السبت، سبتمبر 19، 2015

مردوں کی معلمہ: اماں عائشہ رضی اللہ عنھا



                 تحریر: علی الطنطاوی                                            اردو قالب:سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی

یہ گفتگو ایک ایسی خاتون کے بارے میں ہے جس نے 14صدی پہلے دنیا کے سامنے یہ ثابت کردیا کہ عورت بھی مردوں سے بڑی عالمہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس کے پاس زانوئے تلمذ تہ کریں،وہ مردوں پر فائق ہو سکتی ہے کہ لوگ اس کے نقش پا کی پیروی کریں، وہ سیاست میں ہنر آزمائی کر سکتی ہے ، جنگ میں اپنے جوہر دکھلا سکتی ہے، اور تاریخ کے صفحات پر اپنے کارناموں کی ایسی گونج چھوڑ سکتی ہے کہ جس کی بازگشت صدیوں زمانہ سنتا  رہے۔
یہ خاتون نہ تو کسی یونیورسٹی سے سند یافتہ ہے اورنہ اس کے زمانے میں یونیورسٹیوں کا وجود ہی  تھا، لیکن تب سے اب تک یونیورسٹیو ں کے شعبئہ آداب وثقافت میں اس کے آثار و مقولات پڑھائے جاتے ہیں اور اس کے ادبی شہ پارے شامل نصاب رکھے جاتے ہیں، دینیات کے شعبہ میں اس کے فتاوی اور اس سے مروی احادیث کی ورق گردانی کرائی جاتی ہے، نیز اسلامی اور عربی تاریخ کا ہر مدرس اس کے کارناموں کی جستجو کرتا اور انہیں قلب وذہن کے قرطاس  پہ نقش کر کے یک گونہ خوشی محسوس کرتا ہے۔
یہ ایک ایسی خاتون کی داستان ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد بھی دنیا ان کے علم وفن سے مستفید ہورہی ہے، اور لوگ ان کے علم کی وسعت اور فکری آفاقیت سے حیران ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو  ایسا ملکہ نصیب ہوا تھا کہ اس میں کوئی ان کا ہمسر نہیں،بچپنے میں جنہوں نے ان کی پرورش وپرداخت کی وہ مسلمانوں میں سب سے افضل ہیں، وہ ان کے والد حضرت ابو بکر صدیق ۔رضی اللہ عنہ۔ ہیں،جوانی میں جنہوں نے ان کی نگہداشت کی وہ ان کے شوہر نامدار ، اللہ کے رسول،خاتم الانبیاء اور اکرم البشر ہیں،چنانچہ علم  وفضل اور بلاغت وزبان دانی کا جو حصہ انہیں علم و معرفت کے ان چشموں سے میسر ہوا وہ  کسی  اور خاتون عالم کو نصیب نہ ہو سکا۔ 
یہ ایک ایسی خاتون ہے کہ جن کے اندر نسوانیت تمام تر اوصاف کے ساتھ موجود تھی، جو اپنے شوہر کے لئے انس ومحبت کا پیکر تھی،جو رشتے داروں کے لئے باعث فرحت تھی،جو علم ومعرفت میں اس قدر بلند مقام پر فائز تھیں کہ علماء ان سے سیکھتے تھے اور مفتیوں کو وہ فتوے دیا کرتی تھیں،زبان دانی اور بلاغت کا یہ عالم کہ بڑے بڑے خطیب زیر ہوتے  تھے اور الفاظ وجمل ان کی زبان کا لمس پاکر فخر کرتے تھے،شخصیت کی قد آوری دیکھئے کہ ہر میدان میں سر دار ہوا کرتیں ، علم وعمل، سماج ومعاشرہ،سیاست وزعامت اور حرب وضرب ہر جگہ ان کی طوطی  بولتی تھی، رہی بات اسلامی مقام ومرتبہ کی تو وہ عزت واکرام کے بلند ترین مقام پر فائزتھیں،ہاں یہ اور بات ہے کہ اسلام کسی بھی شخص کو تقدس کا وہ مرتبہ نہیں دیتا کہ اسے انسان اور بشر سے مافوق بنا دے، اسے الوہی صفات کا  حامل قرار دیدے، اس کو معصومیت سے متصف کردے اور اسے بلندی کے اس منارے پرچڑھادے کہ اس کی تنقید میں حق گوئی بھی ظلم ٹھہر جائے۔
وہ خدیجہ اور فاطمہ ۔رضی اللہ عنہما۔ کے بعد اسلام کی افضل ترین خاتون ہیں، خدیجہ اس لئے ان سے فائق ہیں کہ ان کی خوبیاں ساری عورتوں سے منفرد ہیں، دانائی میں بڑے سے بڑامفکر بھی انکی برابری نہیں کرسکتا، اصابت رائے  میں ان کی کوئی مثیل نہں،  وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اس دین کو سہارا دیا،جبکہ ابھی وہ ناتواں پود کی مانند تھا ، وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں اور یہ بھی نہ دیکھ سکیں کہ کس طرح یہ پود ایک گھنا، سایہ دار و ثمر دار درخت بن کر اس طرح پوری دنیا میں پھیل گیا اور دنیا اس کے چھاؤں تلے آگئی کہ اس کی شاخیں ہمیشگی اور جاودانی کے حدود بھی عبور کر گئیں۔
انہوں نے محمد کو خلوص، پیار، محبت او روفا دیا، وہ آپ کی سب سے کار گر بیوی تھیں، آپ کے لئے ماں کی طرح تھیں، زندگی کے تیروں سے بچاؤ کے لئے ڈھال کا کام کرتی تھیں۔ رہی فاطمہ ۔رضی اللہ عنہا۔تو جہاں وہ نادر وکمیاب خصلتوں کے سبب دیگر عورتوں سے ممتاز تھیں وہیں انہیں جگر گوشئہ رسول ہونے کا بھی شرف حاصل تھا،وہ آپ کے وجود کا ایک حصہ تھیں،اور تمام خواتین عالم پر برتری کے لئے یہی ایک امتیاز  کافی ہے۔
امام زرکشی نے  الاجابۃ میں اماں  عائشہ رضی اللہ عنہا کی چالیس ایسی خصلت ومنقبت ذکر کی ہے جو کسی اور عورت کے اندر نہیں پائی جاتی،رسول گرامی نے سیاسی مصلحت، ادارتی اور تعلیمی غرض وغایت کے سبب عمر دراز اور ثیبہ عورتوں سے شادی کی،اماں عاشہ ہی واحد خاتون ہیں جن سے آپ نے شادی کی تو وہ کنواری تھیں ،وہ آپ کی سب سے زیادہ چہیتی تھیں، تمام بیویوں پر آپ انہیں ترجیح دیا کرتے تھے،حالت مرگ میں انہی کے پاس قیام کرنا پسند فرمایا،ان کی آغوش مبارک میں آپ کی روح پرواز ہوئی،ان  کے ہی حجرئہ مبارک میں آپ مدفون ہوئے،ان کی موجودگی میں آپ پروحی کا نزول ہوتا تھا، آپ ان کا پاس ولحاظ کیا کرتے   تھے، جب حبشیوں کی ایک جماعت مسجد کے اندر نیزہ بازی کر رہی تھی  تو آپ ان کے لئے کھڑے ہوگئے، انہوں نے آپ کے شانئہ مبارک پر اپنا رخسار رکھا تاکہ حبشیوں کی هنر آزمائى کا نظارہ کریں، آپ ان کو سہارا دئے کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ خود ہی ہٹ گئیں،دو مرتبہ آپ نے ان کے ساتھ دوڑ لگایا، پہلی بار وہ آپ پر سبقت لے گئیں، پھر جب اماں عائشہ کا جسم بھاری ہو گیا اور بدن پر گوشت بھر آیا تو آپ ان سے آگے نکل گئے، اور فرمایا: یہ پہلی بار کا بدلا ہے،، ۔ جب حضرت ابو بکر ۔رضی اللہ عنہ۔ان کے پاس آئے، انہیں نبی اکرم سے کوئی ایسی بات کہتے ہوئے سنا جو بیویاں ناراضگی میں کہا کرتی ہیں، تو وہ انہیں مار نے کے لئے بڑھے لیکن حضور پاک نے ان کی حمایت فرمائی اور بچا لیا، اور جب ابوبکر واپس ہو گئے تو اماں عائشہ سے دل لگی کے لئے کہا: دیکھا  میں نے اس آدمی سے تمہیں کیسے بچا لیا؟
آپ اہل خانہ کے ساتھ ایسے ہی پیش آتے تھے،ان کے ساتھ انس ومحبت، خیر وبھلائی، اور فرحت وانبساط کا معاملہ فرماتے تھے، آپ کا برتاؤ ایسا نہیں ہوتا  جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مرد ہونے کا مطلب ہے کہ آدمی اپنے گھر میں ترش رو، چیں بجبیں، گال  پھلائے اور منہ بنائے بیٹھا رہے، فوجوں کی طرح بیوی پر حکمرانی کرے، سرکشوں کی طرح اس پر زور چلائے، ہر گز نہیں، نہ تو ہمارے نبی ایسے تھے اور نہ ہی اسلام کا اس سے کوئی دور کا  واسطہ ہے۔بلکہ آپ کی تعلیم تو یہ ہے کہ : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے  اہل خانہ کے لئے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لئے سب سے بہتر ہوں،،
حضرت عائشہ ۔رضی اللہ عنھا۔سے آپ کی بے پناہ محبت کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ پردہ واجب ہونے سے پہلے ایک فارسی نے آپ کو  ولیمہ کی دعوت دی، آپ نے فرمایا: کیا یہ بھی میر ے ساتھ جا سکتی ہے؟ آپ کی مراد اما ں عائشہ تھیں،انہوں نے نفی میں جواب دیا، دوسری مرتبہ بھی اس نے آپ کی دعوت کی تو آپ نے اس بار بھی یہی شرط رکھی اور وہ اس بار بھی راضی نہ ہوسکا، تیسری بار جب وہ آپ کو دعوت دینے آیا  اور آپ نے کہا : کیا یہ بھی میرے ساتھ جائیگی؟ تو اس بار اس نے ہامی بھر دی اور تیار ہو گیا۔اس واقعے میں جہاں نبی اکرم کی سادہ لوحی، نرم خوئی اور بے پناہ انسیت کا نمونہ ہے وہیں اس داعی کی صاف گوئی بھی صاف جھلک رہی ہے۔اس واقعے کے ان دونوں پہلوئوں کو سامنے رکھئے اور آج لوگوں کی جو صورت حال ہم آپ دیکھ رہے ہیں، ان کا موازنہ کیجئے تو سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتاِ
جب آپ پر وہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو یہ اختیار دیا گیا کہ آپ جن بیویوں کو رکھنا چاہیں، انہیں رکھیں اور جنہیں طلاق دیکر ان کے میکے واپس کرنا چاہیں ، انہیں کردیں، اس موقع پر بھی اماں عائشہ کے تئیں آپ کی ہمدردی واضح طور پر دیکھی گئی، آپ نے کہا: جلدی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا پہلے اپنے والدین سے مشورہ کرلینا،، آپ کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عجلت اور جذبات میں اماں  عائشہ دنیا کو ترجیح دینے کی غلطی کر بیٹھیں، انہوں نے جواب دیا: میں اور آپ کے بارے میں کسی سے مشورہ کروں؟ مجھے آپ کے سلسلے میں کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں، انہوں نے  حریم نبوت بن کر  خانئہ نبوی کو روشن رکھنے کا فیصلہ لیا اور ان کے بعد تمام ازواج مطہرات نے بھی اسی فیصلہ کو اپنے اپنے حق میں اختیار کیا۔
علم ومعرفت میں اس قدر عالی مرتبہ رکھتی تھیں کہ ابو موسی  اشعری رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا: ہم اصحاب رسول جب بھی کسی پیچیدگی میں پڑتے اور ہمیں کوئی اشکال ہوتا تو ہم حضرت عائشہ سے دریافت کرتے۔
بلاغت اور زبان دانی کا معاملہ بھی علم سے مختلف نہیں تھا، احنف بن قیس کہتے ہیں:میں نے ابو بکر وعمر، عثمان وعلی اور آج تک کے تمام خلفا کی تقریریں سنی،لیکن کسی انسان کی زبان سے اتنی عظیم اور خوبصورت بات نہیں سنی جو عائشہ سے سنی۔
آپ سخی دل اور کھلے ہاتھ کی تھیں،نبی اکرم  کے ساتھ فقرو محتاجگی اور بھوک وفاقہ پر صبر کیا، یہاں تک کہ اسی حالت میں کئی کئی دن گزر جاتے اور گھر میں چولہا نہ روشن ہوتا، پانی اور کھجور پر آپ کا گزر بسر ہوتا،جب مسلمانوں کے اندر فراخی آئی اور دنیا کی نعمتوں نے ان کے ہاں دستک دینا شروع کیا تو ایک مرتبہ اماں عائشہ کے گھر ایک لاکھ درہم کا تحفہ آیا، آپ روزہ سے تھیں، انہوں نے ساری رقم تقسیم کردئے، گھر میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں بچی، ان کی لونڈی نے عرض کیا:کیا آپ اپنے لئے ایک درہم کا گوشت بھی نہیں منگوا سکتی تھیں کہ افطار کرسکیں؟ اماں  عائشہ نے جواب دیا:اگر تم نے یاد دلایا ہوتا تو کرلیتی!
  نہ تو غربت سے وہ زچ ہوئیں اور نہ مالداری ان میں کوئی اثر پیدا کر سکی،کیونکہ جب ان کے ذہن ودل میں عظمت نے اپنا بسیرا کر لیا تو دنیا ان کے سامنے ہیچ ہو کر رہ گئی،پھر نہ تو دنیا کی آمد سے آپ پر کوئی اثر ہوتا اور نہ ہی دنیا کے روٹھ جانے سے آپ فکر مند ہوتیں۔
 اماں  عائشہ کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ عورتوں کے لئے ایک مکمل آئیڈیل  ہیں، عورت کی فطرت وجبلت، اس کی آرزو وتمنا ، اس کی صفات اور خوبیاں خامیاں ہر معاملے میں وہ ایک انمول مثال کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ ایک بہترین بیوی تھیں، اور شادی عورت کی سب سے پہلی حصولیابی ہوتی ہے، عورت کی سب سے بڑی خوشی یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی کی بیوی اور کسی کی ماں بنے،چاہے وہ دنیا بھر کے مال ومنال کی مالک ہوجائے، عزت وشرافت میں آسمان کی رفعت کو چھو لے، علم ومعرفت اور زعامت وسرداری میں کوئی اس کی نظیر نہ ہو، یہ سب مل کر بھی اسے شادی اور خانگی زندگی سے بے نیاز نہیں کر سکتے، اور نہ ہی اس کے دل سے اس کی رغبت کم اور میلان ختم کر سکتے ہیں!
آپ ایک خوب رو دوشیزہ تھیں،آپ کو اپنی جوانی اور حسن وجمال کا بھر پور احساس  تھا اور آپ نبی اکرم کی محبت سے خوب محظوظ ہوتی تھیں، بلکہ اپنی سوکنوں پر اس کے ذریعہ  فخر بھی کیا کرتی تھیں، اور حفصہ رضی اللہ عنھا کو اپنا حامی بنا کر زبانی اور عملی ہر دو طریقے سے دیگر امہات المؤمنین پر برتری بھی حاصل کرلیا کرتی تھیں،اگر کسی گھر کے لئے عورت کی ناراضگی  اور نوک جھونک سے خالی رہ  پانا ممکن ہوسکتا تھاتو خانئہ نبوت میں کبھی یہ  واقعات پیش نہ آتے،عورتوں کے لئے جہاں ان واقعات میں نمونے اور مثالیں موجود ہیں وہیں ان کے لئے یہاں سے تسلی کے سامان بھی فراہم ہوتے ہیں، کیونکہ یہ عورت کی طبیعت اور سرشت ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ان سب کے باوجود رضا وخفا ہر حالت میں آپ کی عزت واحترام میں کوئی کسر نہیں کرتیں، حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے اما ں عائشہ سے کہا: تم کب خوش اور کب خفا ہوتی ہو، مجھے پتا چل جاتا ہے،، انہوں نے عرض کیا: یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا:جب تم خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو : محمد کے رب کی قسم، اور جب نالاں  ہوتی ہو تو کہتی ہو: ابراہیم کے رب کی قسم۔
آپ بہت نازنین بھی تھیں ، ناز عورتوں کی فطرت بھی ہے، یہ جمال اور احساس محبت کا پہلا پرتو ہے،  ایک دفعہ آپ نے رسول گرامی سے عرض کیا: آپ کو مجھ سے کیسی محبت ہے؟ آپ نے فرمایا:رسی کی گانٹھ کی طرح۔یعنی اسی طرح مضبوط جس طرح رسی کی گرہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد بارہا وہ آپ سے پوچھا کرتی کہ گرہ کا کیا حال ہے؟ اور آپ جواب دیتے: حسب سابق ہے۔
اماں  عائشہ بہت باغیرت بھی تھیں، یہ احساس جمال اور شعور محبت کا دوسرا پرتو ہے،یہ ایسی غیرت ہے جو محبت کو تازگی بخشتی ہے، اسے کم نہیں ہونے دیتی،اس کو ضوفشاں کرتی ہے، اس کی  لو  کو مدھم نہیں ہونے  دیتی،جبکہ بسا اوقات گھوڑے کو چوکس کرنے والا اس زور سے ایڑ لگاتا ہے کہ وہ مر ہی جاتا ہے، اور آگ کو روشن کرنے والا ایسی پھونک مارتا ہے کہ شعلہ خاک ہوجاتا ہے!
آپ ذی علم تھیں کیونکہ علم عورت کی طبیعت کے منافی نہیں ہے،عورت ہونے کا مطلب ہر گز نہیں کہ وہ مردوں کی امامت اور راہبری نہیں کر سکتیں، لیکن جب ان سے  طبعی حد سے تجاوز اور فطرت کی مخالفت سرزد ہوئی اورآپ سیاست کی اس بھٹی میں داخل ہو گئیں جس کا مطالبہ آج کی بعض عورتیں کرتے نہیں تھکتیں،تو پھر میں نہیں بتا سکتا کہ کتنی تباہیاں رونما  ہوئیں، تم خود بصرہ کی سرزمین سے پوچھ لو کہ اس کی آغوش میں کتنی لاشیں سو رہی ہیں، تم اس سحونت زدہ اونٹنی سے پوچھ لو کہ اس کے پہلو پر کتنے خون بہے،تم ان نفوس سے سوال کرلو کہ کس جرم میں انہیں جان گنوانی پڑی ، ان روحوں سے دریافت کرو کہ وہ کیوں ضائع کی گئیں؟ 
میں اما ں عائشہ کو ان تمام تباہیوں کا ذمہ دار نہیں ٹھرا رہا اور میری کیا بساط کہ میں ام المؤمنین پر انگلی اٹھانے کی جرأت کروں؟ لیکن میں اتنا ضرور کہونگا کہ جب انہوں نے غیر فطری کام میں خود کو مشغول کر لیا، اور اسلام نے جس کا مطالبہ نہیں کیا ہے، اس میں پڑ گئیں،تو یہ افسوسناک امور رونما ہوئے!
یہ بات بھی سمجھنے سے متعلق ہیں کہ ہم جب عورت کو سیاست سے دور رکھنے کی بات کرتے ہیں تو اس کے پیچھے ہمارا  مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہم ان کی آزادی اور سامان دلچسپی سلب کرلیں اور بھلائی کے سارے دروازوں پر اس کے لئے قفل ڈال دیں،بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ عورت کو سیاست کی غلاظت اور اس کی بھٹی سے اٹھنے والے شعلوں سے محفوظ رکھ سکیں!
اس بزرگ وبرتر خاتون کی زندگی کا ایک اہم پڑاؤ وہ بھی ہے جہاں  انہیں ایسی ناروا تہمت کا سامنا کرنا پڑا جس کا حقیقت سے اسی قدر فاصلے کا رشتہ ہے جتنا کہ  زمین کا آسمان سے،وہ آسمان جس کی بلندی سے ان کی برائت میں وہ آیتیں نازل ہوئیں کہ جنہیں قیامت تک نمازوں میں دہرایا جاتا رہیگا ، انہیں اللہ نے بطور درس وعبرت کے ہمارے لئے جاوداں کردیا تاکہ افضل واکمل ترین عورت کی زندگی کایہ سبق آموز موقف دنیا کی عورتوں کو شبہات اور فتنوں سے دور رہنے کی تلقین کرتا رہے، گرچہ وہ تقوی وپرہیزگاری او ر طہارت وپاک دامنی  کے اوج ثریا پر ہی کیوں نہ فائز ہوں ، انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی جا سکتی ہے تو دنیا کی کوئی عورت بھلا کیسے اس سے بری رہ سکتی ہے!

اماں  عائشہ کی وفات کو 14 صدی سے زائد ہوگئے، لیکن دنیا ان کی ہم مثل نہ دیکھ سکی ، اور میں کہتا ہوں کہ اس ارض گیتی پر اماں  عائشہ جیسی زیادہ مثالیں نہیں جنم لے سکتیں۔اللہ ان سے راضی ہو اور جنت میں ان کے درجات بلند فرمائے!  

ليست هناك تعليقات: