صفات عالم محمد زبیر تیمی
ابھی ہم حج کے ایام سے گذررہے ہیں ،اور عازمین حج کے قافلے دنیا کے کونے کونے سے بیت اللہ کی طرف رواں دواں ہیں ،کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو حج کی سعادت نصیب ہورہی ہے، ایک ارب 60کروڑ سے زائدمسلمانوں میں سے تقریباً 20لاکھ مسلمان ہی ہر سال حج پرجانے کا شرف حاصل کرپاتے ہیں ، ہرمسلمان کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ اسے ضیوف الرحمن میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہو، اسے طواف کعبہ ، صفا ومروہ کی سعی، وقوف عرفہ، اوررمی جمرات کا موقع ملے، وہ ان لوگوںمیں شامل ہوجائے جن کی عرفات میں گردنیں آزاد ہوتی ہیں، وہ ان لوگوں جیسے بن جائے جو گناہوں سے پاک وصاف ہوکر گھر لوٹتے ہیں۔ وہ اللہ جو اپنے بندوں سے اتنا پیارکرتا ہے جتنا ایک ماںبھی اپنے شیرخواربچے سے پیارنہیں کرتی، آخراس رحیم وکریم ذات کے تئیں یہ کیسے خیال کیا جاسکتا تھا کہ وہ ان بندوں کو حج کے ثواب سے محروم رکھتا جو مالی کمزوری کے باعث حج کے لیے نہ جاسکتے ہیں۔چنانچہ اللہ سبحانہ تعالی نے ایسے ہی نیک بندوں کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے انہیں کچھ ایسے اعمال دئیے جن کی وہ بجاآوری کرکے اپنے وطن میں ہوتے ہوئے حج کا اجروثواب حاصل کرسکتے ہیں۔یہ کوئی نئے اعمال نہیں ہیں بلکہ وہی عبادات ہیں جن کوہم میں سے اکثر لوگ شب وروز کی زندگی میں انجام دیتے ہیں، البتہ ان کی انجام دہی کے وقت ذہن ودماغ میں ان کے بے پناہ اجروثواب کااحساس پیدا نہ ہونے کے باعث ہم ان کا کماحقہ اہتمام نہیں کرپاتے ،لیکن جب سال میں خیرکے مواسم آتے ہیں تو ان میں اپنے اندرشعوری ایمان پیداکرنے اوران کاخیروخوبی سے استقبال کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ دلوںکا تزکیہ ہوسکے ،گناہوں سے سچی توبہ کرسکیں اور نیکیوں سے دامن مرادبھرسکیں،آپ جانتے ہیں کہ ابھی ہمارے سروں پر ذو الحجہ کامہینہ سایہ فگن ہے،جس کا پہلا عشرہ سال کے سارے دنوںمیں علی الاطلاق سب سے افضل اورسب سے عظیم ہے،جس میں نیک اعمال اللہ سبحانہ تعالی کو اس قدرمحبوب ہیں کہ اللہ کی راہ میں جہادبھی ان دنوں کی نیکیوں کے ہم مثل نہیں سوائے اس مجاہد کہ جو جان ومال لے کرنکلا اورشہادت سے ہمکنارہوا (بخاری)، اللہ پاک نے جس کی عظمت کی قسم کھائی ہے اورپیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’افضل ایام الدنیا‘ ’اعظم الایام‘ ’احب الی اللہ ‘ کے الفاظ میں اس کے فضائل بیان کئے ہیں ،یہاں تک کہ علمائے اسلام کے درمیان یہ بحث چھڑی کہ عشرہ ذی الحجہ افضل ہے یا رمضان کا آخری عشرہ ؟ ان ایام میں افضل کون ہیں ان کی تحدیدبروقت ہمارا مدعا نہیں ہم تومحض یہ احساس پیدا کرناچاہتے ہیں کہ ابھی ہم جن دنوں سے گذر رہے ہیں وہ بڑے افضل ایام ہیں
لیکن افسوس کہ عشرہ ذی
الحجہ کے تئیں ہمارے معاشرے میں اب تک صحیح شعورپیدا نہ ہوسکا ہے ، اور ہماری
اکثریت ان دنوں سے خاطرخواہ استفادہ نہیں کرپاتی ہے،جس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں
آتی ہے کہ اللہ پاک نے ان دنوںمیں عام لوگوں پر کوئی خاص عبادتیں فرض نہیں کی ہیں
بلکہ بندے کے اختیارمیں چھوڑدیاہے کہ مختلف اعمال صالحہ کی انجام دہی کرکے ان ایام
کے برکات سے مستفیدہوں،اوردوسری بنیادی وجہ ائمہ مساجد،خطبائے کرام اور داعیان
عظام کی ان دنوں کے تئیں بے توجہی ہے کہ وہ حج وقربانی کے فلسفہ اورمسائل پر گفتگو
تو کرتے ہیں تاہم ان ایام کے فضائل پر لب کشائی نہیں کرتے ۔مثال کے طورپر ماہ
رمضان کولیجئے کہ ہمارا ذہن اسکے استقبال کے لیے اس لیے تیار ہوتاہے کہ مسلم
معاشرہ اس ماہ مبارک کے تئیں باشعور ہے ، خطباء ومقررین بھی عوام کے سامنے ان ایام
کے فضائل بیان کرتے ہیں اورخوداللہ پاک نے ان دنوں میں روزے فرض کئے ہیں جن کی وجہ
سے روحانیت کا ماحول خودبخود بن جاتاہے۔ آج ضرورت ہے کہ اس طرح کے مواسم خیرجو
ہماری بے توجہی کا شکار ہیں انہیں مسلم معاشرے میں عام کیا جائے،اس مناسبت سے خاص
تربیتی کورسیز رکھے جائیں، لوگوں کے سامنے عشرہ ذی الحجہ کے فضائل بیان کئے
جائیں،معاشرے میں عملی بیداری لانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے، ایک دوسرے کو ان
دنوںکا خاص اہتمام کرنے کی نصیحت کی جائے، ہرآدمی اپنے اپنے گھر میں بچوں اوراہل
خانہ کو ان دنوں کی اہمیت بتائے اورایمانی تربیت کا روحانی ماحول بنائے تاکہ سنت کا
احیاءہو اوربدعت کا استیصال ہوسکے ۔
ہاں تو اگر ہمیں حج پر
جانے کی سعادت حاصل نہ ہوسکی ہے تو آئیے ایسے افضل ایام میں چند آسان عبادات کی
جانکاری حاصل کرتے ہیں جن کوانجام دے کر ہم سفر کئے بغیر، وقت اورمحنت صرف کئے
بغیرحج کا ثواب حاصل کر سکتے ہیں، تولیجئے ذیل کے سطورمیں ایسے ہی چنداعمال کی
نشاندہی کی جارہی ہے، البتہ خیال رہے کہ ان اعمال کی بجاآوری سے حج کاثواب ضرورملے
گا تاہم فریضہ حج ساقط نہیں ہوسکتا:
` اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے باجماعت نمازفجر ادافرمائی، پھربیٹھ کر ذکرمیں
لگارہا یہاں تک کہ آفتاب طلوع ہوگیا، پھردو رکعت نمازاداکرلی تو اسے ایک حج اور
عمرے کا مکمل ثواب ملے گا “۔ (رواہ الترمذی وحسنہ الالبانی فی الصحیحة 3403)
`اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: ”جوشخص فرض نماز کی باجماعت ادائیگی کے لیے چل کرگیایہ حج کے
جیسے ہے “۔ (ابوداود وحسنہ الالبانی فی صحیح ابی داود 567)
خواتین بھی
مردوں کونمازباجماعت کی ترغیب دلاکر اس اجر کی حقداربن سکتی ہیں کہ خیرکی رہنمائی
کرنے والے کو انجام دینے والے کا سااجر ملتا ہے ۔
` فقرائے مہاجرین نے
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوکر عرض کیاکہ اہل ثروت حج وعمرہ
کرتے ہیں اورہم حج وعمرہ نہیں کرسکتے جس سے وہ اجروثواب میں ہم پر فوقیت لے جاتے
ہیں،آپ نے حل بتایا کہ جوشخص ہرنماز کے بعد 33مرتبہ سبحان اللہ 33مرتبہ الحمدللہ
اور33مرتبہ اللہ اکبرکہہ لے اسے حج کرنے والے کا ثواب ملے گا “۔
(اخرجہ الالبانی فی صحیح الجامع 2626)
`اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: ”جوشخص مسجد گیاوہ کوئی اچھی بات سیکھنا چاہتا یا سکھانے کا
ارادہ رکھتا ہے تواسے ایک مکمل حج کرنے والے حاجی کا ثواب ملتا ہے “۔ (رواہ
الطبرانی فی الکبیر وھوفی صحیح الترغیب والترھیب 86وقال عنہ الالبانی :حسن صحیح )
یہ ہیں چند ایسے اعمال
جن کوانجام دے کر ایک آدمی اہل خانہ کے بیچ وطن میں رہتے ہوئے حج کا ثواب حاصل
کرسکتا ہے، توپھر دیرکس بات کی، عظمت وفضیلت والے ان ایام کوغنیمت جانیں اور ان
میں اپنے وطن میں رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ حج وعمرہ کا اجروثواب حاصل کرنے کی
کوشش کریں کہ
یہ بزم مے ہے یاں
کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جوبڑھ کر خوداٹھالے
ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق