رحمت کلیم امواوی (جے این یو)
رحمت کلیم امواوی |
ایک انسان جب شعور و آگہی کی دولت سے سرفراز ہوتا ہے اور دوڑتی
بھاگتی دنیا کو ہر لمحہ سرگرداں دیکھتا ہے تو اس کے دل میں بھی ایک طرح کی بیداری
پیدا ہوتی ہے اوروہ بیداری صرف اور صرف کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہوتی ہے ،ہر انسان
اپنے طورپر یہ کوشش کرتا ہے کہ اسکی زندگی انتہائی خوشگوار ہو ،کامیابی کے اعلی سے
اعلی مقام تک پہنچ جائے،دنیامیں اس کا نام روشن ہواور ایک الگ پہچان بنے،اپنی عزت
و عظمت ہر کسی کے دل میں بیٹھا دے،ہر کوئی اسے حسرت بھری نگاہ سے دیکھے،اور دنیااس
کے مقام و مرتبہ ،شہرت و مقبولیت اور خدمات کو سراہے۔تاریخ شاہد ہے کہ ازآدم تا ایں
دم نہ جانے ایسے کتنی ہستیوں کا وجود مسعود ہوا ہے جنہوںنے اپنی بساط بھر جد و جہد
کرکے اپنی الگ شناخت پیدا کیں ہیں ،اور لوگوں کے دلوں میں اپنا مقام بنایا ہے،ہم
ارسطو،سیکسپیئر،افلاطون،ملٹن،ابو ریحان،جابر ،رابندر ناتھ ٹیگور ،علامہ اقبال،نہرو،آزاداور
مہاتما گاندھی جیسے عظیم المرتبت شخصیتوں کو ان کے گذر جانے کے سالوں سال بعد آج
بھی محبت و عقیدت کے ساتھ صرف اس لیے یاد کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے کارناموں سے
دنیا کو مبہوت کردیا ،سبھوںکی نظروں کو خیرہ کردیا ،اور ایسا کار خیر انجام دیا کہ
دنیا کا ہر ہرکس و ناکس ان کا گرویدہ ہو گیا ،آج بھی انہیں وہی عزت و شہرت
اوراحترام حاصل ہے جو کل تک حاصل تھیں،یعنی ان نابغہ روزگاروں کو مقبولیت دوام
حاصل ہے،لیکن تاریخ کا ایک ایسا بھی صفحہ ہے جہاں ہمیں ایسے لوگوں کا تذکرہ ملتا
ہے جنہوں نے کمال کی مقبولیت حاصل کیں،دولت وثروت کا پہاڑ حاصل کیا،شہرت کے آسمان
تک پہنچے،دنیا انہیں ہدیہ صدتبریک پیش کرنے لگی،بلندی کا نام ان کے نام سے جوڑا جا
نے لگا،طاقت و ہمت اور دانشمندی کے حوالے سے پہلے پہل انہیں حضرات کا نام لیا جانے
لگا،عوام الناس کے دلوں پر رعب و دبدبہ قائم ہو گیا،ان کا اپنا سکہ چلتا تھا،ہر
طرف ان کی طوطی بولتی تھی،اور ہر کوئی انہیں بڑا تسلیم کیا کرتا تھا لیکن ایک ایسا
بھی وقت آیا جب ان نامور شخصیتوں کی اہمیت گرد پاکے برابر بھی نہ رہی،ایک آن میں
ساری عزت خاک میں مل گئی،اور دیکھتے ہی دیکھتے عظمت کا شیش محل چکنا چور ہوگیا،اس
کی مثال ہم نہ فرعون کے عبرت آموز حشر سے دینا چاہیں گے اور ناہی شداد کی فضیحت
سے،ہم نہ نمرود کے واقعے کوپیش کریںگے نا ہی ابو جہل کی ہزیمت کو،چونکہ یہ سارے
واقعے دقیانوس ہیں ،ہم اکیسویںصدی میںسانس لے رہے ہیں،ہم اسی صدی کے حوالے سے یہ
بتانا چاہیں گے کہ کیسی کیسی نامورو شہرت یافتہ ہستیاں ذلیل و خوار ہوگئیں،اور
کتنے بڑے بڑے طاقتور شیر ایک ہی جھٹکے میں ڈھیر ہوگئے،اور کتنے قد آور شخصیتوں کا
سر نگوں ہو گیا ۔
اکیسویں صدی کا نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ آغازہوتا ہے،امریکہ میں
بل کلنٹن صدارتی کرسی پر گذشتہ کئی سالوں سے قابض ہوتا ہے،لیکن جب 2001میں صدارتی
انتخاب ہوتا ہے تو پھر بل کلنٹن کو شکست فاش ہوتی ہے،اور جارج ڈبلیو بش زمام صدارت
سنبھالتا ہے اور امریکہ کا تینتالیسواں صدر بن کر 20جنوری 2001کو صدارتی آفس میں
داخل ہوجاتاہے،اس کے بعد سے امریکہ میں جو ترقی ہوتی ہے وہ یقینا محیر العقول ہے،دیکھتے
ہی دیکھتے امریکہ دنیا کا سوپر پاور ملک بن جاتا ہے،اور اس کی طاقت کا غلبہ دنیا کی
تمام ملکوں پر ہوتا ہے،دریں اثنا صدارت کی کرسی پر بیٹھ کر جارج ڈبلیو بش کبھی
عراق کی سرزمین کو عراقی باشندگان کے خون سے سیراب کرتا ہے تو کبھی افغانستان کے
معصوموں کا قتل کر تا ہے،الغرض طاقت کا بہت حد تک غلط استعمال بھی کرتا ہے،صدارتی
دور کا پہلا ٹرم مکمل ہوتا ہے 2005میں پھر صدارتی انتخاب ہوتا ہے اور بش کے مقابلے
میں سیاہ فام براک حسین اوبامہ آتا ہے مگر ناکامی ہاتھ لگتی ہے اور دوبارہ امریکہ
کا صدر جارج ڈبلیو بش ہی بنتا ہے،اس کے بعد امریکہ کی معاشی اور سیاسی حالت کو مزید
مستحکم کر کے امریکہ کو دنیا کا سب سے طاقت ور ملک بنا دیتا ہے،اور اس کا سہرہ اسی
جارج ڈبلیو بش کے سر جاتا ہے جس کے ہاتھ عراقی بچوں کے خون سے رنگے ہو ئے ہیں ،جس
کے پاﺅں کے نیچے بغداد کے عوام کی
لاشیں ہیں، اخیر کار صدارتی دور کا آخری وقت آتا ہے،دسمبر کا مہینہ چل رہا ہوتا
ہے،اوراسی مہینے تک اس کی حکومت بھی ہوتی ہے،چونکہ2009میں پھر انتخاب ہوناہوتا ہے،
اتفاقیہ طور پر جارج ڈبلیو بش کا آخری صدارتی خطاب عراق کی راجدھانی بغداد میں
ہونا طے پاتا ہے جہاں کا ہر یتیم بچہ بش کو اپنے باپ کا قاتل اور ہر ماں اپنے
نوجوان بیٹے کا جانی دشمن مانتی ہیں ،14دسمبر2008کو جارج ڈبلیو بش اپنے آخری دورہ
کیلئے نکل پڑتا ہے،بغداد میں ان کے لئے ایک تہنیتی پروگرام کا انعقاد عمل میں آتا
ہے،پروگرام میں بش کی شان میں قصیدے پڑھے جارہے تھے،بش کا سر اعلی و بالا کیا جا
رہا تھا،لیکن جب ڈائس پر خطاب کرنے کیلئے بش کھڑا ہواتو ایک صحافی نے اس کی ساری
عظمت و بڑائی کو محض دو چند سکنڈ کے اندر خاک میں ملا دیا،جارج ڈبلیو بش نے جب
خطاب کے دوران یہ کہا کہ”یہ ایک حتمی راستہ تھا فتح یاب ہونے کا“تو منتظر زیدی نامی
البغدادیہ ٹی وی رپورٹر اپنے پاﺅں کے دونوں جوتوں سے بش پر حملہ بول دیتا ہے،اوریہ کہتا ہے کہ یہ
تمھارا اختتامیہ ہے۔یہ صرف چند سکنڈ کے اندر کی بات تھی جب زیدی نے جوتے سے حملہ کیا
،لیکن اسی دو سکنڈ نے بش کی گذشتہ نو سالوں میں حاصل کی گئی ساری عزت و شہرت
اورعظمت و بڑکپن کو خاک میں ملا دیا اور پوری دنیا کے سامنے بش کا سر شرم سے ہمیشہ
کیلئے جھک گیا۔
تاریخ کا ایک اور صفحہ پلٹیے ،اور دیکھیے کہ معمر قذافی کی کیا آن با
ن و شان تھی،کیا الگ مست دنیا تھی،اورکیا طاقت و ہمت ،مگر حشر آخر کار کیا ہوا؟تاریخ
کا مطالعہ کرنے والے حضرات اس سے بخوبی واقف ہیں کہ 1964ءسے 2011ءتک مسلسل چالیس
سال تک معمر قذافی نے لیبیا کے عوام پر حکومت کی،انہوں نے لیبیا کی عوامی دولت و
ثروت کو ذاتی مال سمجھ کر اس قدر عوام کا استحصال کیا کہ لیبیائی باشندے دل کے
آنسو رو پڑے،درندگی بنام عیاشی اس طرح ہو رہی تھی کہ کہا جاتا ہے کہ قذافی کے کمرے
سے رات بھر میں کئی کئی لڑکیاں اسٹریچر پر نکالی جاتی تھیں،لیبیا کا سونا(GOLD)باپ بیٹا مل کر لٹا رہاتھا،اور عوام بے چاری سوکھی روٹی تور رہی
تھی،مذہبی مذاق اس کا عام شیوہ تھا،البتہ ایک خاصیت ضرور تھی کہ یہ کبھی امریکہ کی
منہ بھرائی نہیں کرتا تھا،اقوام متحدہ میں بھی اپنی زبان بولا کرتا تھا،کسی سے خوف
نہیں کھاتا تھا،امریکہ کی جی حضوری کبھی دیکھنے کو نہیں ملی،اور یہی ایک چیز قذافی
کوبڑا بنا دیتی ہے،دولت وثروت کی کمی کسی بھی ناحیے سے نہیں تھی،عالمی پیمانے پر ایک
الگ پہچان بھی تھی،لیبیا کے باہر بھی عوام اچھی نگاہ سے دیکھتے تھے،ایک بڑا و کامیاب
رہنما تسلیم کرتے تھے،لیکن ایک ایسا وقت بھی آیا جب پورے مشرق وسطی میں آگ لگی تھی،حکومت
کا تختہ پلٹا جا رہا تھا،عوام پوری طرح اپنی طاقت کا استعمال کرنے لگی تھی،درد و
کرب اور مسائل سے بے چین عوام سڑک پر نکل کر حاکم وقت کے خون کی پیاسی ہوگئی تھی،دیکھتے
ہی دیکھتے اردن ،مصر اور بحرین کاکام تمام ہو گیا ،اور وہان کی عوام کامیاب ہوگئی،اور
پھر یہ آگ جب لیبیا تک پہنچی تو پھر قذافی کے گھنگھڑیلے بال میں بھی لگ گئی،عوام
کے ہاتھ جب قذافی کے گریبان تک پہنچے تو پھر بھاگنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی
نہیں تھا،قذافی فوراً اپنے آبائی وطن سرت میں جاکر زمین کے اندر ایک گوفہ میں چھپ
گیا،لیکن درد کی ماری لیبیائی عوام کو چین نہیں آرہا تھا،وہ چاہتی تھی کہ قذافی ان
کے ہاتھ لگ جائے،بالآخر ایسا ہی ہوا،نیشنل ٹرانجیشنل کونسل فورسیز (NTCF)نے قذافی کو زمین کے نیچے سے بھی ڈھونڈ نکالا ،اور سڑک پر گھسیٹتے
ہوئے سرے عام گولی مار دی،اور قذافی امان امان چلاتے ہوئے 20اکتوبر2011کو ہمیشہ کیلئے
امان پا گیا۔
بیرون ہند کے بعد جب ہم جب ہم اپنے وطن کی طرف رخ کرتے ہیں اور اکیسویں
صدی کا جائزہ جب ہم ہندوستانی پس منظر میں لیتے ہیں تو ہمارے سامنے دو اہم نام
جلوہ گر ہو جاتا ہے،جنہیں کل تک ہندوستانی عوام محبتوں اور عقیدتوں کا گل دستہ پیش
کرتی تھیں لیکن آج ان کے نام پر طعن وتشنیع کرتی ہیں ۔باپو آشا رام کو شاید ہی کوئی
نہیں جانتا ہو ،خصوصاً غیر مسلم طبقہ میں ان کی مقبولیت اور ان کا جو مقام و مرتبہ
کل تک تھا وہ یقینا قابل رشک ہے،انہیں جو عزت و شہرت اور جتنی عقید ت ملی وہ یقینا
لائق ستائش ہے،آشام رام کامقام اتنا بلند ہوگیا تھا کہ ایک خاص طبقہ انہیں اپنا
معبود ماننے لگا تھا،مرادیں پوری کرنے کیلئے ان کے سامنے ہاتھ جوڑنے لگے تھے،رکشہ
چالک اپنی سلامتی کیلئے انکا نام لیکر گاڑی چلانا شروع کرتا تھا ،دوکاندار منافے کیلئے
انہیں کا نام لیکر دوکان کھولا کرتے تھے،الغرض ان کو خدا کا درجہ حاصل تھا ،لوگ ایک
جھلک دیکھنے کیلئے میلوں کی مسافت طے کرتے تھے،لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ
ولی کے لباس میں شیطان ہے،بابا کے نام پر عزت و عصمت کا لٹیرا ہے ،اور مذہبی پیشوا
کی شکل میں ایک زانی ہے،لیکن اس سچائی سے کس کو انکار ہے کہ حقیقت ایک نہ ایک دن
کھل کر سامنے آہی جاتی ہے،اور جب آشا رام کی حقیقی شکل دنیاکے سامنے کھل کر آئی تو
پوری دنیا ناطقہ سر بہ گریباں ہوگئی۔کہا جاتا ہے کہ آشارام نے اپنے مادر وطن گجرات
میں1970ءمیں پہلا آشرم بنوایا ،اور اب تک پورے ہندوستان میں چار سو سے زائد چھوٹے
بڑے آشرم بنائے جا چکے ہیں،البتہ ان آشرموں کے اندر کیا ہو رہا تھا یہ اب دنیا کے
سامنے عیاں ہو چکا ہے،اور فی الوقت آشارام کو کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے او
رکون سا دفعہ لگایا گیا ہے یہ بھی سب کے سامنے واضح ہو چکا ہے،مگر ان تمام معاملات
میں گذشتہ چھ اکتوبر کو جو ایف آئی آر درج کرائی گئی وہ کچھ زیادہ ہی خطرناک ہے،اس
میں لکھا گیا ہے کہ آشارام نے اپنی بڑی بہن کا ریپ احمد آباد آشرم میں کیا ،اور
2002سے2004 تک سورت میں آشارام کے بیٹے سائی رام نے آشارام کی چھوٹی بہن کی مسلسل
عصمت دری کی(نعوذباللہ)
کہنے کی بات یہ کہ آشارام جو کل تک خدا بنا بیٹھاتھا،بلندیاں ان کے
قدموں میں تھیں،ان کا سر مذہبی و روحانی پیشوا کی فہرست میں سب سے اونچا تھا لیکن
کیا کسی کو یہ بھی پتا تھا کہ ایک دن آشارام کو ذلت کے اس مقام تک آنا پر جائے
گاکہ لوگ ان کے نام پر تھوکنے لگیں گے،اور یہاں تک جگ ہنسائی و رسوائی ہو گی جہاں
سے ایک انسان خودکشی کرنے میں اپنے لیے عافیت سمجھتا ہو۔علاوہ ازیں ہندوستان کی
سرزمین پر ایک اور نام کا تہلکہ مچا ہوا ہے،جن کا مقام و مرتبہ کل تک عوج ثریا
پرتھا لیکن آج خاک میں ہے،جن کی عزت ہر چھوٹا بڑا کیا کرتا تھا لیکن اب ہر کوئی
الٹے زبان سے اس کا نام لیتا ہے، تہلکہ نیوز پیپر کے فاﺅنڈر و ایڈیٹر تیج پال سنگھ
آج انتہائی گھنونی حرکت کے پاداش میں سلاخ کے پیچھے ہے کیا کسی کے وہم و گمان میں
بھی تیج پال سنگھ کیلئے ایسا تصور تھا ؟تیز پال سنگھ کے ساتھ کیا معاملہ ہے اور کیا
جرم ہے سبھوں کے سامنے پوری طرح واضح ہو چکا ہے۔لیکن دل کے نہاں خانے میں ایک سوال
یہ بار بار پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ عرش پر کمند ڈال چکے اور دلوں کو جیت چکے بڑے
بڑے لوگوں کا ایسا حشر کیوں ہوتا ہے؟
خلاصہ کلام یہ کہ انسان جب تک انسانیت کا علمبردار ہوتا ہے،اور
انسانیت کا پوری طرح لحاظ و خیال رکھتا ہے،تب تک وہ انتہائی با وقار ہوتا ہے،اور
دنیا اسے پیار و محبت اور عزت و شہرت کے دولت سے بھی خوب نوازتی ہے،لیکن جب وہی
انسان انسانیت سے ذرا برابر بھی ہٹتا ہے تو پھر وہی عوام جو کل تک آپ کو محترم
سمجھتی تھی آج حقیر و بدترین انسان سمجھ کر اس قدر ذلیل کرتی ہے کہ انسان خود اپنی
نظر میں بھی گر جاتا ہے،جارج ڈبلیو بش سے لیکر ترون تیج پال سنگھ تک سبھوں کا حشر
ایسا اس لیے ہوا اور ہورہا ہے کہ انہوں نے انسانیت اور انسانی اصولوں سے بغاوت کیں
ہیں ، حیوانیت کا روپ دھاڑ لیا تھا اور یہ تو بہت بڑی سچائی ہے کہ حیوانیت کو
بقاءنہیں ہے۔
اللہ ہم سب کو ذلت آمیز حرکات و سکنات سے محفوظ رکھے ۔آمین
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق