الخميس، نوفمبر 15، 2012

غزلیں

ثناء الله صادق ساگر تیمی

غزل
میری پیاس تھوڑی بہت ہی بڑھی تو ہے
ساقی شراب خانے میں مے کی کمی تو ہے
چادر نے ڈھانپ لی تو ہے اس سر کو بہت خوب 
لیکن ہماری پنڈلی اب بھی کھلی تو ہے
تم کو امیر وقت کی دعوت ہو مبارک
روٹی غریب خانے میں سوکھی ہوئی تو ہے
موسی کو مارنے کا پھر حربہ نہ چل سکا
فرعون کی تقدیر بھی پھوٹی ہوئی تو ہے
شب پھر کسی کی موت کا پیغامبر ہوئی
اور صبح کی کرن بھی دھندلی ہوئی تو ہے
ظالم بھی خوش ہے اور ہمیں بھی ہے یہ سکوں
گردن وفا کی راہ میں اپنی کٹی تو ہے
ساگر غریب لوگوں کا رہبر ہوں اس لیے
اپنی امیر لوگوں سے اب بھی ٹھنی تو ہے


غزل

میری چاہت میرے الفاظ کی قیمت دے دے
مجھ سے نفرت ہے تو واپس وہ محبت دے دے
یہ بلندی ، میرے قد کو گھٹاتی ہے بہت
میں نے کب تم سے کہا تھا مجھے عزت دےدے
اب کہ مانگوں تو یہ مانگوں کہ مجھے دے پستی
تیرے اوپر ہے خدایا کہ تو شوکت دے دے
ہر سطح پرہے یہاں بغض ،حسد، نفرت کا چلن
کیا یہ ممکن نہیں اللہ ، تو الفت دے دے
مجھ کو معلوم ہے صورت ہے بنائی تیری
رب کعبہ مجھے اک اچھی سی سیرت دے دے
جھوٹ کہتا ہوں تو کرتا ہے ملامت یہ ضمیر
سچ کے کہنے کی خدایا مجھے ہمت دے دے
یہ غریبی بھی تو ایمان کی سوداگر ہے
تو کیا اب بھی کہوں تجھ سے کہ دولت دے دے
تیرا ساگر کہ رہ حق کا ہے جویا ، اللہ
تو اسے راہ وفا ، ذوق عبادت دے دے


غزل
کوئی جو آکے نگاہوں کے در میں رہتا ہے
نہ جانے کیسا نشہ اپنے سر میں رہتا ہے
جو ہونے والا ہے ہوگا بدل نہیں سکتا
تو کیا وجہ ہے تو خوف وڈر میں رہتا ہے
تمہیں بھی عشق میں دیکھونگا تو بھی میرے بعد
کدھر کوجاتا ہے اور کس کےگھر میں رہتا ہے
اسے بھی میری طرح ساتھ کی ضرورت ہے
ادھورا آدمی تنہا سفر میں رہتا ہے
کٹھن حالات میں دنیا سمجھ میں اور آئی
مزہ سفینے کا اصلا بھنور میں رہتا ہے
پجاری رات کے جانیں تو کس طرح جانیں
وہ نور جو کہ طلوع سحر میں رہتا ہے
خیال چھوڑ دو ساگر کی ہمسری کا کہ وہ
کھڑا کنارے پہ موج دگر میں رہتا ہے

ليست هناك تعليقات: