الخميس، أكتوبر 18، 2012

سیرت طیبہ کی ایک جھلک


رسول اللہ صلى الله عليه وسلم مکہ کی دھرتی پرقریش کے خاندان بنوہاشم میں9 ربیع الاول مطابق 22 اپریل571ءعام الفیل کو پیر کے دن صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے ، ولادت سے پہلے والد عبداللہ کا انتقال ہوچکا تھا ، ماں آمنہ نے دودھ پلایا، اس کے بعد ابولہب کی لونڈی ثویبہ پھر حلیمہ سعدیہ نےدودھ پلایا ...آپ حلیمہ کے ہاں چارسال تک رہے اسی بیچ سینہ چاک کئے جانے کا واقعہ پیش آیا،6 سال کے ہوئے تو مقام ابواء میں والدہ کا انتقال ہوگیا،آٹھ سال کے ہوئے تو دادا عبدالمطلب بھی چل بسے ،چچا ابوطالب کی کفالت میں آئے تو ان کی مالی حالت ٹھیک نہ تھی اس لیے چھوٹی عمرمیں بکریاں چرائیں ،کبھی بت پرستی نہ کی ، کبھی شراب نہ پی ، کبھی لغو کام میں مشغول نہ ہوئے ، بیت اللہ کی تعمیرکے وقت جب نزاع شروع ہوا تو اپنی عقل مندی سے ایسا فیصلہ کیا کہ سب راضی ہوگئے ، فلاحی کاموں سے دلچسپی لی اورحلف الفضول قائم کیا، آپ نے قریش کی مالدار ترین خاتون خدیجہ کے مال میں تجارت بھی کی اور25 سال کی عمرمیں خدیجہ سے آپ کی شادی بھی ہوگئی ۔ آپ اس قدر اعلی اخلاق کے نمونہ تھے کہ لوگوں نے آپ کو صادق اورامین کا لقب دے رکھا تھا ۔
چالیس سال کے ہوئے تو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا، تین سال تک چپکے سے دعوت دیتے رہے اورلوگ اسلام قبول کرتے رہے، نبوت کے چوتھے سال آپ نے دعوت کا اعلان کیا کہ یا ایھالناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا کہ لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ لو کامیاب ہوجاوگے یہ سن کراپنے بیگانے ہوگئے، پورا مکہ دشمن ہوگیا، صادق وامین کہنے والے جادوگراوردیوانہ کہنے لگے ، آپ پر ایمان لانے والوں کو جان لیوا اذیتیں دی گئیں ، بالآخر سن 5نبوت میں کچھ لوگوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی ، نبوت کے چھٹے سال عمراورحمزہ رضي الله عنهما نے اسلام قبول کیا توکچھ جان میں جان آئی لیکن پھرنبوت کے ساتویں سال ہی تین سال کے لیے بنوہاشم سمیت آپ کو اورآپ کے ماننے والوں کو ابوطالب کی گھاٹی میں قید کردیا گیا،یہاں بھوک کا یہ عالم تھا کہ درختوں کے پتے چبانے کی نوبت آگئی، نبوت کے دسویں سال طائف کا سفر کیا تو وہاں کے لوگوں نے آپ پر پتھر برسایا، نبوت كے گیارہویں اوربارھویں سال مدینہ ہجرت کا راستہ ہموار ہوا، اسی بیچ آپ کو معراج کرایا گیا اورپانچ وقت کی نمازیں فرض ہوئیں، نبوت کے تیرہویں سال مدینہ کی طرف ہجرت کی ، مشرکین نے مدینہ میں بھی سکھ کا سانس نہ لینے دیا،اوردس سالہ مدنی دورمیں ستائس غزوات اورسریے لڑنے پڑے ،خوداپنی زندگی میںسترہ مرتبہ دشمن کے جان لیوا حملوںکا سامنا کیا ، ہروقت دشمن کے حملہ کا خوف لگارہتا ، ہجرت کے چھٹے سال جب حدیبیہ کی صلح ہوئی تومسلمان چودہ سوکی تعدادمیں تھے، صلح کے بعداسلام کا پیغام شاہی درباروں تک پہنچنا شروع ہوا، آپ نے وقت کے بادشاہوں تک سفیر بھیجے اوران کو اسلام کی دوعوت دی ،جن میں سے کتنے لوگوں نے اسلام قبول کیا، ہجرت کے آٹھویں سال دس ہزارکی تعداد میں مسلمان مکہ میں داخل ہوئے اورمکہ جہاں سے آپ کو نکال دیا گیا تھا آپ کے قابو میں آگیا، اکیس سال کے دشمن آپ کے قبضہ میں تھے لیکن سب کی عام معافی کا اعلان کردیا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہجرت کے دسویں سال جب آپ نے حج کیا تو ایک لاکھ چوالیس ہزارمسلمان آپ کے ساتھ حج میں شامل تھے ۔ ہجرت کے گیارہویں سال 63 سال کی عمر میں بارہ ربیع الاول کو سموار کے دن دنیا سے کوچ کرگئے ۔ اللھم صل وسلم وبارک علیہ 

ليست هناك تعليقات: