھر آپ
کا حکومت کو ذمہ دار ٹھرانا کیا انصاف کی بات ہے ؟ میں سمجھتاہوں آپ یقینا اسکے قائل
نہی ہونگے ۔تو پھر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ آخر اسکے پھیلاو کا ذمہ دار ہے کون ؟جب
ہم شعور و آگہی کے دریچے کھول کر اس کے حقیقی ذمہ دار کو تلاش کرتے ہیں تو ہمیں پس پردہ
ایک ایسے لوگوں کا جتھا اور ٹولی دکھائی دیتی ہے جو مادہ پرستی کا خوگر ہے اور انسانیت
سے ذرہ برابر بھی لگاو نہی ہے اور صر ف مال و دولت کی خاطر انسانیت کو شرمشار کرنا
اور انسانیت سوز حرکت کرنا انکے نزدیک ایک عام بات ہے اور ان لوگوں نے مال و دولت کی
حصولیابی کیلے منشیات کے پھیلاﺅ کو اپنا ہتھیار بنا رکھا ہے ۔اور یہی حقیقت ہے
کہ منشیات کے پھیلاﺅ کا
ذمہ دار نہی کوئی حکومت ہے نہ ہی کوئی مذہب ۔بلکہ مافیاﺅں اور چند لوگوں کی ایسی جماعت جنہیں انسانیت
سے کوئی سروکار نہی ہے اسکے اصل ذمہ دار ہیں اور یہ لوگ انسانی زندگی کا زرہ برابر
بھی خیال نہی رکھتے اور مال و دولت کی خاطر باپ ماں بھائی بہن اپنے پرائے سب کو بھول
جاتے ہیں اور انہیں کچھ نظر آتا ہے تو صرف اورصرف پیسہ۔اور اسکے لیے اپنے خاندان کا
جنازہ نکال دینا کوئی مشکل نہی ہوتا ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اشیاءمنشیات
کو متنوع شکل میں پیش کرنے میں مغرب نے اہم رول نبھایا ہے اور بڑی بڑی کمپنیاں کھول
کر اس کے فروغ میں اہم کردار نبھایا ہے ۔لیکن سچائی یہی ہے کہ اسکا اصل ذمہ دار چند
مافیاﺅں کے گروپ اور انسانیت سوز حرکات کرنے والے لوگوں
کی کچھ تنظیمیں اور انسانوں کے بھیس میں شیطانوں کا جتھا ہے جنہیں انسانی جان کی قدر
و قیمت کا ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں ہے ۔ضرورت ہے کہ ہم خود سے خود کی حفاظت کریں
اور ان حرام و جان لیوا اشیا کے استعمال سے اجتناب کریں ۔اللہ ہمیں توفیق بخشے۔آمین
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق