الاثنين، سبتمبر 28، 2015

منی کا حادثہ


شہیدوں کے پاک خون سے ناپاک سیاست تک
ثناءاللہ صادق تیمی ، مکہ مکرمہ ، سعودی عرب

اس مرتبہ اللہ کے فضل و کرم سے ہمیں بھی حج کی سعادت نصیب ہوئی ۔ ہم نے پہلے لوگوں کی زبانی ( ان لوگوں کی زبانی بھی جو سعودی عرب کو ایسے گالیاں ہی دیتے ہیں ) سنا تھا کہ بہت ہی عمدہ اور قابل تعریف نظم رہتا ہے ۔ سعودی عرب کے لوگ حاجیوں کی دل کھول کر خدمت کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے اللہ نے انہیں ساری نعمتیں اس لیے دے رکھی ہوں کہ وہ دونوں ہاتھوں سے حاجیوں پر لٹاتے پھریں ۔ ہمیں اپنے صحافیانہ ذوق کی وجہ سے بھی اور اسلامی طرز فکر و نظر کی وجہ سے بھی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بشمول سعودی عرب سے ایک قسم کا لگاؤ تھا اور ہم یہاں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے رہتے تھے ۔ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے سعودی عرب کی جانب سے پیش کی جانے والی کوششوں سے آگاہ بھی ہوتے تھے اور خوش بھی کہ ایک ایسا ملک بھی ہے جس کے اندر اس پر آشوب دور میں بھی دینی حمیت اور ملی غیرت نہ صرف یہ کہ موجود ہے بلکہ قابل صد رشک ہے ۔ اللہ کا فضل دیکھیے کہ اللہ نے ہمیں حرم کی خدمت کے لیے پاک ترین سرزمین مکہ مکرمہ پہنچادیا ۔ یہاں آکر جب قریب سے سعودی عرب کو دیکھنے کا موقع ملا تو دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی کہ اللہ یہاں کے لوگوں اور حکومت کے جذبہ خیر کو یوں ہی باقی رکھے ۔ ساتھ ہی یہ بھی سمجھ میں آیا کہ سعودی عرب کے مخالفین بھی حج کے بعد سعودی عرب کے بارے میں اچھی رائے دینے پر بالعموم مجبور کیوں ہوجا تے ہیں ۔
حج کی سعادت تو نصیب ضرور ہوئی لیکن پے درپے دو ایسے حادثے رونما ہوئے جس نے اندر سے پورا وجود زخمی کردیا ۔ پہلے کرین گرنے سے اللہ کے مہمانوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا اور پھر حج کے درمیان منی کے اندربھگدڑ کی وجہ سے ایک ہزار سے زيادہ اللہ کے مہمان جاں بحق ہوگئے ۔
   منی کے حادثے پر کیا مسلمان  ہر ایک آدمی جس کے سینے میں دل تھا ، کراہ اٹھا ، ہم زندگی میں پہلی مرتبہ حج کی سعادت حاصل کررہے تھے ، دل کے کس کس گوشے میں سرور کا رنگ نہیں تھا ، آنکھوں میں چمک اور زبان پر تہلیل و تکبیر کی صدائیں اور کیا کیا ولولےنہیں تھے جو سینے میں اٹھ رہے تھے ،لیکن حادثے کے بارے میں جانتے ہی ایسا لگا جیسے یکایک کائنات کا حسن مرجھا گیا ہو ، دل کی دنیا بجھ سی گئی ہو اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا ہو ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
پوری دنیا کے' انسانوں' نے اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ۔ ہمیں یہ امید تھی کہ بعض مسلکی ، منہجی اور فکری اختلافات کے باوجود پوری دنیا کے مسلمان اس افسوسناک حادثے پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرینگے ، سعودی عرب کو دلاسہ دلائینگے اور اللہ سے دعا کرینگے کہ اللہ ہم مسلمانوں کو صبر کی توفیق دے اور دوبارہ اس قسم کے حادثے کے رونما ہونے سے بچاؤ کی توفیق ارزانی کرے ۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ امید بالکلیہ ٹوٹ گئی ، نہيں ، بلکہ بعض ذمہ دار اور سمجھدار لوگوں نے جس طرح سے حجاج کرام کی خدمتوں کے لیے پیش کی جارہی سعودی عرب کی خدمتوں کو سہارا اور حادثے پر صبر کی تلقین کی وہ بلاشبہ حوصلہ افزا اور قابل تعریف روش تھی ہم یہاں قاسمی برادران کا ذکر کرناچاہینگے جنہوں نے پوری سمجھداری اور کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پورے معاملے میں کافی محتاط اور صحیح رویہ اپنایا اور لوگوں کو سعودی عرب کے مخالفین اور سنی مسلمانوں کے اعداء کے فریب میں آنے سے بچانے کی کوشش کی ۔ فجزاہم اللہ خیرا
لیکن حادثے کے فورا بعد ایران اور اس کے حلیفوں کی جانب سے جس قسم کا رویہ اپنایا گیا اس نے ہمیں صدمے میں ڈال دیا ۔ ہم جانتے تھے کہ ہمارے شیعہ برادران سنی مسلمانوں سے دشمنی رکھتے ہیں ، حضرات صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کو گالیاں دیتے ہیں ، مائی عائشہ پر تہمتیں تراشتے ہیں ، جھوٹ کی تقدیس کرتے ہیں ، ہم تاریخ کی ان سچائیوں سے بھی واقف تھے کہ انہوں نے ایک نہیں کئی ایک بار اللہ کے مامون گھر بیت اللہ شریف میں قتل و خون کی ہولی کھیلی ہے ، سازشوں کے تانے بن کر اللہ کے گھر اور ان کے حاجیوں کو زک پہنچانے کی کامیاب و ناکام کوشش کی ہے ، ہمیں علم تھا کہ وہ یمن کے اندر باغی حوثیوں کے پيچھے ہیں اور کسی بھی طرح سعودی عرب کو بالخصوص اور عرب ممالک کو بالعموم ستیاناس کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں لیکن ہم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی وہ عداوت و دشمنی میں اس قدر اندھے ہو جائینگے کہ مقدس شہادتوں پر اپنی ناپاک سیاست کی عمارت تعمیر کرنے کی ناکام کوشش کرینگے ۔ جانوں کے ضیاع پر دلاسہ اور تعزیت تو دور کی بات الٹے وہ افتراء پردازیوں اور کذب بیانیوں کا مضحکہ خیز رویہ اپنائینگے ۔
     دشمنی میں قومیں کس حد گرسکتی ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے یہ الزام تک لگادیا کہ حادثہ پرنس محمد بن سلمان (ولی ولی العھد) کے ساتھ ان کے جتھے کی آمد سے رونما ہوا۔ پوری دنیا میں ایک طوفان بدتمیزی برپا کرنے کی کوشش کی ، عالمی سطح پر سعودی عرب کو حاجیوں کی خدمت کے لیے نا اہل ثابت کرنے میں لگ گئے۔ تعجب کی انتہا تو تب ہوگئی جب نوری المالکی جیسے نکمے نے بھی زبان دازی شروع کردی اور مفسد جماعت حزب اللہ کا نام نہاد قائد حسن نصراللہ یہ کہتے سنا گیا کہ اس حادثے کے بعد سعودی عرب کے اس اصرار کی کوئی منطق نہیں رہ جاتی کہ وہی تنہا حاجیوں کی ضیافت کرے ۔
لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ تعجب کا موقع تھا بھی نہیں ، یہی ان کی اصل شناخت ہے پھر وہ اس سے الگ کیسے ہو سکتے تھے ۔ یہ تو ذہن و دماغ میں مدتوں سے پل رہے اس شیطنت کا اظہار ہے جس نے اندر اندر نہ جانے کتنی خباثتوں کی دنیا آباد کررکھی ہے ۔ خمینی نے اپنی موت سے پہلے کہا تھا " ہم ان شاءاللہ مناسب وقت میں  امریکہ اور آل سعود سے انتقام لے کر اپنے لوگوں کے غموں کا انتقام لینگے ، ہم اس بڑے جرم کی حسرتوں کا نشان ان کے دلوں پر چھوڑینگے ، ہم حق کی فتحیابی کا جشن مناکر شہداء کے خاندان کے حلق میں مٹھائياں ڈالینگے، ہم کعبہ کو گناہگاروں کے ہاتھوں سے آزاد کرکے مسجد حرام کو آزاد کرینگے "( یاد رہے کہ سعودی عرب میں  400 مجرم شیعوں کودھماکہ خیز مادوں کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے اور حجاج کرام کو قتل کرنے کی سازش کے جرم  میں تہہ تیغ کیا گیا تھا )
اور رفسنجانی نے 1987 میں کہا تھا " دنیا میں مسلمانوں کے علماء اگر مکہ مکرمہ کے چلانے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں تو اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس اس بات کی استعداد موجود ہے کہ وہ اس مقدس مقام کی آزادی کے لیے لڑائی لڑے "( الجزيرۃ ، 28 ستمبر 2015 ، کوثر الاربش کی تحریر)
 عرب ممالک بشمول سعودی عرب کو اللہ نے امن و امان اور استقرار کی دولت سے نوازے رکھا ، اس لیے ایرانی شیعوں کے لیے اپنے ان ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ممکن نہ ہو سکا اور وہ گھٹیا حرکتوں پر اترآئے ، فکری جنگ سے کام لیا ، منافقین کی ایک جماعت تیارکی ، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بناکر پیش کرنے والے پیشہ ور قلمکاروں کی کھیپ تیار کی ، مختلف طریقوں سے نوجوانوں کو بہلا پھسلاکر سنیوں اورعرب مسلمانوں کے خلاف اتارنے کی سازشیں رچیں اور امریکہ بہادر کے سامنے بڑے اعتماد سے کہا کہ ہمارا اصل دشمن اسرائیل نہیں سعودی عرب ہے اور ساتھ ہی ہر وہ حربہ اختیار کیا جس سے سعودی عرب کو بدنام اور کمزور کیا جاسکے اور عرب اورسنی مسلمانوں کو بے وزن کیا جاسکے ۔
منی کے دل دہلادینے والے حادثے کے پیچھے اسباب کیا تھے ، خامی انتظامی امور میں تھی ، کسی سازش نے اپنا کردار ادا کیا ہے ، ایرانیوں کی بے ہودہ حرکت تھی یا لمحاتی کسی چوک سے اتنا بڑا حادثہ رونما ہوگیا اس کی تحقیق ابھی جاری ہے ، وقت سے پہلے کسی موقف کی تائيد و توثیق مناسب نہیں لیکن ایران اور اس کے حلیفوں نے حادثے کے فورا بعد جس طرح کا رویہ اپنایا ہے اس سے ان کے دجل وفریب اور انسانیت دشمنی کا پردہ چاک ہوگیا ہے ۔ ہمیں خدائی نظام کے باغی بے دین ملحدوں اور اسلام دشمنی میں سر سے پیر تک ڈوبے ان انتہا پسند ہندوؤں سے اس لیے بھی کوئی شکوہ نہیں کہ انسانیت سے گرے ہوئے ان لوگوں سے ہمیں خیر کی توقع کبھی تھی بھی نہیں ۔ اس لیے وہ اس المناک حادثے پر اگر جشن منارہے ہیں یا تمسخر کررہے ہیں تو اس پر ہمیں بہت افسوس ہونا بھی نہیں چاہیے کہ درندوں سے انسانیت کی توقع بجا بھی نہیں ہوتی !!!

ليست هناك تعليقات: