اسلام ایک عالمگیر اور آفاقی مذہب ہے جس کے مخاطب سارے انس وجن ہیں ، اورپیارے نبی صلى الله عليه وسلم کی بعثت سارے عالم کے لیے ہوئی، آپ کے بعد گذشتہ تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا گیا، اب شریعت محمدیہ کے علاوہ اورکوئی شریعت مقبول نہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا: انَّ الدِّینَ عِندَ اللّہِ الاسلاَمُ ”اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے “۔ (آل عمران 19) دوسری جگہ ارشاد فرمایا: وَمَن یَبتَغِ غَیرَ الاسلاَمِ دِیناً فَلَن یُقبَلَ مِنہُ وَہُوَ فِی الآخِرَةِ مِنَ الخَاسِرِین ”جو اسلام کے سوا کسی اور دین کا متلاشی ہوگا وہ ہرگز مقبول نہیں ہوگا اوروہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا“۔ (سورہ آل عمران85 )“۔ اوررحمت عالم صلى الله عليه وسلم کی بابت فرمایا:والذی نفسی بیدہ لایسمع بی أحدمن ھذہ الامة یہودی ولانصرانی فمات ولم یؤمن بالذی أرسلت بہ الا کان من أصحاب النار ”آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میںتم سب کی طرف اللہ کا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں“۔ (سورہ اعراف 158) خود پیارے نبی ا نے بیان فرمایا : ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری امت میں جو شخص بھی میری بات سن لے ،وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا “۔ (صحیح مسلم )
اسلام کی آفاقیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہورہا ہے، اسلام کی اشاعت کا راز کسی دورمیں مسلمانوں کی شان وشوکت اور عظمت وسیادت نہیں رہا بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ جب امت شدید ضعف واضمحلال سے دوچار تھی تب بھی اسلام کا قافلہ بڑھتا ہی رہا ۔ایک برطانوی مورخ آرنلڈٹوئنبی لکھتا ہے:
”اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت اسلامی حکومت کا شیرازہ منتشرہو رہا تھا اس وقت اسلام میں جوق درجوق داخل ہونے والوںکی تعداد اس وقت سے کہیں زیادہ تھی جبکہ اسلامی حکومت متحد اورشان وشوکت میں تھی “۔ (تاریخ البشریة آرنلد تونبی ط۔ الأھلیہ للنشر والتوزیع بیروت ج 2ص 110)
چنانچہ ساتویں صدی ہجری میں تاتارجیسی خون خواروخون آشام اورجنگجوقوم نے جب مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت بغدادپرحملہ کیااوراس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تومفتوح مسلمان ایسے بے دست وپا اورہراساں ہوگئے کہ ایک تاتاری عورت بھی جب کسی مسلمان کوسڑک سے گذرتے دیکھتی تو کہتی : ابھی انتظارکرو میں تلوار لے کرآتی ہوں، وہ تلوار لے کر آتی اوراس کا سرقلم کردیتی تب تک یہ بے بس مسلمان سہماہوا کھڑا رہتا ۔ لیکن دنیاکایہ عجیب معمہ ہے کہ جب انہیں تاتاریوں نے مفتوح اقوام کی صحبت اختیارکی تومفلس اوربے بس مسلمانوں کے اخلاق وکردار سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے چنانچہ علامہ اقبال نے کہا تھا
اسلام کی آفاقیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہورہا ہے، اسلام کی اشاعت کا راز کسی دورمیں مسلمانوں کی شان وشوکت اور عظمت وسیادت نہیں رہا بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ جب امت شدید ضعف واضمحلال سے دوچار تھی تب بھی اسلام کا قافلہ بڑھتا ہی رہا ۔ایک برطانوی مورخ آرنلڈٹوئنبی لکھتا ہے:
”اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت اسلامی حکومت کا شیرازہ منتشرہو رہا تھا اس وقت اسلام میں جوق درجوق داخل ہونے والوںکی تعداد اس وقت سے کہیں زیادہ تھی جبکہ اسلامی حکومت متحد اورشان وشوکت میں تھی “۔ (تاریخ البشریة آرنلد تونبی ط۔ الأھلیہ للنشر والتوزیع بیروت ج 2ص 110)
چنانچہ ساتویں صدی ہجری میں تاتارجیسی خون خواروخون آشام اورجنگجوقوم نے جب مسلمانوں کی عظیم الشان سلطنت بغدادپرحملہ کیااوراس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تومفتوح مسلمان ایسے بے دست وپا اورہراساں ہوگئے کہ ایک تاتاری عورت بھی جب کسی مسلمان کوسڑک سے گذرتے دیکھتی تو کہتی : ابھی انتظارکرو میں تلوار لے کرآتی ہوں، وہ تلوار لے کر آتی اوراس کا سرقلم کردیتی تب تک یہ بے بس مسلمان سہماہوا کھڑا رہتا ۔ لیکن دنیاکایہ عجیب معمہ ہے کہ جب انہیں تاتاریوں نے مفتوح اقوام کی صحبت اختیارکی تومفلس اوربے بس مسلمانوں کے اخلاق وکردار سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے چنانچہ علامہ اقبال نے کہا تھا
ہے عیاں یورش تاتا رکے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
تعارفِ اسلام کی راہ میںہماری کوششوںکادخل ہویانہ ہو اسلام اپنی فطری تعلیمات کی بنیاد پر ہردورمیں پھیلا ہے اورتاقیام قیامت پھیلتارہے گا، آج مسلمانوں کی اکثریت کی بدعملی اوراسلامی تعلیمات سے دوری کے باوجود پوری دنیامیں سب سے زیادہ پھیلنے والامذہب اسلام ہی ہے جوہمارے لیے کھلا پیغام ہے کہ مستقبل اسلام ہی کا ہے ۔پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق