سیف الرحمن حفظ
الرحمن
بلاشبہ
دین اسلام کے اولین ستون، مضبوط وپختہ اخلاقی بنیاد پر قائم ہیں، بلکہ دعوت محمدی
ﷺ کا بلند ترین مقصد اسی بنیاد کی تکمیل کو قرار دیا گیا ہے، اور آپ کی بعثت کی
غایت بھی اسی اساس کو درجہ کمال اور منتہائے تمام تک پہنچانا تھا، آپ ﷺ کا فرمان
ہے: ”انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“(۱)کہ میری بعثت، مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے ہوئی ہے۔ خود اللہ تعالی
نے بھی نبی کریم کو خلق عظیم سے متصف کیا ہے، اللہ فرماتا ہے: ”وانک لعلی خلق
عظیم“ (۲)آپ بلند اخلاق پر
(قائم) ہیں۔
اسلام
اسی لئے آیا کہ لوگوں کو ظلم وستم اور قہرو جور سے نکال کر سعادت وصالحیت عطا کرے،
اس اسلام کا متبع وفرماں بردار مسلمان ایسا حسّاس اور لطیف ذوق کا حامل انسان ہوتا
ہے جو تمام لوگوں کے احساسات، جذبات اور طبعی خیالات کا خیال رکھتا ہے ، وہ دقیقہ
رس شعور واثر پزیر حس کا حامل زندہ دل انسان ہوتا ہے، اس کے اندر جذباتِ انسانی کے
احترام اور فطری احساسات کی قدر کی صفت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے، اور اس کی ان
تمام صفات کا اثر اس کے سلوک وتصرفات پر نمایاں ہوتا ہے۔
اسلام
نے بہت سے ایسے اصول ومبادی وضع کئے ہیںجن کو عمل میں لا کر اور جن کی پاسداری کر
کے انسانی جذبات کی حفاظت ورعایت اور فطری احساسات کی صیانت ممکن ہو سکتی ہے،
اسلام کے وضع کردہ ان اصول ومبادی میں سے چند اہم اصول ومبادی قارئین کے نظر نواز
ہیں:
۱۔ آداب گفتگو کی پاسداری: کلام
مقدس میں اللہ رب العالمین نے نبی اکرم ﷺ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ اپنی گفتگو
ومعاملات میں رفق ونرمی کو بحال رکھیں؛ ”فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو کنت فظا
غلیؓ القلب لا نفضوا من حولک فاعف عنھم واستغفرلھم وشاورھم فى الامر فا ذا عزمت
فتوکل علی اللہ ان اللہ یحب المتوکلین“ (۳)
اللہ کی رحمت کے باعث آپ ان پر رحم دل ہیں، اگر آپ بدزبان اور سخت دل
ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لئے استغفار
کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہوجائے تو اللہ پر
بھروسہ کریں، بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے،
اللہ
نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی نرم کلامی، نرم خوئی، نرم دلی کا حکم دیا ہے:
”وقولوا للناس قولا حسنا“(۴) لوگوں سے اچھی بات کہیں۔ آپ ﷺ نے احادیث کے اندر بھی سخت کلامی،
دشنام طرازی، قساوت قلبی، افتراءپردازی، دروغ گوئی اور طعن وتشنیع کو معیوب قرار
دیا ہے، اور ان سے متصف انسان سے ایمان کی نفی کی ہے: ”لیس المومن بالطعّان ولا
اللعّان ولا الفاحش ولا البذی “(۵) لعن طعن کرنے والے، فحش گو اور بذی اللسان سطحی زبان انسان مسلمان
نہیں ہو سکتے۔ نبی ہادی ﷺ نے اپنی بیشتر احادیث میں انسانی جذبات کے احترام کی
خوشنما مثالیں پیش کی ہیں، احادیث وسیر کی کتابیں ان درخشاں مثالوں سے اٹی پڑی
ہیں؛ بعض قارئین کے نام ہیں:
حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: میرے اوپر
امتوں اور قوموں کو پیش کیا گیا، میں نے نبی ﷺ کو دیکھا جن کے ساتھ ایک جماعت تھی،
ایسے نبی کو بھی دیکھا جس کے ساتھ صرف ایک اور دو آدمی تھے۔ کچھ ایسے بھی نبی تھے
جن کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا، اسی درمیان ایک بڑی جماعت نظر آئی، میں نے سمجھا کہ
یہ میری امت ہے، لیکن مجھ سے یہ کہا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور انکی امت
ہیں، آپ افق میں دیکھئے ، میں افق کی طرف نظر اٹھایا تو ایک بڑی جماعت وہاں نظر
آئی، پھر کہا گیا: آپ دوسرے افق کی طرف دیکھئے، میں نے دیکھا کہ ایک سواد اعظم ہے،
کہا گیا: کہ یہی آپ کی امت ہے، اس سواد اعظم کے ساتھ ستر ہزار ایسے لوگ ہیں جو
بغیر حساب وکتاب اور سزا وعذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ اتنا فرمانے کے بعد آپ ﷺ
اپنی نششت سے اٹھ کر گھر میں داخل ہو گئے، صحابہ کرام آپس میں گفتگو کرنے لگے کہ
یہ بغیر حساب وعذاب کے جنت میں داخل ہونے والے کون ہیں؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ: شاید
اللہ کے رسول کے اصحاب ہیں، کچھ نے کہا: شاید یہ وہ لوگ ہیں جو عہد اسلام میں پیدا
ہوئے اور اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا اور دوسری چیزیں بھی انہوں نے ذکر کیا، پھر آپ
کی آمد ہوئی، آپ نے پوچھا: کس چیز کی بحث ہو رہی ہے؟ صحابہ نے بتایا پھر آپ گویا
ہوئے:” ھم الذین لا یسترقون ولا یتطیّرون وعلی ربھم یتوکّلون“ وہ نہ تو جھاڑ پھونک
کرواتے اور کرتے ہیں، نہ فال گیری اور بدشگونی کرتے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے
ہیں۔ یہ سن کر عکاشہ بن محصن کھڑے ہو گئے اور کہا: آپ دعا کر دیجئے کہ اللہ مجھے
بھی انہیں لوگوں میں شامل کردے۔ آپ نے فرنایا: تم ان میں سے ہو۔ پھر ایک دوسرا
آدمی کھڑا ہوا اور دعا کی درخواست کی لیکن آپ نے جواب دیا: عکاشہ تم پر سبقت لے
گیا۔(۶)
قاضی
عیاض بیان فرماتے ہیں: سوال کرنے والا یہ دوسرا آدمی دخول جنت کا مستحق نہیں
تھااور نہ ہی اہلِ جنت کی صفت ہی اس میں تھی، بر خلاف عکاشہ کے۔ ایک دوسرا قول یہ
ہے کہ: وہ منافق شخص تھا، اسی لئے نبی کریم ﷺ نے اس کی طلب دعا کو محتمل اسلوب میں
رد کر دیا اور آپ نے صراحت کے ساتھ اس کے مطالبہ کی تردید وانکار مناسب نہیں
سمجھاکہ تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو، ایسا اس لئے کہ آپ اخلاق کریمہ اور حسن
معاشرت کے اعلیٰ مدارج پر فائز تھے اور تمام لوگوں کے جذبات کی قدر اور احساسات کا
احترام کرتے تھے۔(۷) چناں چہ نبی کریم ﷺ اس
شخص کے جذبات کی رعایت کی جس نے اہل جنت میں شمولیت کی دعاکی درخواست کی تھی اور
آپ نے اس طرح اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور اس کے احساسات کو مجروح کرنے سے
احتراز برتا۔
ام
المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک شخص نے آپ ﷺ کے پاس آنے
کی اجازت طلب کی، جب آپ نے اس کو دیکھا تو فرمایا: ”کتنا برا ہے اس قبیلہ کا بھائی
اور بیٹا“ پھر جب وہ آپ کے ہمراہ بیٹھ گیا تو آپ اس کے ساتھ خوش روئی اور خوش
کلامی سے پیش آئے، جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ نے دریافت کیا: جب آپ نے اسے دیکھا
تو ایسی ایسی بات کہی، پھر آپ اس کے ساتھ ہنس کر خوش روئی وخوش گفتاری سے ملے، تو
آپ نے جواب دیا:”اللہ کے نزدیک قیامت کے دن منزلت کے اعتبار سے سب سے بڑا وہ ہوگا
جسے لوگوں نے اس کے شر سے بچنے کے لئے چھوڑ دیا ہو“(۸)
۲۔ خطا کار کے جذبات کو مجروح
نہ کرنا: بغیر غور وفکر اور سنجیدگی ومتانت کے فوراً ہی کسی پر حکم لگانا غیر
مناسب اور ناپسندیدہ عمل ہے، جس سے صاحب معاملہ کی اصلاح ہونے کے بجائے اس کی لغزش
کرنے اور دوسروں کو برا بھلا کہنے کا خدشہ مزید شدید ہو جاتا ہے۔ یہ طریقہ منہج
ربانی کے مخالف ہے جس نے دقیقہ رسی، سنجیدہ فہمی، متانت مزاجی اور بصیرت وتدبر کو
اپنانے کا حکم دیا ہے، نیز یہ اسلوب اسلام کے منہج کے بھی مخالف ہے کہ اسلام نے
عفو ودرگزر اور قبولِ معذرت کا حکم دیا ہے اور اسے عمل مستحسن قرار دیا ہے۔
سیرت
نبویہ میں اس کی کئی ایک درخشاں امثال موجود ہیں، جن سے عفو ودرگزر اور قبول عذر
ومعذرت کے سلسلے میں کامل رہنمائی ملتی ہے اور اصلاح کے اسلامی منہج واسلوب کا علم
ہوتا ہے۔
حضرت
علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے مجھے، حضرت زبیر کو اور
حضرت مقداد کو بھیجااور فرمایا: تم سب روضہ خاخ تک جاو، وہاں ایک عورت ملے گی جس
کے پاس ایک خط ہوگا، اس خط کو لے آؤ۔ چنانچہ ہم نکلے یہاں تک کہ روضہ خاخ تک
پہنچے، یہاں ہم نے اس نامہ بر عورت کو دیکھا اور اس سے کہا: خط نکالو! وہ بولی :
میرے پاس کوئی خط نہیں، ہم نے کہا : خط نکالو! ورنہ تمہارے کپڑے اترجائیں گے، تو
ہم نے اس کی چوٹی سے اس خط کو نکالا اور اس کو آپ کے حضور حاضر کیا،اس خط میں حاطب
بن ابی بلتعہ کی جانب سے مکہ کے مشرکین کو نبی ﷺ کے بعض معاملات کی خبر دی گئی
تھی، آپ نے حاطب سے دریافت کیا: یہ کیا معاملہ ہے حاطب؟ اس نے جواب دیا: میرے اوپر
آپ جلدی نہ کریںاے اللہ کے رسول! بلاشبہ میں ایک ایسا آدمی ہوں جو قریش سے جا ملا
تھا، میں اس کے نسب سے نہیں، آپ کے ساتھ جومہاجرین ہیں، مشرکین مکہ کے ساتھ ان کی
رشتہ داری اور نسبی قرابت داری ہے جس کی بنیاد پر وہ مشرکین ان مہاجرین کے افراد
خانہ اور مال وزر کی حمایت وحفاظت کرتے ہیں، اور چوں کہ قریش کی نسبت سے محروم ہوں
اس لئے میں نے چاہا کہ کوئی ایسا کام کر بیٹھوں جو اس کے لئے میری جانب سے احسان
کا درجہ رکھتا ہو تاکہ اس وجہ سے وہ میری قرابت داری کا بھی خیال رکھیں اور میرے
اموال واولاد کی بھی حمایت وصیانت کریں۔ آپ نے حاطب بن بلتعہ کے اس بیان کو سنا
اور فرمایا:اس نے سچ کہا، حضرت عمر گویا ہوئے:اے رسول اللہ مجھے اجازت دیجئے میں
اس کی گردن اڑا ڈالوں؟ آپ نے فرمایا: وہ غزوہ بدر میں شریک تھا، اور کیا تمہیں نہیں معلوم کہ
اللہ نے اہل بدر کی جاں فشانی، دین کی راہ میں انکی جانی ومالی قربانی، اور اللہ
ورسول کی مخلصانہ طاعت گزاری وفرماں برداری کو دیکھ کر انہیں یہ خوشخبری دی کہ: ” عملوا
ما شئتم فقد غفرت لکم“(۹) تم جو چاہو کرو، میں نے
تم سب کو معاف کر دیا، معصوم بنا دیا
یہ
رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر
مدعی کے واسطے دار ورسن کہاں
مذکورہ
واقعہ میں حاطب بن ابی بلتعہ سے یہ غلطی ضرور ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم مشرکین
مکہ کو نبی ﷺ کی مکہ آمد کی خبر دینے کی غیر مودبانہ کوشش کی لیکن اس سے ان کا
مقصود اللہ ورسول اللہ کے ساتھ خیانت وبدعہدی قطعاً نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ ہم
دیکھتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان کے ساتھ غیر مترقبہ سلوک کیا؛ ان کو برا بھلا نہیں کہا،
نہ ان کے جذبات کو جرح پہنچایا بلکہ انہیں ذرا بھی سخت ودرشت نہیں کہا، اسی پس
منظر میں اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی: ”لا تجد قوماً یومنون باللہ والیوم
الآخر یوادّون من حاد اللہ ورسولہ ولو کانوا آبائہم او ابنائہم او اخوانہم او
عشیرتہم اولئک کتب فا¸ قلوبہم الایمان وایدہم بروح منہ ویدخلہم جنّات تجرى من
تحتہا الانہار خالدین فیہا رضى اللہ عنہم ورضوا عنہ اولئک حزب اللہ الا ان حزب
اللہ ہم المفلحون“(10) یعنی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس
کے رسول کے ساتھ مخالفت کرنے والے نہیں پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا
ان کے بھائی یا ان کے کنبہ کے(عزیز) ہی کیوںنہ ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں
اللہ نے ایمان کو رکھ دیا، جن کی تائید اپنی روح سے کی، اور جنہیں ان جنتوں میں
داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ ان سے
راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں، یہ خدائی لشکر ہے، آگاہ رہو بیشک اللہ کا گروہ ہی
کامیاب ہے۔
فتح
مکہ کا واقعہ ہے؛ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اسلامی لشکروں میں سے ایک کے قائد
وکمانڈر تھے، جب مکہ میں داخل ہوئے اور باشندگان مکہ مشرکین وکفار کو دیکھا، تو ان
کی چشم تصور میں پرانی یادیں تازہ ہو کر پھرنے لگیں، انہیں یاد آیا کہ ان مشرکیں
مکہ نے کس طرح سے نبی ﷺ سے عداوت ودشمنی کیا تھا، کیسی کیسی اذیتیں آپ کو دی تھیں،
کیسے آپ پر سرزمین مکہ تنگ کر کے آپ کا جینا دوبھر کردیا تھا، ان کفار نے لوگوں کو
نبی کے پاس آنے سے بھی روک رکھا تھا، حضرت سعد کو یاد آیا حضرت سمیّہ کے ساتھ ان
کی بے رحمی، حضرت یاسر پر ان کا ظلم وتعدی، حضرت بلال پر ان کا قہر وجور، انہیں یاد
آیا حضرت خباب کا واقعہ کہ کس بے دردی اور سفاکیت وحیوانیت کے ساتھ ان مشرکین نے
انہیں دار ورسن پر چڑھایا اور محض قبول اسلام کی وجہ کر ان کی جان لے لی ان تمان
جرائم کی وجہ سے اور نبی ومتبعین نبی پر ان مظالم وتعدیات کے سبب وہ اس کے یقینا
مستحق تھے کہ مسلمان فتح مکہ کے موقع پر ان سے انتقام لیں، اپنے جذبات کو ٹھنڈک
پہنچائیں اور مشرکین کو ان کے کئے کا خوب بدلہ دیں انہیں انتقامی جذبات پر اور
پرانی یادوں کے احساسات سے مغلوب ہو کر حضرت سعد نے تلوار ہلاتے اور شمشیر کو بے
نیام کرتے ہوئے یہ تاریخی شعر پڑھا
الیوم
یوم الملحمة
الیوم
تستحل الحرمة
یعنی:
آج کا دن، روز انتقام ہے، آج تمام حدیں پار کر لی جائیں گی اور تمام حرمتوں کو
حلال کر لیا جائے گا۔
جب
قریش نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے اس انتقام انگیز اور جذبات سے لبریز تاریخی شعر
کو سنا تو گھبرا گئے، ان پر ان کی زندگی دوبھر سی ہونے لگی، ان کے منافق دل میں
خوف وہراس سما گیا، ان کے دل ودماغ پر یہ شعر بجلی بن کر گرا، ان کے دل ودماغ میں
یہ خدشہ یقین کی صورت اختیار کرنے لگا کہ یہ قائدِ اسلام ہمیں اپنے لشکر سمیت فنا
کے گھاٹ اتار دے گا، ایک عورت سہمی ہوئی آپ ﷺ کے پاس آئی اور حضرت سعد رضی اللہ
عنہ سے اپنی ہراسانی اور خوف وپریشانی کی شکایت کرنے لگی،اس عورت نے شکوہ کے کلمات
کو بڑے ہی دردناک اوردل موہ لینے والے انداز میں پیش کیا۔ آپﷺ کو اس پر ترس اور
رحم آگیا، اور آپﷺ کے دل میں یہ بات سما گئی کہ آپ اس کو بے مراد شکشتہ دل کر کے
نہیں لوٹائیں گے، ساتھ ہی آپﷺ نے حضرت سعد کو حکم دیا کہ علم اپنے بیٹے کے ہاتھ
میں تھما کر اس کے ہمراہ مکہ میں داخل ہو۔ وہ اپنے بیٹے کو پہلو بہ پہلو لے کر مکہ
میں داخل ہوئے۔ اس طرح سے قریش اور شکوہ گزار عورت کا خوف وہراس بھی ختم ہو گیا
اور حضرت سعد ؓ کی عزت ومرتبت بھی برقرار رہی۔(۱۱)
صحیح
بخاری کی روایت ہے، حضرت ابو ہریرہ ؓ راوی حدیث ہیں، فرماتے ہیں: ایک اعرابی
(دیہاتی) نے مسجد میں پیشاب کردیا، لوگ اس پر چراغ پا ہوگئے اور اس پر چڑھ دوڑے،
لیکن نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: ”دعوہ واریقوا علی بولہ سجلاً من مائ، فانما بعثتم
میسرین ولم تبعث معسرین“ اسے چھوڑ دو، پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو، یقینا تم
لوگوں کو آسانی (نرمی) کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے، تمہیں سختی برتنے والا بنا
کر نہیں بھیجا گیا ہے۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ وہ اس جاہل
دیہاتی کو چھوڑ دیں اور پیشاب مکمل کر لینے دیں، اور جب وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا
تو اس کے پیشاب پر پانی بہانے کا حکم دیا تاکہ گندگی صاف اور مسجد شفاف ہو جائے،
پھر آپ نے اس کو بلایا اور سنجیدگی کے ساتھ اس کو سمجھایا: ان ھذہ المساجد لا یصلح
فیہا شی من الاذی او القذر انما ہی للصلاة وقراءة القرآن“ (۲۱) کہ مساجد میں کسی طرح کی گندگی
اور تکلیف دہ چیز روا نہیں، یہ محض اللہ کی عبادت اور قرآن کی تلاوت کے لئے خاص
ہوتی ہیں۔
اسی
طرح کی ایک دوسری روایت حضرت معاویہ بن الحکم السلمی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:
دریں اثنا کہ میں آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا، ایک آدمی کو اچانک چھینک آگئی ،
میں نے کہا: ”یرحمک اللہ“، اس پر سارے لوگ میرے اوپر غرّانے لگے، میں نے کہا:
تمہاری مائیں تمہیں کھودیں، تم مجھے کیوں گھور گھور کر دیکھ رہے ہو؟ میری اس بات
پر وہ اپنے جانگوں پر ہاتھ مارنے لگے، جب میں نے دیکھا کہ وہ مجھے اس طریقہ سے چپ
کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا، چناں چہ جب نبی کریم ﷺ نماز مکمل کر چکے تو
آپ نے نہ مجھے ڈانٹا، نہ جھڑپا، نہ سخت سست کہا، میرے ماں باپ آپ پہ فدا ہوں، آپ
سے بہتر معلم ومربی میں نے نہ آپ سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ آپ کے بعد، آپ نے تو
صرف اتنا کہا: ان ہذہ الصلاة لا یصح فیہا شىء من کلام الناس، انما ہو التسبیح
والتکبیر وقراءة القرآن“(۳۱) نماز میں کسی طرح کی گفتگو درست نہیں، نماز سراپا تسبیح وتہلیل ،
تکبیر وتحمید اور تلاوت قرآن کا نام ہے۔
عمر
بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ”لا تظن بکلمة خرجت من اخیک المومن شراً وانت تجد
لہا فى الخیر محملاً“ اپنے مومن بھائی کی زبان سے نکلی ہوئی کسی بھی بات کو برا مت
جانو، اس میں خیر کا کوئی پہلو تمہیں ضرور ملے گا۔
امام
شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ بیمار ہوئے اور ان کے شناسا حضرات ان
کی عیادت کے لئے آئے تو ان میں سے ایک نے ان سے کہا: اللہ کرے آپ کی کمزوری
توانائی میں بدل جائے، اس پر آپ نے کہا: اگر میری کمزری توانائی اور طاقت وقوت میں
بدل جائے تو مجھے مار ڈالے گی، یہ سن کر اس آدمی نے کہا: بخدا میری مراد محض خیر
وبھلائی تھی، آپ نے جواب دیا: مجھے معلوم ہے کہ تم مجھے بظاہر گالی بھی دوگے تو
بباطن اس میں خیر نہاں ہوگا۔ یہی حقیقی اخوت ہے کہ اپنے تمام مومن بھائیوں کے ساتھ
حسن ظن رکھا جائے، حتی کہ ان معاملات میں بھی جن میں بظاہر خیر کا کوئی پہلو نظر
نہیں آتا۔
من
کان یرجو ان یسود عشیرة
فعلیہ
بالتقوی ولین الجانب
ویغض
طرفاً عن سائة من اسائ
ویحلم
عند جہل الصاحب
ترجمہ:
جو شخض کسی قبیلہ کا قائد وسردار بننا چاہتا ہے، اسے نرم خوئی ونرم کلامی اور تقوی
اپنانا چاہئے۔ برا سلوک کرنے والے سے اعراض اور درگزر کرنا چاہئے، اور نادان کی
نادانی وجہالت پر صبر وحلم کرنا چاہئے۔
گویا
خطا کار کی سرزنش اور محاسبہ سے پہلے سبب خطا کو ضرور سمجھنا چاہئے، اور اس کے لئے
درگزر کی راہ تلاشنی چاہئے تاکہ اس کے جذبات واحساسات کو ٹھیس نہ پہنچے اور اس کا
دل مجروح نہ ہو کہ اس کے غلطی میں پڑنے کا اندیشہ مزید شدید ہو جا ئے اور ایک غلطی
کئی ایک غلطی کا محرک ثابت ہو
سامح
اخاک ذا وافاک بالغلط
واترک
ھوی القلب لایرہیک بالشطط
فکم
صدیق و فىّ مخلص لبق
اضحی
عدوّا بما لا قاہ من فرط
فلیس
فى الناس معصوم سوی رسل
حماہم
اللہ من دوّامة السَّقَط
الست
ترجو من الرحمان مغفرة
یوم
الزّحام فسامح تنج من سخط
ترجمہ:
جب تیرے بھائی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو تم اس کو درگزر کر دو، خواہش نفس کے
پیچھے پر کر اس کو غیر مناسب دوہری سزائیں مت دو۔ کتنے ایسے وفادار، صفا شعار،
وراست باز اور مخلص دوست ہوتے ہیںجومحض شکستہ دلی اور جذبات واحساسات مجروح ہونے
کے سبب دشمن بن جاتے ہیں، لوگوں میں رسولوں کی ذات ہی خطاؤں اور لغزشوں سے معصوم
ومبرّا ہوتی ہیں، انہیں اللہ نے لغزشوں سے محفوظ کر رکھا ہے۔ کیا کل قیامت کے دن
اللہ سے آپ کو مغفرت کی امید نہیں ہے کہ آپ عفو ودرگزر کو اپنائیں اور روز محشر
غضب الٰہی اور سخط ربانی سے نجات پائیں۔
۳۔ نصح خیر خواہی کے آداب سے
واقفیت: مرد مومن کی یہ منفرد پہچان ہے کہ وہ اپنے مؤمن بھائی کے لئے مثل آئینہ
ہوتا ہے، اگر اس میں کوئی بھلائی دیکھتا تو اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس میں
اسے رغبت دلاتا اور اس کار خیر پر برقرار رہنے پر امادہ کرتا ہے، اور جب اس میں شر
کا کوئی عنصر پاتا ہے یا کسی طرح کی اخلاقی کمی اور فکری کجی محسوس کرتا ہے تو اس
کو دور کرنے کی (مخلصانہ) کوشش کرتا اور اصلاح حال کی راہ میں ہر ممکن قربانی پیش
کرتا ہے؛ اللہ کا فرمان ہے: ”والعصر ان الانسان لفى¸ خسر الا الذین آمنوا وعملوا
الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر“(۶۱)
زمانے کی قسم، بے شک انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان
لائے اور نیک کام کئے، اور باہم (ایمان وعمل صالح کی) نصیحت کی اور ایک درسرے کو
صبر کی تلقین کی۔
جس کو
نصیحت کی جاتی ہے، وہ شخص اپنی کمی کو دور کرنے اور اپنے نقص سے مبرّا ہونے کا
حاجت مند ہوتا ہے، لیکن نصیحت وخیر خواہی تبھی مفید ہوتی ہے جب جلوت وتنہائی میں
رازدارانہ طور پر کی جائے، ایسی صورت میں ہی نصیحت کارگر اور ثمر آور ثابت ہوتی
ہے، نصیحت کے اس اسلوب میں انسان شیطان کا (باہم عداوت پھیلانے اور تفریق ڈالنے
میں) مددگار بھی نہیں ہوتا، اس لئے کہ بھری بزم میں راز کی بات کہنے سے انسان
حوصلہ شکن وافسردہ دل ہوتا ہے، اس کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور اسے پشیمانی ہوتی
ہے اور اس سے شیطان کو خوشی ہوتی ہے، ایسا کرنے والا اپنے دل میں شیطان کے لئے
جگہیں بناتا ہے، خیر کے دروازے بند کرتا ہے، نصح وخیر خواہی کے حقیقی اثر کو کمزور
کرتا اور باہم نفرت، کدورت، عداوت پھیلاتا ہے جو مکمل طور پر شیطانی اعمال ہیں۔
کسی
داعی کا یہ قول صداقت پر مبنی ہے کہ: ”لتکن نصیحتک لاخیک تلمیحاً لا تصریحاً
وتصحیحاً لا تجریحاً“ اپنے بھائی کے تئیں تمہارا اسلوب نصیحت اشارہ اور کنایہ میں
ہونا چاہیے، صراحت اور وضاحت سے نہیں، تمہارا طریقہ غلطی کی تصحیح کی غرض سے ہونا
چاہیے، نہ کہ جذبات کو مجروح کرنے کی غرض سے۔ امام شافعی کا مقولہ ہے: ”من وعظ اخاہ
سرّاً فقد نصحہ وزانہ، ومن وعظ علانیة فقد فضحہ وشانہ“ جس نے خلوت میں اپنے بھائی
کو نصیحت کی، اس نے اس کے ساتھ خیر خواہی کی اور اس کو زینت بخشا، اور جس نے جلوت
میں نصیحت کی، اس نے اس کو رسوا کیا، اس کی عیب جوئی کی اور نقص نکالا۔ اتنا فر
مانے کے بعد امام شافعی نے یہ اشعار پڑھے
تعمّدنى
بنصحک فى انفراد
وجنبنى¸
النصیحة فى الجماعة
فان
النصح بین الناس نوع
من
التوبیخ لا ارضى استماعہ
وان
خالفتنى وعصیت قولى¸
فلا
تجزع اذا لم تعط طاعہ
ترجمہ:
آپ اپنی نصیحت کو تنہائی میں میرے اوپر پیش کیجئے، اور سر عام نصیحت سے بچئے۔ اس
لئے کہ علی روس الخلائق نصیحت کرنا، ایک قسم کا پھٹکار ہے جسے سننا مجھے
گوارہ نہیں۔ اگر (اس معاملہ میں) آپ نے میری مخالفت کی اور میری بات ماننے سے
انکار کیا تو اس دم جزع فزع مت کیجئے جب آپ کی بات (نصیحت) کو ٹھکرا دیا جائے اور
اطاعت نہیں کی جائے۔
۴۔ آداب تغافل (نظر انداز) کا
التزام: جسے ہم اور آپ ، لوگوں کے ہفوات سے اعراض برتنا اور انہیں نظر انداز کرنا
کہتے ہیں، وہ دراصل احساس وجذبہ کے احترام کی ہی ایک قسم ہے۔ اللہ نے کتاب کریم
قرآن عظیم میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے: یعنی: جب نبی نے اپنی بعض بیویوں
کو ایک بات خفیہ طور پر بتا دی، تو جب اس (بیوی) نے وہ بات (دوسری بیوی) کو بتا
دی، اور اللہ نے نبی کو اس کی خبر دی، تو انہوں نے اس وحی کا کچھ حصہ اس بیوی کو
بتا دیا، اور کچھ نہیں بتایا، جب انہوں نے اس (بیوی) کو اطلاع دی، تو اس نے کہا،
آپ کو کس نے خبر دی ہے، انہوں نے کہا : مجھے اللہ علیم الخبیر نے بتایا ہے۔(۵۱)
اس
آیت کی روشنی میں حضرت حسن کا بیان ہے کہ: کریم وشریف شخض کبھی بھی (لغزشوں) کو
کریدتا نہیں ہے، نہ کوتاہیوں پر گہری نظر رکھتا ہے بلکہ ”عرف بعضہ واعرض عن بعض“(۶۱) کچھ (غلطیوں پر) متنبہ
کرتا اور کچھ سے اعراض اور درگزر برتتا ہے۔
ابن
جریج نے عطا بن ابی رباح سے بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: کوئی شخض مجھے کچھ
(ناگوار تنقیدی) بات کہتا ہے تو میں اسے خاموشی کے ساتھ سنتا ہوں گویا میں نے ایسی
بات کبھی سنی ہی نہ ہو حالاں کہ میں نے وہ بات پہلے بھی سنی ہوتی ہے۔(۷۱)
ابو علی
الدقاق کا بیان ہے: ایک عورت حضرت حاتم کے پاس کوئی مسئلہ دریافت کرنے آئی،
اتفاقاً دوران گفتگو عورت سے مکروہ آواز نکل گئی جس سے وہ بڑی شرمندہ ہوئی، حاتم
نے گفتگو کرتے ہوئے کہا: بلند آواز سے بولو، اس سے عورت کو لگا کہ وہ اونچا سنتا
ہے، بہرہ ہے، اور وہ خوش ہوگئی، اور لوگوں سے کہی: حاتم سنتا نہیں ہے، بہرہ ہے اور
اس کا نام حاتم الاصم (بہرہ) پڑگیا،(۸۱)
ایک
شخض امیر مجاہد قتیبہ بن مسلم الباہلی کے دربار میں آیا، اپنی ضرورت کے سلسلے میں
ان سے گفتگو کرنا شروع کیا اور اپنی تلوار کو نوک کے بل زمین پہ کھڑا کیا جو امیر
کے پاوں کی انگلی پر جا پڑا، امیر اسی حالت میں اس سے بات کرتے رہے، اس آدمی کو
امیر کی اس حالت کا احساس نہیں ہوا، اور امیر نے بھی اپنی اس پریشانی کو ظاہر نہیں
ہونے دیا، امیر کے مشیرین وحوارین جنہیں اس حالت کی خبر تھی، وہ امیر کی ہیبت
وسطوت کی وجہ سے کچھ نہیں بول رہے تھے، چنانچہ گفتگو ختم اور حاجت بر آجانے کے بعد
جب وہ آدمی رخصت ہو گیا تو قتیبہ بن مسلم نے ایک رومال منگوایا اور اس سے اپنی خون
آلود انگلی صاف کیا، اس پر ان کے مشیرین وحوریین نے ان سے کہا: آپ نے دوران گفتگو
اپنی انگلی کو تلوار کے نیچے سے کیوں نہیں ہٹا لیا کہ آپ کو یہ تکلیف نہیں پہنچے،
یا کم ازکم اس آدمی کو کہہ دیتے کہ وہ اپنی تلوار اٹھالے؟ امیر مجاہد قتیبہ بن
مسلم الباہلی نے جواب دیا: مجھے خدشہ تھا کہ میرے ایسا کرنے سے کہیں اس کی ضرورت
کی تکمیل اور اس کی حاجت کی سماعت میں (میری جانب سے) کوئی کمی نہ آجائے۔
امام
شافعی رحمہ اللہ نے ایسی ہی حالت کی مناسبت سے کہا ہے:
احب
من الاخوان کل مواتی
وکل
غضیض الطرف عن عثراتی
یوافقنى
فى کل ا مر ا ریدہ
ویحفظنى
حیّاً وبعد ممات
فمن لى¸
بھذا؟ لیت ا نى ا صبتہ
لقاسمتہ
مالى من الحسنات
تصفحت
ا خوانى فکان ا قلہم
علی
کثرة الاخوان اھل ثقات
ترجمہ:
مجھے ایسے دوست پسند ہیں جو میرے مزاج کے موافق اور میری لغزشوں کو معاف کرنے والے
ہوں۔ جو ہر بات میں میری ہاں میں ہاں ملائیں اور زندگی میں مجھے یاد رکھنے کے ساتھ
میرے مرنے کے بعد بھی مجھے یاد کریں۔ کاش مجھے کوئی ایسا دوست لا کر دیتا تو میں
اپنی نیکیاں اس کے ساتھ بانٹ لیتا۔ میں نے دوستوں کو پرکھا تو معلوم ہوا کہ وہ بہت
ہیں لیکن ان میں بہت کم لوگ ہی اعتبار کے لائق ہیں۔
۵۔ آداب سرگوشی سے واقفیت: اللہ
رحمن کا فرمان ہے:انما النجوی من الشیطان لیحزن الذین آمنوا ولیس بضارّہم شیئاً“(۹۱) کہ بیشک شرگوشی شیطانی
کام ہے، تاکہ مومن مغموم بنیں، حالاں کہ یہ انہیں اللہ کے حکم کے بغیر قطعی نقصان
نہیں پہنچائیں گے۔ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی نبی ﷺ کی حدیث ہے:”اذا
کنتم ثلاثة فلا یتناجى اثنان دون الآخر، حتی تختلطوا بالناس من اجل ان یحزنہ“(۰۲) جب تم تین آدمی (ساتھ
رہو) تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی باہم سرگوشی ومناجات نہیں کرے یہاں تک کہ تم
لوگوں (جماعت) کے ساتھ مل جاو، یہ (ممنوع مناجات) اس لئے ہے کہ اس سے تیسرا شخص
مغموم ومحزون ہوجائے گا۔ امام خطابی کا بیان ہے: ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے
تیسرے کو اپنے تعلق سے دونوں کی بدگمانی اور دسیسہ کاری کا وہم ہو سکتا ہے۔
۶۔ آداب استئذان (اجازت طلبی)
کا اہتمام:اجازت طلبی کے آداب کی بابت رہنما آیت اللہ کا یہ قول کریم ہے: ”فان لم
تجدوا فیہا احداً فلا تدخلوہا حتی یوذن لکم وان قیل لکم ارجعوا فارجعوا ہو ازکی
لکم واللّٰہ بما تعملون خبیر“(۱۲) اگر تم اس میں کسی کو نہ پاو تو جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے ان میں
داخل نہ ہو، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاو، تو واپس چلے جاو، تمہارے لئے
یہی عمل پاکیزہ ہے، اور اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے۔
اس
سلسلے میں حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے کہ: ”اذا
استاذن احدکم ثلاثاً فلم یوذن لہ فلیرجع“(۲۲)
جب تم میں سے کوئی تین مرتبہ اجازت طلب کرے، اور اسے اجازت نہیں ملے
تو اسے واپس ہوجانا جاہیے۔
گویا
تین دفعہ اجازت طلب کرلینے پر بھی اجازت نہیں ملے، تو ضروری طور پر واپس ہوجانا
چاہیے، اور اصرار سے بچنا چاہئے، اس لئے کہ اس میں دوسروں کے جذبات کی ناقدری ہے،
اور مستاذن کی بار بار کی آواز سے اور داخل ہونے پر مصر رہنے سے سامنے والے کو زک
پہنچنے کا اندیشہ ہے، چناں چہ اسلام کے اس ادب استئذان کو عمل میں لا کر دوسروں کے
جذبات واحساسات کا احترام بھی بروئے عمل آسکتا ہے۔
۷۔ مردوں کو سب وشتم کرنے سے
احتراز:اسلام نے مردوں کو سب وشتم کرنے، انہیں برا کہنے اور ان کو لعن طعن کرنے سے
منع فرمایا ہے کیوں کہ اس سے زندوں کو دکھ پہنچتا ہے،چناں چہ حدیث رسول ہے، حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا راویہ حدیث ہیں: ”لا تسبوا الاموات فانہم قد افضوا الی ما
قدموا“(۳۲) مردوں کو گالیاں مت دو،
اس لئے کہ وہ اپنے اعمال کے سپرد ہو چکے ہیں۔ انہیں اپنے کئے کا بدلہ مل چکا ہے۔
سیرت
کی کتابوں میںیہ واقعہ بھی مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے عکرمہ بن ابی جہل کے قبول اسلام کے
موقع پر صحابہ کرام سے کہا تھا: ”یاتیکم عکرمة بن ابى جہل مومناً مہاجراً، فلا
تسبوا اباہ، فانّ سبّ المیت یوذى الحى¸، ولا یبلغ المیت“(۴۲) عکرمہ بن ابی جہل تمہارے پاس
ایمان کی حالت میں ہجرت کرکے آرہا ہے، تم اس کے آباء(واجداد) کو گالی مت دینا، اس
لئے کہ مردہ کو گالی دینے سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے اور یہ گالی مردہ تک پہنچ بھی
نہیں پاتی۔
۸۔ کمزوروں، مریضوں اور حاجت
مندوں کا احترام: اگر واقعتا انسان (طبعی طور پر) اپنے جذبات واحساسات کی قدر
واحترام کا محتاج ہوتا ہے تو سب سے زیادہ اس کے ضرورت مند معاشرہ کا کمزور، بیمار
، صاحب اعذار اور حاجت مند ومحتاج طبقہ ہے کہ ان کے جذبات واحساسات کی قدر کی جائے
، ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے، کسی بھی طرح ان کو زک پہنچانے سے مکمل احتراز
برتا جائے۔ اس تعلق سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت قابل ذکر اور بر محل ہے
کہ: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھا کرتے پھر اپنی قوم میںجاکر ان
کی امامت کیا کرتے تھے، ایک شب آپ کے ساتھ انہوں نے عشاءکی نماز ادا کی پھر اپنی
قوم میں آکر امامت کرنے لگے، پہلی ہی رکعت میں انہوں نے سورہ بقرہ پڑھنا شروع
کردیا، (یہ لمبی قراءت ایک شخض پر بڑا شاق گزرا) چنانچہ وہ جماعت سے الگ ہو کر
تنہا نماز پڑھا اور چلتا بنا، اس کی اس ادا پہ لوگوں نے کہا: اے فلاں! کیا تو
منافق ہوگیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں بخدا، میں ضرور آپ ﷺ کے پاس جا کر آپ کو اس کی
خبر دوں گا، چنانچہ وہ آپ کے پاس آیا اور گویا ہوا: اے اللہ کے رسول! میں کاشت کار
آدمی ہوں، دن بھر کام کرتا رہتا ہوں، اور معاذ آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر ہمارے پاس
آیا اور سورہ بقرہ سے نماز کا آغاز کیا،
یہ سن کر آپ ﷺ حضرت معاذ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے معاذ! کیا تو فتنہ
پھیلانے والا ہے؟ فلاں فلاں سورہ پڑھا کرو (تاکہ مقتدی پر شاق نہ ہو) (۵۲)
اس
بابت ایک دوسری روایت حضرت عثمان بن ابی العاص سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ام
قومک، فمن ا مّ قومہ فلیخفف فان فیہم الکبیر وان فیہم المریض و ان فیہم الضعیف و ان
فیہم ذالحاجة، و اذا صلی ا حدکم وحدہ فلیصل کیف شائ“(۶۲) اپنی قوم کی امامت کرو، جو
اپنی قوم کی امامت کرے اسے ہلکی (نمازیں) پڑھانی چاہئے، اس لئے کہ ان میں عمر
رسیدہ بزرگ، ناتواں مریض، کمزور وضعیف اورضرورت مند وحاجت مند سب قسم کے لوگ ہوتے
ہیں، (البتہ) جب کوئی تنہا نماز ادا کرے تو جیسے (جتنی لمبی) چاہے ادا کرے۔
بالیقین
لوگوں کے جذبات کی قدر اور ان کے احساسات کا احترام باہم محبت کو بڑھاتا اور آپس
میں قلبی تعلقات کو استوار کرتا ہے، جو شخص کسی کی ضروریات واحساسات کا خیال رکھتا
اور اس کے طبعی جذبات کی قدر کرتا ہے، بسا اوقات ایسے شخص کو محسن سمجھا جاتا ہے
اور سامنے والا اس کے احسان کو فراموش نہیں کرپاتا، سیرت نبویہ ﷺ سے اس کی ایک
مثال آپ کے نظر نواز ہے: جب کعب بن مالک غزوہ تبوک میں شریک ہونے سے پیچھے رہ گئے، پھر (بعد
میں) اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور رسول ﷺ نے ان کی اور ان کے اصحاب کی توبہ
کی مقبولیت کی خبر فجر کے بعد صحابہ کرام
کو دیا، تو اس وقت صحابہ کرام کی شادمانی
وانبساط کا کیا عالم تھا، اس کو ذکر کرتے ہوئے کعب بن مالک فرماتے ہیں: لوگ جوق در
جوق آکر مجھے تہنیت ومبارک بادی دینے لگے، اور کہنے لگے: ”لتھنک توبة اللہ
علیک“اللہ کی جانب سے قبولیت آپ کو مبارک ہو۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا
نبی کریم ﷺ تشریف فرماں ہیںاور لوگ آپ کے اردگرد جمع ہیں، مجھے دیکھتے ہی طلحہ رضی
اللہ عنہ لپک کر تیزی سے میرے پاس آئے، مجھے تہنیت ومبارک بادی دی، مجھ سے مصافحہ
کیا، بخدا حضرت طلحہ کے علاوہ کوئی بھی مہاجر صحابی میرے پاس نہیں آیا، حضرتِ طلحہ
ہی (کایہ احسان تھا) جسے میں (تا دم حیات) فراموش نہیں کر سکتا۔
حضرت
قیس روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جریر بن عبد اللہ کو بیان کرتے ہوئے سنا: مجھے
نبی کریم ﷺ نے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ مسکراتے ہوئے دیکھا اور فرمایا: اس دروازے
سے اپنی قوم کا سب سے بہتر شخص تمہارے پاس آنے والاہے چنانچہ روایت میں ہے کہ: جب
حضرت جریر بن عبد اللہ نبی ﷺ کے پاس تشریف لائے تو آپ نے اپنا تکیہ ان کوپیش کیا
اور خود فرش پر بیٹھ گئے، پھر آپ نے ارشاد فرمایا: ”اشھد انک لا تبغى علوّاً فى
الارض ولا فساداً“ میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ تم زمین میں نہ برتری وبلندی
چاہتے ہو اور نہ فساد پھیلانا تمہارا مقصد ہے۔ آپ کی اس محبت آمیز گفتگو اور
انسانیت نواز سلوک وبرتاو نیز آپ کی جانب
سے اس جذبات کی غیر معمولی قدر واحترام سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ حلقہ بگوش اسلام
ہوگیا۔ پھر آپ ﷺ صحابہ کرام کو خطاب کر کے گویا ہوئے: ” اذا ا تاکم کریم قوم فاکرموہ“ جب تمہارے پاس کسی قوم
کا معزز ومکرم شخص آئے تو تم اس کی قدر واحترام کرو اور اس کا اکرام بجالاؤ۔(۷۲) بلاشبہ ہر حساس اور اثر
پزیر انسان، اپنے بھائیوں کے جذبات، ان کے انسانی احساسات کی رعایت وصیانت کو
ضروری طور پر بروئے عمل لا تا ہے اور بہر صورت انہیں زک پہنچانے سے بچتا اور مکمل
اجتناب کرتا ہے؛ تاریخی حوالے سے ثابت ہے کہ ابو سفیان؛ اسلام قبول کرنے سے پہلے
صلح حدیبیہ کے موقع سے ، حضرت سلیمان ، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم کے پاس سے
گزرے، ان تینوں صحابہ کرام نے چاہا کہ انہیں کوئی ایسی بات سنائیں جس سے وہ چراغ
پا ہو جائیں، چنانچہ انہوں نے کہا:”واللہ ما ا خذت سیوف اللہ من عنق عدو اللہ ما اخذہا“بخدا
میں نے اللہ کی تلوار کو اللہ کے دشمن کی گردن سے نہیں نکالا ہے۔ ان کی یہ طعنہ
زنی حضرت ابو بکر کو بری معلوم ہوئی، انہوں نے تینوں صحابہ کرام کو مخاطب کیا: ”ا تقولون ھذا لشیخ قریش
وسیدہم“ کیا قریش کے بزرگ اور ان کے سردار اور سربرآوردہ شخص کی شان میں تم ایسی
بات کہتے ہو۔ پھر حضرت ابو بکر نے آکر نبی ﷺ کو اس کی خبر دی، یہ پہلا ایسا موقع
تھا کہ ابوبکر صدیق کی روش سے صحابہ کرام کی ذات کو کسی طرح کا زک پہنچنے کا شک آپ
ﷺ کو ہوا تھا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا: اے ابو بکر! شاید تمہاری ذات سے وہ صحابہ کرام
نالاں ہوگئے ہوں، اگر واقعتا وہ تم سے نالاں ہیں تو تمہارا رب بھی تم سے ناراض ہے،
یہ سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ان صحابہ کرام کے پاس آئے، ان سے رضا مندی
وخوشنودی طلب کرنے لگے اور ان کے ساتھ لطف ومعاطفت کی باتیں کرنے لگے اور کہنے
لگے: ”یاخوتاہ! اغضبتم؟“ اے میرے بھائیو! کیا میں نے آپ کو نالاں اور ناراض کردیا؟
ان صحابہ نے جواب دیا: ”لا، یغفر اللہ لک“ نہیں، اللہ آپ کو معاف فرمائے۔(۸۲)
نبی
اکرم، شفیع اعظم، سرور عالم ﷺ کو لوگوں کے جذبات واحساسات کا اتنا پاس ولحاظ تھا
اور ان کے انسانی مشاعر وعواطف کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ آپ کی یہ مستقل دعا
ہوا کرتی تھی:”اللہم فاطر السماوات والارض عالم الغیب والشھادة، لا لہ لا انت رب
کل شی وملیکہ، اعوذ بک من شرّ نفسی ومن شرّ الشیطان وشرکہ وان اقترف علی نفسى سوئً
ا و ا جرّہ لی مسلم“(۹۲) کہ اے آسمانوں، زمینوں
کو پیدا کرنے والے، عیاں ونہاں کو جاننے والے، تیرے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، تو
ہی ہر چیز کا مالک اور پروردگار ہے، میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے نفس کی برائی
اور شیطان اور اس کے شرک کی برائی سے اور اس بات سے کہ میں اپنے اوپر (اپنے نفس کے
خلاف) کوئی برا اقدام کروں یا کسی مسلمان کو اپنی ذات سے کوئی زک پہنچاؤں۔
اللہم
جنّبنا الزلل فى القول والعمل، واجعلنا ممن یقول فیعمل ویعمل فیخلص، ویخلص فیقبل
منہ“ اے اللہ! تو ہمیں قول وعمل کی لغزش وانحراف سے محفوظ فرما، ہمیں ان لوگوں میں
شامل کردے جو اپنی گفتار کو کردار کا جامہ دیتے ہیں، اپنے عمل میں مخلص ہوتے ہیں
اور انکا اخلاص ان کی قبولیت اعمال کا سبب بنتا ہے۔ آمین یا رب العالمین والصلوة
والسلام علی سید المرسلین الصادق الامین علی اصحاب المطّھّریں وعلی زوجاتہ امھات
المومنین وعلی من تبعھم باحسان الی یوم الدین۔
المصادر
والمراجع:
۱۔ امام مالک سے یہ روایت منقول
ہے
۲۔ سورة القلم: 4
۳۔ سورة آل عمران: 159
۴۔ سورة البقرة: 83
۵۔ امام ترمذی نے روایت کیا ہے،
اور اسے ”حدیث حسن کہا ہے، امام حاکم نے صحیح کہا ہے اور اما ذہبی نے موافقت کی ہے
۶امام بخاری نے روایت کیا ہے: ۸۷۳۵، ۰۲۴۵، ۵۷۱۶، اور مسلم نے ابن عباس
سے: ۰۲۲
۷۔ شرح نووی: 1361
۸۔ امام بخاری نے روایت کیا ہے
۹۔امام بخاری ، مسلم،
احمد،ابوداود، ترمذی، نسائی، ابو عوانہ، ابن حبان، ابن المنذر سبھوں نے روایت کیا
ہے
۰۱۔ سورة المجادلة: 22، دیکھئے تفسیر طبری: 23311
۱۱۔ محمد عریفی کی کتاب: استمتع
بحیاتک:61
۲۱۔ بخاری نے روایت کیا ہے
۳۱۔ مسلم نے روایت کیا ہے
۴۱۔ سورة العصر: ۳،۱
۵۱۔ سورة التحریم: ۳
۶۱۔ تفسیر قرطبی: ۸۸۱۸۱
۷۱۔ تاریخ مدینة دمشق: ۱۰۴۰۴
۸۱۔ مدارج السالکین: ۴۴۳۲
۹۱۔ سورة المجادلة: ۰۱
۰۲۔ امام مسلم نے ورایت کیا ہے
۱۲۔ سورة النور: ۸۲
۲۲۔ متفق علیہ
۳۲۔ امام بخاری وترمذی دونوں نے
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، لیکن امام ترمذی نے کہا ہے: ”وتوذوا الاحیائ“
زندوں کو تکلیف پہنچاو۔
۴۲۔ امام واقدی اور امام عساکر
۵۲۔ امام مسلم نے روایت نقل کیا
ہے: ۱۸۱۴، ایک روایت میں ہے:
”صلی لاصحابہ العشاءفطوّل علیہم“ بخاری: ۲۹۱۲، ایک تیسری روایت میں ہے: ”انہ قرابالبقرة“ بخاری: ۲۹۱۲
۶۲۔ امام مسلم نے روایت کیا ہے: ۵۸۱۴، ایک روایت میں ہے:
”وانت امام قومک واقدر القوم باضعفہم“ امام ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے:
اسے ابو داود، نسائی نے نقل کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے: ۹۹۱۲
۷۲۔ امام حاکم نے مستدرک میں نقل
کیا ہے
۸۲۔ امام مسلم نے روایت ذکر کیا
ہے: ۷۴۹۱۴
۹۲۔ امام ترمذی نے روایت کیا ہے:
۲۴۵۵، حدیث نمبر: ۹۲۵۳، بخاری نے: ادب المفرد
میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق