صفات عالم محمد زبیرتیمی
ریڈیوکویت ارودسروس کا ثقافتی پروگرام |
ابھی ہم موسم گرما کی تعطیل سے گزر رہے ہیں، گوکہ ہم میں سے اکثر لوگوں کے معمولاتِ زندگی اس سے متاثر نہ ہوئے ہوں گے مگر اتنا توضرور ہے کہ ہمارے بچے چھٹیاں منا رہے ہیں، تعطیل کے ایام میں بچے درسگاہوں سے دور ہوجاتے ہیں اور ان کے سارے اوقات گھر پر گزرتے ہیں ، اس مناسبت سے بچوں کی نگرانی کی ساری ذمہ داری والدین کے سر آجاتی ہے۔ اکثر بچے اپنی چھٹیوں کو کھیل کود میں ضائع کردیتے ہیں، کتنے انٹرنیٹ کیفوں میں وقت گزاری کرتے ہیں، کتنے ٹیلیویژن چینل کے دیوانے بن جاتے ہیں، کتنے بُرے دوستوں کی صحبت اختیار کرلیتے ہیں، اس طرح تعطیل ان کے لیے ذہنی تفریح کا سبب بننے کی بجائے وبال جان بن جاتی ہے ۔
دوسرے ناحیہ سے جب ہم عصری تعلیمی اداروں کے نصاب تعلیم پرغورکرتے ہیں توکلیجہ منہ کو آتاہے، ہمارے بچوں کو جو نصاب پڑھایاجاتا ہے اس میں مادیت کو سب کچھ گردانا گیا ہے، اسے پڑھ کر بچہ یہی سیکھتا ہے کہ دنیا کماؤ چاہے جیسے بھی ہو، آج مسلمانوں کے اندر تعلیمی شعور ضرور پیدا ہوا ہے ، اپنے بچوں اوربچیوں کو اعلی سے اعلی تعلیم دلارہے ہیں، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اعلی تعلیم کے ذوق نے مسلم معاشرے کو شریعت سے بیگانہ کردیا ہے ، مخلوط تعلیم نے ایسی فحاشی اور عریانیت پھیلائی ہے کہ ہماری مسلم لڑکیاں اپنی پہچان کھونے لگی ہیں، کتنی مسلم لڑکیاں غیرمسلم لڑکو ں سے شادیاں کررہی ہیں، کتنے مسلم بچے رواداری اور روشن خیالی کے نام پر ٹویٹر، فیس بک اور بلوگز پر اسلام کے تعلق سے معذرت خواہانہ باتیں لکھ رہے ہیں اورکچھ تو صراحت کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو ہدف تنقید بناتے ہیں ۔ قتل اولاد کا یہ وہ مہذب طریقہ ہے جس پر آج والدین شرمندہ نہیں بلکہ فخرمحسوس کررہے ہیں ، اکبر الہ آبادی نے اسی دور کی ترجمانی کی تھی
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
جی ہاں! یہ قتل ہی ہے جس پر فخر کیا جارہا ہے ، لیکن یہ کوئی جسمانی قتل نہیں ہے بلکہ روحانی قتل ہے ، ایمان و عقیدہ کا قتل ہے۔ پہلے مسلمانوں کے اندر اپنے بچوں کو مکاتب ومدارس میں دینی تعلیم دلانے کا ذوق بھی تھا جس کی وجہ سے کم ازکم بچے بچپن میں دین کے مبادیات سے آگاہ ہوجاتے تھے لیکن اب انگلش میڈیم سکولوں کے عام ہونے کی وجہ سے بچے اللہ اور رسول کا نام تک نہیں جان پاتے، وہاں مخلوط تعلیم کا رواج ہوتا ہے ، وہاں بے حجابی اور بے پردگی کو تہذیب کا نام دیا جاتا ہے ، وہاں پردہ کو رجعت پسندی کی علامت سمجھاجاتا ہے، وہاں اسلامی تہذیب کی تضحیک کی جاتی ہے، ایسے ماحول میں جب ہمارے بچے پڑھیں گے تو ظاہر ہے اسی تہذیب کے دلدادہ بنیں گے ،اسی ماحول کا گن گائیں گے ،اسى کی بولیاں بوليں گے
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
یادرکھیں!بچے ہماری امانت ہیں ،اورکل قیامت کے دن ان کے تئیں ہم سے بازپرس ہونے والی ہے ۔ اگراس سمت میں غفلت برتی گئی تو نتائج بڑے خطرناک ظاہر ہوں گے ، ہمارے معاشرے میں کتنے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین پیدا ہوسکتے ہیں ۔ آخر اس علم سے کیا فائدہ جس سے انسان عارضی دنیا توکما لے ،لیکن خالق حقیقی کا عرفان نہ حاصل کرسکے ، اس علم کا کیا حاصل جس سے مسلم معاشرہ میں لادینیت پھیلے ، ہماری باتوں سے کوئی یہ نتیجہ نہ نکالے کہ ہم عصری تعلیم کے مخالف ہیں، نہیں، بلکہ ہم عصری تعلیم کی ہمت افزائی کرتے ہیں، آج مسلمانوں میں ڈاکٹرس ،انجینیرس اور سائنسدانوں کی بیحد ضرورت ہے، اور اگر اللہ پاک نے ہمیں مالی وسعت دے رکھی ہے تو ہم اپنے بچوں کواعلی سے اعلی تعلیم دلائیں، لیکن دین کو نظر انداز کرکے نہیں ....اس مناسبت سے قوم کے سربرآوردہ اشخاص کے نام ہمارا پیغام ہوگا کہ جس طرح ارباب مدارس بچوں اوربچیوں کی دینی تعلیم کے لیے الگ ادارے قائم کررہے ہیں اسی طرح بچے اوربچیوں کی عصری تعلیم کے لیے بھی الگ الگ ادارے قائم کئے جائیں جن میں دینی ماحول فراہم کیاگیا ہو ، الحمدللہ بعض مقامات پر اس قبیل کی کوششیں ہورہی ہیں، جن کے نتائج نہایت حوصلہ افزا ہیں، ایسے اداروںکی ملک کے کونے کونے میں ضرورت ہے، اوریہ کام ہماری فوری توجہ کا مستحق ہے ۔
اسی کے ساتھ ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ آج کے اس دورمیں جدید ٹکنالوجی کی بدولت دنیا ایک گھرکی شکل اختیار کرچکی ہے ، ایسے حالات میں مغربی تہذیب کے اثرات سے ہم اپنے بچوں کو بالکلیہ نہیں بچا سکتے ، الکٹرونک میڈیا کے اپنے اثرات ہیں ، ماحول کے اپنے اثرات ہیں ، درسگاہوں کے اپنے اثرات ہیں اورنصاب تعلیم کے اپنے اثرات ہیں۔ اس لیے موسم گرما کی تعطیلات تربیت کے ناحیہ سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں، بالخصوص وہ بچے جو عصری تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں ان کی دینی تربیت کے لیے سنہری فرصت ہے، اس لیے والدین کی بڑی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تعطیل کو ان کی دینی تربیت کے لیے کارآمد بنائیں۔ گھرمیں دینی ماحول ہو، ٹیلیویژن اورانٹرنیٹ کااستعمال سرپرست کی نگرانی میں ہو، دینی محفلوں اور دروس میں بچوں کو شریک کریں، مساجد کے ائمہ وخطباءکی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مناسبت سے لوگوں کی صحیح رہنمائی کریں، مسلم کمیونٹیزاورسماج کے سربرآوردہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے لیے سمرکیمپ کا اہتمام کریں جس میں بچوں کے لیے دینی تربیت کے ساتھ ذہنی وفکری تفریح کا سامان فراہم کیا گیا ہو۔
الحمدللہ کویت میں مختلف دینی کمیٹیاں دینی ماحول میں سمر کیمپ کا اہتمام کرتی ہیں ،بچوں کے سرپرست کوچاہیے کہ اپنے بچوں کو ایسے کیمپ سے استفادہ کرنے کا بھرپورموقع فراہم کریں اوراس سلسلے میں کوتاہی نہ کریں کیونکہ یہی بچے مستقبل میں قوم کے رکھوالے اورمعمار بننے والے ہیں اور ان کی نیکی کا فائدہ خود ہمیں دنیا اورآخرت میں ملنے والا ہے۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق