الأحد، ديسمبر 04، 2011

”مسدس شاہراہ دعوت “شاعری میں اسلامی دعوت کا بہترین نمونہ

تبصرہ نگار:   ثناءاللہ صادق تیمی
ریسرچ اسکالر جواہر لال نہرویونیورسٹی

علمی دنیا میں صلاح الدین مقبول احمد کا نام محتاج تعارف نہیں: زوابع فی وجہ السنۃ، نامی علمی کتاب سے اپنی پہچان بنانے والے مولانا صلاح الدین مقبول احمد نے دراسات اسلامیہ میں گراں بہا اضافہ کیا ہے، علمی حلقوں میں ان کے مقالات شوق سے پڑھے جاتے ہیں، “السيد ابوالحسن علی الندوی: “الوجه الآخر من کتاباته” سے لے کر “دعوة شيخ الإسلام وأثرها فى الحركات المعاصرة” سے ہوتے ہوئے  المرأۃ بين ھداية الإسلام وغواية الإعلام” بشمول ان کے سینکڑوں علمی، دعوتی اور فکری مقالات جو ہندو بیرون ہند کے معیاری عربی اردو رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں، ان کے فکر اور دعوتی تڑپ کی بحسن وخوبی غمازی کرتے ہیں۔

مولانا کی تحریروں سے جن لوگوں کو استفادہ کا موقع ملا ہے وہ جانتے ہیں کہ مولانا کا اول وآخر مطمحِ نظر صحیح اسلامی تعلیمات کی نشر واشاعت ہے، وہ ہمیشہ عقیدے کے بگاڑ کی اصلاح چاہتے ہیں، غیر اسلامی افکار وخیالات کی پر زور علمی تغلیط کرتے ہیں، سنت کے رسیا ہیں اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کی زیادتی برداشت کرنے کے روادار نہیں ہوتے، اللہ نے تقریر کا بھی بہتر ملکہ عطا کیا ہے اور دین متین کی توضیح وتشریح میں مولانا اس کا بہتر استعمال کرتے ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے اسلاف کی بہت سی علمی کتابوں کی تحقیق بھی کی ہے، جیسے “مسألة العلو والنزول لإبن طاھر”، إرشاد النقاد للأميرالصنعانی”، تحفة الأنام لمحمد حياۃ السندی”، “تحفة المودود بأحکام المولود لابن القيم”، وغیرہ ساتھ ہی کچھ کتابوں کو آپ نے عربی کا قالب بھی دیا ہے ، جیسے “موقف الجماعة الإسلامية من الحديث محمد إسماعيل السلفی”، اور“مذھب الإمام البخاری فی صحيحه”۔ (له أيضا)

سردست خاکسار مولانا کی جس کتاب سے متعلق گفتگو کرنے جارہا ہے، یا یہ کہیے کہ اردو قارئین بطور خاص سلفی الفکر حضرات کے سامنے اس کتاب کا قدرے تفصیلی تعارف کرانے جارہا ہے، وہ حسب معمول مولانا کی کوئی عربی تصنیف نہیں ، بلکہ اردو کتاب ہے اور یہ جان کرمسرت بھرا تعجب ہونا چاہیئے کہ وہ نثری سرمایہ نہیں شعری شاہکار ہے۔
      
سب سے پہلے توا سلامی اسکالر صلاح الدین مقبول احمد کو اس بات کی مبارکباد کہ انھوں نے تَرک شاعری کے طویل مدتی روزہ کو توڑ دیا اور نامور اسلامی سوانح نگار جناب اسحاق بھٹی ؔ کی ایک تحریر سے تحریک پاکر پھر سے شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور اتنی اہم کتاب   سامنے آئی ، پوری اردو برادری کو بطورعام اور سلفی برادری کو بطور خاص جناب اسحاق بھٹیؔ صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے کہ انھوں نے بقول ابن احمد نقویؔ  “وہی کام کیا جو پروفیسر آرنلڈ نے اقبال کے حق میں کیا” (زیرتعارف کتاب ص:۳۷)

کتاب کے اندر جماعت اہل حدیث کے چند بڑے علمی اور ادبی شخصیات کے تاثرات شامل ہیں، علامہ محمد اسحاق بھٹی، علامہ ابن احمد نقوی اور مولانا عبدالعلیم ماہرؔ تمام لوگوں نے اچھی اور بہتر رائے دی ہے، ساتھ ہی پیش لفط کا قدرے تفصیلی بیان خود صلاح الدین مقبول احمد کے قلم سے بہت اہم ہے۔ مولانا نے شعروشاعری سے متعلق نہایت ہی مدلل گفتگو کی ہے، ساتھ ہی اپنی شاعری کا پس منظر بھی بیان کیا ہے۔ مولانا کو خود اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کی بہت سی باتوں سے لوگوں کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن بہر حال ان کا اپنا ماننا یہی ہے کہ شاعری کو بھی نشراسلام اور صحیح دعوت کی تبلیغ کا ذریعہ ہونا چاہیئے۔
اس مسدس کو مولانا الطاف حسین حالیؔ کی مشہور زمانہ “مدوجزر اسلام” (مسدّس حالی) کے طرز پر لکھا گیا ہے اورا س کے اندر علامہ اقبال کے “ شکوہ جواب شکوہ”  کی زمین اپنائی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حالی اور اقبال زندہ ہوتے تواس کی داد ضرور دیتے۔ میری معلومات کی حد تک اب تک اس قدر محتاط اور صحیح اسلامی تعلیمات پر مبنی کوئی شاعرانہ کاوش کم ازکم اردو میں دستیاب نہیں۔ کلیات اقبال، کلام شبلی، کلیات اکبر الہ آبادی، شاہنامۂ اسلام، مسدس حالی اور دیوانِ گلشن تمام کے تمام اپنی حد درجہ اہمیت کے باوصف صحت فکر اور صحت پیغام میں اس مقام کو نہیں پہنچتے جس مقام کو “مسدس شاہراہ دعوت” کی رسائی ہے۔ وجہ ظاہر کہ وہ شبلی ہوں، اقبال ہوں، اکبرؔالہ آبادی ہوں، حالی ؔہوں یا کوئی اور'شاعر تو یقینا بہت بڑے تھے لیکن وہ علمی، تحقیقی اور فکری صحت کی سعادت( جو مولانا صلاح الدین مقبول احمد کو حاصل ہے،) سے اس درجہ فیضیاب نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بیشتر کے یہاں ہمیں رطب ویابس بھی مل جاتے ہیں۔ “مسدس شاہراہ ِدعوت” کی یہ سب سے امتیازی خصوصیت ہے۔

 “مسدس شاہراہِ دعوت” مرقع ہے ایمانیات، رسالت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مساعیِ جمیلہ، آئین اسلام، محاسن اسلام، اسلام پر مخالفین کے اعتراضات اور ان کے جوابات، محدثین کرام کی کاوشیں، اہلِ حدیث کے فضائل ومحاسن، فقہائےکرام کی مساعیِ جمیلہ، اور مسلکِ اہل حدیث کی جامعیت کا۔

 نہایت ہی مہذّب انداز میں مولانا نے تفصیل سے وجودِ باری تعالیٰ، الوہیت ِباری تعالیٰ اور خالقِ کائنات کی صفتِ خالقیت اور معبودیت کو ثابت کیا ہے، ملاحدہ کے انکارِ وجود ِخدائے واحد کی تردید کی ہے، ایمان، احسان اور توحید کو بیان کیا ہے، اللہ کے نبی ﷺ کی رسالت، آپ کے داعیانہ اوصاف، آپ کی دعوت کے اثرات، آپ کے فضائل ومناقب اور آپ کے مراتب کو بہترخراج تحسین پیش کیا ہے، آپ ﷺ کی رسالت اورذات سے متعلق مسلمانوں کو ان کی ذمہ داری یاد دلائی ہے، پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل ومساعی کاذکر کیا ہے، آئین ِاسلام میں قرآن وحدیث کی اہمیت بڑی خوبصورتی سے واضح کی ہے، محاسن اسلام کا قدرے تفصیلی ذکر ہے، دشمنان اسلام کے اعتراضات کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں، اسلام بزورشمشیر پھیلا، اسلام میں قصاص وحدود اور تعزیرات کے ظالم احکامات پائے جاتے ہیں، تعددزوجات کا عیب اسلام میں موجود ہے، اسلام عورتوں کو پابند کرتا ہے، یہ اور اس قسم کے مسائل کا علمی دلائل کے ساتھ نہایت جاذبِِ توجہ شاعری سے جائزہ لیا گیا ہے، پھر محدثین کرام کی کوششوں کو پیش کیا گیا ہے کہ انہوں نے کس طرح صحیح دین کی حفاظت کی اور کس طرح صحیح اور ضعیف حدیثوں کو تمیز کرکے دکھلایا اور اخیر میں مسلک اہل حدیث کی حقانیت اور اس کی جامعیت کے گیت گائے ہیں لیکن بہر حال فقہائے کرام کی کاوشوں کو نظر انداز کرنے کی غلطی نہیں کی گئی ہے اور بڑے والہانہ انداز میں ان کا ذکر خیر آیا ہے۔

اس طرح  “مسدس شاہراہِ دعوت”  ایک طرح سے پورے اسلام کو پیش کرنے کی مولانا صلاح الدین مقبول احمد کے زندگی بھر کے مطالعہ، علمی کاوش اور دعوتی تگ وتاز کا اظہار ہے ۔ پوری کتاب میں ان کی مختلف علمی کتابیں بولتی نظر آتی ہیں۔ بلفط دیگر اس مسدس کے اندر جہاں مولانا کی ساری علمی کاوشوں کی جھلک ہے وہیں خود مولانا بھی اس مسدس میں ظاہر ہوگئے ہیں۔

اس کتاب کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے اندر حواشی کے تحت قرآنی آیات، احادیث، اسلامی واقعات، مختلف علمی کتابوں کے حوالوں کے ساتھ، اور مشکل عربی الفاظ کی تشریح بھی شامل کردی گئی ہے ، جو کتاب کی معنویت میں اضافہ کا باعث ہے۔ یہ کتاب،الکتاب انٹرنیشنل نئی دہلی  سے شائع ہوئی ہے ۔ چھپائی اچھی ہے، کاغذ عمدہ ہے اور اس کے اندر کل ۱۵۵ صفحات ہیں۔ کتاب پر قیمت درج نہیں ہے۔
 “مسدس شاہراہ ِدعوت” اپنی مشمولات کے اعتبار سے بلاشبہ ایک حسین ترین تحفہ ہے پوری اردو برادری کے لئے اور اہل حدیثوں کے لئے تو اسے نعمتِ غیر مترقبہ ہی کہا جانا چاہئے البتہ اس کے فنی کمال سے متعلق جہاں مولانا اسحاق بھٹی صاحب نے یہ کہہ کر “ ایک عرصے سے چوں کہ انھوں نے اس طرف توجہ نہیں کی، اس لئے ذہن کچھ ہچکولے کھاتا دکھائی دیتا ہے ” اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے وہیں جناب ابن احمد نقوی صاحب نے بھی کچھ اسی قسم کا راستہ اپنایا ہے۔

وہ لکھتے ہیں:
“جو لوگ اس “مسدس ” میں فنی محاسن تلاش کرنے کی کوشش کریں گے انہیں تو مایوسی ہوگی، لیکن جن لوگوں کی نظر پاکیزگئ فکر ، جذبہ کے سوزوساز اور لہجہ کی سلاست پر ہے وہ یقینا اس “مسدس” کو پسند کریں گے”۔(شاہراہ مسدس دعوت ص:۳۹)

ذاتی طور پر میں جماعت اہل حدیث کے ان دونوں بزرگوں کا احترام کرتا ہوں، ان کے علمی اور ادبی قدوقامت کا اعتراف کرتا ہوں اور الحمدللہ ان کی تحریروں سے خوب خوب استفادہ کرتا ہوں، ان تمام کے باوصف یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ “مسدس شاہراہ ِدعوت” فنی محاسن سے یکسر خالی بھی نہیں ہے، فنی خوبیوں کے متلاشی مایوس نہیں ہوں گے، ہاں بعض غیر مانوس عربی الفاظ اُنہیں کھٹکیں گے ضرور ،لیکن موضوعات کے تقاضوں کو جب سامنے رکھا جائے گا تو اس احساس کی رو بھی مدھم پڑجائے گی۔ اس کے باوجود یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اگر مولانا موصوف نے اس طرف تھوڑی اور توجہ دی ہوتی اور بھی اچھی بات ہوتی۔

عام خیالاتِ عشق وعاشقی، جذبات دل کو نظم کرنا آسان ہوتا ہے لیکن علمی، فکری، تحقیقی موضوعات کو شعری پیکر میں ڈھال کر اس کی سلاست وروانی اور تاثیریت کی حفاظت کرلینا ہی بڑی بات ہے۔ “مسدس شاہراہ دعوت” کے اس پہلو کو نظر میں رکھا جائے تو اس کی اہمیت کا احساس مزید گہرا ہوجائے گا۔

اپنی بات ختم کرنے سے پہلے نمونے کے طور پر “مسدّس” کے چند بند کا قارئین کے سامنے پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ خود قارئین بھی پتہ لگاسکیں کہ واقعتا یہ ہے کیا:


“ایمان ایک فطری تقاضا ” کے تحت مرقوم ہے:

رب پر ایماں ہے تقاضائے دلِ انسانی 
 رب کا عرفان ہے تزئین رہِ ایمانی
دین فطرت پہ ہے تخلیقِ جہانیِ فانی  
    نسل آدم ہے “اَلَستُ” کی سدا زندانی
طفل نوزادہ ہے اسلام کی فطرت کا امیں
منحرف کرتے ہیں ا س راہ سے خود گھر کے مکیں

دلائلِ وجود باری تعالیٰ کے تحت مولانا لکھتے  ہیں:

پُر فضا قصر ہے، جس کے ہیں حَسیں نقش ونگار    
اس کی تعمیر میں پوشیدہ ہے فنِّ معمار
بحروبر، ارض وسما، دشت وجبل، لیل ونہار     
 ان کی تنظیم کا نگراں نہیں کوئی فنکار؟
نظمِ عالم سے ہے، خود عقل پہ دہشت طاری
کیسے جھٹلائے گی آثار ِوجودِ باری

دیکھئے“ ڈارون ”کے نظریۂ  ارتقاء کی کیا خوبصورت پیرایے میں قلعی کھولی گئی ہے  :

اصلِ انسان “حقیقت میں یہ” بندر ہوگا
 پھر بتدریج وہی آج کا رہبر ہوگا
 “نظریہ” کیا ہے؟ یہ اِک  طفل کا دفتر ہوگا 
   اس “نظریہ” سے کوئی نظریہ بدتر ہوگا؟
“ارتقا” ختم ہوا، نسل کی آئی باری
وہ حقیقت نہ رہی آج کیوں جاری ساری؟

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے وجود پر کیا دلیل دی گئی ہے!!

دونوں ہی جنس کا ہوتا ہے حمل میں امکان 
       جنسِ تذکیر کی کرتا ہے تمنا انسان
ہوتی ہے پھر بھی ولادت یہ، خلافِ ارماں
  جاری تانیث میں ، تذکیر میں کس کا فرمان
کام خواہش کے جو برعکس ہوا کرتا ہے
رب کی قدرت کا ہی وہ عکس ہوا کرتا ہے

بعثت نبوی صلى الله عليه وسلم پر دیکھئے کیا اچھا بند آیا ہے    :

 تھی  یہی بعثت نبوی وہ تمنّائے خلیل  
       ہوگئی آشنا دربار گہ ِربِّ جلیل
ان کی آمد کے لئے موسیٰ وعیسیٰ ہیں دلیل
 اس پہ توریت جو ناطق ہے ، تو شاہد انجیل
عالم ِ کون ومکاں ماہی ِ بے آب رہا
بعثتِ پاک کو سارا جہاں بے تاب رہا

صحابہ کرام ؓ کا والہانہ ذکر ہے، ایک بند آپ بھی ملاحظہ کریں  :    

یہ سعادت تھی، نبوت کے وہ ہم راز رہے  
خود فراموش رہے، گوش بہ آواز رہے
عمر بھر دیں کے لئے محوِ تگ وتاز  رہے    
    مرضی ِ رب سے وہ ہر خیر کا آغاز رہے
ان کی ہر سمت ترقی نے قدم بوسی کی
اور قدرت نے بھی ان کے لئے جاسوسی کی

منکرینِ حدیثِ نبوی پر ،حجیت ِحدیث کے دلائل وبراہین کے بعد، کیا دلچسپ چوٹ کرتے ہیں :

سنتِ پاک معطّل ہو، یہ ارمان اس کا      
 مصدرِ دین ہو مشکوک ہو، یہ ایمان اس کا
دین لمبا ہوا سنت سے، یہ فرمان اس کا      
مختصر دین کا حامل ہے یہ قرآن اس کا
ہے ہدف، خود ہی وہ قرآن کی تفسیر کرے
اپنی آوارگیِ فکر کو تحریر کرے

اسلام کی جامعیت ووضاحت کا بیان ملاحظہ فرمائیں  :   
دین ودنیا کے مقاصد کی صراحت اس میں
جملہ اسرار ِشریعت کی وضاحت اس میں
طرز ِتعلیم بھی، اخلاق وعباد ت اس میں        
  اس میں آدابِ معیشت بھی ، سیاست اس میں
سہل ہے حضرتِ انسان کو اس کی تعمیل
شرعِ اسلام کی تنفیذ خرد کی ہے دلیل
آزادئ نسواں ، کرامتِ نسواں اور مغرب کے نعروں کی حقیقت کا بیان دیکھئے  : 
اپنے آفس میں رہے، صبح سے وہ شام کرے 
     بوس راضی رہے، وہ خود کو تہہ دام کرے
حالتِ حمل ورضاعت میں نہ آرام کرے
      اپنا بھی کام کرے، مرد کا بھی کام کرے
وہ کیا سمجھیں گے بھلا حمل ورضاعت کا مقام؟
یہ نہ ہوں کام ، تو دنیا میں نہیں کوئی کام!

مسلک اہل حدیث کی وضاحت کیا خوب فرمائی گئی ہے    :
سیرت وسنت وقرآن کی تفسیر ہے یہ  
   دین ودنیا کے مسائل کی بھی تحریر ہے یہ
خودعبادات وعقائد کی بھی تعبیر ہے یہ 
       دین اسلام کی اک دائمی تصویر ہے یہ
اس میں موجود ہے انسان کی فطرت کا نشاں
اس میں مضمر ہے میری قوم کی عزت کا نشاں

اللہ رب العزت سے اس عاجزی میں آئیے ہم سب شریک ہوجائیں    :
ظاہری باطنی ہر قسم کی حالت معلوم
    زندگی بھر کی تجھے پوری جہالت معلوم
چشم ودل کی تجھے ہر ایک رذالت معلوم  
تجھ سے مخفی نہیں کچھ، پوری وکالت معلوم

آسرا کچھ بھی نہیں، تیری وکالت کے سوا
کوئی چارہ بھی نہیں، تیری کفالت کے سوا
الغرض پوری کی پوری کتاب انتخاب ہے، کم ازکم ہر ایک اہل حدیث مسلمان کے پا س اسے تو ضرور ہی ہونا چاہیئے، پوری کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد صلاح الدین مقبول احمد مصلح ؔ نوشہروی کو مبارکباد دینے کو دل کرتا ہے   :
اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ     
کتاب کے اندر “املا ” کی بعض غلطیاں راہ پاگئی ہیں، امید ہے کہ آئندہ ایڈیشنوں میں ان کی طرف توجہ دی جائے گی ،جیسے “ان کی” کو“ انکی ” لکھنا اور اس طرح کی دوسری املا کی غلطیاں ، کبھی کبھار ان سے بھی مطلب الجھ جاتا ہے۔


ليست هناك تعليقات: