الثلاثاء، سبتمبر 03، 2013

عقیدت اندھی ہوتی ہے

ثناءاللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرویونیورسٹی ، نئی دہلی -67

پچھلے دنوں محلے کی ایک مسجد میں ہماری بحث ایک خاص مسلک کے متبع عالم دین سے ہورہی تھی ۔ بات در اصل اس بات پر ہو رہی تھی کہ پورے اسلام پر عمل کرنے کا مطلب کیاہے ؟ اللہ اور رسول کے مطابق چلنا ہی اصل اسلام ہے ، یہ  ہمارا ماننا تھا اور اس کے لیے ہم قرآن و سنت کے دلائل فراہم کررہے تھے ۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک نہ ایک امام کی تقلید ضروری ہے ۔ ہم نے کہا بھائی لیکن چوتھی صدی ہجری تک تو اس قسم کی تقلید کا کوئی رواج نہ تھا جیسا کہ مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔ پھر جب ہم نے ان سے یہ کہا کہ آپ کے امام صاحب کے دو زیادہ بڑے اورمحترم شاگردان نے خود مسائل میں  ان سے اختلاف کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے اور ہم خود بھی امام صاحب کی ان ہی باتوں کو مانتے ہیں جو قرآن و سنت کے مطابق ہوں ۔ ہم نے کہا کہ اگر بات ایسی ہے تو ہمارے اور آپ کے درمیان فرق کہاں رہا ۔ ہماری تو پوری دعوت ہی یہ ہے کہ اصل مرجع قرآن و سنت کو بنایا جائے ۔ علماء ، بزرگ اور فقہاء کرام کی کوششوں سے استفادہ اور ان کا احترام ضروری ہے لیکن ان کو قرآن و سنت کا درجہ دے دینا در اصل ایک طرح سے دین کی اصل اساس کو ختم کردینے جیسا ہے ۔ لیکن بحث میں تو بات سے بات نکلتی ہے انہوں نے ایک عالم دین کا حوالہ دے کر ہم سے کہا کہ دیکھیے آپ کے گروپ کے عالم صحابہ کے ساتھ گستاخی کرتے ہیں ۔ ہم نے کہا کہ بشرطیکہ یہ بات درست ہو جو آپ بیان کررہے ہیں تو ہم اپنی برائت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے حق میں عفو و درگذر کی دعا کرتے ہیں ۔اس لیے کہ غلط اس لیے صحیح نہیں ہو سکتا کہ ہماری جماعت یا گروپ کے کسی آدمی نے کہا ہے ۔ ہم نے پھر ان سے کہا کہ میرے بھائی اگر یہی رویہ ہم میں سے ہر آدمی اپنا لے کہ آگر کسی کی بھی بات ہوگی اور وہ قرآن وسنت کے خلاف ہوگی تو ہم اسے تسلیم نہیں کرینگے بلکہ ان کا احترام کرتے ہوئے اس لیے مسترد کردینگے کہ وہ اللہ کے رسول کے لائے ہوئے دین کے مطابق نہیں ہے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس سے ان کی اہمیت کم ہو جائیگی یا ان کا رتبہ گھٹ جائیگا ۔ پھر ہم نے ان کو ایک بزرگ کا واقعہ سنایا اور کہا کہ دیکھیے جب ان کے مرید نے ان سے یہ کہا کہ رات کو خواب میں وہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ رہے تھے تو محمد رسول اللہ کی جگہ حضرت کا نام آجارہا تھا ۔  صبح بیدار ہو کر بھی جب کوشش کی تو رات والا ہی معاملہ سامنے آیا ۔ اس پر بزرگ نے کہا کہ اشتیاق و محبت میں ایسا ہوجاتا ہے ۔ بھلا بتلائیے حضرت کو ایسا کہنا چاہیے تھا ؟ جناب عالی : ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان صاحب نے یہ کہا کہ اس سے ان کا نبی ہونے کا دعوی کرنا تو ثابت نہیں ہوتا ! وہ بڑے عالم اور بزرگ تھے انہوں نے ایسا کہا تو ضرور کچھ سوچ کر کہا ہوگا!!! ہم نے کہا میرے بھائی ہم تو خود ان کی دینی کوششوں اور خدمات کے معترف ہیں اور الحمد للہ ان کو نبوت کا دعویدار نہيں مانتے ہم تو صرف یہ کہ رہے ہیں  کہ دیھکیے یہاں پر حضرت سے چوک ہوگئی ۔ انہيں کہنا چاہیے تھا اپنے مرید سے کہ تم ایک مرتبہ پھر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھو ، توبہ کرو اور شیطانی وسوسے سے پناہ طلب کرو اللہ کی ۔لیکن انہوں نےایسا نہیں کیا ۔ آپ کو پتہ ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ کی آمد پر چھوٹی چھوٹی لڑکیوں نے خوشیاں مناتے ہوئے گانا گایا اور اس میں کہا کہ ہمارے درمیان ایسے نبی ہیں جو کل کی بات بھی جانتے ہیں آپ نے فورا منع کیا اور کہا اس سے پہلے جو کچھ گارہیں تھیں وہی گائیے ایسا مت کہیے ۔ اسی طرح آپ نے اس صحابی کی تنبیہ کی جنہوں نے یہ کہا کہ جو اللہ چاہے گا اور آپ چاہیںگے وہی ہوگا آپ نے فرمایا نہیں بلکہ وہ ہوگا جو صرف اللہ چاہے گا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ نے بھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت وفضیلت کو بیان کیا اور آپ کا مرتبہ بیان کیا وہیں اگر آپ سے کہیں پر چوک ہوئی یا آپ سے بتقاضے بشریت کہیں کوئی غلطی ہوئی تو آپ کی اصلاح کی گئی۔ نابینا صحابی کے مقابلے میں صنادید قریش کو ترجیح دینے کا معاملہ ہو یا بیویوں کے کہنے پر شہد نہ کھانے کا عہد کرنے کا معاملہ ہو یا بغیر ان شاءاللہ کہے مسئلہ کل بتانے کا وعدہ کرنے کا معاملہ ہو ہر جگہ اللہ نے آپ کی اصلاح کی اور آپ کو غلطی پر باقی نہ رہنے دیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلطی شریعت نہیں بنائی گئی تو اور لوگوں کی غلطی شریعت کیسے بن سکتی ہے ؟
            ہم نے مولانا سے کہا میرے بھائی ! آپ اگر حدیث پر اس لیے عمل کرتے ہیں کہ یہ حدیث آپ کے مسلک کے مطابق ہے تو سوچیے آپ حدیث کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں ۔ اس پر انہوں نے کہا ایسی بات نہیں اور جب ہم نے ایک بڑے فقیہ کی بات نقل کی تو پھر سے اس کی الٹی سیدھی تاویل کرنے لگے ۔ ہم نے کہا کہ دیکھیے اگر یہ بات ایک ادنی مسلمان سے کہی جائے کہ آپ اللہ رسول کی بات مانیںگے یا کسی اور کی ان کے مقابلے میں تو وہ یہی کہے گا کہ وہ اللہ رسول کی بات مانے گا ۔ حضرت فقیہ سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے امام صاحب کی بات کو اصل حیثیت دے دی اور کہا کہ اگر قرآنی آیت یا حدیث امام صاحب کے قول سے ٹکرائے تو امام صاحب کے قول کی بجائے آیت یا حدیث کی تاویل کی جائے گی یا اسے منسوخ سمجھا جائیگا ۔ مولانا نے یہاں بھی کہا تو یہ کہا کہ اس کا اور بھی مطلب ہو سکتا ہے ۔ ہم نے انہیں علامہ ارشد القادری کی لکھی ہوئی کتاب' زلزلہ ' اور اس پر مولانا عامر عثمانی صاحب کا یہ تبصرہ بھی سنایا  کہ یاتو ان مشمولات کو غلط ثابت کیا جائے یا پھر ساری کتابوں میں بیچ چوراہے پر آگ لگائی جائے ۔
                    ہم نے مولانا سے بتلایا کہ دراصل اس رویے سے سارا اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ ہم نے ان سے از راہ تذکرہ جے این یو کے اپنے ایک دوست کی اس بات کو بھی نقل کیا کہ عاملین بالحدیث کے اس گروہ نے ہندوستان میں زیادہ تر ٹانگ کھینچنے کا کام کیا ہے ۔ ہر چند کہ اس میں صرف جزوی سچائی پائی جاتی ہے لیکن   ہم نے  کہا کہ اگر ان لوگوں  کی یہ تنقیدی کاوشیں نہ ہوتیں تو نہ جانے یہاں کا سواد اعظم عقیدت کے راستے کن گمراہیوں میں جا گرا ہوتا اور ہمارے جے این یو کے دوست نے ہماری بات سے اتفاق کیا ۔ جو ظاہر ہے ان کی انصاف پسندی اور اعلی ظرفی کی دلیل تھی ۔
            ہوتا یہ ہے کہ جب ہم یا آپ کسی کی عظمت دل میں بٹھالیتے ہیں تو پھر اس کی ہر صحیح غلط بات ہمیں اچھی اور بھلی معلوم ہونے لگتی ہے ۔ ہم ایک خاص تناظر میں ہی چیزوں کو دیکھتے ہیں ۔ ہمارا سارا زور اپنے محبوب و معتقد کو سب سے اعلی ثابت کرنے پر ہوتا ہے ۔ اور اس چکر میں ہم سارے حدود پھلانگ دیتے ہیں ۔ اس کی کئی سطحوں پر مثالیں مل جائینگی ۔
            ہماری عقیدت کے سب سے بڑے مرکز رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس لیے سب سے زیادہ گمراہی بھی اسی راستے سے امت میں آئی لوگوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سے بھی زیادہ درجہ دے دیا اوریہاں تک کہا گیا کہ اللہ کی جھولی میں وحدت کے سوا کچھ نہیں جو کچھ لینا ہوگا محمد سے لے لینگے ۔ بعضوں نے پوری کائنات کا خلاصہ آپ کو گردانا، کسی نے یہ سمجھا کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات کی تخلیق نہ   کی جاتی اور نہ جانے کیا کیا خرافات آپ سے جوڑے گیے ۔ اسی طرح اولیا ء کرام سے عقیدت میں لوگوں نے انہیں انبیاء سے بھی اونچا اٹھا دیا اور یہاں تک کہا گیا کہ معراج میں جب رسول چھوٹے پر رہے تھے تو پیران پیر نے انہیں سہارادیا اور اس طرح رسول معراج سے سرفراز ہوئے ۔ یہی نہیں بلکہ ان سے وہ تمام خدائی صفات منسوب کیے گیے جن پر اللہ کے علاوہ کوئی قادر نہیں۔ اسی لیے اسلام میں دین کی بنیاد عقیدت کی بجائے اصولوں پر رکھی گئی اور اس قسم کے سارے دروازوں کو بند کردیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد جب حضرت عمررضی اللہ عنہ  جیسے صحابہ نے یہ کہا کہ اگرکوئی یہ کہے گا کہ محمد انتقال کرگيے ہیں تو میں اس کی گردن اڑادونگا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بہت اعتماد کے ساتھ قرآنی آیت پیش کرتے ہوئے بتلایا کہ جو کوئی محمد کی عبادت کیا کرتا تھا تو محمد البتہ مر چکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ حی قیوم ہے ۔ صحابہ نے اصول ، علم اور حق کی بنیاد پر ایک دوسرے کو ناکارا بھی اور ایک دوسرے سے استفادہ بھی کیا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک کے معاملے میں صحابہ اصول کے مطابق عمل کرتے تھے ۔ اللہ کے رسول نے جب حضرت بریرہ سے کہا کہ وہ مغیث کو لوٹالیں تو بریرہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے یا صرف مشورہ یعنی آپ یہ بات بحیثیت رسول ارشاد فرماتے ہیں یا بحیثیت محمد ابن عبد اللہ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا یہ ایک مشورہ ہے اور ہم عبداللہ کے بیٹے کی حیثیت سے فرمارہے ہیں اللہ کے رسول کی حیثیت سے نہيں تو بریرہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورہ کو قبول نہیں کیا اور اسے ان کی جرائت بے جا بھی نہ سمجھا گیا ۔ جب کہ وہی صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک حکم پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کوتیار رہا کرتے تھے ۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ خاص طور سے برصغیر ہندوپاک کے اندر عقیدت کا یہ مرض تھوڑا زیادہ ہی پایا جاتاہے ۔جہاں یہ برادران وطن کے یہاں بہت ہے وہیں مسلمانوں کی اکثریت بھی غلط طور سے اس عقیدت کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے ۔ اور صحیح اور واقعی دین سے کوسوں دور ہے ۔ اسلام کی بنیا د کھرے اور واضح اصولوں پر ہے جب بھی اور جہاں بھی اس کی جگہ عقیدت لے ليگي سمجھ لیجے کہ گمراہی کا دروازہ کھل جائيگا ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہ نکالاجائے کہ وہ محبت و وابستگی جس کی بنیاد قرآن وسنت میں موجود ہے ہم اس کے خلاف ہیں کہ اس کے بغیر تو دین کا تصور ہی غلط ہوجائیگا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کی گمراہی کی بھی اصل وجہ یہ عقیدت ہی تھی اور اسی کا فائدہ اٹھاکر شیطان نے ان کو حق سے منحرف کردیا ۔ آج بھی جہاں جہاں مذہب کے نام پر مختلف دکانیں سجی ہوئی ہیں ان میں اس عقیدت کی اپنی کارفرمائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔لیکن کیا کیجیے کہ معاملہ اتنا آسان بھی نہیں ایک طرف تو مسلمانان ہند کا وہ طبقہ ہے جو علماء کو خدا کا درجہ دینے پر تلاہوا ہے اور رسولوں کے منصب پر نقب زنی کرنے کو تیار ہے وہیں دوسرا ایک طبقہ وہ بھی ہے جو سرے سے علماء کی کسی حیثیت کا قائل ہی نہيں بلکہ تمام طرح کی خرابیوں کا اسے ہی مرجع سمجھتا ہے ۔ یہ بلاشبہ افسوسنا ک بات ہے اور اس سے خرابیوں کی کئی سبیلیں نکلتی ہيں ۔ ہر دوصورت میں در اصل معاملہ اسی اصول سے انحراف کا ہے ۔ اللہ ہمیں بہتر توفیق عنایت کرے آمین ۔  

ليست هناك تعليقات: