السبت، أكتوبر 06، 2012

ہماری دانائی ہمیں عظمت رفتہ دلا سکتی ہے


رحمت کلیم امواوی
 rahmatkalim91@gmail.com

دور جدید میں قوموں کی زندگی میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ یہ اقوام و ملل کیلئے غذا اور ہوا کی حیثیت اختیار کر گئی ہے یہ ایک سیل بیکراں ہے جو متعد دصورتوں اور متنوع شکلوںمیں ہر طرف امڈا چلا آرہا ہے ریڈیو،ٹی وی،اخبارات اور ہر طرح کا لٹریچر گھڑوں میں ،دوکانوں میں اور سفر و حضر میں ہر جگہ موجود ہے ۔در اصل ذرائع ابلاغ دو دھاری تلوار ہے جس سے خیر وبھلائی کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے اور برائی و شر کو بھی۔
                                لیکن آج کا میڈیا بدقسمتی سے یہودیوں کے قبضے میں ہے اور یہودیوں کا نشانہ بہر حال اسلام اور مسلمان رہا ہے اور رہیگا ۔آج ا سلام اور مسلمانوں کی جس طرح گھیرابندی ہورہی ہے اور انہیں جس طرح مطعون کیا جا رہا ہے اس میں معاندین اسلام نے میڈیا ہی کو اپنا ہتھیار بنایا ہے ،مسلمان اس صورت حال سے بے حد مضطرب و پریشان ہیں اور بعض اوقات غیض و غضب کا پیکر بن کر سامنے آتے رہتے ہیں ۔لیکن پھر بھی مغربی میڈیا منصوبوں کو پورا کرنے کیلئے حدود سے تجاوز کر چکا ہے اور پھر انہوں نے علم و دانش کو پامال کرنا شروع کر دیا ہے اور اسکا نام استشراق رکھ رکھاہے ۔جب آپ اسکامطالعہ کرینگے تو معلوم ہوگا کہ جھوٹ ، مکر وفریب ،غلط تعبیرات ،ادھوری سچائی اور ناقص اطلاعات اس منصوبے کے عناصر ترکیبی میں شامل ہیں ۔اسلام اور مسلمانوں سے اس عناد کارشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ بعثت نبوی ﷺ سے اب تک کا تاریخی فاصلہ ہے،لہذایہود ہمیشہ اسلام کے خلاف بر سر پیکار رہے ہیں اور محمدﷺ کی ذات گرامی اور قرآن کو نشانے پر رکھاہے اور ہمیشہ سے زہر افشانی کرتے آرہے ہیں جیسا کہ شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ
                                                           ستیزہ کار رہا ہے اجل سے تا امروز                    چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
اور آج بھی مغربی میڈیا جب چاہتاہے کوئی نئی اصطلاح اور نیا شوشہ چھوڑ یتا ہے ۔دنیا کے بہترین رسائل جو مغربی ممالک سے شائع کرکے دنیا میں پھیلاے جاتے ہیں ان رسائل میں اکثر اوقات ایک خاص نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے جو مغربی دنیا کے مفادات کے عین مطابق ہو ا کرتا ہے۔علاوہ ازیں الیکٹرانک میڈیا بھی ہمیشہ انہیں کے مفاد میں باتیں کرتا ہے چاہے وہ BBC,CNN,SKY NEWS,WASINGTONPOST,جیسے ادارے کیوں نہ ہوں سارے کا سارامغرب کے کنٹرول میں ہے اور ان سب کے کوریج(coverege)بڑی حد تک اسلام مخالف ہے اور انکی جانب سے کی جانے والی زہر افشانی اسلام کے راہ میں روکاوٹ کا باعث بنتی ہے جبکہ آج مغرب میں بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جنکا یہ ماننا ہے کہ گیارہ ستمبر1 200کو واسنگٹن اور نیویارک پردہشت گردانہ حملوں کی سازش خو دمغرب نے کی تھی تاکہ اسلام کے خلاف نئے صلیبی جنگ کا آغاز ہوسکے۔جبکہ میڈیا والوں نے سوائے القائدہ ،طالبان اور دیگر مسلم تنظیموں کے علاوہ کسی دوسرے کی بات کرتے ہی نہی تھے ۔ اسکے علاوہ اگر ہم د وسری میڈیا رپورٹینگ کی بات کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے متعصبانہ رپورٹوں کا ایک انبار لگاہوا ہے چونکہ مغربی میڈیا یہودیوں کے کنٹرول میں ہے اس لئے یہ توقع کرنا فضول ہے کہ اس میں مثبت انداز میں مسلم نمائندگی بھی ہوگی ۔لیکن میڈیا میں غیرمتعصب صحافیوں کی موجودگی سے انکار نہی کیا جاسکتا ہے گرچہ انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔بیشتر ایسے ہیں جو اسلام مخالف ذہنیت کے تابع ہیںاس لیے انکی مسلم رپورٹنگ میں فطری طور پر اسلام مخالفت کی جھلک پائی جاتی ہے۔مثال کے طور پر آپ دو رپورٹ ملاحظہ فرمائیں جس سے آپ کو اسکا بخوبی اندازہ ہوجائیگا کہ کس طرح اسلام مخالف رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں ۔مشہور صحافی نیل بورٹیز(Neal bortez)نے ایک رپورٹ پیش کی جس کا ہیڈنگ تھا کہ (روزہ رکھنے والے مسلمان کاکروچ ہیں)اس رپورٹ میں اس نے یہ واضح کیا کہ میں مسلمانوں سے صرف اس لیے نفرت کرتا ہوں کہ وہ روزہ رکھتے ہیں یعنی وہ دن میں کھانا  نہیں کھاتے اور رات میں کھاتے ہیں جو کہ کاکروچ کی فطرت ہے۔دوسری رپورٹ میں یہ بتایا گیا تھا کہ براک حسین اوباما مسلمان معلوم پڑتے ہیں کیونکہ اسکے نام میں حسین لگا ہوا ہے لہذا انکی وفاداری پر شک ہے یہ کوئی ایک دو رپورٹ اور بیانات ہی  نہیں ہے بلکہ بے شمار رپورٹوں کا انبار زینت اخبار بن کر منظر عام پر آچکا ہے اور مسلسل آبھی رہا ہے اس سلسلے میں ایک سروے بھی ملاحظہ فرمائیں،برطانوی میڈیا کے رجحانات کا جائزہ لینے والے ماہرین نے صرف ایک ہفتہ کے اخباری کوریج کے اندر یہ پایا تھا کہ ایک ہفتے کی مدت میں مختلف برطانوی اخبارات کے اندر اسلام اور مسلمان کے تعلق سے جو 352خبریں یا مقالات شائع ہوے تھے ان میں 91%اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی رویہ کے حامل تھے اور 19اخبارات کا جائزہ سے یہ پتا چلا کہ12اخبارات کے اندر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں شائع ہونے والے مواد مکمل طور پر منفی رویہ کے حامل تھے اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیاہے کہ ایک ہفتہ کے دوران عوامی ملکیت والے چھوٹے اخبارات کے 96%کوریج اور بڑے و مستحکم اخبارات کے 89%کوریج اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی تھے۔
قارئین کرام:  مذکورہ بالا بیانات سے یہ حقیقت واشگاف ہوجاتی ہے کہ آج میڈیا پوری طرح سے اسلام مخالف سرگرم ہے اور نت نئے ہربے اپنا کر اسلامی شبیہ کو بگاڑنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے،کبھی ہادی عالم محمد ﷺکا کارٹون بنا کر مسلمانوں کے جذبات کو جھنجھوڑا جاتا ہے تو کبھی جوتے اور بنیان پر اللہ محمد لکھ کر کے مسلمانوں کے غیرت کا امتحان لیا جاتا ہے تو کبھی تاجدار بطحی کی ویڈیو بنا کر اسلام کے صاف و شفاف چہرے کو داغدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے توکبھی فٹبال پر لا الہ الا اللہ لکھا جاتا ہے تو کبھی قرآن کے نسخے کو نظر آتش کیا جاتا ہے تو کبھی اسلامی حدود وقصاص کو ظلم سے تعبیر کرکے اسلامی تعلیمات کو کمزور دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔چونکہ مغرب کا مقصد وجود اسلام مخالف بن کر رہ گیا ہے جسکی وجہ سے اسلام کے خلاف بیان جاری کرتے رہتے ہیں اور بہتان تراشی کے ذریعے اسلام کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ                                                                      کتنا ہے بدنصیب میرا دشمن عروج   
                                                                                                                نیچے گڑانا چاہا تو اوپر اٹھا دیا
                                مغربی میڈیا جتنا اسلام کے خلاف زہر اگل رہا ہے اسلام اتنا ہی صحت مند ترقی کر رہا ہے نائن الیون 9/11کا الزام جتنی جلدی میڈیا نے مسلمانوں کے سر باندھا تو امریکہ میں اتنی ہی برق رفتاری سے اسلام پھیلنے لگا اور ایسا ہو بھی توکیو ں نا کیونکہ اسلام کی فطرت میں قدرت نےاور اسلامی تعلیمات کے اندر ایسی کشش اور مسحور کرنے والی روشنی ہے کہ ایک انسان جب ایک مرتبہ اسکی روشنی سے فیضیاب ہوجاے تو دنیا کی ساری چیزیں اسکے سامنے ہیچ معلوم ہوتی ہے۔لیکن ایک دوسرا سوال ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ آج قدرت کے دیے ہوے تمام بیش بہا وسائل کے باوجود عالم اسلام اس دور میں ایک متبادل اور موئثر و طاقتور اور عصری معیارات کے مطابق میڈیا کو جنم کیوں نہ دے سکا ۔کیا وجہ ہے کہ آج ہندوستان جیسے ملک میں بھی مسلمان اپنی بات کہنے اور دوسروں تک پہونچانے میں اتنے کامیاب نہی ہیں جتنا کہ ہونا چاہیے ۔اورمسلمانوں کے آج جو ٹی وی چینل ہیں بھی تو انہیں ایک خاص قسم کے مناظرہ بازی کے لیے وقف کر رکھا ہے ۔مسلمانوں کے مسائل ،انکی ضرورتوں اور انکی کامیابیوں کو ان چینلوں میں کوئی جگہ  نہیں دی جاتی ۔کیا وجہ ہے کہ مسلمان دنیا بھر سے شکایتیں کرتا ہے لیکن اپنی نئی نسل کو انگریزی اور دوسری زبان کی میڈیا میں بڑی تعداد میں نہیں بھیجتے ۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک ہم میڈیا کے قریب نہی جائینگے اور میڈیا سے قریب ہونے کی کوشش نہی کرینگے اس وقت تک ہمارے مسائل اپنی جگہ بنے رہینگے اور اسکے لیے اپنے آپ کو اقلیت میں ہونے کا بہانا بنانا یہ ہماری بزدلی کے علاوہ اور کچھ نہی ہے۔
                                آج ضرورت ہے کہ ہم میڈیا کا جواب میڈیا ہی سے دینے کی کوشش کریں چونکہ سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی نے ہمیں بھی ترقی کا موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اسکی مدد سے اپنا کام کریں اور اسکی مد دسے پوری دنیا میں اسلامی تعلیمات کو عام کریں اور میڈیا کے ذریعے اسلام کی حقیقت کو پیش کریں تاکہ اہل مغرب ناطقہ سر بہ گریباں ہوجاے اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاے کہ یہ آلہ جسے ہم نے اسلام کے خلاف کام کرنے کیلے بنایا تھا آج اسی کی مدد سے اسلام پھیلا یا جانے لگا ہے۔بس ضرورت ہے کہ ہم جوش و جذبہ کی جگہ عقل کو دخل دیں اور بیدار مغزی کے عالم میں پورے دانشمندی کا استعمال کریں تو پھر یقینا کل ہماری صبح اور مخالفین و معاندین اسلام کی شام ہوگی۔

ليست هناك تعليقات: