السبت، نوفمبر 03، 2012

قرآن؛ معجزاتی پہلو اور اس کا حق

سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی
جامعہ ملیہ اسلامیہ اوکھلا نئی دلہی


قابل صد افتخار میرے محترم بھائیو اور لائق صد اکرام دینی بہنوں!
اللہ آپ کی عمریں دراز کرے، آپ کو شاد اور آباد رکھے، آپ کی زندگی کو خوشی ومسرت، رعنائی اور شادمانی سے ہمکنار کرے، اور آخرت میں جنت الفردوس سے سرفراز کرے، اللہ جل جلالہ سے اس کے اسماءحسنی اور صفات علیا کے واسطے سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تو نے ہمیں اس دنیا میں ہمیشہ طاعت وعبادت پر جمع رکھا تو آخرت میں بھی ہمیں سید المرسلین، امام الاولین والآخرین، شفیع المذنبین رحمة للعالمین کے ساتھ جنت میں جمع فرما! اور یہ اللہ پر ذرا بھی گراں نہیں! وما ذالک علی اللہ بعزیز
میرے اسلامی بھائیو!
اسلام نے صالح معاشرہ کے قیام اور انسانوں کی صلاح وفلاح کے انتظام کے لئے الگ الگ افراد کے تئیں الگ الگ حقوق مشروع کیا ہے، جن کا اہتمام والتزام متعلقہ افراد کے لئے ضروری ہے، ان حقوق کی معرفت آج کے دور میں مزید شدید ہوگئی ، کیوں کہ نیر وتاباں اسلامی نہج زندگی اور ہماری موجودہ کربناک والمناک صورت حال کے درمیان اختلافات کی جو کشمکش امت کے اندر تباہ کن بیماری کی صورت در آئی ہے، اس سے نجات کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ تمام افراد ایک درسرے کے باہمی حقوق سے واقف ہوں، ان میں باہمی احترام کا جذبہ پروان چڑھے، اور ظلم وتعدی، جور وستم، حق تلفی اور ناشکری سے بچتے ہوئے ہر فرد احساس ذمہ داری کے ساتھ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کے لئے آمادہ وکوشاں ہو، تب ہی امت قرآن وسنت کی حقیقی شفا ودوا سے بہرہ مند ہو سکتی ہے، میرے علم کے مطابق تاریخ کے کسی بھی دور میں امت مسلمہ راہ حق سے اس قدر منحرف نہیں ہوئی جتنا کہ آج وہ صراط مستقیم سے دور ہو چکی ہے، اس وجہ کر میں نے یہ ضروری سمجھا کہ پہلے خود کو پھر اپنی محبوب ترین امت کو بطور یادہانی۔ ان حقوق سے آگاہ کروں جو آج ہماری نگاہ بے اعتناءسے پامال ہو رہے ہیں، ممکن ہے میری اس حقیر کوشش کے ذریعہ امت کے سوتے دل میں عمل کی امنگ پیدا ہو اور ان کے غافل وذاہل دل ودماغ میں اللہ حق شناسی کی روح پھونک دے اور وہ اطاعت الہی واتباع نبوی کے لئے کمر بستہ اٹھ کھڑے ہوں اور بیک زباں یہ دعائے جاوداں گنگنا پڑیں: ”سمعنا واطعنا غفرانک ربّنا والیک المصیر“ (البقرہ:۵۸۲) کہ ہم نے سنا اور اطاعت (کے لئے آمادہ) ہوئے، (ہم تیری) مغفرت کے محتاج ہیں اور تیرے ہی پاس لوٹ کر جانا ہے۔

ہر چند کہ انسانوں کے باہمی حقوق حد درجہ اہم اور قابل اعتناءہیں، تاہم آج ہم آپ کے سامنے ایسے جلیل القدر، رفیع الشان، عظیم المرتبت حق کی بات کرنے جا رہے ہیں جس کا تعلق مقدس آسمانی کتاب ، وحی الہی، کلام ربّانی ”قرآن کریم“ سے ہے۔ آپ حضرات کے روبرو آج کی گفتگو کا موضوع یہی عظیم ترین حق ہے، موضوع کا مدار درج ذیل تین عناصر ہے:
۱۔ قرآن کی مصدریت اس کے اعجاز کی دلیل ہے
۲۔ قرآن جمع وتدوین کے مراحل سے گزر کر ہم تک کیسے پہنچا
۳۔قرآن کا حق
آپ اپنے دل ودماغ حاضر رکھیں اور چشم بر حروف ہو کر اس کا مطالعہ کریں کیوں کہ بخدا موضوع بے حد اہم، انتہائی سنگین اور غیر معمولی عظمت کا حامل ہے، میں اللہ سے دست بدعاءہوں کہ امت مسلمہ کو باحسن طریق قرآن وسنت تک لوٹا دے اور انہیں قرآن وحدیث کا خوگر بنا دے-

۱۔ قرآن کی مصدریت اس کے اعجاز کی دلیل ہے:
قرآن اللہ جل وعلا کا کلام ہے، اور قرآن کا یہ وصف اس کے اعجاز کی بڑی دلیل ہے، گویا قرآن کی مصدریت ہی اس کے معجز ہونے کی دلیل ہے، چنانچہ قرآن اللہ کا ایسا کلام ہے جس کی فضیلت واہمیت تما م تر کلام پر فائق ہے جس طرح کہ اللہ کی فضیلت وسطوت تمام مخلوق پر نمایاں اور برتر ہے۔ قرآن اللہ کا ایسا کلام ہے جس کے ذریعہ تمام بشریت کو بالعموم اور مشرکینِ عالم کو بالخصوص چیلنج کیا گیا ہے اور یہ چیلنچ تا قیام قیامت باقی رہے گا، اللہ کا فرمان ہے: ”قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیراً“ (اسرائ: ۸۸) کہہ دیجئے کہ اگر تم انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ آپس میںایک درسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔ جب اس چیلنج میں تمام انس وجن ناکام ہو گئے تو اللہ نے تخفیف کے ساتھ کہا: ”ام یقولون افتراہ قل فاتوا بعشر سور مثلہ مفتریات وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقین“ (ہود:۳۱) کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے، جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اس کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آواور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو۔ جب اس میں بھی وہ نامراد رہے تو اللہ نے ان کے سامنے اعجاز کا یہ خفیف ترین درجہ ان کے سامنے پیش کیا:”ام یقولون افتراہ قل فاتوا بسورة مثلہ وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقین“ (یونس: ۸۳) کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو گھڑ لیا ہے؟ آپ کہہ دیجئے کہ تو اس کے مثل ایک سورت لاو اور جن جن غیر اللہ کو بلا سکو، بلا لو اگر تم سچے ہو۔ یعنی ان تمام حقائق ودلائل کے بعد بھی ، اگر تم مشرکین کافرین معاندین کا دعوی یہی ہے کہ یہ قرآن محمد ﷺ کا گھڑا ہوا ہے، تو وہ بھی تمہاری ہی طرح کا ایک انسان ہے، تمہاری زبان بھی اسی کی طرح عربی ہے، وہ تو ایک ہے، تم اگر اپنے دعوے میں سچے ہو تو تم دنیا بھر کے ادبائ، فصحاءوبلغاءکو اور اہل علم وقلم کو جمع کر لو اور اس قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کے مثل بنا کر پیش کردو۔ قرآن کریم کا یہ چیلنج آج تک باقی ہے، اس کا جواب نہیں ملا۔ جس کے اوصاف معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن، کسی انسانی کاوش کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ فی الواقع کلامِ الہی ہے جو حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا ہے۔
قرآن کریم میں فصاحت وبلاغت، قوت استدلال اور وعظ وتذکیر کے ایسے اعجازی پہلو اللہ نے بیان کیا ہے کہ اگر اسے کسی پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو پہاڑ اتنی سختی اور وسعت وبلندی کے باوجود خوفِ الہی سے ریزہ ریزہ ہو جاتا؛ اللہ سبحانہ کا بیان ہے: ”لو انزلنا ھذا القرآن علی جبل لرایتہ خاشعاً متصدّعاً من خشیة اللہ وتلک الامثال نضربھا للناس لعلہم یتفکرون“ (حشر:۱۲) اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو تو دیکھتا کہ خشیت الہی سے وہ پست ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا، ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور وفکر کریں۔ اس آیت کے ذریعہ انسان کو سمجھایا اور ڈرایا جا رہا ہے کہ تجھے عقل وفہم کی صلاحیتیں دی گئی ہیں، لیکن اگر قرآن سن کر تیرا دل کوئی اثر قبول نہیں کرتا تو یقین رکھ کہ تیرا دل پہاڑ سے بھی زیادہ سخت اور ناعقل وبے شعور ہو گیا ہے!
قرآن کریم کی تلاوت وسماعت سے متاثر ہونے اور بے اثر رہنے والے لوگوں کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ مردہ دل لوگ؛ یہ لوگ اگر مکمل قرآن بھی سن لیں تو بھی ان کے فہم وادراک کے دریچے نہیں کھلتے ، نتیجتاً ادنی اثر بھی ان پر ظاہر نہیں ہوتا اور بدستور رفتارِ بے ڈھنگی برقرار رہتی ہے۔
۲۔ زندہ دل لیکن غافل وذاہل؛ یہ وہ لوگ ہیں جن میں عقل وشعور کا مادہ تو ہوتا ہے لیکن وہ تلاوتِ قرآن پر قبولیت کی کان نہیں دھرتے اور دانستہ طور پر سنی اَن سنی کردیتے ہیں، چناں چہ تمام تر آیات الہی اپنی بے بہا اثر انگیزی کے باوجود ان کے لئے بے اثر اور (بظاہر) بے ضرر ثابت ہوتے ہیں، وہ آفاق وانفس میں موجود اللہ کی کھلی نشانیوں سے بھی سرِ مو انحراف کرتے ہیں، یہ اپنے دل ودماغ اور سمع وبصر ہر ایک مادہ ادراک کے ساتھ اللہ اور کلام سے اعراض برتتے ہیں  عیاذاً باللہ
۳۔ زندہ دل اور آیات الہی کی سماعت وبصارت سے مستفید ہونے والے؛ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے: ”ان في ذلک لذکری لمن کان لہ قلب او القی السّمع وہو شہید“ (ق: ۷۳) اس میں ہر صاحب دل کے لئے عبرت ہے اور اس کے لئے جو دل سے متوجہ ہوکر کان لگائے اور (قلب ودماغ کے لحاظ سے وہ) حاضر ہو۔ گویا ایک انسان زندہ دل ہونے کے دست بہ دست پوری دل جمعی، خشوع وانابت، خموشی اور حاضر دماغی کے ساتھ قرآن کی تلاوت سنے، اس سے متاثر ہو، الفاظ کے زیر وبم اور آیات کے نشیب وفراز کے بامعنی اثرات اس پر مرتب ہوں نیز اللہ کے خطاب ( اے وہ لوگو! جو ایمان لائے) کو سن کو گوش بر آواز ہو جائے اور یہ محسوس کرے کہ اللہ بالذات اسے مخاطب کر رہا ہے تو فی الواقع ایسے مردِ مومن پر قرآن کے اثرات اور برکات کا ظہور ہوتا ہے، ناطقہ گنگ ہو جاتا اور اس کا سراپا خشوع وخضوع کا پیکر بن جاتا ہے، قرآن کے ذریں منثورات اور بیش بہا آیات کو اپنی عملی زندگی میں لاگو کرنے کے لئے وہ کمر بستہ ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی قرآن کی عملی تصویر بن جاتی ہے ۔فللہ درّہ۔
یہ ہے وہ خوش قسمت اور نیک بخت انسان کہ جو سمع وبصر اور نطق وفہم سے آیات الہی سے مستفید ہوتا ہے، عرش سے فرش تک جتنی بھی اللہ کی نشانیاں ہیں، وہ سب اس کے لئے عبرت نشاں اور نصیحت کا ساماں بن جاتے ہیں، لیکن حیرت ہے کہ اس قرآن کو سن کر بلند وبالا پہاڑ پست ہو کر پاش پاش ہوجاتے ہیں، لیکن مردہ دل اور پزمردہ دماغ لوگوں کے دل برف کی ایسی قاش ہوتے ہیں کہ آیات الہی کی تپش ذرا بھی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی، اسی لئے صحابی رسول، خلیفہ ثالث حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: ”واللہ لو طھرت قلوبنا ما شبعنا من کلام ربنا“کہ بخدا اگر ہمارے دل پاک وصاف ہوجائیں تو ہم اپنے پروردگار وپالنہار کے کلامِ مقدس سے کبھی آسودہ نہیں ہوں گے
دل سوز سے خالی ہے، نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا ہے کہ تو بے باک نہیں ہے
آپ ذرا تصور کیجئے عہد نبوی کے ان مشرکین کی حالت کا جو محض اس خوف سے قرآن نہیں سنتے تھے کہ کہیں وہ اس کے سحرِ تاثیر کے اسیر نہ ہوجائیں، ایک بار پھر آپ اپنی چشم تصور میں اس منظر کو تازہ کیجئے کہ کیسے مکہ کے سرکش اور ضدی کفار قرآن کی آواز سن کر اپنی کانوں میں روٹی اور کپڑے ڈال لیا کرتے تھے کہ کہیں قرآن کا ربّانی جادو نہ ان پر چل جائے اور یک لخت ان کی زندگی کی کایا پلٹ جائے!۔ یہ سب صرف اس لئے کہ اللہ نے قرآن کے الفاظ وحروف میں ایسی طلسماتی تاثیر نہاں رکھا ہے کہ جس سے کفر وکبر اور شرک وعناد کے طنابیں زمیں بوس ہوجاتے ہیں اور لات وعزی کے متوالے پل بھر میں اللہ اور رسول کے دیوانے ہوجاتے ہیں، غیر اللہ سے شیفتگی ختم ہوجاتی ہے اور اللہ وحدہ لا شریک لہ کے لئے فریفتگی کا جذبہ پروان چڑھنے لگتا ہے، جسم وحجم سے پرے دل ودماغ پر اس کا ایسا اثر پڑتا ہے کہ دل کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں، ذہن کے تار وپود میں وحدانیت کے نغمے گونجنے لگتے ہیں اور انسانیت، شیطنت سے باز آکر یکبارگی کیسے للّہیت کا قائل ہو جاتی ہے، اس کی سچی تصویر اس انسان کی زندگی میں نظر آتی ہے۔
یاد کیجئے سن پانچ بعثت نبویہ کے اس واقعہ کو کہ نبی کریم ا ”بیت الحرام“ میں تشریف لائے ہیں کہ صنادیدِ مشرک اور سرورآوردگانِ کفر کے سامنے مومنانہ جرات کے ساتھ نماز ادا کریں، لیکن کفر وشرک کے ٹھکیداروں کو آپ کا یہ عمل ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے اور ملعون ابوجہل بول پڑتا ہے: ”ایعفر محمد وجہہ بین اظھرنا“کہ محمد کی اتنی جرات کہ ہماری موجودگی میں وہ اپنے رب کو سجدہ کرے؟ اور وہ بھی خانہ کعبہ میں! ”واللات والعزی ان اتی محمد لیصلّی لاطان عنقہ“ لات وعزی کی قسم اگر محمد نماز پڑھے گا تو میں اس کی گردن روند ڈالوں گا۔ چنانچہ جب نبی امی فداہ ابی وامی  اللہ کے رو در رو نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، رکوع کے بعد سجدہ کا قصد کرتے ہیں تو ملعون ابو جہل یہ زعم لئے آگے بڑھتا ہے کہ جیسے ہی آپ سجدہ ریز ہوں گے یہ اپنے ناپاک پاوں سے آپ کی گردنِ مبارک کو مَسل ڈالے گا، لیکن جیسے ہی آپ کے قریب ہوتا ہے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو ہلاتے ہوئے (گویا کسی چیز کو اپنے سامنے سے ہٹا رہا ہو) دوڑ کر پیچھے کی طرف بھاگتا ہے، اور اپنے ہمنوا مشرکوں سے اس لا چارگی کو یوں بیان کرتا ہے: ”ا ن بینى وبین محمد خندقاً من نار واني اری اجنحتہ“ میرے اور محمد کے درمیان آگ کا ایک خندک ہے اور مجھے (فرشتوں کے) کچھ باز ونظر آرہے ہیں۔ قرآن سے بغارت کرنا اور نبی ہادی کو زک پہنچانے کا ارادہ تک کرنا اس قدر کبیرہ گناہ ہے کہ جس کا انجام گویا ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ ایک طرف ابو جہل کی یہ نازک حالت ہے اور دوسری طرف حبیب کبریاءنماز سے فراغت باسعادت حاصل کرتے ہیں اور گویا ہوتے ہیں: ”والذی نفس محمد بیدہ لَو دَنالاختطفتہ الملائکة عضواً عضواً“ کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر وہ قریب ہوتا تو فرشتے اس کے ہر عضو کو اچک لے جاتے اور وہ خاک کا ڈھیرہوجاتا ۔

غور طلب ہے نبی کریم ا، اللہ کے حضور نماز پڑھ رہے تھے، اور مشرکین کی پوری جماعت غیظ وغضب سے آنکھیں پھاڑ کر آپ کو دیکھ رہی تھی، حبیبِ دوعالم محمد مصطفی ومجتبی صلى الله عليه وسلم اپنی زبانِ مبارک سے سورہ نجم کی تلاوت کر رہے تھے، مجھے امید ہے کہ زبانِ رسالت سے نکل رہے قرآن کی حلالت وحلاوت کو آپ محسوس کر رہے ہوں گے، کسی معمولی انسان کی نہیں بلکہ رسولِ گرامی کی تلاوت ہو رہی ہے اور مشرکین خواہی نہ خواہی گوش بر آواز ہیں، آپ مکمل سورت کی تلاوت کرتے ہیں اور اخیر میں دل دہلا دینے والی ان آیات کی تلاوت کرتے ہیں: ”ازفت الآزفة لیس لہا من دون اللہ کاشفة افمن ہذا الحدیث تعجبون وتضحکون ولا تبکون وانتم سامدون فاسجدوا للہ واعبدوا“ قیامت نزدیک آگئی، اللہ کے سوا اس (وقت معین کو) دکھانے والا کوئی نہیں، پس کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو؟ روتے نہیں؟ تم کھیل رہے ہو، اب اللہ کے سامنے سجدے کرو اور اسی کی عبادت کرو! ان آیات کا سننا تھا کہ تمام حاضرین بشمول کفار ومشرکین، سجدہ ریز ہوگئے اور ان پر قرآن کا اتنا گہرا اثر پڑا کہ وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکے گویا جس سے بچتے تھے وہی بات ہو گئی!
اس واقعہ کو امام بخاری نے ”کتاب سجود التلاوة“ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مختصراً نقل کیا ہے، اس سلسلے میں سورہ جن کی یہ آیت بھی توجہ طلب ہے: ”قل اوحى الى انہ استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرآناً عجباً یہدى الی الرشد فآمنا بہ ولن نشرک بربنا احداً“ (جن: ۱،۲) اے محمد صلى الله عليه وسلم آپ کہہ دیجئے کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف بلاتا ہے۔ ہم اس پر ایمان لا چکے، اب ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے۔ جنوں نے جب آپ سے قرآن سنا تو آپ پر ایمان لائے اور شرک سے تائب ہوگئے، گویا قرآن نے ان کے شرک وکفر کا زور توڑ دیا۔ کچھ ایساہی معاملہ کفار ومشرکین کے ساتھ بھی پیش آیا کہ قرآن کے فنی محاسن اور اس کی لفظی ومعنوی عظمت سے مغلوب ہو کر بے ساختہ وہ سجدہ میں گڑ پڑے، اور زبانِ حال سے قرآن کے کلامِ الہی ہونے کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے۔ شہسوارِ اسلام اور اللہ کی شمشیر بے نیام خالد بن ولید کے والدولید بن مغیرہ بنی کی رسالت اور قرآن کی حقانیت کے سخت منکر ومعاند تھے، وہ آپ کی خدمت میں آئے کہ آپ کو مال ومنال، جاہ ومنصب اور حکومت وسلطنت کا جھانسادے کر دینِ حق کی تبلیغ سے برگشتہ کردیں، لیکن جب آپ ﷺ نے ان پر قرآن کریم کی سحر انگیز تلاوت فرمایا تو ان کی زبان سے بے ساختہ قرآن کی حق میں یہ تاریخی جملہ نکل پڑا:”واللہ ان لہ لحلاوة، وان علیہ لطلاوة، وان اعلاہ لمثمر وان اسفلہ لمغدق، وانہ یعلو ولا یعلی علیہ“ یعنی کہ بخدا اس (کلام) میں ایک (عجیب سی) لذت وچاشنی ہے، اس میں حسن وجمال اور فنی کمال ہے، اس کا اعلی حصہ ثمر آور اور اسفل حصہ رحمت اور راحت بخش ہے، وہ غالب وبرتر ہے اس پر غلبہ حاصل نہیں کیا جا سکتا الحق ما شہد بہ الاعداء.
اسی مفہوم کو عربی شاعر نے یوں کہا ہے:
فہو نوع فیہ علی الحسن عون
یکسب اللفظ رونقاً وطلاوة
وبہ لاتزال حور المعانی
ف حل، وحلّة، وحلاوة
وہ کلام کی ایسی قسم ہے جس میں ادبی حسن وجمال اور فنی رونق وکمال بدرجہ اتم موجود ہے، جس کے ذریعہ معانی، حد درجہ حسین وجمیل اور شیریں وعسیل پیکر میں ڈھل کر سامنے آتے ہیں۔ قرآن کریم کی اس غیر معمولی طلسم ریزی اور اثر انگیزی کے باوجود بھی کفار ومشرکین ایمان لانے کو تیار نہیں ہوئے، بلکہ انکار اور اعراض کے بہانے تلاش کئے، پش وپیش اور شش وپنج کے شکار ہوگئے، اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچے: ان ھذا الا سحر یوثر ان ھذا الا قول البشر“ (مدثر: ۴۲، ۵۲) یہ تو صرف جادو ہے جو نقل کیا جاتا ہے سوائے انسانی کلام کے کچھ بھی نہیں۔ ان کی حد سے بڑھی ہوئی اس سرکشی، عداوت، ہٹ اور ضد پر اللہ نے انہیں جہنم کی وعید سنایا اور نبی پاک ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ”قد نعلم انہ لیحزنک الذین یقولون فانہم لا یکذبونک ولکن الظالمین بآیات اللہ یجحدون“ (انعام: ۳۳) ہم خوب جانتے ہیں کہ آپ کو ان کے اقوال مغموم کرتے ہیں، سو یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔

۲۔ قرآن جمع وتدوین کے مراحل سے گزر کر ہم تک کیسے پہنچا:
پہلا مرحلہ: اس پہلے مرحلہ میں اللہ نے قرآن کو نبی اکرم اور صحابہ کرام کے سینے میں محفوظ فرمایا، اللہ نے قرآن کی حفاظت وصیانت کے لئے انہیں زبر دست قوت حافظہ سے نوازا، چناں چہ سب سے پہلے آپ ﷺ نے حضرت جبریل سے قرآن حفظ کیا اور آپ سے صحابہ کرام کی ایک کثیر تعداد نے سن کر قرآن یاد کیا اس طرح آپ کے سینے سے صحابہ کے سینے میں منتقل ہوا، نبی پاک کو حفظ قرآن کی شدید حرص تھی حتی کہ حضرت جبریل علیہ السلام جب آپ پر قرآن پیش کرتے تو آپ جلدی جلدی اس کو دہراتے کہ کہیں بھول نہ جائیں، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمایا: ”لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ انّ علینا جمعہ وقرآنہ فاذا قراناہ فاتبع قرآنہ ثم ان علینا بیانہ“ آپ قرآن کو (جلدی یاد) کرنے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، اس کا جمع کرنا اور آپ کی زبان سے پڑھنا ہمارے ذمہ ہے، ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں پھر اس کا واضح کردینا ہمارے ذمہ ہے۔ (قیامہ: ۳۱،۵۱) چنانچہ قرآن سینہ نبوی میں جمع ہو گیا اور ااپ نے حکم الہی کے بموجب کاتبین وحی کی ایک جماعت بنائی جس کے سرخیل حضرت زید بن ثابت تھے جن کو امام بخاری نے ”کاتب النبی“ سے ملقّب کیا ہے، اس جماعت میں ابی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعود جیسے حفاظ صحابہ کرام بھی تھے۔ جب آپ پر حضرت جبریل علیہ السلام قرآن لے کر نازل ہوتے، آپ کتّاب وحی کو حکم دیتے کہ ”لخاف“ یا ”عسب“ میں اس کو نقل کریں؛ ”لخاف“ ایک قسم کا باریک پتھر ہے جس کو تراش کر اس پر لکھا جاتا تھا، اور ”عسب“ ”عسیب“ کی جمع ہے جس کے معنی کھجور کی ٹہنی کے آتے ہیں، اس پر بھی کاتبینِ وحی قرآن نسخ کیا کرتے تھے، کتابتِ وحی میں اس بات کا سخت التزام کیا جاتا تھا کہ کس حرف کا املاءنبی پاک کس طرح کرارہے ہیں، اسی کے مطابق اس کو لکھا جاتا تھا، اس مرحلہ میں قرآن باریک پتھر اور کھجور کی ٹہنیوں ہی میں مرقوم رہا، باضابطہ اس کی تدوین کا مرحلہ اس کے بعد ہے۔
دوسرا مرحلہ: جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسیلمہ کذاب اور صحابہ کرام کے درمیان معرکہ یمامہ پیش آیا، تو اس جنگ میں حفاظ صحابہ کرام کی ایک بھاری تعداد شہید ہو گئی؛ یہ حالتِ زار دیکھ کر اور ضیاع قرآن کا خدشہ محسوس کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، خلیفة المسلمین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آکر یہ مشورہ دیا: ”یا ابا بکر، یا خلیفة رسول اللہ! اجمع القرآن في مصحف واحد“ اے ابو بکر، رسول خدا کے جانشین! قرآن کو ایک مصحف میں جمع کروائیے۔ (ورنہ اس کے ضائع ہونے کا امکان بڑھتا جارہا ہے)
اخلاص وللّہیت کے پیکر اور اتباع نبوی کے خوگر حضرت صدیق اکبر نے جواب دیا: ”کیفافعل شیئاً لم یفعلہ رسول اللہ لا“ میں وہ کام کیوں کروں جسے رسول گرامی نے نہیں کیا؟ نہیں، میں ایسا نہیں کر سکتا۔ حضرت عمر نے کہا: بخد ااس میں ہی بھلائی ہے، آپ اس پر سنجیدگی سے غور فرمائیے، صحیح بخاری کی رویت ہے؛ ابو بکر صدیق کا بیان ہے: قرآن کی جمع وتدوین کے لئے مسلسل حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ مجھے مشورہ دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے مجھے حضرت عمر کا قائل بنا دیا اور میں نے کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت کو بلا بھیجا، صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت صدیق اکبر نے کاتب رسول سے ارشاد فرمایا: ”یا زید انک رجل شاب عاقل لانتہمک فتتبّع القرآن واجمعہ“ اے زید! بلا شبہ آپ ایک عقلمند نوجوان ہیں، میں آپ کو یہ (مہتم بالشان) ذمہ داری دیتا ہوں کہ قرآن کی بحث وتدقیق اور تفتیش وتحقیق کر کے اس کو یکجا کریں۔ یکتائے روزگار صحابیِ رسول کو اس عظیم ذمہ داری کا کتنا پاس ولحاظ اور اس کی عظمت ومرتبت کا کتنا خیال تھا، بول پڑے: ”واللہ لو کلفوني نقل جبل من الجبال ما کان اثقل علي مما امرنى بہ من جمع القرآن“ اللہ ذو الجلال کی قسم! اگر مجھے کسی پہاڑ کو (ایک جگہ سے دوسری جگہ) منتقل کرنے کا حکم دیا جاتا تو میرے لئے اتنا گراں نہیں تھا جتنا کہ تدوین قرآن سنگین ہے۔
اس صحابی رسول کی بلند ہمتی دیکھئے! اس بار گراں کو لئے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور شب وروز کی چھان پھٹک، انتھک کھوج بین اور پیہم جستجو کے بعد اس عظیم ذمہ داری کو بحسن وخوبی انجام تک پہنچاتے ہیں چنانچہ وہ قرآن جو صحابہ کرام کے سینوں، پتھر کے باریک ٹکڑوں اور کھجور کی ٹہنیوں میں منتشر تھا وہ ضخیم مصاحف میں مدوّن اور یکجا ہو جاتا ہے، ان مصاحف کو خانہصدیق میں رکھا جاتا ہے، ان کی وفات حسرت آیات کے بعد یہ حضرت عمر فاروق کے گھر میں منتقل ہو جاتے اور ان کے بعد ام المومنین زوجہرسول حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو سعادت اور رونق بخشتے ہیں۔
تیسرا مرحلہ: یہ سنگین ترین مرحلہ ہے جس کا تعلق عہد عثمانی سے ہے؛ صحیح بخاری کی روایت ہے: غزوہ ارمینیا (شام) اور غزوہ آذربیجان (عراق) کے بعد حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ خائف وہراساں حضرت عثمان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا: ”یا امیر المومنین ادرک الامة قبل ان یختلفوا في کتاب ربھم کما اختلفت الیھود والنصاری“ اے امیر المومنین! امت کو روکئے ( ان کی اصلاح کیجئے) اس سے قبل کہ یہود ونصاری کی طرح وہ بھی کتاب الہی میں اختلاف کر بیٹھیں۔ حضرت عثمان نے دریافت کیا: ایسی کیا بات ہے؟ حضرت حذیفہ نے شام والوں کو ابی بن کعب کی قراءت کے مطابق اور عراق والوں کو عبد اللہ بن مسعود کی قراءت کے مطابق قرآن پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، شام والے اہلِ عراق کو اس طرح قرآن پڑھتے سنتے ہیں جس طرح انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنا اور یہی حال عراق والوں کے ساتھ بھی ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی قرات کا انکار کرتے اور اسے غلط سمجھتے ہیں، اس کشمکش نے حضرت حذیفہ کو قرآن کے تئیں خوف زدہ کردیا ہے کہ میری امت بھی کہیں یہود ونصاری کی طرح کلام اللہ میں اختلاف نہ کر بیٹھیں! ہر چند کہ اللہ کی خواص رحمت اور آسانی ویسرت ہے کہ قرآن کو سات حرف پر نازل کیا ہے: ”ا نما امرت ان اقرا القرآن علی سبعة احرف“ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں قرآن کو سات (طریقے) حروف سے پڑھوں۔
اس حدیث کو سمجھنے کے لئے بطورِ مثال ہم اس آیت کو دیکھ سکتے ہیں: ”یا ایھا الذین آمنوا ان جاءکم فاسق بنبا فتبینوا“ اور ایک دوسری قراءت ہے ”فتثبتوا“ دونوں الفاظ قریب المعانی ہیں اور دونوں قراءت نبی ﷺ سے ثابت ہے؛ اختلاف قراءت کی مصلحت یہ ہے کہ عرب کے بعض قبائل بعض حروف کا تلفّظ صحیح طور پر نہیں کر پاتے مثلاً ”ح“ کو ”ع“ پڑھتے اور ”حتی“ کو ”عتی“ اور ”حین“ کو ”عین“ پڑھتے تھے،اسی لئے قرآن کو بطور آسانی، سات حروف پر نازل کیا گیا اور ساتوں طریقے نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہیں، لیکن جب اہلِ شام ابی بن کعب کی قرات کے بموجب اور اہلِ عراق عبد اللہ بن مسعودکی قرات کے بموجب ایک دوسرے کی قراءت کو غیر مانوس سمجھ کر انکار کرنے لگے اور نوبت باہمی اختلافات تک آپہنچی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے وہ مصاحف منگوایا جو عہد ابی بکر میں جمع کئے گئے تھے، پھر انہیں ایک مصحف میں (محقق طور پر) جمع کرنے کے لئے کاتب وحی اور دیگر حفاظ وضبّاط صحابہ کرام کی ایک جماعت کو مکلف کیا گیا نیز اس ”مصحف الامام“ کے متعدد نسخے تیار کرئے گئے اور حضرت عثمان بن عفان امیر المومنین رضی اللہ عنہ سے تمام بلاد وامصار میں ان نسخوں کو بھیجا اور تمام پرانے مصاحف جلا کر اختلاف کی جڑ کو سپرد خاک کر دیا۔
خلیفہ ثالث نے اس تاریخ ساز کارنامہ کے ذریعہ امت کو ایک مصحف پر جمع کیا، انہیں اختلاف کی روش سے روکا، کتاب الہی کے سلسلے میں امانت ودیانت کو مقدم رکھا ساتھ ہی قیامت تک کے لئے امت مسلمہ کو تلاوتِ قرآن کا ایک صحیح منہج عطا کیا، آج ہمارے ہاتھوں میں قرآن کا جو نسخہ ہے یہ اسی ”مصحف امام“ کا نقل ہے جسے حضرتِ عثمان نے جمع کروایا تھا؛ تدوین کے وقت صحابہ نے کہا تھا: ”فان اختلفتم في الکتابة مع زید فاکتبوا بلسان قریش فانہ قد نزل بلسانھا“ کہ اگر کتابت ونسخ میں حضرت زید سے اختلاف ہو جائے تو قریش کی (زبان) لغت کے مطابق لکھو اس لئے کہ قرآن قریش کی زبان میں ہی نازل ہوا ہے۔
ان تمام کے پیچھے یہ عظیم راز نہاں ہے کہ قرآن کی حفاظت وصیانت اور اس کی بقاءمدام کی ذمہ داری خود خدائے ذو الجلال نے لی ہے چنانچہ اس کی آیت کیا، ایک کلمہ حتی کہ ایک حرف تک نہیں بدل سکتا اور نہ ضائع ہو سکتا ہے، خدا جس کا محافظ ہو اسے کون ضائع کر سکتا ہے: انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون“ (حجر:۹) کہ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ونگہبان ہیں۔
کیا کہیں اس کتاب کو کہ
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے
ناطقہ سربکریباں ہے اسے کیا کہئے
اور یہ کہ
تیرا کلام ملوک الکلام ہے ربی
تیرے کلام سے بڑھ کر کوئی کلام نہیں

۳۔ قرآن کا حق:
قرآن کی بابت مذکورہ مذکورہ باتیں جان لینے کے بعد ایک اہم سوال باقی رہ جاتا ہے کہ جب قرآن اس قدر مقدس، مبرہن اور مبارک کتابِ الہی ہے اور اس کی حفاظت وصیانت اور جمع وتدوین کے لئے صحابہ کرام اور اسلاف عظام نے اس قدر قربانیاں پیش کی ہیں، تو اس بابرکت کتاب کے تئیں ہمارے اوپر کیا حق واجب ہوتا ہے؟ اور اللہ نے آخر کس مقصد اکبر اور غایت عظمی کے لئے ہمارے اوپر اسے کتابِ زندگی بناکر نازل کیا ہے؟ کیا نزولِ قرآن کا مقصد یہ ہے کہ قبروں میں مدفون مردوں پر اسے پڑھا جائے؟ کیا اللہ نے قرآن اس لئے نازل کیا کہ ہم اسے حریر وریشم کے خول اور فخیم وضخیم جزدان میں سجا سنوار کر طاقوں میں رکھیں؟ کیا قرآن اسی لئے نازل ہوا ہے کہ سونے چاندی کے نفیس ترین غلافوں میں بند کر کے دیواروں پر لٹکایا جائے اور الماریوں میں بند رکھا جائے؟ تعویذ بنا کر سینوں کی زینت بنانے اور پانی میں گھول کر بطور دوا نوش کرنے کے لئے قرآن کا نزول ہو ہے؟ یا صرف امراءوروءساءاور حکام واثریاءکو اسٹیج پر مدعو کر کے علی روؤس الخلائق قرآن کے نسخے بطور ہدیہ پیش کر کے سرخروئی حاصل کر نے کے لئے قرآن نازل ہوا ہے؟ جب کہ یہ حکام یہ مبارک ہدیہ قبول کر نے سے پہلے اور اس کے بعد بھی شریعت کی مخالفت کے خوگر اور قرآن سے عملی اعراض کے پیکر ثابت ہوتے ہیں، ان کے جسم وجان میں قرآن کی اس آیت کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا: ”طہ، وما انزلنا الیک القرآن لتشقی“ (طہ: ۱) کہ ہم نے قرآن کو تجھ پر اس لئے نہیں نازل نہیں کیا کہ تو مشقت میں پڑ جائے۔ آج یہ مسلم حکام تمام تر استطاعت کے باوصف محض آمریت، سیطرت، ذاتی حکومت اور دنیوی سر خروئی وسرفرازی کے لئے خود بھی شرائع کے نفاذ اور نواہی سے اجتناب میں کوتاہی کرتے اور امت کو بھی حرج میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتے، حدود قصاص کا معاملہ ہو یا اسلامی تکالیف پر عمل پیرا ہونے کا، اوامر کی بجا آوری کی بابت ہو یا نواہی سے دامنِ عمل کو بچائے رکھنے کا ہر معاملہ میں دنیا پرست اور جاہ پسند امراءشریعت بے زاری اور دنیا داری کا کھلا منہ بولتا ثبوت پیش کرتے ہیں اور حد ہے کہ انہیں ذرا سی بھی شرم نہیں آتی، سچ ہے ”اذا لم تستح فاصنع ما شئت“ جب احساسِ ندامت ہی کافور ہو جائے تو کیا بد عملی کا گلہ کرے کوئی۔
قرآن کا نزول تو اس لئے ہو تھا کہ انسانیت راہ راست پر آجائے، گمگشتگان ملت کو صراط مستقیم کا سراغ مل جائے، بشریت اپنے وجود کے مقصد سے آشنا ہو جائے، اس کے فیض سے ایسی حکومت وجود میں آئے جو انسانوں کے لئے دنیوی واخروی ہر دو سعادت کا ضامن ہو ”انّ ہذہ القرآن یہدی للتی ہی اقوم ویبشر المومنین الذین یعملون الصالحات انّ لہم اجراً کبیراً“ (اسرائ: ۹) یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوش خبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔
نبی امی ﷺ فداہ ابي وامی ! پر نازل کردہ قرآن کریم کے تئیں امت مسلمہ پر سب سے بڑا حق یہ ہے کہ عقل وفہم اور تدارک وادراک کے ساتھ بنظر غائر اس کی تلاوت کریں، اقوام گزشتہ کی حشرناک، انبیاءو رسل کے احوال اور مردود اقوام کی تباہیوں سے عبرت وموعظت اور ذکر ونصیحت حاصل کریں؛ ”افلا یتدبرون القرآن ولو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً“ اور یہ کہ ”افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوبہم اقفالہا“ (محمد: ۴۲) یعنی کہ کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے،یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ گویا قرآن کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ہم اسے نہایت تفکر وامعان کے ساتھ پڑھیں ”والحسنة بعشر امثالہا اما اني لا اقول الٓم حرف بل الف حرف ولام حرف ومیم حرف“ اور نیکیوں کا ثواب دس گنا ملتا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ ”الٓم“ ایک حرف ہے، بلکہ ”الف“ ایک حرف ہے، ”لام“ ایک حرف ہے اور ”میم“ ایک حرف ہے۔ گویا قرآن کو فکر وفہم اور سمجھ بوجھ کے ساتھ پڑھنے کا جہاں ایک فائدہ حصول ثواب ہے وہیں اس میں نہاں عبرت سامانیوں سے مستفید ہونا بھی اس کا غیر معمولی ماحصل ہے۔
حضرت ابو امامہ سے مروی صحیح مسلم کی حدیث ہے، رسول پاک کا ارشاد گرامی ہے: ”اقراوا القرآن فانہ یاتي یوم القیامة شفیعاً لاصحابہ“ قرآن پڑھا کرو کیوں کہ قرآن قیامت کے دن اصحاب قرآن کے لئے سفارشی بن کر آئے گا۔ صحیحین کی روایت ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی حدیث ہیں؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا: ”لا حسد الا في اثنین رجل آتاہ اللہ القرآن فہو یقوم بہ آناءالنہار“ حسد (بمعنی غبطہ) صرف دوچیزوں میں جائز ہے؛ ایک وہ شخص جس کو اللہ نے (حفظِ) قرآن سے نوازا اور وہ دن بھر اس کے مطابق عمل کرے (اور اس کے متطلبات ومقتضیات کو پورا کرے)۔ صحیحین کی ہی ایک دوسرے رویت امّاعائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جس میں ان لوگوں کے لئے بشارت وخوش خبری ہے جو مشقت اور دقّت کے ساتھ ہی قرآن پڑھ پاتے ہیں ”والذی یقرا القرآن ویتتعتع فیہ وہو علیہ شاق فلہ اجران“ اور وہ جو قرآن پڑھتے ہیں تو ہکلاتے ہیں اور تلاوتِ قرآن ان کے لئے گراں ہوتا ہے، ایسے شخص کے لئے دوہرا اجر ہے۔ کتنے خوش بخت ہیں ایسے لوگ!بلا شبہ بلحاظ رتبہ ومرتبہ وہ شخص اولیٰ وافضل ہے جو ماہر قرآن اور خوش الحان ہے کہ وہ فرشتوں کی صحبت ومعیت سے سر فراز ہوگا، لیکن بہت خوش نصیب ہے وہ شخص بھی جو بمشکل ہکلاہٹ (تتلاہٹ) کے ساتھ قرآن کی تلاوت کر تا ہے کہ اس کے لئے دوہرا اجر وثواب ہے؛ ایک تلاوت کا ثواب اور دوسرا تکلیف وصعوبت کے باوجود مسلسل قرآن پڑھتے رہنے کا؛ امام طبرانی کی روایت ہے اور اسے امام البانی بے صحیح کہا ہے کہ: ”ابشروا فان ہذا القرآن طرفہ بید اللہ وطرف بایدیکم فتمسکوا بہ لا تہلکوا ابداً فان تمسکتم بہ لن تھلکوا ابداً“ خوش ہو جا کہ اس قرآن کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں ہے، چنانچہ تم اسے (مضبوطی سے) تھام لو، ہلاک نہیں ہوگے، اگر تم اسے تھامے رہے تو ہرگز کبھی برباد نہیں ہوگے۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے، نواس بن سمعان راوی حدیث نبی ﷺ سے روایت کر تے ہیں: ”یوتی یوم القیامة بالقرآن واھلہ الذین کانوا یعملون بہ یقدم القرآن سورة البقرة وسورة آل عمران کانہما غمامتان او غیابتان او حزقان او فرقان من طیر صوافّ تحاجّان عن صاحبہما“ کہ قیامت کے روز قرآن اور عاملین قرآن کو لایا جائے گا، قرآن کے سورہ بقرة اور سورہ آل عمران آئیں گے گویا وہ بادل کے دو ٹکڑے یا پر پھیلائے پرندوں کے دو جھنڈ ہوں، اور وہ دونوں اپنے اصحاب (ان کے پڑھنے اور ان پر عمل کرنے والوں) کے لئے حجت قائم کریں گے۔
قرآن اور تلاوت ِ قرآن کی یہ ساری خصوصیات وامتیازات، شمائل وخصائل اور برکات وفضائل اسی وقت ہمارے حق میں (مفید) ہو سکتے ہیں جب ہم قرآن کو غور وفکر، سجھ بوجھ اور فہم وادراک کے ساتھ پڑھیں اس لئے کہ عمل سے پہلے فہم وعقل ضروری ہے، بغیر سمجھے عمل کا تصور بے معنی ہے، قرآن کے صوتی اعجاز، لفظی فصاحت وبلاغت، فنی محاسن اور امعان ومفاہیم کی پہناٹیوں کے ادراک کے لئے اس میں غوطہ زنی کرنا،ٹھہر کر اس کے الفاظ ومعانی پر غور کرنا اور قرآن کے صحیح مطلب ومراد تک پہنچنے کی کوشش کرنا ضروری ہے تب ہی قرآن کی حقیقی عظمت کو ہم محسوس کر سکتے اور عمل کے لئے آمادہ وکوشاں ہو سکتے ہیں؛ ایسے عملِ (صالح) کے لئے جس پر نجات کا دار ومدار ہے:
 ”ربّ اوزعني ان اشکر نعمتک التي انعمت علي وعلی والدي وان اعمل صالحاً ترضاہ وادخلني برحمتک في عبادک الصالحین“
اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے، مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کرلے۔
این دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد



ليست هناك تعليقات: