الثلاثاء، سبتمبر 03، 2013

ادب ، ادیب ، سماج اور ہم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ثناءاللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی

بر صغیر ہندو پاک کی حد تک یہ بات بالکل درست ہے کہ مسلمانوں کی زبان اردو ہے ۔ عربی کے بعد شاید ہی کوئی ایسی زبان ہو جس کے اندر اسلامی ادب کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہو جتنا اردو میں ہے ۔ ہر زبان کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور اس کے ادب کا اپنا مقام ہوتا ہے ۔ ادب کی قدر و قیمت سے زبان کا معیار واعتبار بھی قائم ہوتا ہے ۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اردو کو پروان چڑھانے اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں سب سے بڑا رول علماء کرام کا رہاہے ۔ اب اردو ناول کے باوا آدم ڈپٹی نذیر ہوں یا اردو تنقید کے بنیاد گزار مولانا الطاف حسین حالی ۔ اردو کے دامن کو علم و آگہی کے موتی سے  بھرنے والے سرسید احمد ہوں تو یا اسے انشاء و نگارش کے اوج پر پہنچانے والے مولانا ابوالکلام آزاد ۔ علم و تنقید کے پیش رو شبلی نعمانی ہوں یا گيسو اردو کو سنوارنے والے بابائے اردو مولوی عبد الحق ۔ ہر جگہ مولانا لوگوں کی کاوشوں کا تارا چمکتا ہوا نظر آتا ہے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے بعد کے ادوار میں علماء نے ادب کے سارے دروازوں کو  اپنے  لیے بند کر لیا  ۔ انہوں نے ناول ، افسانہ، ڈرامہ ، شاعری اور دوسرے اصناف سخن سے خود کو دور ہی رکھا کہ مبادا کچھ غلط نہ ہو جائے ۔
    ادب کے اس پورے میدان کو چھوڑ دینے کا مطلب یہ تھا کہ ادب کے اوپر ایسے لوگوں کا قبضہ ہو جائے جو ادب کے نام پر ساری بے حیائی ، بے ادبی، بے دینی اور باطل کی ترویج و اشاعت کو  اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں ۔ چنانچہ یہ معلوم بات ہے کہ ترقی پسند تحریک سے لے کر جدیدیت تک اور جدیدیت سے لے کر مابعد جدیدیت تک ہر جگہ ایسے ایشوز ادب کا موضوع بنتے رہے جن کا نہ تو صالح سماج سے اور نہ باکردار انسانوں سے کوئی تعلق ہو ۔ ترقی پسندی نے ایک طرف اگر مزدوروں اور کمزوروں کے حقوق کی بات کی دوسری طرف دین کے ساری بنیادوں پر نشتر زنی کرنا بھی ضروری سمجھا  ۔
جدیدیت نے ذاتیت کے خول میں خود کو ایسا بند کیا کہ ادب اور سماج کا کوئی تعلق باقی نہیں بچا اوپر سے انتہائی درجے کے خاص تعلقات تک کو رمز و کنایہ اور سمبولزم کے نام پر عام کیا جانے لگا ۔ اور اس پورے عرصے میں ہمارا علماء طبقہ لاتعلق سا بنا رہا جیسے زبان حال سے کہ رہا ہو ' ڈوم کے بھوج ہمیں کیا کھوج' ۔ اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو خالص بے حیا اوربد تہذیب تحریروں کو عام کرنے کا  ادبی طبقے نے ٹھیکہ لے لیا اور بڑی ربے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ منٹو جیسے لوگوں کی برہنہ تحریروں کو ادب کے نام پر سماج ميں عام کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس طرف آکر جس طرح منٹو صدی منائی گئی اور جس طرح منٹو منٹو کا رٹ لگایا گیا اس سے تو ایسا لگا جیسے منٹو کے علاوہ اور کوئی کچھ ہو ہی نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ترقی پسندوں اور جدیدیوں نے کچھ بھی اچھا پیش نہيں کیا یا پھر یہ کہ منٹو کے یہاں سب کچھ غلط ہی ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج جس قسم کا ذہن ادبی سطح پر بنا دیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس کے فارغین بھی یونیورسٹی کے اندر آکر جب تحقیقی کاوشوں سے جڑتے ہیں یا تنقیدی سطح پر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے بیچارے اپنے آپ کو غیر جانبدار ثابت کرنے کے لیے خود کو  لبرل اور سیکولر بتلاتے ہیں ۔ علماء کا یہ طبقہ یہ کہتا ہوا ملتا ہے کہ دین کو ادبی مباحث سے دور ہی رکھا جائے ۔
                       چوں کفر ازکعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی
   یہاں پر ہم بازاری ادب کے اس پورے ذخیرے سے بھی آنکھ نہیں موڑ سکتے جو ہر ایک چوراہے پر سماج کے قتل کرنے میں لگا  ہوا  ہے  اور جن پر ہماری کوئی نظر نہيں ہے ۔ خیر سے یہ تو شروع سے ذرا الگ خانوں میں رہا کیا ہے ۔ اور بالعموم چھپ چھپا کر ہی لوگ اسے پڑھا کیے ہیں ۔ یعنی اسے غلط سمجھا ضرور گیا ہے لیکن کیا کبھی ان ڈائجسٹوں کی ہم نے خبر لی ہے جو مشرقی تہذیب کے فروغ کے نام پر کیا کچھ نہیں پھیلاتے ۔ اوردھڑلے سے ہمارے گھروں میں پہنچتے ہیں ۔ جن کے اندر عقیدے کی خرابی سے لے کر عملیات محبت اور نہ جانے کیا کیا خرافات ہوتے ہیں ۔        
              کبھی اگر محاسبے کے پہلو سے سوچیے تو سمجھ میں آئیگا کہ ایک طرف نہایت مرصع ، سلیس اور سادہ زبانوں میں باطل کے فروغ کا کام نام نہاد معیاری ادب انجام دے رہاہے تو دوسری طرف بازاری ادب کا طومار ہے جو ایک عام آدمی تک آسانی سے پہنچتا ہے اور تیسری طرف ہے وہ جیسا تیسا دینی ڈائجسٹ جو اتنا غلط دین پھیلاتا ہے کہ الاماں والحفیظ اور ان تینوں کے مقابلے میں ہمارا حال یہ ہے کہ یاتو ہمارا کوئ اپنا لٹریچر نہیں اور اگر ہے تو وہ اتنا افسردہ کہ کسی کو اپنی طرف کھینچنے سے قاصر ہی رہے ۔ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اتنے سارے دینی رسالے نکلتے ہیں لیکن ان کا جتنا اثر ہونا چاہیے وہ نادارد ہے ۔
            علماء کرام کا بے ہودہ ادب سے دور رہنا وقت کی بھی ضرورت ہے اور ان کی دینی ذمہ داری بھی ۔ لیکن  پورے طور پر ادبی منظرنامے سے الگ ہوجانے کو ایک طرح کی حماقت نہیں بھی   تو افسوسناک سادہ لوحی سے  تعبیر کیا جانا چا ہیے ۔ لوگ ادب پڑھتے ہیں اگر انہیں اچھا ادب نہیں ملے گا تو وہ غلط ادب پڑھینگے اور جب غلط ادب پڑھینگے تو غلط اثرات قبول نہ کرنے کا کوئی مطلب نہیں بنتا ۔ جماعت اسلامی سے جڑے چند ادباء نے دانستہ کوشش کی تھی کہ کچھ صالح ادب تیار ہو سکے بلاشبہ وہ ایک اچھا قدم تھا اسے زیادہ اونچی سطحوں اور بڑے پیمانوں پر عام کرنے کی ضرورت تھی لیکن ایسا ہو نہیں پایا ۔ لیکن وہ ضرورت ختم نہیں ہوئی ہے ۔ ہميں کئی سارے عزیز بگھروی ، حفیظ میرٹھی ، ماہرالقادری ، ابوالمجاہد زاہد، تابش مہدی اور فضاابن فیضی کی ضرورت ہے ۔ ہمیں یہ  سوچنا پڑے گا کہ ہم کس طرح خرم مراد ، ابن فرید اور مائل خیر آبادی جیسے لوگ زیادہ سے زیادہ سامنے لاسکیں ۔
             آج کی ضرورت صرف یہ نہیں کہ ایسے لوگوں کی کھیپ تیار کی جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ ہر سطح پر اسلامی اور تعمیری ادب کے فروغ کی کوشش کی جائے ۔ ہم ایک بار پھر سے معیاری ادب کو ' مسلمان' بنانے کی کوشش کریں ۔ ہم ایسے دینی ڈائجسٹ نکالیں جو عام لوگوں تک پہنچ بھی سکیں اور وہ انتہائی درجے میں سادہ بھی ہوں اور دلکش بھی ۔ کم از کم یہ تو ضرور کریں کہ ہمارا جو بھی دینی رسالہ نکلتا ہے اسے پرکیف اور مؤثر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے اندر صالح ادب کو  شامل کریں  ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ سبعہ معلقہ کے اندر امرؤا لقیس کی شاعری کو مدارس کے نصاب تعلیم کا حصہ بنانے والے علماء کرام اردو کے ادبی سرمایوں کو کیوں شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں ۔ بے ہودہ غزلوں اور فحش ادب کا بائیکاٹ ضروری ہی نہیں اشد ضروری ہے لیکن ساتھ ہی پاکیزہ شاعری اور صالح ادب کا پیدا کرنا اس سے کم اہم نہیں ۔ شتر مرغ کی طرح خود کو چھپالینے سے مسائل ختم نہیں ہو جاتے ۔ اس پورے رویے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ مشاعروں میں دھرلے سے پہنچنے والے علماء دوسروں کے بعض دینی میلان رکھنے والے اشعار پر جس طرح اچھلتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ وہ خود اس سے زیادہ معیاری اور بہتر کلام کہنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ۔ خاتون مشرق جیسا نہایت غیر معیاری رسالہ خرید کر اپنی خواتین کو پیش کرتے ہوئے انہیں شرم نہیں آتی لیکن کوئی اچھی ادبی کوشش کرنے کو وہ اپنے لیے ہتک عزت سمجھتے ہیں ؟
                  دیکھو  یہ   پندار  تقوی   ٹھیک  نہیں  ہے   مولانا
                 شعر و ادب کا ذکر چھڑے تو چیں بہ جبیں ہوجاتے ہو
مولانا ابوالکلام آزاد نے غبار خاطر لکھا ۔ اس کے اندر ادبی لطافت اور چاشنی پیدا کی ۔ لوگ پڑھنے پر مجبور ہوے تو نہ صرف یہ ان کا ادبی معیار اونچا ہو ابلکہ دینی تربیت بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہی ۔ شبلی نے  شعر العجم لکھا تو لوگوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی ۔ اقبال کی شاعری تو خیر یوں بھی مدارس کی چہار دیواری میں  زیادہ گونجتی ہے ۔ ماہرالقادری کے تبصروں پر ادبی دنیا نے بھی سر دھنا حالانکہ وہ اسلامی ادب کے علمبرداران میں سے تھے ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ انہوں نے اپنی قوت فکرو فن کے سہارے لوگوں کو مجبور کیا ۔ آج علماء کا طبقہ نہ جانے کیوں اپنے آپ کو اس سے الگ کرنا چاہتاہے ؟ بزرگی اور للہیت کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ وہ وسایل جن کا استعمال کرکے دشمان دین باطل کی ترویج و اشاعت کا کام لے رہے ہوں حق کے علمبرداران ان سے کنارہ کشی اختیار کر لیں ۔ علماء کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ علامہ ابن تیمیہ نے متکلمین اور اہل کلام کے ہی ہتھیار سے لیس ہو کر ان کا ناطقہ بند کیا ۔ دنیا کی کئی زبانوں میں اسلامی ادب کی ایک تحریک سامنےآئی ہے سوال یہ ہے کہ ہم اردو میں ایسا کیوں نہیں کرسکتے ؟ اگر ڈر اس بات کا ہے کہ لوگ اسلامی ادب کا نام سن کر بدک جائینگے تو سوال یہ بھی پیدا ہو تا ہے کہ بغیر نام لیے ہم اپنی تخلیقات کو معروف و مقبول رسالوں کی زینت کیوں نہیں بناتے ؟ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے مدارس سے خوشہ چینی کرکے نکلنے والے اسکالرس بھی ہماری تخلیقات کو ادبی تنقید کا نہ صرف یہ کہ موضوع نہیں بناتے بلکہ سرے سے انہیں اس قابل سمجھتے ہی نہیں ؟ کیا یہ ایک طرح کا  احساس کمتری ہے یا پھر سچائی یہی ہے کہ ہمارے علماء کی تحریرں ایسی ہوتی ہی نہیں کہ ان پر تحقیقی کام کیا جاسکے ؟ ظاہر ہے کہ ہر دو صورت تکلیف دہ ہے ہر چند کہ پہلی حالت کا امکان زیادہ اور دوسری کا بالکل کم ہے ۔ اور یہ بات یقین کے ساتھ اس لیے بھی کہی جاسکتی ہے کہ جن لوگوں کے فکر و فن پر بالعموم کام کیا جارہاہے کم از کم علماء کی تحریرں ان سے زیادہ وقیع ، علمی اور جانداروشاندار تو ضرور ہوتی ہیں ۔
             دنیا کے کسی بھی میدان میں اپنی مضبوط حصہ داری اور پہچان کے ذریعے ہی بات منوائی جاتی ہے ۔ ہماری ادبی بساط کمزور ہے تبھی تو مولانا سید سلیمان ندوی کی ادبی کاوشوں پر کوئی کام نہیں ہوتا ۔ مولانا مودودی کے لٹریچر میں ادبی زاویے نہیں تلاشے جاتے ۔ مولانا ابوالحسن ندوی کی تحریروں میں ادبی لطافت کے گوشے نہیں ڈھونڈے جاتے ۔عزیز بگھروی ، ابوالمجاہد زاہد کو ادبی حلقہ نہیں پہچانتا ۔ حفیظ میرٹھی کی بات نہیں ہوتی ۔ حد تو یہ ہے کہ فضا ابن فیضی جیسے عظیم ادبی شاعر کو بھی منظر عام پر لانے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔ لیکن منٹو کی تحریریں کھوج کھوج کر چھاپی جاتی ہیں ۔ عصمت چغتائی کی بے حیائی اور برہنگی کو ادبی حسن کا نام دیا جاتاہے ۔ ندافاضلی جیسے گھٹیا افکار کے لوگ نہ صرف یہ کہ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں بلکہ ان کے نہایت گرے ہوے اشعار بھی زبان زد خاص و عام ہو جاتے ہیں ۔  میرا یقین ہے کہ آج بھی کسی حالی کی ضرورت ہے جو مسدس حالی لکھ سکے ۔ آج بھی شاہنامے کی اپنی اہمیت باقی ہے لیکن کیا ہمارے درمیان کوئی حفیظ جالندھری ہے ؟ ہمارا ادبی قد کیوں بونا ہوتا جارہا ہے ؟ ہم کبھی اتنے تہی داماں تو نہیں تھے ؟ پھر آج کیوں ؟ تو کیا یہ امید کی جائے یہ آوازصدا بصحرا نہیں جائیگی ؟؟؟
                     اٹھ کے اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
                    مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
ایک بات ذہن میں رکھنے کی یہ بھی ہے کہ ادھر آکر خود ادبی حلقے کے اندر ایک مضبوط آواز ایسے لوگوں کی بھی ہے جو غیر دینی افکار و خیالات کے بانجھپن سے تنگ آچکے ہیں ۔ جو زندگی کی سچائیوں میں مذہب کی اہمیت کا احساس رکھتے ہیں ۔ صالح اور بہتر بنیادوں پر سماج کی تعمیر و تشکیل چاہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا علماء کا طبقہ ایسے لوگوں کو کوئی سپورٹ فراہم کرنے کو تیار ہے ؟ کیا وہ اپنے خول سے نکلنے کو تیار ہیں ؟ کیا وہ اپنی چو طرفہ ذمہ داریوں کو سمجھنے کو تیار ہیں ؟ آج جب کہ لادین افکار و نظریات کا کھوکھلاپن واضح ہو چکا ہے یہ سوال اہم بھی ہے اور بسرعت جو اب کا طالب بھی ۔

ليست هناك تعليقات: