الأربعاء، نوفمبر 30، 2011

شیخ صلاح الدین مقبول احمد کی”مسدس شاہراہ دعوت“

 صفات عالم محمد زبير تيمي

کویت میں مقیم برصغیر کے عظیم اسکالر اورجید عالم دین فضیلة الشیخ صلاح الدین مقبول احمد صاحب حفظہ اللہ کو الله پاك نے اهل وطن سے پہلے اہل كويت ميں بڑی پزيرائي عطا كرركهى ہے- كويت ميں ان كے شاگردوں كا حلقہ بڑا وسيع ہے جن ميں سے بعض بڑے بڑے عہدوں پر فائز هيں، ہمارا تجربہ ہےكہ علماء كى صحيح قدرومنزلت عرب ہى پہچانتے ہيں،ہم ايك  عرصہ سے آپ كوعربی زبان میں محقق ، مؤلف ، داعی اور اسکالرکی حیثیت سے توجانتے تھے تاہم یہ معلوم نہیں تھا کہ آپ عربى اور اردو زبان کے قادرالکلام شاعر بھی ہیں، عربى زبان ميں ہم نے آپ كا ايك مدحيہ كلام پڑھا تھا لیکن اردو زبان کی شاعری کا علم اس وقت ہوا جب ہم نے علامہ محمد اسحاق بھٹی صاحب کی کتاب ”دبستانِ حدیث“ پڑھى-
یوں توبچپن سے ہی  آپ کا مزاج شعرگوئی کی طرف مائل تھا ، لیکن اعلی تعلیم کے لیے مدینہ یونیورسٹی جانے لگے تو  آپ نے اللہ سے دعا کی کہ  آپ کی شعرگوئی کا جذبہ ختم ہوجائے اوریہ دعا قبول ہوئی، اللہ جزائے خیر دے برصغیرکے معروف مؤرخ علامہ محمد اسحاق بھٹی صاحب کوکہ انہوں نے اپنی کتاب ”دبستانِ حدیث“ میں موصوف کی زندگی کے بعض گوشوں کو اجاگر کرتے ہوئے اس ضمن میں ان کے ذوق شاعری پرتبصرہ کیا اور انہیں عربی کے ساتھ اردو نظم میں بھی خدمات انجام دینے کی تاکید کی ۔ پھرکیا تھا ،مذکورہ کتاب کے منظرعام پر آتے ہی موصوف کے ذوق شاعری نے دوبارہ سراٹھایا اورچند مہینوں کے اندر”مسدس شاہراہ دعوت“ کے پیکر میں ڈھل کردنیا کے سامنے جلوہ گرہوگئی ۔
مسدس كے منظرعام پرآتے هى علمى حلقون نے اسے سراہا اور ستائشی کلمات لکھےجن میں سے معر وف ادیب اورصحافی سہیل انجم كا ایک تبصرہ بھی روزنامہ ہمارا سماج میں شائع ہوا تھا، اس مسدس پر تبصرہ کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:
 278 مسدس یعنی 834 ابیات پر مشتمل یہ کتاب اسلامی افکار کا ایک حسین مجموعہ ہے ۔ پاکیزہ شاعری کی اہمیت وضرورت پرزوردیتے ہوئے شيخ موصوف نے جن موضوعات کو نظم کے لیے انتخاب کیا ہے وہ خالص اسلامی ہیں مثلاً ایمانیات، صفات باری تعالی، رسالت ،صحابہ کرام ، محاسن اسلام ،اسلام پر مخالفین کے اعتراضات اوران کے جوابات ، محدثین کی مساعی جمیلہ ، اہل حدیث کے فضائل ومحاسن اورفقہائے کرام اور ان کی مساعی جمیلہ وغیرہ ۔
مسدس پر تین بڑی شخصیات علامہ محمد اسحاق بھٹی ،علامہ ابن احمد نقوی اورمولانا عبدالعلیم ماہر کے اعتراف نامے اورعلمی تبرکات نے اس کی اہمیت کودوبالا کردیا ہے ۔ 
سهيل انجم مزيد لکھتے ہیں: ”اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانائے موصوف نے ایک طویل عرصے تک شاعری ترک کرکے اپنے ساتھ ناانصافی کی ہویا نہ کی ہو ‘ دنیائے شعروادب کے ساتھ  نا انصافی ضرور کی ہے“۔

ليست هناك تعليقات: