الأربعاء، سبتمبر 30، 2015

نماز اور اس کی حکمتیں

 

ترجمہ: شاکرعادل عباس تیمی 

اللہ تعالی فرماتا ہے:" یقیناً نماز مومنوں پر مقرره وقتوں پر فرض ہے"،" یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے"،" ان نمازیوں کے لئے افسوس (اور ویل نامی جہنم کی جگہ) ہے، جو اپنی نماز سے غافل ہیں"،" اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ"،" اور نماز کو قائم رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ"،" پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا"،" تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈاﻻ،
وه جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے".

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک انسان اور کفروشرک کے درمیان جو فرق کرنے والی چیز ہے وہ نماز کا چھوڑنا ہے"،"ہمارے اور ان کے مابین نماز کا عہد ہے،جس نے نماز چھوڑی اس نے کفر کیا"،"اس کے پاس کوئی دین نہیں جس کے پاس نماز نہیں،
بے شک نماز کو دین میں وہی حیثیت حاصل ہے جو سر کو جسم میں"،"جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی اس سے اللہ اور اس کے رسول بری ہیں"،"جس نے نماز کی حفاظت کی اس کے لیے بروز قیامت وہ روشنی،رہنما اور نجاۃ کا ذریعہ ہوگا،اور جس نے اس کی محافظت نہ کی اس کے لیے قیامت کے دن نہ تو روشنی ہوگی،نہ کوئی رہنمائی ہوگی اور نہ نجاۃ،اور اس کا معاملہ قارون،فرعون،ہامان،اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا"،"سب سے پہلے بندے سے اس کی نماز کے بارے میں پوچھ ہوگی،اب اگر اس نے اس کو ادا کیا ہوگا تو اس کے لیے وہ مکمل لکھی جائے گی اور اگر نماز میں نقص ہوگا تو اللہ اپنے فرشتے سے کہے گا: تم دیکھو!کیا تم میرے بندوں کے پاس نوافل میں سے کچھ پاتے ہو  تو اس تطوع کے ذریعہ اس کے فرائض کی تکمیل کردو؟"،"بطور چور لوگوں میں سب سے برا وہ شخص ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے.لوگوں نے کہا :ائے اللہ کے رسول،وه اپنی نماز میں کیسے چوری کرتا ہے؟نبی کریم نے فرمایا:وہ نماز کے رکوع وسجود کو صحیح سے ادا نہیں کرتا".

یہ نماز کے بارے میں بعض وارد آثار ہیں جو دین میں اس کی قدرومنزلت کو بیان کرتے ہیں،جسے میں نے  ان افراد کے جواب میں جمع کیا اور پیش کیا ہے جنہوں نے  اس(نماز)سے سستی برتی،اس کی خطرناکیوں کو آسان اور معمولی سمجھا اور یہ گمان کیا  کہ نماز کے بغیر بھی کام بن جائے گا اور وہ اس(فریضہ کی ادائیگی)  سے بے نیازہے. بہت سے لوگ اسی تصور کے قائل ہیں اور یہی راہ انہوں نے اختیار کی ہے.کچھ دن ہوئے ان میں سے ایک شخص آیا جو اپنی نسبت دمشق کے معروف ومشہور خاندان کی طرف کرتا ہے،چوں کہ وہ پڑھا لکھا،متقی اور  خیروصلاح والا خانوادہ ہے،اس نے مجھ سے بات کی اور میں نے بھی اس سے،وہ مجھ سے ہم کلام تھا کہ اس نے کہا: "اگر کوئی لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اور ان کی((ضرورتوں)) کے لیے تگ ودو کرتا ہے،لیکن وہ نماز میں کسل مندی سے کام لیتا ہے اور زکوۃ ادا نہیں کرتا تو یہ ایسی بات نہیں جس کا اسے کچھ بھی نقصان اٹھانا پڑے!میں نے چاہا کہ کچھ بولوں،لیکن اس نے موقع نہیں دیا اور کہنے لگا:میں جانتا ہوں کہ یہ قدامت پسند لوگ میری اس بات کی تائید نہیں کریں گے...
                     
یہاں پر میں اس کی بات کو کاٹنا مناسب نہیں سمجھتا:لیکن سب سے پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ کیا تم مسلمان ہو؟
--یا اللہ!کیا تم مجھے نہیں پہچانتے؟
--اور کیا تم نہیں سمجھتے کہ اسلام کیا ہے؟
--عجیب بات ہے؟یہ کیسا سوال ہے؟

--میرے محترم بھائی یہ آپ کے سوال کا جواب ہے!
آپ کیسے کہتے ہیں کہ "یہ قدامت پسند لوگ"حالاں کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ اسلامی موقف ہے اور اس شریعت کی رائے ہے جسے لے کر محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے؟بلاشبہ آپ کو دین کی معلومات نہیں، اور یہ ہمارے لیے مصیبت ہے,جس کی مثال آپ جیسے ہیں.نہ وہ جانتے ہیں کہ علم کی روشنی میں بولتے اور نہ ہی خاموش رہتے ہیں جس سے لوگوں کو اور خود کو راحت پہنچاتے. ہاں میرے بڑے بھائی،جو لوگ اپنی نماز،روزہ اور حج ادا نہیں کرتے ان کا شمار مسلمانوں میں نہیں ہوتا گرچہ انہوں نے ہزار سال انسانیت کی خدمت کی ہو،اس لیے کہ یہ اسلام کے ارکان ہیں،اور عمارت بغیر بنیاد کے کیسے کھڑی ہوسکتی ہے؟

اب یہ باتیں ان افراد کے لیے ہیں جو دین نہیں جانتےجس سے وہ اس کی حقیقت کو سمجھ پاتے اور  اس کی اصلیت سے واقف ہوتے،یا اپنی جہالت کا اعتراف کرتے اور کمیوں کا اقرار کرتے!

بےشک دین اسلام مکمل دین ہے،اور ((مکمل دین))کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے پیروکار کی زندگی کے ہر قدم پر مکمل رہنمائی کرتا ہے،وہ اس پر باپ سے زیادہ مشفق اور ماں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے، وہ اس کی منفعتوں اور مصلحتوں کو اس شخص سے زیادہ جانتا ہے جو ان کے بالکل قریب ہوتے ہیں ،ہر بھلائی کے کاموں میں اس کی رہنمائی کرتا ہے اور ہر اس کام سے روکتا ہے جس میں اس کے لیے نقصان اور مصیبت ہو.

دین کی تین شاخیں ہیں:ایمان،اسلام اور احسان.ایمان اللہ کا حق ہے،اسلام انسان کا ذاتی حق ہے اور احسان یہ عامۃ الناس سے تعلق رکھتا ہے.اور یہ تینوں حقوق آپس میں  مخالف اور جدا نہیں ہیں،بلکہ ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں کبھی الگ نہیں ہوسکتے.

اب نماز اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے،لیکن نماز اگر ایمان،اللہ کی عظمت وجلال کے تخیل اور خشوع و  خضوع سے خالی ہوجائے،تو یہ کھڑا ہونا اور بیٹھنا فقط اٹھک بیٹھک قرار پائے گا،جس کا کوئی فائدہ نہیں.
روزہ اسلام کا ایک رکن ہے،لیکن یہ ایمان، اخلاص اور اللہ کی رضاء وخوشنودی سے خالی ہوجاٰئے،اس کی نگرانی اور گناہوں سے دوری کا خوف نہ ہو تو یہ ایک قسم کی بدبختی ہے،اور بدبختی یہ ہے کہ ایک انسان  جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہ کرے کہ اللہ کو اس بات کی حاجت ہی نہیں کہ وہ اپنی خوردونوش چھوڑ دے!

زکاۃ بھی اسلام کے ارکان میں سے ایک ہے،لیکن جب یہ ایمان سے دور  ہوجائے اور اس میں نام ونمود اور فخرو غرور گھر کرجائے تو یہ گناہ ہے اس پر کوئی ثواب نہیں.
اور اسی طرح کی بات ہر خیروبھلائی کے کاموں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے،جب تک اس کام میں اللہ کی وحدانیت بنیاد ہوگی اور وہ کام اللہ کے لیے خاص ہوگا.  کسی کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ لوگوں کے حق کو پورا کرے اور اللہ کے اور اپنے حق سے دست بردار ہوجائے،بلکہ جو کوئی حقوق اللہ اور حقوق النفس میں کوتاہی کرتا ہے وہ لوگوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرسکتا، اور جو شخص یومیا  اپنے رب کے لیے پنجوقتہ نماز ادا نہیں کرسکتا وہ اپنی قوم و ملک کے لیے بھی کچھ نہیں کرسکتا،اور جو خود کے لیے نفع بخش نہیں وہ اپنے وطن کے لیے بھی مفید نہیں بن سکتا.
ایسا شخص جب نماز ادا کرنے میں کسل مندی سے کام لے گا-حالاں کہ وہ جانتا ہے کہ نماز اس کے لیے ہر قسم کی خیرو بھلائی سے بہتر ہے- تو کیسے وہ اپنی جان ومال سے  وطن کی راہ میں قربانی دینے کے لیے آمادہ ہوگا؟اور کون ہے جو  ملک کے لیے کام کرتا ہے اور اس کے پیچھے وہ شہرت اور لوگوں کے درمیان اپنی برائی سننا پسند نہیں کرتا؟یہ انسانی طبیعت ہے جسے نام پسندی سے جدا نہیں کیا جاسکتا، اللہ جانتا ہے میں اسی بات کی کوشش کرتا ہوں کہ میں غوروفکر کروں تو صرف اللہ سے اجروثواب کی امید کرتے ہوئے،لیکن  مجھے میرا نفس گمراہ کرتا ہے اور میں جب لکھتا ہوں تو طبیعت لوگوں کی واہ واہی کا آرزومند ہوتی ہے اور اس سے خوش ہوتی ہے. یہ باتیں ان کے تعلق سے ہیں جو اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ ایک ایسے دین کے لیے محنت کرتے ہیں جس کا رب ہر چیز پر قادر ہے،تو ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنے رب کو نہیں جانتے ؟
اور میں نہیں جانتا کہ کیسے ایک بے نمازی کے ساتھ معاملہ کریں اور اس پر اعتماد کریں؟یہ ہماری حماقت ہے کہ ہم اس سے نہیں بچتے، نہ ہی اس کو برا گمان کرتے ہیں اور اس سے دھوکہ کھاتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کا برا کرتا ہے اور  خود کو دھوکہ میں ڈالتا ہے،جس سے وہ بہت سے خیر سے محروم ہوجاتا ہے اور نماز چھوڑنے کی پاداش میں اپنے سامنے دائمی وابدی سعادت کے دروازے بند کردیتا ہے.
اس موضوع کو ہم رہنے دیں:اور سوال کریں کیاہم نماز پڑھتے ہیں؟اس سے پہلے کہ ہم جواب دیں قاری کو شاعر اور امیر کا قصہ بیان کرتے ہیں:قصہ یوں ہے کہ ایک شاعر نے کسی سخی امیر کے یہاں کا قصد کیا جو اپنی تعریف کرنے والوں کو بیش قیمتی مال سے نوازتا ہے،بشرطیکہ وہ اس کی تعریف میں دیانت سے کام لیتا ہو اور اس کی موجودگی میں کسی اور کا تذکرہ نہیں کرتا،چناں چہ شاعر نے اس کے چوکیدار سے اجازت کا وقت اور وضع وقطع کی اختیارگی کے حوالے سے دریافت کیا،تو اس نے کہا:جب کل کی صبح ہو تو اچھے سے سنورنا اور فلاں فلاں پوشاک پہننا پھر آنا میں ان تک رسائی دلوا دوں گا،اس کے بعد کی ذمہ داری تم پر ہے کہ تم اس کی تعریف کرو اور اس کی ثناء بیان کرو.اب وہ چلا اور ویسا ہی کیا جیسا حاجب(دربان)نے اس سے کہا،اس سے ایک حرف بھی کچھ الگ نہیں کیا،اور جب اس کے پاس گیا تو سوائے اس تعریفی کلمات کے جسے اس نے امیر کے دشمن کے بارے میں کہا، سارا کچھ بھول گیا،اور وہ بھگا دیا گیا!

یہ ہم لوگوں کی مثال ہے جب ہم نماز پڑھتے ہیں،اور اللہ کے لیے اعلی ترین مثال ہے:فقہاء نے ان باتوں کو بیان کیا ہے جو اس کی شان میں سے ہمارے ظاہر کا پاک اور درست ہونا ہے اور خشوع وخضوع کا ذکر نہیں کیا، ہم نے بھی اس کو چھوڑدیا اور فقہاء کی ذکرکردہ باتوں کی بنیاد پر ہم نے یہ سمجھا کہ ہر چیز نماز میں ہے، ہماری نماز کھڑا ہونے اور بیٹھنے کے طور پر رہ گئی.اور ہم اللہ کے قول کی تلاوت کرنے لگے((إياك نعبد وإياك نستعين)). اللہ جانتا ہے کہ ہمارے دل کہاں ہیں اور ہم کس کی عبادت کرتے ہیں:مال کی؟یا تجارت کی؟یا اہل کی؟یا لڑکے کی؟اگر ہم نے نماز کا مکمل اہتمام کیا اور اس کو حقیقت بر مبنی سمجھا یہ ضروری ہے کہ وہ ہمیں فواحش ومنکرات سے روکے گی اور ہمارے جملہ امور کی اصلاح کرےگی.کوئی بھی پیش آنے والی برائی اللہ کی تیز نگاہ سے پوشیدہ نہیں،کون ہے جو ہردن پانچ بار اپنے اس رب العالمین کے سامنے بحالت خشوع کھڑاہوتا ہے جو ڈھکی اور چھپی باتوں کا جاننے والا ہے؟اس کی بڑائی اور کبریائی میں غورکرتاہے تو دنيااس کی نگاہ میں بونی نظر آتی ہے اور اسی حالت میں وہ صبح کرتا ہے،چناں چہ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اس میں صرف اللہ کو  زندہ و باقی پاتا ہے، وہ اللہ سے سوال کرتا ہے کہ ائے پالنہار ((ہمیں سیدھا راستہ دکھا))اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دے،((اس راہ پر جس پر تیرا انعام ہوا ہے))انہیں توفیق ملتی اور وہ ہدایت پاتا ہے،اللہ اس کی دعاء قبول کرتے ہیں اور اسے اس کی چاہت کے موافق عطا کرتے ہیں،اس لیے اللہ کا فرمان ہے:مجھ سے مانگو،اور ہمارا وعدہ قبول کرنا ہے.
کونسا ایسا مسلمان ہوگا جو نماز کی حلاوت کا مزہ جانتاہو پھر وہ مؤذن کی پکار ((حي على الصلاة،حي على الفلاح))پر لمحہ بھر کے لیے بھی تاخیر سے کام لے،اور اپنے کام اور اپنی مشغولیت کو گرچہ بہت بڑی ہو نہ چھوڑے؟ اور عمل کو ترک کرنا اسے کیا نقصان پہنچائے گا جب کہ وہ اللہ کی پکار پر لبیک کہنے والا ہے،اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ اس عمل کے بدلے اسے دس گنا بڑھا کردے؟اور جو کوئی اللہ کے لیے کچھ چھوڑتا ہے اللہ اس کو اس سے بہتر بدلہ عطا فرماتے ہیں.
اگر ہم نماز پڑھتے جس کا ہمارے رب نے حکم دیا تو-اللہ کی قسم-ہمارے درمیان نہ تو کوئی کمزور باقی رہتا نہ ہی فقیر اور بدحال.کاش میں خود اس  بات پر قادر ہوتا جس کی لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں...حالاں کہ وہ لوگ مجھ سے بہتر ہیں،اور میں اس بات کو خیال میں لاتا ہوں تو اللہ سے شرم وحیا کے مارے قلم کو توڑنے اور کاغذ کو ٹکڑے-ٹکڑے کردینے کی سوچتا ہوں. پھر شرح صدر ہوتا ہے تو کہتا ہوں:شاید اللہ مجھ پر رحم کرے تو مجھے ہدایت دے اور میرے ذریعہ دوسروں کو بھی.((اور یہ کہ اللہ میرے ذریعہ  ایک آدمی کو بھی ہدایے دے دے تو وہ مجھے سرخ اونٹ سے زیادہ پسندیدہ ہے)).

ائے اللہ ہمارے رب ہم پر نفس غالب آچکا ہے،ہمیں اس سے لڑنے کی قوت دے،اس سے اور شیطان مردود سے ہمیں محفوظ رکھ،ائے اللہ!

اللہ کی قسم اگر ہم آذان کی آواز پر مسجد کا رخ کریں تو ہم میں کوئی وعدہ خلاف اور دروگ گو باقی نہیں رہے گا،اس لیے کہ ہم ارادے کے پختہ اور اوقات کے پابند لوگ ہیں.اور اگر ہم ہر نماز کے لیے اچھی طرح وضو کریں اور سنن ونوافل کا اہتمام کریں تو ہم میں کوئی مریض اور کمزور نہیں رہے گا،اس لیے کے نماز ہمارے جسم کو قوت بخشتا ہے،
تفکیری صلاحیت کو بڑھاتا ہے اور ثبات عطا کرتا ہے .اگر ہم نماز باجماعت کی حکمت کو جان لیتے اور مسلمانوں کے فلاح وبہبود اور حالتوں کے بارے میں گفت وشنید کرتے ،ان کو درپیش قضیے اور جو پریشانیاں انہیں آگھیرتی ہیں ان پر باتیں کرتے تو ہم پر یہ ذلت ورسوائی نہ آتی جس سے آج چیخ وپکار اور آہ وبکا کا ماحول ہے اور اسے ہم دور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے.
نماز اسلام کی اساس اور اس کا ستون ہے.اس کی حفاظت کرو اور اول وقت میں ادا کرو،نماز سے پیچھے نہ رہو، خشوع اور اطمینان کو بحال رکھو،اور یاد رکھو کہ تم اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے کھڑے ہو جو تمہاری پوشیدہ باتوں اور سرگوشیوں کو جانتا ہے،اور اس بابت اپنے اہل اور اپنی عورتوں کو بتاؤ،اس پر اپنی اولاد اور بچیوں کی تربیت کرو،ہر اس شخص سے رشتہ توڑ لو جو نماز کو چھوڑنے والا ہے اور اس میں سستی سے کام لیتا ہے،اور تم اللہ کے بارے میں ایسے لوگوں سے بے نیاز ہو،وہ(اللہ)
 تمہارے لیے کافی ہے اور بہترین کارساز ہے.

(البواکیر،علی طنطاوی:ص:107تا 113)


ليست هناك تعليقات: