السبت، سبتمبر 19، 2015

تاریخ انسانی کا سردار


اردوقالب: سیف الرحمن حفظ الرحمن تیمی                                                       تحریر: علی طنطاوی

ہجرت کی چند جھلکیاں:
ہم ابھی مکہ میں ہیں جہاں قریش اور محمد کے درمیان توحید و شرک اور اصلاح وجمود کی جنگ جاری ہے، قریش نے اس جنگ کو سر کرنے کے لئے اپنی ساری قوت جھونک دی ہے، مال ودولت کا انبار لگادیا ہے، اور اپنی پوری دنیا صرف ایک مقصد کے لئے داؤ پر لگا دیا ہے کہ محمد نام کے اس بھلائی کو دنیا سے روک کر رکھا جائے۔
محمد کہتے ہیں: میرا راستہ چھوڑ دو میں وسیع دنیا میں نکلنا چاہتا ہوں، تاکہ کمزوروں  کی مد د کر سکوں، مظلوموں  کو سہارا دے سکوں، انسانوں کو انکی کھوئی ہوئی عزت اور عقل کی سلامتی  واپس دلا سکوں، وہ کہتے ہیں:نہیں،نہیں
محمد کہتے ہیں: میرے پیغام کو دنیا میں پھیل جانے دو، کیونکہ یہ کسی خاص شہر کے لئے نہیں آیا اور نہ کسی خاص وقت کے لئے آیا ہے، قریش کہتے ہیں: نہیں نہیں، ہمیں منظور نہیں، ہاں اگر تم چاہو تو تمہیں ہم اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں، تمہیں اپنے مال ودولت کا مالک بنا دیتے ہیں، اور پورے شہر کی سرداری سونپ دیتے ہیں۔
تاریخ قریش کے اس رد عمل  پر ہنس پڑتی ہے،محمد انہیں پوری زمین کی سرداری اور دنیا کی بادشاہت عطا کرنا چاہتے ہیں، ان کے ہاتھوں میں علم ومعرفت، مال ودولت اور  قیصروکسری  کے خزانوں کی کنجیاں دینے کی بات کرتے  ہیں اور وہ ہیں کہ محمد کو صحرائی ریتوں کے پیچھے دو پہاڑوں کے درمیان گمنام سے اس گاؤں کی امارت دیکر بہلانا چاہتے ہیں۔
جب لالچ اور امید دلانے سے بات بنتی نہیں دکھائی دیتی ہے تو یہ لوگ تکلیفیں دینے اور ڈرا دھمکا کر آپ کو قائل کرنا چاہتے ہیں، چلتے ہوئے آپ کے راستے میں  کانٹے ڈال دیتے ہیں ، بہ حالت سجدہ آپ  کی گردن مبارک پر اونٹ کا اوجھ رکھ دیتے ہیں، طائف میں آپ پر سنگ باری کی جاتی ہے یہاں تک کہ آپ خون آلود ہو جاتے ہیں، آپ کا مزاق اڑا یا جاتا ہے ، آپ کی تحقیر کی جاتی ہے  اور آپ کے پیچھے اوباشوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
اس سب کو باوجود آپ ذرا بھی غصہ نہیں ہوتے ، بلکہ آپ کی رحمت اور بڑھ جاتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح بڑے بزرگ کو اپنے چھوٹوں پر پیار آجاتا ہے، اور صاحب عقل وخرد انسان کو مجنون وپاگل شخص  پر ترس آجا تا ہے،آپ کا جواب ہوتا ہے : اے اللہ ! ہماری قوم کو ہدایت دے کہ یہ سمجھتے نہیں۔
قریش کا کوئی بھی حربہ آپ کو اپنے موقف سے باز نہیں  رکھ پاتا ، بلکہ یہ اتنا ہی ناممکن تہا جتنا کہ کسی پتہر کی چوٹ یا پہول کی ضرب سے چاند کو اس کے مدار سے پہیرنا ۔
 قریش  پہلے پہل اسلام قبول کرنے والوں کو ننگے تن کھلے بدن تپتی ریت پر لٹا دیتے  پھر پانی دکھا کر کہتے :محمد کے رب کا انکار کرو ہم تمہیں سیراب کر دینگے، تمہیں چھوڑ دینگے، وہ کہتے : وہ تو ایک ہے ، وہ تو ایک ہے!
رب سے سرگوشی  کی لذت نے عذاب کی سوزش سے انہیں بے نیاز اور حصول جنت کی شدید امید نے دنیاوی درد والم کوان کے ذہن سے کافور کردیا تھا۔
اللہ کے راستے میں انہوں نے سب کچھ برداشت کیا، زدوکوب ، زخم، سوزش وتڑپ، بھوک وپیاس، اور رت جگے کی ساری مصیبتیں جھیلیں، اللہ کے لئے تمام تلخیوں کو جام شیریں سمجھ کر گھونٹ گئے، اللہ کی رضا کی خاطر مکروہ اور مبغوض چیزوں کو بھی محبوب بنا لیا۔
رسول گرامی نے انہیں ان سب سے بھی زیادہ سخت جان آزمائش کی طرف بلایا، گھر بار اوردار ودیار چھوڑنے کو کہا، دین وایمان کی سلامتی کے لئے ایک ایسے انجان ملک کو ہجرت کرجانے کو کہا جہاں کوئی بھی انکا شناسا نہ تھا، وہ زمین انکے لئے اجنبی تھی، وہاں کی زبان  بھی انکی زبان سے مختلف، انکے دین بھی انکے دین سے جدا، انہیں حبشہ کی اس سرزمین کوہجرت کرجانے کا حکم ہوا جہاں نصرانیوں کے ساتھ انہیں واسطہ پڑنا تھا، تاہم  حبشہ کے یہ نصرانی عرب کے مشرکین سے بدرجہا بہتر تھے ، مؤمنوں کے لئے لوگوں میں سب سے زیادہ خیر خواہ یہی نصاری ہیں (مائدہ:۲۸)
انہوں نے آپ کی یہ پکار بھی سنی، اپنے گھروں سے  نکل گئے، اہل خانہ کو الوداع کہ دیا، حبشہ کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن قریش کی ایذا رسانی حبشہ تک انکا پیچھا کرتی رہی، قریش کفر وسرکشی میں ساری حدیں پھلانگ گئے، ان کا راستہ روکنے کے لئے  پورا زور صرف کردیا، لیکن قریش کی کیا بساط کہ نور الہی کو ذرا بھی مدھم کر سکے!
دھواں کی فطرت ہے بلند ہونا، اسے کسی بوتل میں قید نہیں کیا جاسکتا، اگر ایسی کوشش کی گئی تو وہ اپنا راستہ خود بنا لیگا یا شیشہ توڑ کرراہ نکال  لیگا، عین یہی معاملہ اسلام کا بھی ہے۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤگے
مسلمانوں نے دوسری مرتبہ بھی ہجرت کی، لیکن اس بارایک  عرب ملک کی طرف ہجرت کرنی تھی، ایک ایسی سرزمین کی طرف کوچ کرنا تھاجسے اللہ نے محمد عربی کی آمد سے پہلے تک صحرائی ریتوں کے پیچھے گمنام  کرکے زمانے کی نظر سے چھپا کر رکھا تھا، محمد کے پاؤں اس پر پڑ نے تھے کہ وہ ام المدائن ہو گیا، شہروں کی راجدھانی بن گیا، جہاں سے بھلائی اور ہدایت کے سوتے پھوٹ پھوٹ کر سارے عالم کو آب ہدایت سے سیراب کرنے لگلے، ہر جگہ اس کی بھلائی پہنچنے لگی، اور ساری دنیا سے سلطنت، بادشاہی اور بے نیازی کے دھارے اس طرف بہنے لگے۔
تمام کے تما مسلمان ہجرت کرگئے، مکہ میں صرف نبی اور انکے دو ہم راز رہ گئے، ایک کو آپکا رفیق سفر بننا تھا اور دوسرے کو مکہ میں آپکی نیابت کرنی تھی، ان دونوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور سب سے اخیر میں ہجرت کی، بزرگوں کے سردار حضرت ابوبکر اور نوجوانوں کے سر براہ حضرت علی رضی اللہ عنھما۔
محمد اپنے تمام ساتھیوں سے پیچھے رہ گئے تھے بالکل اسی طرح جس طرح  کسی مائل بہ خطر سفینے کا ناخدا اس وقت تک کشتی سے نہیں اتر تا جب تک سارے سوار ساحل سے ہمکنار نہ ہوجائیں، اور جس طرح کہ کوئی امانت دار چرواہا کسی چٹیل میدان سے اس وقت تک نہیں نکلتا جب تک کہ سارا ریوڑ بہ سلامت نہ نکل جائے، آپ  نے اسی لئے ہجرت کرنے میں تاخیر کی تاکہ آپ کے سارے ساتھی سہی سالم نکلنے میں کامیاب ہوجائیں اور آپ بذات خود سینہ سپر ہوکر خطرات کا سامنا کرتے رہیں۔اب خطرہ پوری تابانی کے ساتھ سامنے آکھڑا ہوا، چاروں طرف سے خطرات کے بادل نے آپ کو آگھیرا، قریش کے سربراہان تاریخ کے سب سے بڑے جرم کوروبہ عمل لانے کے لئے سر جوڑے بیٹھے تھے، ایک ایسا جرم پایئہ تکمیل کو پہنچنا چاہ رہا تھا کہ  اگر وہ  پورا ہوجاتا توتاریخ میں دمشق وبغداد، اور قاہرہ و قرطبہ کے سنہرے نام نہ ہوتے، نہ راشدین کی حکومت ہوتی، نہ امویوں کی خلافت کا کوئی ذکر ہوتا، نہ عباسیوں  کے تذکرے ہوتے، نہ عثمانیوں کے ہاتھوں قسطنطنیہ کے فتح ہونے کا شور ہوتا،نہ جامع اموی کی عمارت ہوتی، نہ نظامیہ اور حمرا کے قلعے ہوتے، اور نہ تہذیب وثقافت کے وہ نمونے ہوتے کہ جن سے  اہل یورپ نے اپنی تہذیب کشید کئے۔پہلے شام کی صلیبی جنگوں سے پھر اس کے بعد اندلس کے میراث تمدن سے۔اگر یہ جرم اس  زمین پر انجام پاگیا ہوتا تو تاریخ کی کایہ پلٹ ہوجاتی، لیکن آج ہم ایسی حالت میں ہیں کہ اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے۔
اس مقام پر محمد عربی کی مردانگی اور بہادری کے جوہر کھلتے نظر آتے ہیں، آپکی ثابت قدمی جھلکتی ہوئی دکھتی ہے،اللہ اپنے اولیاء کی مدد کرتا ہے، اس کا مظہر واضح طور پر سامنے آتا ہے،  محمد دروازہ کھولتے ہیں ، صفیں چیرتے ہوئے باہر نکلتے ہیں،آپ کے خون کے پیاسوں کاایک غول ہوتا ہے جسے آپ پار کرجاتے ہیں اور یوں اللہ کا ارادہ مکمل ہوجاتا ہے،اس فوری اقدام سے قریش میں کھلبلی مچ جاتی ہے، انکی نگاہیں بے نور ہوجاتی ہیں، ان پر غشی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، جب تک وہ ہوش میں آتے ہیں تب تک محمد اپنا کام کرچکے ہوتے ہیں، جب انکی آنکھیں کھلتی ہیں تو انہیں لگتا ہے وہ خواب  دیکھ رہے تھے ،دروازہ کھول کر آپکی تلاشی لی جاتی ہے، آپ کے بستر مبارک پر کوئی اور ہی سو رہا ہوتا ہے، وہ آنکھیں پھاڑ کر دیکھتے ہیں اور حیرانی سے لمبی سانس لیتے ہیں،اب  جاکر انہیں حقیقت حال کی خبر لگتی ہے، مکہ کے گردونواح میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے، قریش اپنے گھوڑے دوڑا دیتے ہیں، سب کے سب حیران وششدر  چاروں طرف پھیل جاتے ہیں کہ محمد کا سراغ مل جائے۔
انہیں کیا ہوگیا ہے؟ وہ گھروں کے نگہبان اور میدان جنگ کے شہسوار ہیں ، لیکن آج خوف وہراس سے ان کی عقل ماؤوف سی ہوگئی ہے،  وحشت نے انکو دل شکن کردیا ہے۔
لوگو! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ کہتے ہیں:محمد نکل پڑا ہے۔
تمہیں محمد کی کیوں پڑی ہے؟ کیا وہ تمہارے مال لے بھا گا ہے؟  کہتے ہیں:اللہ کی پناہ ،وہ تو امین ومامون ہے، اس نے ساری امانتیں بھی لوٹادیں!
تو کیا اس نے کوئی جرم کیا ہے کہ تم اس کے سراغ میں لگے ہو؟ کہتے ہیں:اللہ کی پناہ، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کا حامل اور ہاتھ کا بڑا صاف ستھرا انسان ہے!
تو آخر تمہیں اس سے کیا غرض ہے؟ کہتے ہیں: وہ پوری دنیا کو اپنی فوج میں شامل کرلیگا تاکہ ہمارے خدائوں اور بتوں کے خلاف محاذ کھڑی کرے، وہ ہمیں ان جامد وساکت پتھروں کو توڑنے پر مجبور کردیگا، اور ایک اللہ کی عبادت پر اصرار کریگا،وہ ہمیں ہدایت، بھلائی اور سچائی کی پیروی کرنے کوکہیگا۔
کیا اسی وجہ سے تم محمد سے انتقام لینا چاہتے ہو؟
تاریخ ایک بار پھر قریش پر ہنس پڑتی ہے!
قریش کو رسوا ہوکر الٹے پاؤں لوٹ جانا پڑتا ہے،وہ پوے جزیرئے عرب کو محمد کے خلاف ورغلانا شروع کردیتے ہیں،محمد کو زندہ یا مردہ کسی بھی حال میں حاضر کرنے  والے کے لئے سو اونٹ کا انعام رکھا جاتا ہے۔
جب محمد اور انکے رفیق سفر غار سے نکلتے ہیں تب ہی ایک گھڑ سوار انکے پیچھے ہو لیتا ہے،ابوبکر ایک پل کے لئے ڈر جاتے ہیں، اور کہتے ہیں: بخدا مجھے اپنی ذات کا خوف نہیں بلکہ مجھے آپکی فکر لگی ہوئی ہے، محمد اس لمحہ ایک ایسی بات کہتے ہیں جس میں ایمان کے سارے  معجزے اپنی تمام تر شکلوں کے ساتھ پیوست ہیں، شجاعت وبہادری، قربانی وجاں نثاری، ثبات و استقامت، اور ایثار وہمدردی کے سارے صفات اس ایک جملے میں موجزن ہیں،آپ فرماتے ہیں: لا تحزن ان اللہ معنا،، غم نہ کر ، یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے!
بلا شبہ اللہ اس کے ساتھ ہے جو اللہ کے ساتھ ہے، یقینا اللہ اس کی مد د کرتا ہے جو اللہ کی مدد کرتا ہے، جس کو اللہ کی معیت وہمراہی حاصل ہو، اسے ہر گز غمزدہ نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی دل چھوٹا کرنا چاہئے۔
 وہ پیشانی جس پر معیت الہی کی چمک ہوتی ہے، وہ کبھی خاک آلود  اور شکست یافت نہیں ہو سکتی  گرچہ پورا وجود اس کے خلاف محاذآرا کیوں نہ ہوجائے!
یہ قافلہ دنیائے بے کراں کی طرف چل پڑتا ہے، قافلہ بہت معمولی ہے، لیکن یہ روئے زمین جس پر ہم آبلہ پائی کرتے ہیں، پہلی بار ایسے عظیم کارواں کی آمد سے سرفراز ہو رہی تھی،اس سے پہلے کبھی اس قدر بلند ہدف،پاک مقصد،خلوص نیت،اور اثر انگیز قافلہ کا تجربہ اس ارض گیتی  کے حصہ میں نہیں آیا تھا، وہ پہلے کبھی ایسے مسافروں سے آشنا نہیں ہوئی تھی،یہ مٹھی بھر لوگ خاموش صحرا سے گزر رہے  تھے، نہ انکے ہاتھ میں جھنڈے تھے نہ کوئی پرچم، نہ ہی ڈھول تاشے ، نہ ہی محمد کے دونوں طرف کھڑے ہوئے لشکر جرار، اور نہ کھڑکیوں سے تالیاں لگانے والے تماشائی،ہاں اتنا ضرور تھا کہ اس بے زبان ریگستان کی ریت خوشی میں تالیاں پیٹ رہی تھی کہ کل کو یہی قافلہ ہمیں شادابی اور نمو کی دولت سے مالا مال کریگا،صحرائی پہاڑ اس امید پر جھوم رہے تھے کہ عنقریب انکی چوٹیوں پر عزت ونصرت کے جھنڈے نصب کئے جائینگے، اور پردئہ غیب سے قائدین،علما‌ء اور ادباء کے وہ سرخیل دستے رونما ہورہے تھے جنہیں کاروان محمد کی صحرا نوردی سے وجودپزیر ہونا تھا۔
جب کارواں مدینہ پہنچنے کو ہوتا ہے تو یہاں بھی ایک مجمع انکا منتظر ہوتا ہے جس طرح مکہ چھوڑتے ہوئے آپ کے سامنے ایک صف بستہ مجمع تھا، لیکن فرق صرف اتنا سا ہوتا ہے کہ وہاں برے ارادے  سینے میں چھپے ہوتے ہیں اور یہاں بھلائی کا سیلاب  زمین پر امنڈرہا ہوتا ہے، کوئی محمد کے نام پر جان قربان کرنے کی ندا لگاتا ہے تو کوئی حیات آفریں کہتا سنا جاتا ہے۔
یہ در اصل اسلامی تاریخ کا نقطئہ انقلاب ہوتا ہے، اس کے پہلے صرف شکست کی داستان ہوتی ہے اور اس کے بعد نصرت وتمکنت کی پے درپے  تاریخ رقم ہونی رہتی ہے،اسی لئے ہم نے اس واقعہ کو اپنی تاریخ کا نقطئہ آغاز بنایا ہے!
ہم ابھی دہلیز مدینہ پر ہیں،محمد کے استقبال میں پورا مدینہ اٹھ آیا ہے،فرط محبت کا عالم یہ ہے کہ اگر انکے بس میں ہو تو جگر کے ٹکڑے فرش راہ کردیں تاکہ دلوں کی سیج پر چل کر محمد مدینہ میں داخل ہوں، ہر طرف سے یہ ترنم بھری آواز کانوں میں رس گھول رہی ہے:
طلع البدر علینا
من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا
ما دعا للہ  داع
لوگ پوچھ رہے ہیں: کون ہے وہ؟ محمد کون ہے؟
وہ انہیں پہچان بھی نہیں پاتے ہیں کیونکہ نہ انکے جسم پر حریر وریشم کے شاہی لباس  ہوتے  ہیں ،نہ  انکے چال ڈھال میں بادشاہوں والی اکڑ، اور نہ انکے سر پر کوئی تاج ہی سجا ہوتا ہے کہ فورا پہچان لئے جائیں، بلکہ وہ تو اللہ کا خاکسار بندہ ہیں، وہی  پہنتے ہیں جو لوگوں کا لباس ہے،وہی کھاتے ہیں جو لوگوں کی عام خوراک ہے،اگر لوگ بھوکے ہوتے ہیں تو یہ بھی فاقہ ہی پر گزر بسر کرتے  ہیں،اگر انہیں شکم سیری ہوتی ہے تو یہ بھی شکم سیر ہوتے ہیں،ان کے ساتھیوں میں بہت سے خوشحال اور فارغ البال لوگ بھی ہیں، لیکن محمد نے گدائی کو شاہی زندگی پر ترجیح دی اور اسی حال میں موت کا بھی استقبال کیا۔
لوگوں نے ابوبکر کو دیکھ کر سمجھا کہ یہی محمد ہیں، وہ انہیں سلام کرتے ، اور وہ رسول گرامی کی طرف اشارہ کرکے کہتے : یہ ہیں محمد۔
وہ سب کے سب یہی چاہتے تھے کہ آپ انکے یہاں مہمان ہوں تاکہ آپکی ضیافت کا شرف انکے حصہ میں آئے۔اس موقع پربھی آپ نے حکمت عملی سے کام لیا،آپ ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی کی دعوت کا انکار کرکے اسے تکلیف پہنچائیں، آپ نے کہا:اونٹنی کو چھوڑ دو،وہ حکم الہی کا پابندہے، یہاں تک کہ  اونٹنی خود ہی حضرت ابو ایوب  انصاری کے دروازے پر آکر بیٹھ گئی،وہ ابو ایوب جس کے لئے تقدیر نے یہ فیصلہ کیا کہ قسطنطنیہ کی جنگ میں شریک ہوں اور موت کا شیدائی بن کر دشمن کی بھیڑ میں گھس جائیں جہاں انہیں جام شہادت پیش ہو اور وہ رب حقیقی سے جا ملیں،چنانچہ ایسا ہی ہوا اور انہیں بوسفور کے ساحل پردفن کر دیا گیا، جہاں سے انکی قبر لمبے عرصے تک مسلمانوں کو  فتح  قسطنطنیہ کی دعوت دیتی رہی یہاں تک کہ یہ تاریخ ساز کارنامہ محمد الفاتح کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا۔
ابھی ہم محمد کے ساتھ مدینہ میں ہیں ، وہ ایک نئی حکومت کی بنیاد ڈال رہے ہیں، آپ کی رائے میں وہ کس کام سے اس کا آغاز کرینگے؟ ایک شاندار محفل سجائینگے جس میں انکی بادشاہت کی بیعت لی جائیگی؟ وہ تو بادشاہت کی چاہت ہی نہیں رکھتے!
کیا وہ کوئی فوجی مرکز قائم کرینگے ، جشن منائین گے اور لشکر بندی فرمائین گے؟ وہ تو زمین میں برتری کے قائل ہی نہیں!
کیا وہ ٹیکس نافذ کرینگے؟ نہیں، وہ آغاز ایک مسجد کی تعمیر سے کرینگے۔
یہ ایک بڑامظہر اور بلند نظریہ ہے جہاں قاری کو ٹھہر کر سوچنا چاہئے ، آپ اپنی حکومت کا آغاز مسجد سے کرتے ہیں جس طرح اللہ نے آپ پر نزول وحی کی ابتداء لفظ اقرأ  اور قلم سے کیا۔آپ شروعات مسجد سے کرتے ہیں اور اسلام میں مسجد عبادت گاہ ہے جو ایمان کی نشانی ہے، مسجد پارلیمنٹ بھی ہے جو عدل کی علامت ہے، مسجد درسگاہ بھی ہے جو علم کا مرکز ہے، آپ مسجد کی تعمیر کے لئے جگہ کا انتخاب غصب اور لوٹ گھسوٹ سے نہیں کرتے بلکہ پیسوں کے عوض اسے خریدتے ہیں جو درحقیقت انصاف کا اعلامیہ ہے، آپ چاہتے تو مسجد کی تعمیر کا حکم صادر فرما کر خود آرام کرنے بیٹھ جاتے ، لیکن نہیں، بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خود بھی کار تعمیر میں بھڑ گئے، اپنے ہاتھوں سے پتھر اٹھائے، جس  سے  جمہویت کا عملی نمونہ جھلکتا ہے، آپ نے مسجد کو مٹی اور اینٹ سے تعمیر کیا ، نقش ونگار سے کلی اجتناب فرمایا جو  خوئے سادگی کو درشاتا ہے۔
  ایمان، عدل وانصاف، علم  ومعرفت، یکسانیت و جمہوریت اور سادگی کے یہ رموز  باہم ملکر  دین اسلام کی مجموعی شکل اور شعائر دین کی دلنشیں تصویر پیش کرتے ہیں۔

ليست هناك تعليقات: