الحمد للہ کہ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کی گرانقدر نعمت میں پل رہے ہیں ، اس نعمت کا صحیح اندازہ وہی کرسکتا ہے جس نے کبھی گمراہی کی تاریکی میں کچھ وقت بتایاہو، آج دنیا کی اکثریت اس نعمت سے محروم ہوکر خسارے کا سودا کررہی ہے ۔ ڈاکٹرز ہیں، انجینیرز ہیں ، فلاسفہ اوراعلی افسران ہیں، ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے اور شمس وقمر کے فاصلوں کو سمیٹنے والے سائنسداں ہیں، لیکن صدحیف انہیں خالقِ کائنات کا عرفان حاصل نہ ہوسکا ہے ۔ کیوں کہ انہوں نے ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولی ہیں جہاں اسلام کی روشنی نہ پہنچ سکی ہے ۔
ایسے گم کردہ راہوں کے تئیں بحیثیت مسلمان ہماری کیا ذمہ داری ہونی چاہیے اسے ایک مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے فرض کیجئے کہ ایک نابینا راستے سے گزررہا ہے، بیچ راستے میں ایک گڑھا ہے جس میں اس کے گرجانے کا قوی اندیشہ ہے، یا ایک شیرخوار بچہ سامنے میں رکھے ہوئے شعلے کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے اور اتفاق سے آپ وہاں موجود ہیں، ذرا دل کوٹٹولیں اورمن سے پوچھیں کہ ان دونوں حالات میں آپ کی دلی کیفیت کیسی ہوگی ؟ یہی نا کہ آپ فوراً اندھے کی طرف بڑھیں گے اور ہاتھ پکڑ کر اسے راستہ پار کرائیں گے اورشیرخوار بچے کو گود میں اٹھالیں گے کہ مبادا شعلے کو ہاتھ میں پکڑ لے ۔ بالکل یہی مثال دوسری قوموں کے مقابلہ میں ایک مسلمان کی ہے، ان کی گمراہی کے سامنے ہمارے دل میں دردمندی اور محبت کے وہی جذبات پیدا ہونے چاہئیں جوکنویں میں گررہے اندھے اورشعلے کی طرف لپکنے والے شیرخواربچے کودیکھ کر ہمارے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔
کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اسی فکر اور لگن میں ہمارے حبیب نے اپنی 23 سالہ زندگی گزاری، انسانیت کے غم میں راتوں کی نیند اور دن کے آرام کو خیربادکیا ، ہروقت ، ہرلمحہ اورہرجگہ یہی فکر ستاتی رہی کہ انسانیت اس پیغام حق کو قبول کرلے، آخر اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کر کس کو پیغام حق سنایاتھا؟ منڈیوں، میلوں اورحج کے ایام میں گھوم گھوم کر کس کو دعوت دیا کرتے تھے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے کسے دعوت دینے کے لیے طائف کا سفر کیا تھا ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے مصعب بن عمیررضى الله عنه کو یثرب کیوں بھیجا تھا ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے مختلف مذاہب اورمختلف ممالک کے بادشاہوں کے پاس اپنے سفراء وفرامین کیوں بھیجے تھے ؟ ان سارے سوالات کا جواب ایک ہے کہ آپ نے اپنی دعوت کا ہدف ان گم کردہ راہوں کو بنایا تھا جودین فطرت سے منحرف ہوگئے تھے۔ آج بھی مسلمانوں کی اصلاح کے مقابل اسلام کی دعوت غیروں تک پہنچانے کی اتنی ہی ضرورت ہے جس قدراس وقت تھی ۔ فرض کیجئے کہ آپ ڈاکٹر ہیں، آپ کے پاس دو مریض لائے جاتے ہیں ، ایک کو سردی اور کھانسی کی شکایت ہے جبکہ دوسرے کا گلہ کٹ چکا ہے ایسے نازک مرحلہ میں بحیثیت ڈاکٹر آپ سب سے پہلے کس مریض کو ہاتھ لگائیں گے ؟ ظاہر ہے ایسے ہی مریض کوجس کا گلہ کٹ چکا ہے کہ اسے فوری سنبھالنے کی ضرورت ہے ۔ (يہ فقره ڈاکٹرذاكر نايك سے مستفاد ہے)
اگرآپ یہ سوچیں کہ پہلے مسلمانوں کو پورے طورپر دیندار بنادیں گے تب غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دیں گے توایسا کبھی ہوگا ہی نہیں ، اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں بھی مسلمان اصلاح کے محتاج تھے لیکن آپ نے پوری توجہ مسلمانوں کی اصلاح کی طرف مبذول نہ کی بلکہ اصلاح اور دعوت دونوں کوساتھ ساتھ لے کر چلتے رہے جوہمارے لیے کھلا پیغام ہے کہ ہردورمیں اصلاح کے ساتھ تعارف اسلام کا کام جاری رہنا چاہیے۔
دعوتی شعورکے فقدان کی وجہ سے بعض مسلمان بھائی جب غیرمسلموں کوتعارف اسلام پر مشتمل کتاب دیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن میں فوراً یہ سوال کھٹکتا ہے کہ آخرغیرمسلموں کو اسلام کی کتاب کیوں دی جائے ، دعوتی میدان میں کام کرتے وقت راقم سطورکو بارہا اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں ،کچھ لوگوں نے غیرمسلموں کے ہاتھوں سے اسلامی لٹریچرچھین لیا،کچھ لوگ غیرمسلموں کو دعوتی مواد دینے پرراقم سطورکے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے ،کچھ لوگ غیرمسلموںکی زبان میں اسلامی کتابیں دیکھ کرچراغ پا ہوگئے - یہ غلط فہمی محض اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ ہم نے اسلام کومسلمانوں تک محدود سمجھا اورغیرمسلموں کو’ غیر‘سمجھا حالانکہ اسلام سارے انس وجن کا مذہب ہے اورغیرمسلم کوئی’ غیر‘نہیںبلکہ انسانیت ہی کا ایک حصہ ہیں:
شعوردعوت کافقدان اوراس کے نتائج
برصغیرپاک وہند کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ بعد کے ادوارمیں مسلم بادشاہوں اورامراء نے اپنی سلطنت کومستحکم کرنے کی طرف پورازور دیا اور دین سے بے توجہی برتی جس کی بنیاد پر مسلم معاشرے میں ہندوانہ رسم ورواج اوربدعملی کے بیشمار مظاہر سامنے آنے لگے، اس وقت دینی غیرت رکھنے والے علماء اور داعیان دین نے مسلمانوں کی اصلاح کی طرف پوری توجہ مبذول کیں جن کی کوششیں واقعی قابلِ ستائش تھیں تاہم اس کا منفی پہلو یہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کی اکثریت کے ذہن ودماغ سے اسلام کی ہمہ گیریت کا احساس نکلتا گیا، وہ اس نکتے کوبھول گئے کہ برادران وطن بھی اسلام کے مخاطب ہیں، یہ بہت بڑی غلط فہمی تھی جومعاشرے میں عام ہوئی حالانکہ اصلاح کے ساتھ ساتھ دعوت بھی ہونی چاہیے تھی ،تاہم ایسا نہ ہوسکا پھراس کا حتمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہم داعی بننے کی بجائے رفتہ رفتہ مدعو بننے لگے ۔غیرقوموں نے مسلم معاشرے میں اپنے باطل عقائد کا پرچار شروع کردیا ،اگربرصغیرمیں دینی مدارس کی قابل قدرخدمات نہ ہوتیں تو اس مذہبی یلغار نے ہماری شناخت بھی مٹا دی ہوتی ۔
آج دورجدید کاچیلنج ہم سے اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ ہم اپنے مخاطب کو پہچانیں ، اپنے منصب کاعرفان حاصل کریں کہ ہمیں انسانیت کی خاطر وجودمیں لایا گیا ہے۔ ہم انسانیت کے لیے رہبر اورقائد کی حیثیت رکھتے ہیں ، ہم داعی ہیں اوردوسری قومیں مدعواورمخاطب ۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم اسلام کی جس عظیم اوربیش بہا نعمت میں پل رہے ہیں اس سے دوسروں کو بھی آگاہ کریں ، یہ ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔اسے انجام دے کر ہی ہم کل قیامت کے دن کی پرشش سے بچ سکتے ہیں ۔ توآئیے ہم عہد کرتے ہیں کہ اسلام کا پیغام گھر گھرپہنچائیں گے اوراسلام کی آفاقیت سے انسانوں کومتعارف کرائیں گے۔
ایسے گم کردہ راہوں کے تئیں بحیثیت مسلمان ہماری کیا ذمہ داری ہونی چاہیے اسے ایک مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے فرض کیجئے کہ ایک نابینا راستے سے گزررہا ہے، بیچ راستے میں ایک گڑھا ہے جس میں اس کے گرجانے کا قوی اندیشہ ہے، یا ایک شیرخوار بچہ سامنے میں رکھے ہوئے شعلے کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے اور اتفاق سے آپ وہاں موجود ہیں، ذرا دل کوٹٹولیں اورمن سے پوچھیں کہ ان دونوں حالات میں آپ کی دلی کیفیت کیسی ہوگی ؟ یہی نا کہ آپ فوراً اندھے کی طرف بڑھیں گے اور ہاتھ پکڑ کر اسے راستہ پار کرائیں گے اورشیرخوار بچے کو گود میں اٹھالیں گے کہ مبادا شعلے کو ہاتھ میں پکڑ لے ۔ بالکل یہی مثال دوسری قوموں کے مقابلہ میں ایک مسلمان کی ہے، ان کی گمراہی کے سامنے ہمارے دل میں دردمندی اور محبت کے وہی جذبات پیدا ہونے چاہئیں جوکنویں میں گررہے اندھے اورشعلے کی طرف لپکنے والے شیرخواربچے کودیکھ کر ہمارے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔
کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اسی فکر اور لگن میں ہمارے حبیب نے اپنی 23 سالہ زندگی گزاری، انسانیت کے غم میں راتوں کی نیند اور دن کے آرام کو خیربادکیا ، ہروقت ، ہرلمحہ اورہرجگہ یہی فکر ستاتی رہی کہ انسانیت اس پیغام حق کو قبول کرلے، آخر اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کر کس کو پیغام حق سنایاتھا؟ منڈیوں، میلوں اورحج کے ایام میں گھوم گھوم کر کس کو دعوت دیا کرتے تھے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے کسے دعوت دینے کے لیے طائف کا سفر کیا تھا ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے مصعب بن عمیررضى الله عنه کو یثرب کیوں بھیجا تھا ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے مختلف مذاہب اورمختلف ممالک کے بادشاہوں کے پاس اپنے سفراء وفرامین کیوں بھیجے تھے ؟ ان سارے سوالات کا جواب ایک ہے کہ آپ نے اپنی دعوت کا ہدف ان گم کردہ راہوں کو بنایا تھا جودین فطرت سے منحرف ہوگئے تھے۔ آج بھی مسلمانوں کی اصلاح کے مقابل اسلام کی دعوت غیروں تک پہنچانے کی اتنی ہی ضرورت ہے جس قدراس وقت تھی ۔ فرض کیجئے کہ آپ ڈاکٹر ہیں، آپ کے پاس دو مریض لائے جاتے ہیں ، ایک کو سردی اور کھانسی کی شکایت ہے جبکہ دوسرے کا گلہ کٹ چکا ہے ایسے نازک مرحلہ میں بحیثیت ڈاکٹر آپ سب سے پہلے کس مریض کو ہاتھ لگائیں گے ؟ ظاہر ہے ایسے ہی مریض کوجس کا گلہ کٹ چکا ہے کہ اسے فوری سنبھالنے کی ضرورت ہے ۔ (يہ فقره ڈاکٹرذاكر نايك سے مستفاد ہے)
اگرآپ یہ سوچیں کہ پہلے مسلمانوں کو پورے طورپر دیندار بنادیں گے تب غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دیں گے توایسا کبھی ہوگا ہی نہیں ، اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے زمانے میں بھی مسلمان اصلاح کے محتاج تھے لیکن آپ نے پوری توجہ مسلمانوں کی اصلاح کی طرف مبذول نہ کی بلکہ اصلاح اور دعوت دونوں کوساتھ ساتھ لے کر چلتے رہے جوہمارے لیے کھلا پیغام ہے کہ ہردورمیں اصلاح کے ساتھ تعارف اسلام کا کام جاری رہنا چاہیے۔
دعوتی شعورکے فقدان کی وجہ سے بعض مسلمان بھائی جب غیرمسلموں کوتعارف اسلام پر مشتمل کتاب دیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن میں فوراً یہ سوال کھٹکتا ہے کہ آخرغیرمسلموں کو اسلام کی کتاب کیوں دی جائے ، دعوتی میدان میں کام کرتے وقت راقم سطورکو بارہا اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں ،کچھ لوگوں نے غیرمسلموں کے ہاتھوں سے اسلامی لٹریچرچھین لیا،کچھ لوگ غیرمسلموں کو دعوتی مواد دینے پرراقم سطورکے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے ،کچھ لوگ غیرمسلموںکی زبان میں اسلامی کتابیں دیکھ کرچراغ پا ہوگئے - یہ غلط فہمی محض اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ ہم نے اسلام کومسلمانوں تک محدود سمجھا اورغیرمسلموں کو’ غیر‘سمجھا حالانکہ اسلام سارے انس وجن کا مذہب ہے اورغیرمسلم کوئی’ غیر‘نہیںبلکہ انسانیت ہی کا ایک حصہ ہیں:
(1) اسلام کی نظر میں پوری انسانیت ایک ہی کنبہ اور خاندان ہے کیونکہ انسانیت کی شروعات ایک ہی انسان ’آدم ‘سے ہوئی ہے (سورہ النسائ1) اس سے ہمیں انسانی اخوت کاسبق ملتاہے کہ جس طرح ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اسی طرح ہرانسان انسانی رشتہ سے ہمارا بھائی اورہمارے وسیع ترخاندان کا ایک حصہ ہے ۔یہ اخوت اوربھائی چارگی ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوںتک یک طرفہ ہمدردی اورپیار سے ان کے رب کا پیغام پہنچائیں ۔
(2) اسی طرح اسلام نے ہمیں احترام انسانیت اور انسانی شرافت کا تصوردیا کہ انسان بحیثیت انسان اللہ تعالی کی نظر میں قابل احترام ہے ،اللہ تعالی نے فرمایا: ”ہم نے انسان کو معززبنایاہے “(سورہ بنی اسرائیل 70) یہ تکریم اوراحترام تمام بنی نوع انسان سے متعلق ہے ، مسلم اورغیرمسلم کی کوئی تفریق نہیں۔
شعوردعوت کافقدان اوراس کے نتائج
برصغیرپاک وہند کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ بعد کے ادوارمیں مسلم بادشاہوں اورامراء نے اپنی سلطنت کومستحکم کرنے کی طرف پورازور دیا اور دین سے بے توجہی برتی جس کی بنیاد پر مسلم معاشرے میں ہندوانہ رسم ورواج اوربدعملی کے بیشمار مظاہر سامنے آنے لگے، اس وقت دینی غیرت رکھنے والے علماء اور داعیان دین نے مسلمانوں کی اصلاح کی طرف پوری توجہ مبذول کیں جن کی کوششیں واقعی قابلِ ستائش تھیں تاہم اس کا منفی پہلو یہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کی اکثریت کے ذہن ودماغ سے اسلام کی ہمہ گیریت کا احساس نکلتا گیا، وہ اس نکتے کوبھول گئے کہ برادران وطن بھی اسلام کے مخاطب ہیں، یہ بہت بڑی غلط فہمی تھی جومعاشرے میں عام ہوئی حالانکہ اصلاح کے ساتھ ساتھ دعوت بھی ہونی چاہیے تھی ،تاہم ایسا نہ ہوسکا پھراس کا حتمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہم داعی بننے کی بجائے رفتہ رفتہ مدعو بننے لگے ۔غیرقوموں نے مسلم معاشرے میں اپنے باطل عقائد کا پرچار شروع کردیا ،اگربرصغیرمیں دینی مدارس کی قابل قدرخدمات نہ ہوتیں تو اس مذہبی یلغار نے ہماری شناخت بھی مٹا دی ہوتی ۔
آج دورجدید کاچیلنج ہم سے اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ ہم اپنے مخاطب کو پہچانیں ، اپنے منصب کاعرفان حاصل کریں کہ ہمیں انسانیت کی خاطر وجودمیں لایا گیا ہے۔ ہم انسانیت کے لیے رہبر اورقائد کی حیثیت رکھتے ہیں ، ہم داعی ہیں اوردوسری قومیں مدعواورمخاطب ۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم اسلام کی جس عظیم اوربیش بہا نعمت میں پل رہے ہیں اس سے دوسروں کو بھی آگاہ کریں ، یہ ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔اسے انجام دے کر ہی ہم کل قیامت کے دن کی پرشش سے بچ سکتے ہیں ۔ توآئیے ہم عہد کرتے ہیں کہ اسلام کا پیغام گھر گھرپہنچائیں گے اوراسلام کی آفاقیت سے انسانوں کومتعارف کرائیں گے۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق