الاثنين، يوليو 11، 2011

کيا بڑی بات تھی ہوتے جو...

پچھلے دنوں ہندوستان کی ايک فرقہ پرست تنظيم نے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دينے کے ليے يہ شوشہ چھوڑا تھا کہ ”مسلمان ہندوستان کو پچھلے دنوں ہندوستان کی ايک فرقہ پرست تنظيم نے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دينے کے ليے يہ شوشہ چھوڑا تھا کہ ”مسلمان ہندوستان کو دارالحرب کہنا چھوڑ ديں اور ہندووں کو کافر نہ کہا جائے“۔ ميں نے اِسے دعوت کا سنہرا موقع سمجھا اور اپنے ہندی بلوگ پر اس کا مثبت جواب ديا ‘جس ميں ڈاکٹر ذاکر نائک کا حوالہ بھی موجود تھا ۔ متعدد لوگوں نے مثبت تبصرے کيے ، ليکن ان ميں ايک صاحب نے اس پر اپنا ريويو يو ں ڈالا ” آپ اسی ذاکر نائک کی بات کر رہے ہيں ....نا ....جن کا فلاں جگہ پر پروگرام تھا ‘ تو مسلمانوں نے اُسے رکوا ديا ‘ فلاں جگہ پر آنا طے تھا تو مسلمانوں نے ان کے خلاف احتجاج کيا
عزيزقاری ! اس ريويو پرذرا ہم سنجيدگی سے غور کريں اور سوچيں کہ امت مسلمہ کے آپسی اختلافات کس قدر سنگين صورتحال اختيار کرچکے ہيں کہ غيرقوميں بھی اس پر تبصرہ کرنے لگی ہيں ....آخر ہم اسلام کی آفاقيت کو لوگوں کے سامنے کيسے پيش کر سکيں گے ؟ ....کيسے ہم خير امت کی ذمہ داری نبھا سکيں گے .... ؟ ہم فکرونظر ميں کسی سے اختلاف کرسکتے ہيں ليکن اِس کا مطلب يہ نہيں کہ اس اختلاف کو اس قدر ہوا ديں کہ برادران وطن کو اسلام کی صداقت پر شک ہونے لگے اور اسلام کی اشاعت متاثر ہوجائے۔
واقعہ يہ ہے آج ايک طرف توعالمی سطح پر اسلام کے خلاف سازشيں ہورہی ہيں اور پوری دنيا اسلام اوراہل اسلام کونابود کرنے کے ليے ميدان عمل ميں اتر چکی ہے تو دوسری جانب ہم مسلمان خود آپسی خانہ جنگی کے شکار ہيں ، جماعتوں ، گروہوں ، اورٹوليوںميں بٹے ہوئے ہيں ، ہم ميں کا ہرايک دوسرے کی مخالفت پر کمر بستہ ہے ، معمولی معمولی باتوں کو ايشو بناکر ہم ايک دوسرے سے بدظن ہو جاتے ہيں، اور بدظنی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ايک دوسرے کی بات تک سننے کے ليے تيار نہيں ہوتے حالانکہ ہمارا دين ايک ہے، ہمارا معبودايک ہے،ہمارا رسول ايک ہے، ہمارا قرآن ايک ہے، ہمارا قبلہ ايک ہے اور ہماری منزل بھی ايک ہے ۔ ہم اس آفاقی دين کے علمبردار ہيں کہ عرب کے بدو اور جنگجو قوموں نے جب اِسے اپنايا تھا توانکے بيچ سے صديوں کے اختلافات کافور ہوگئے تھے ۔ سيکڑوں سالوں کی پل رہی عداوتيں ختم ہوگئی تھيں اور ايسے شير وشکر ہوگئے تھے کہ پوری انسانی تاريخ ميں ان کی مثال نہيں ملتی ۔آج بھی اگر ہم متحد ہوسکتے ہيں تو انہيں اصول کو اپناکر جن کی بدولت وہ متحد ہوئے تھے ۔ وہ اصول کيا ہے ؟ اللہ تعالی نے سورہ انفال ميں فرمايا ” اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اورآپس ميں مت جھگڑو ورنہ کمزور پڑ جاوگے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی“۔ پتہ يہ چلا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے اختلاف پيدا ہوتا ہے ، جب تک لوگ کتاب وسنت کو اپنا حرزجان بنائے رہے انکے بيچ اتفاق واتحاد قائم رہا ليکن جب سے کتاب وسنت کا دامن ہاتھ سے چھوٹا تو اس کی جگہ ذاتی مفادات ، تعصب وتنگ نظری اور آپسی چپقلش نے لے لی ۔ آج ہم مسلک کے نام پر بھی باہم دست بگريباں نظر آتے ہيں ، حالانکہ اگر ہم حق کے متلاشی بن جائيں تواس طرح کے اختلافات خود بخود زمين بوس ہوجائيں گے ، صحابہ کرام کے بيچ فروعی مسائل ميں اختلافات پائے جاتے تھے ليکن يہ اختلافات کبھی انکے انتشار کا سبب نہ بنے ، وجہ صرف يہ تھی کہ سب حق کے متلاشی تھے ، قرآن وحديث ان کا مطمح نظر تھا۔ يہی صفات ائمہ عظام کے اندر بھی پائے جاتے تھے۔ ائمہ اربعہ کے بيچ اختلافات پائے جاتے تهے ليکن ان کادل ايک دوسرے کے تئيں بالکل صاف تھا، انکے دلوں ميں ايک دوسرے کے خلاف کبھی رنجش پيدا نہ ہوئی امام ذہبی نے سير اعلام النبلاء(10/16) ميں لکھا ہے ”يونس الصدفی کہتے ہيں ميں نے امام شافعی سے زيادہ دانا کسی کو نہيں ديکھا ، ايک دن ميں نے کسی مسئلہ ميں ان سے مناظرہ کيا پھر جب ہم لوگ جدا ہونے لگے تو وہ ہم سے ملے ، ميرا ہاتھ تھاما اور فرمايا: يا أبا موسى ألا يستقيم أن نکون اخوانا وان لم نتفق فی مسئلة ”کيا يہ بہتر نہيں کہ ہم سب بھائی بھائی بن کررہيں گوکہ کسی مسئلے ميں متفق نہ ہو سکيں “۔ آج بھی امت مسلمہ کو اِسی آپسی محبت کی ضرورت ہے ليکن اس کے ليے سب سے پہلے اپنے دلوں ميں وسعت پيدا کرنی ہوگی اور انپی نظر کو کشادہ کرنا ہوگا تنگ دلی اور تنگ نظری سے ہميشہ نقصان ہوا ہے اور ہو رہا ہے ۔

ارتباط

ليست هناك تعليقات: