الأربعاء، سبتمبر 30، 2015

منی حادثہ ایک تجزیہ

منی حادثہ ایک تجزیہ

           محمد شاکر عادل تیمی
    جامعہ اسلامیہ،مدینہ منورہ(سعودی عرب) 

دنیا میں کہیں بھی اگر بھگدڑ مچتی ہے اور اس سے جانوں کا اتلاف(نقصان) ہوتا ہے تو اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں آپس میں "خیر سگالی" کے فقدان کابہت بڑا دخل ہے.مسلم قوم کے علاوہ دنیا میں اور بھی قومیں ہیں جن کے بعض تیوہار(تہوار) یا عیدوں میں انسانی جانوں کا جم گٹھا اور ہجوم ہوتا ہے اور اس میں غیرحفاظتی تدابیر اور ناقص انتظام  کے سبب بدامنی پیدا ہوتی ہے اور جانوں کا ضیاع ہوتا ہے.

اس سے معلوم ہوا کہ ازدحام کے سبب بھگدڑ اور بدامنی ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں خصوصا جب انتظام وانصرام میں نقص ہو.اور ایسے ادھوڑے نظم ونسق میں "خیرسگالی" کے جذبے کو فروغ دینا بھی مشکل امر ہے.

لیکن ایسا اجتماع جہاں ہر قسم کی سہولیات میسر ہوں،ضعیفوں کے لیے خدمت گار ہوں بیماروں کے لیے تیماردار ہوں، امن وسلامتی کے دستوں کی قربانیاں ہوں،دھوپ کی تپش سے بچنے کے لیے جدید تیکنیک سے لیس خیمے اور چھاؤں کا انتظام ہو،ناگہانی حادثات وقائع سے نبردآزما ہونے کے لیے ایمبولینس فائربریگیڈ کے دستے ہوں، اپنی جانوں پر کھیل کر دوسروں کی زندگیاں بچانے والے جری اور بہادر جوان ہوں،خوردونوش کے انتظام کی فکر کرنا تو جیسے فضول بات ہے،جدھر نگاہ اٹھائیے بڑی عدد میں خیرات وحسنات بٹورنے والوں سے سامنا ہوگا،غربت وافلاس کے خوف سے لاپرواہ اپنے سرمائے کو کھانا،پانی،جوس،پھل،چھتری اور ہر اس چیز میں لٹاتے نظر آئیں گے،جس میں اللہ کے مہمانوں کی راحت کا سامان ہو.

سبحان اللہ!اللہ رب العالمین کے بندوں کی اس قدر قدردانی شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے.یہ باتیں سنی ہوئی نہیں بلکہ مشاہداتی اور حسی ہیں،آنکھوں نے دیکھا ہے کہ امن وسلامتی کے دستے کس خوش اخلاقی سے اپنے حجاج مہمانوں سے پیش آتے ہیں،اور قدم بہ قدم ان کا تعاون کرتے ہیں،ضعیف العمر اور مریضوں کو گود میں لے کنکریاں مروانا،عربات(ویل چیئرز) پر طواف کرانا،حجاج کی بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے نہ تو عوام پر لاٹھی چارج کی جاتی ہے اور نہ ہی بدکلامی، ان کی زبان سے صرف ایک ہی خاص مؤدب اور مہذب لفظ نکل رہے ہوتے ہیں(یاللہ حاج! یاللہ حاج!یاللہ حاج!).اور یہ پورے سال آپ سنیں گے مکہ میں ہوں یا مدینہ میں،حج کے ایام میں حج والے اور بقیہ ایام میں معتمرین کی بھیڑ اور سبھوں سے ایک ہی گزارش،یاللہ حاج!یاللہ حاج!....کوئی دوسرا نہ تو تمسخر کا جملہ اور نہ ہی چہرے پر ناگواری کی جھلک.

اس قدر راحت رسانی،سہولیات، اعلی نظم ونسق اور حفاظتی تدابیر کے بعد بھی کوئی حادثہ وقوع پذیر ہوتا ہے تو بہر صورت یہ تشویش،شکوک وشبہات اور انجانے خیالات کو جنم دینے والے ہیں.وقت حادث تا ہنوز خبریں اپڈیٹ ہورہی ہیں،زخمیوں کی تعداد  بھی ہے اور شرح اموات بھی، اور یہ یقینی ہے کہ جو زخمی ہوئے ہیں ان میں سے کچھ کو موت کی نیند ملے گی کچھ جانبر ہوں گے اور یہ مشیئت الہی ہے اس پر ہمیں سوفیصدی ایمان لانا ہے.اور موت کے اسباب بھی مختلف ہوسکتے ہیں، اس بات کا نعش کو دیکھ کر اندازہ کیاجاسکتا ہے، ،کچھ کی روندنے سے موت ہوئی ہوگی،بعض کی دم گھٹنے سے،ہو سکتا ہے کچھ لوگ حرکت قلب کے بند ہونے سے مرے ہوں،اس لیے کہ اس طرح کے حوادث کے وقت کمزور دل دوسروں کی مدد کی بجائے اپنی جان سے چلے جاتے ہیں,کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ جان لیوا مواد کے ہوا میں منتشر ہونے سے بھی کچھ کی موت ہوسکتی ہے.اور یہ عین ممکن ہے کہ دشمن کو ازدحام میں یہ سب کچھ کرنے کا موقع مل گیا ہو،یا یہ بھی امکان ہے کہ بھگدڑ کا سبب بھی یہ زہریلا مواد بنا ہو،اس لیے کہ شوشل میڈیا پر بعض پوسٹ کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ شاید منظم کوشش کے ساتھ اس حادثہ کو انجام دیا گیا ہے،ورنہ حجاج کا one way کو 2way کرنے کا کیا مقصد تھا؟کیوں ایک بڑی جماعت ہاتھ میں پلے کارڈ اٹھائے ایسی بھیڑ کی جگہوں پر مخالف سمت چلنا شروع کردیتی ہے؟

گرچہ یہ ساری باتیں قیاسی لگتی ہیں،لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موت کی وجہیں اس سے مختلف نہیں ہوتیں،اور وہ دشمن عناصر بھی نظر انداز نہیں کیے جاسکتے جو حکومت سعودی عرب کو بدنام کرنے کے لیے کوئی لمحہ ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے اور غیرانسانی حرکتیں کرتے رہتے ہیں.

 اب گفتگو اس پر نہیں کہ اتنی جانوں کا اتلاف ہوا،اس لیے کہ جو اللہ نے مقدر کیا تھا ہوا اور جو اس حادثہ میں جان سے گئے ان شاءاللہ وہ اللہ رب العزت کے یہاں ماجور ہیں.بلکہ ہمیں ان اسباب کی  کھوج کرنی ہے جو اس طرح کے واقعات کی وجہ بنتے ہیں.

وقوع حادث کے بارے میں لوگوں کی مختلف رائے ہے،جس کا خلاصہ ہے "ازدحام".لیکن سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ کیا"ازدحام"کو سبب مان لینے سے ہم کسی نتیجہ پر پہنچ پائیں گے؟نہیں!

اور اگر رپورٹ  سچ ہو تو ماضی کے  مقابل امسال حج کے لیے جمع ہونے والوں کی تعداد آدھی تھی،یعنی اس سال اگر 20 لاکھ افراد حج کے  اجتماع میں شامل تھے تو گزرے 4سال قبل 40 لاکھ،تب کوئی جانکاہ حادثہ پیش نہیں آیا لیکن اب سینکڑوں جانوں کی موت کاذمہ دار اس "ازدحام"کو ٹھہرایا جارہا ہے.تاکہ حکومت پر الزام آئے کہ عازمین حجاج کی مناسبت سے انتظام وانصرام اور حفاظتی تدابیر میں کمی تھی.حالاں کہ حکومت کی اللہ کے مہمانوں کے لیے اس قدر جانفشانیاں ہیں کہ دشمن بھی تعریفی کلمات لکھنے اور ستائشی الفاظ بولنے پر مجبور ہے.اللہ حکومت سعودی عرب کی حفاظت فرما،ان کے مساعی جمیلہ کو قبول فرما!

ہاں! اگر جائے وقوع یا جمرات کی طرف جاتی  اور لوٹتی شاہراہ پر "ازدحام"کے اسباب پر غور کریں تو کچھ حد تک گتھی سلجھتی نظر آئے گی کہ حادثہ کی بنیاد کیا ہے؟

**(جائے وقوع پر بدامنی اور ازدحام کے اسباب)

1)ضعیف العمر اور مریضوں کے نقل حمل والے "چکے"عربات(wheelchair )
2)حکومتی تدابیر نظم ونسق کو نظر انداز کرنا.
اس ضمن میں چند باتیں آسکتی ہیں:
⬅حجاج کا اپنی سمت چھوڑ کر مخالف سمت چلنا.
⬅ اعمال کو انجام دینے کے لیے حکومتی ہدایات کے مطابق اوقات کی تنظیم ہوتی ہے اس کو نظر انداز کرنا.
3)عمل کی انجام دہی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا جذبہ.
4)اعمال کو سرعت کے ساتھ انجام دینے کی جلدی.
5)ایک بھائی کا دوسرے کے تئیں خیر سگالی کا فقدان.
6)راستہ گم ہونے اور اپنے ساتھیوں سے بچھڑجانے کے خوف سے ایک دوسرے کا انگلی اور ہاتھ پکڑ کر چلنا،اس سے غول کی شکل ہوجاتی ہے اور ازدہام کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں.
7)بغیر "تصریح حج کے لیے شامل ہونے والے حجاج.

یہ ساری مشاہداتی باتیں ہیں جو عموما دوران حج ارکان وواجبات کی ادائیگی کے وقت دیکھنے کو ملتی ہیں.

مذکورہ اسباب میں رقم(5)کے اندر جس سبب کی نشاندہی کی گئی ہے وہ ایسی ہے کہ جس کے گم پائے جانے سے عموما بھیڑ کی جگہوں پر دھکا مکی کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں،اور ایسا طواف کی جگہ پر بارہا مشاہدہ ہوا کہ جلدی اور اعمال کے انجام دہی کے جذبے میں لوگ بھول جاتے ہیں کہ سہوا ان سے دوسروں کو تکلیف مل رہی ہے.ایسی صورت میں  مدافعت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مدافعت میں جس کا قوت مدافعت کمزور پڑتا ہے اس کی جان پر بن آتی ہے،اب ایک آدمی زمیں پرآتا ہے،اس کی چیخ نکلتی ہے دوسرے اسے دیکھ ہواس باختہ ہوجاتے ہیں،اب وہ اپنی جان کی فکر میں کچھ بھی کرتے چلے جاتے ہیں،جیسا کہ دو عینی شاہد(جن میں سے ایک کو جان کی امان ملی اور دوسرے نے اپنی اہلیہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے دم توڑتے دیکھا)کی رپورٹ ہے ،فرماتے ہیں کہ حجاج ہواس باختگی کے عالم میں ایک دوسرے کو روند رہے تھے.
انہوں نے جائے حادثہ پر بھیڑ کی وجہ مخالف سمت سے آچڑھنے والی ٹولی کو بتایا اور مریضوں کے نقل وحمل کے دوچکے والے عربات(wheel chair ) کو بھی،مگر اس بات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا،اس لیے کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب wheelchair کا استعمال کیا گیا ہو.

ان جملہ قرائن سے کسی نتیجہ پر پہنچ پانا قبل از وقت ہوگا،اس لیے کہ ازدحام کی وجہیں سمجھنا تو آسان ہے البتہ اس تعداد میں موت کا سبب کیا بن سکتا ہے ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے.اور اس قضیہ کا حل تحقیقی رپورٹ پیش کرے گی.

اللہ رب العالمین سے دعاء ہے کہ مرنے والوں کو شہداء میں شامل کرلے،ان کے لواحقین کو صبر جمیل دے.حکومت سعودی عرب کی مدد فرما،دشمنان اور حاسدین کی نظر بد سے محفوظ رکھ،عالم اسلام خصوصا حجاج کرام کے لیے ان کے مساعی جمیلہ کو قبول فرما.

نوٹ:

مذکورہ باتیں ماضی کے تجربات،بعض عینی شاہدین اور  قیاس وآراء کی بنیاد پر ہیں،جن کا عموما "ازدحام"کی جگہوں پر پایا جانا یقینی ہے.


ليست هناك تعليقات: