ساگر تیمی
sagartaimi@gmail.com
غزل
تجھکو بھلا دینے میں مشقت بھی نہیں تھی
یوں بھی تمہاری یاد کچھ رحمت بھی نہیں تھی
بے فکرے ہوکر کھیل وہ سکتے جہاں تہاں
ایسی امیر زادوں کی قسمت بھی نہیں تھی
سچ مان کر اس کو سبھی سر نوچ رہے ہیں
حالاںکہ وہ افواہ حقیقت بھی نہیں تھی
آنکھوں میں خوف شرم سے چہرہ جھکا ہوا
بیٹی ہوئی تھی اور وہ رحمت بھی نہیں تھی
قصہ،کہانی ،گاؤں ،شرارت، بزرگ،جھیل
شہروں کے بچپنوں میں محبت بھی نہیں تھی
پھر کیسے کیسے لوگ عذابوں میں گھرے تھے
پیسے بھی تھے اور نیند کی لذت بھی نہیں تھی
وہ بھی میری طرح سے ہی ساگر کا دوست تھا
دعوی تھا بے پناہ ،محبت بھی نہیں تھی
غزل
لفظوں کی تنویر بھلا کس کام کی
بے معنی تصویر بھلا کس کام کی
دنیا مٹھی میں آے تو بات بنے
ورنہ یہ تقدیر بھلا کس کام کی
ہم بھی ہیں ایمان فروشوں کی زد میں
تقوے کی تشہیر بھلا کس کام کی
آگے بھی ہیں توڑ پھوڑ کے بازیگر
لمحاتی تعمیر بھلا کس کام کی
اس کے بعد بھی سچ ہی آخرجیتیگا
جھوٹ کی یہ تبریر بھلا کس کام کی
خواب ہی جب آنکھوں کو راس نہیں آئے
پھر اچھی تعبیر بھلا کس کام کی
بزدل ہی بن کر جینا ہے جب تم کو
ہاتھ میں یہ شمشیر بھلا کس کام کی
مودی جی گجرات سنبھالے بیٹھے ہیں
فریادی تحریر بھلا کس کام کی
ساگر شعر اگر اچھا ہو،چلتا ہے
یہ تیری تفسیر بھلا کس کام کی
غزل
تیری بستی میں جانے کیا کیا ہے
شہر میں دھوپ ہے،سناٹا ہے
اتنے احباب میں تھا اک دشمن
اور اک یاد وہی آتا ہے
اس کے اوپر یہ اعتبار توہے
وقت پڑنے پر بھاگ جاتا ہے
اس کی نفرت نہ ختم ہو جائے
وہ محبت کہاں نبھاتا ہے
اس سے جڑنے کے بعد سارا کچھ
خود بخود قیمتی ہوجاتا ہے
رات کی زد میں آنے سے پہلے
کون ہے جو دیا جلاتا ہے
تیرا لہجہ حکیموں جیسا ہے
پھر یہ باتوں میں کیا زہر سا ہے
اس کے پیچھے عوام اک بھی نہیں
پھر بھی ساگر تو قائدوں سا ہے
غزل
عزت کی کمی شہر میں بستی میں نہیں ہے
پھر بھی نہ جانے کیوں کوئی مستی میں نہیں ہے
یہ نفرت ودہشت کی چنگاری یہ فسادات
یہ بات تو اس دیش کی دھرتی میں نہیں ہے
سب جھوٹ پہ قائم ہے تیری شہرت وعزت
ورنہ سوائے ننگ کچھ ہستی میں نہیں ہے
اک دور تک میں بھی تو یہی کہتا رہا ہوں
جو بات ہے مہنگی میں وہ سستی میں نہیں ہے
سر نیچا کئے بیٹھے ہیں وہ سارے مفکر
جو کہتے تھے عزت فقط شکتی میں نہیں ہے
اس شخص کو منصب نے کہیں کا نہیں چھوڑا
ہم نے تو یہ سمجھا تھا کہ پستی میں نہیں ہے
یہ چیخ ، یہ الجھن ،یہ تاسف ،یہ خودکشی
کس شہر میں، کس گاؤں میں، بستی میں نہیں ہے
ساگر کو دیکھ کر یہ حقیقت کھلی آخر
جو بات ہے موجوں میں وہ کشتی میں نہیں ہے
غزل
اس کو پانے کو پارہا ہی تھا
دل کی دنیا میں پھر خلا ہی تھا
اس کی ظاہر فریبیوں پہ نہ جا
ہنسنے والا بھی رورہا ہی تھا
میرا نقصان کرنے والا خود
اپنا نقصان کررہا ہی تھا
جھوٹ سے دور ہے،یہی بس ہے
کیا ہوا گر وہ کھردرا ہی تھا
یہ نماز و زکوۃ وروزہ و حج
تیری عزت کا راستہ ہی تھا
ہر طرف شور تھا کہ جیتا سچ
جھوٹ کا مان بڑھ رہا ہی تھا
زندگی مجھ سے بھی تھی شرمندہ
میں بھی دنیا سے کچھ خفا ہی تھا
میرے اس کے تعلقات کے بیچ
جو خلا تھا وہ بے وجہ ہی تھا
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق