آج کل
پوری دنیا میں مسلمان داخلی وخارجی مسائل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، عراق
وفلسطین ،افغانستان اورکشمیر میں آئے دن مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے
، مصر میں متعدد نومسلم خواتین حکومت کی صہیونیت نوازی کی بدولت قبول اسلام کے جرم
میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جسمانی استحصال کا شکار ہو رہی ہیں، مغربی ممالک میں
حجاب، قرآن اور نبی رحمت کے ساتھ کھلواڑ کوترقی پسندی اور حدود الہی کی تنفیذ کو
رجعت پسندی کا نام دیا جا رہا ہے ، ہندوستان میں بابری مسجد کا فیصلہ الہ آباد
ہائی کورٹ سے 24 ستمبر کو آنے والا ہے ، فیصلہ خواہ مسلمانوں کے حق میں ہو یا نہ
ہو ہر دوصورت میں معاملہ نہایت سنگین اور صبر آزما ہے ، پاکستان میں ایک طرف دہشت
گردی اور شدت پسندی کے حادثات نے پاکستانی قوم کوسسکیاں لینے اور آہیں بھرنے پر
مجبور کردیاہے تودوسری طرف فی الوقت سب سے بڑی مصیبت بدترین سیلاب کی تباہ کاری کی
صورت میں ہمارے سروں پر آئی ہوئی ہے، جس نے 80 سال کا ریکارڈ توڑتے ہوئے چار صوبوں
کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ آج پاکستان کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے ، ایک اندازے
کے مطابق دو کروڑ سے زائد لوگ سیلاب سے متاثر ہیں، وہ کھلے آسمان تلے حسرت کی تصویربنے
ہمیں دیکھ رہے ہیں، ان کے آشیانے زیر آب ہوگئے ، ان کے زراعتی اراضی دریا برد
ہوگئے، ذرائع روزگار ختم ہوچکے ، سڑکیں تباہ ہوچکیں ، کتنی مائیں جگرگوشوں سے
محروم ہوگئیں، کتنے بچے یتیم ہوگئے، کتنی بیویاں سروں کا تاج کھو بیٹھیں، کتنی
سہاگنوں کا سہاگ لٹ گیا، کل تک وہ ہمارے ہی جیسے تمنائیں اور آرزوئیں لیے ہوئے تھے
لیکن آج ان کے خوابوں کے شیش محل چکناچور ہوچکے ہیں ،الکٹرانک میڈیا جب ان کے
دلدوز مناظرپیش کرتا ہے توآنکھیں اشک بارہوجاتی ہیں، تباہی ایسی ہے کہ امیر وغریب
کا فرق مٹ چکا ہے، دینے والا ہاتھ لینے والا ہاتھ بن چکا ہے، غذائی اشیاءکی شدید
قلت ہے، صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹ رہے ہیں، اقوام متحدہ
کے جنرل سکریٹری بانکی مون نے جب اپنے ایک روزہ دورہ میں تباہی کے مناظر دیکھے تو
اعتراف کیا کہ میں نے ایسی تباہی اپنی زندگی میں کبھی نہ دیکھی پھر انہوں نے عالمی
برادری سے اپیل کی کہ سیلاب زدگان کی تعمیر نو کے لیے تمام ممکنہ وسائل کے ساتھ
آگے آئیں ۔ پاکستان کی ساری ملی تنظمیں انسانی اور قومی ہمدردی کا ثبوت دےتے ہوئے
ہرممکن تعاون کررہی ہیں، بیرون ملک سے بھی تعاون آرہا ہے لیکن تباہی اتنی شدید ہے
کہ اس کی بھرپائی نہیں ہوپا رہی ہے ، سیلاب زدگان کی داد رسی ہماری اولیں ترجیح
ہونی چاہیے۔ انہیں ضرورت ہے ہماری مدد کی ، ہمارے تعاون کی،ہماری ہمدردی اورغم
خواری کی۔
بفضلہ
تعالی ہم کویت میں برسرروزگارہیں، خوشحال وفارغ البال ہيں یا کم ازکم ہمیں بے
نیازی حاصل ہے ، ہم آرام سے ایرکنڈیشن فلیٹ میں رہ رہے ہیں، ہمیں صحت مند زندگی میسرہے ، من پسند اور
مرغن غذائیں کھارہے ہیں جبکہ ہمارے ہی بھائی بہن سرچھپانے کے لیے سائبان کے محتاج
ہیں ، بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ادویات کے ضرورتمند ہیں،زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی
روٹی کے احتیاج مند ہیں، ہمیں شاید اس کا شعور نہیں کہ ہماراجسم لہولہان ہے ،درد
وکرب سے کراہ رہا ہے،ذراغورکیجئے اس حدیث پر:
”مسلمانوں کی مثال آپسی ہمدردی ،محبت اور رحم دلی میں ایک جسم کی
مانند ہے جس کے ایک عضو کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بخار اور بے خوابی سے پورا جسم
مثاتر ہوتا ہے “ (بخاری ومسلم)
اس
حدیث پاک میں مسلمانوں کے مابین قائم ہونے والے تعلق کو جسد واحد سے تشبیہ دے کر
واضح فرمایا گیا کہ امت مسلمہ منتشراجزاءاور مختلف اقوام کا نام نہیں بلکہ ایک
ہیکل اور جسم کانام ہے ، اور ایک جسم میں ایک ہی دل اور ایک ہی روح ہوتی ہے ، اس طرح
مومن کی سوچ اور اس کا ارادہ ایک ہوتا ہے ، مختلف اجسام ہونے کے باوجود ایک قالب
ہوتے ہیں،اسکے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے سارے اعضاء تیماردار بن کر
تکلیف کا ساتھ دیتے ہیں اور بے خوابی کا شکار ہوجاتے ہیں ، ویسے ہی ایک مسلمان کو
کوئی مصیبت آتی ہے یا تکلیف پہنچتی ہے تو قومیت ، رنگ ونسل اور ذات پات کی تمیز کے
بغیر اسے فوری احساس ہوناچاہیے کہ اس کے جسم کا ایک عضو بیمار ہے ،اس کی تیمارداری
کرے،اس کی مدد کرے ، اور اس کی مصیبت کو دور کرنے میں لگ جائے ۔
ہمارے
پاس مال اللہ پاک کا عطیہ ہے ،اس نے ہمیں وقتی طو رپر اس پر ملکیت عطاکی ہے اور اس
میں فقراءومساکین کا بھی حق رکھا ہے ،کل قیامت کے دن اس کی بابت پوچھ گچھ
ہوگی(ترمذی) پھر صدقات وخیرات کے بے شمار فوائد بھی بتائے گئے ہیں چنانچہ صدقہ غضب
الہی کو دور کرتا اور بری موت سے بچاتا ہے (ترمذی) گناہوں اور معاصی کومٹاتا ہے (
صحیح الجامع ) میدان محشر کی ہولناکی میں ہمیں سایہ کیے ہوگا (صحیح الجامع ) جبکہ
کتنے لوگ پسینے میں شرابور ہوں گے ، آج ہم اپنے بھائی کی مصیبت کودورکریں گے تو کل
قیامت کے دن ہمارا خالق ومالک ہماری مصیبت کودور فرمائے گا (بخاری ) پھرصدقہ
وخیرات کرنے سے مال میں حسی ومعنوی دونوں طرح افزائش ہوتی ہے(البقرة 274) ،کیا
دنیا میں کوئی ایسا بنک ہے جو ایک کا سات سوگنا دیتاہو لیکن رب عرش عظیم کے بنک نے
ہم سے ایک دینار کے بدلے سات سو دینار دینے کا وعدہ کیا ہے بلکہ بعض لوگوں کواس سے
بھی زیادہ ملے گا :
”جو
لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُن (کے مال) کی مثال اُس دانے کی سی
ہے جس سے سات بالیں اُگیں اورہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس(کے مال)
کو چاہتا ہے زیادہ کرتاہے اور وہ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہے“۔(سورہ بقرہ
241)
ہرروز
جب بندہ صبح کرتا ہے دوفرشتے نازل ہوتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں ، ایک کہتا ہے
”یا اللہ نہ خرچ کرنے والے کے مال کو ضائع کردے“ دوسرا کہتا ہے ”اے اللہ خرچ کرنے
والے کو بدلہ عطا فرما “ (بخاری )
اوراللہ
تعالی کو کمیت سے زیادہ کیفیت مطلوب ہے ،معمولی تعاون کوبھی حقیر نہ سمجھیں ”جہنم
کی آگ سے بچو گوکہ آدھی کھجور کے ذریعہ ہی سہی“ (بخاری ومسلم) ایک مرتبہ اللہ کے
رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایاتھا ”ایک درہم ایک لاکھ درہم پر سبقت لے گیا“ایک
شخص نے کہا:یا رسول اللہ! ایسا کیسے ہوا ؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: (وہ
اس طرح کہ ) ایک آدمی جس کے پاس وافرمقدارمیں مال ہے اس سے ایک لاکھ نکال کر صدقہ
کردیتا ہے جبکہ دوسرا شخص دو درہم کا مالک ہے اس میں سے ایک درہم صدقہ کردیتا ہے
“(نسائی ، ابن ماجہ ،ابن خزیمہ،حاکم)
عزیز
قاری ! یقیناً سیلاب زدگان کے لیے یہ آزمائش کی گھڑی ہے تاہم ہمارے لیے بھی آزمائش
ہے کہ ہم کس قدر ان کی مدد میں ہاتھ بٹاتے ہیں ،تو آئیے ایک جسم ہونے کا ثبوت
دیجئے،سیلاب زدگان کے درد کو محسوس کیجئے ،اگر آپ نے ان کی مدد کی ہے تو مزید کی
ہمت کیجئے کیونکہ ان کی پریشانیاں سوا ہوتی جارہی ہیں اور اگر اب تک نہیں کی ہے تو
اپنی استطاعت اور وسائل کے مطابق پہلی فرصت میں ان کاتعاون کیجئے ،کیا معلوم کے کل
ہمیں بھی وہی دن دیکھنا پڑے جس سے آج وہ گذر رہے ہیں ۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق