الاثنين، أكتوبر 04، 2010

بہار اسمبلی انتخابات مسلمانوں كے شعور كا فقدان

تحرير: ظل الرحمن تيمي / ايڈيٹرمجلہ طوبى

بہار اسمبلی انتخاب دن بدن قریب آتا جارہا ہے۔ اس مہینے اور اگلے مہینے کی مختلف تاریخوں میں یہاں چھ مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ریاست کے پانچ کروڑ 44لاکھ عوام کے ذریعہ 243 اسمبلی حلقوں میں سیاسی طالع آزماﺅں کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس مرتبہ کا اسمبلی انتخاب کافی دلچسپ اور اہم ہے۔ کون سی پارٹی واضح اکثریت سے ہمکنار ہوگی اس سلسلے میں یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی تبصرہ نگاروں اور انتخابی نتائج کے سلسلے میں پیش گوئی کرنے والوں کی مشکلوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وہ اگلی حکومت کے سلسلے میں کسی نتیجے تک پہنچنے کے بجائے شس وپنج کا شکار ہیں۔ بہار کی 20 سالہ تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ نتائج کے تئیں اس قدر بے یقینی کی کیفیت ہے۔ اس الیکشن میں تينوں بڑے محاذ اپنی اپنی کامیابی اور حکومت سازی کے بلند وبانگ دعوے کر رہے ہیں۔ مرکز میں برسرِ اقتدار کانگریس پارٹی کا ماننا ہے کہ راہل گاندھی کا کرشمہ اور ان کی انتخابی مہم کانگریس سے لوگوں کو جوڑنے میں اہم رول ادا کرے گی۔ جبکہ لالو- پاسوان اتحاد مسلم يادو اور دلت ومہادلت ووٹوں کے بل بوتے واضح اکثریت حاصل کر کے حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ اس اتحاد کے ذریعہ لالوپرساد کو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔ بہار میں برسرِاقتدار جے ڈی یو بی جے پی اتحاد بھی اپنی حوصلہ افزا کاميابی اور حکومت سازی کے تئیں متيقن ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا ماننا ہے کہ انہوں نے جس محنت ومشقت سے پچھڑاپن کے دلدل میں پھنسے ہوئے بہار کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کاتاریخی کارنامہ انجام دیا ہے ،اس سے بہار کی شان اور آن بان میں اضافہ ہوا ہے۔ سڑک، اسپتال، نظم ونسق اور قانون وانتظامیہ وغیرہ ہر سطح پر اصلاح کی شبانہ روز کوششوں کے بعد گویا بہار کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ نتیش کمار کا ماننا ہے کہ انہوں نے جامع حکمتِ عملی کے ذریعہ سماج کے ہر طبقے کی ترقی اور بلا تفریق مسلک ومذہب اور ذات پات ہرگروپ کے مفاد کے لئے مساوی کام کیا ہے، اور یہ کوششیں ضرور رنگ لائیں گی۔موجودہ اپوزیشن راشٹریہ جنتادل اور اس کے اتحادی ایل جے پی نتیش حکومت کی کارکردگی کے سلسلے میں اس کے دعووں کو لگاتار رد کرتے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نتیش کمار میڈیا کے ذریعہ اپنے کاموں کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ بہار کے عوام ذات برادری کے نام پر ووٹ کرتے ہیں۔ اور ان کو چونکہ یادو، دلت اور مسلمانوں کی حمایت حاصل ہے ،اس لئے اسے حکومت سازی میں ضرور کامیابی ملے گی۔ بہرحال حقیقت تو یہ ہے کہ 15سالوں تک بہار کو تنزلی وپچھڑاپن کا شکار بنانے اور ووٹنگ میں دھاندلی کرنے پر ضلع انتظامیہ کو مجبور کرنے والے لالو پرساد آج بھی ترقی کے بجائے ذات پات کی بنیاد پر ووٹ کی امید کر کے غلط فہمی کے شکار بنے ہوئے ہیں۔ بہار کے عوام اب جاگ چکے ہیں۔ مذہبی جذبات کے نام پر وہ بار بار دھوکہ نہیں کھا سکتے۔ وہ انتخابی اعلانات،جذباتی بیان بازیوں اور ووٹ کی سیاست کرنے والے سیکولرزم کے علمبرداروں کو بھی پہچان چکے ہیں،اس لیے وہ اس مرتبہ انتخاب میں پورے شعور کا مظاہرہ کرناچاہتے ہیں۔نتیش کمار کی سربراہی والی حکومت کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود بہار لالو کے 15 سالہ پچھڑاپن کے دور کو نہیں بھلاپایا ہے۔ فی کس مجموعی آمدنی (GDP) کے معاملے میں بہار ملک کی سب سے پچھڑی ریاست ہے۔ یہاں 55 فیصد سے زیادہ آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس ریاست کا جنسی تناسب دوسری ریاستوں کے بہ نسبت بہت کم ہے۔ بجلی کا استعمال ملک کی ساری ریاستوں میں سب سے کم یہیں ہوتا ہے۔ لیکن ان کمیوں کے باوجود نتیش کے ترقیاتی کاموں کو دیکھ کر بہار کے عوام کو حوصلہ ملا ہے۔ اور وہ اس سلسلے کو لگاتار جاری رہتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پری میٹرک، پوسٹ میٹرک اور پروفیشنل وٹیکنیکل کورسزمیں زیادہ سے زیادہ اقلیتی طلباءکو اسکالرشب دی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں کی گئی ہے۔ بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے ملحق مدارس کے اساتذہ کی تنخواہوں میں300 فیصد کا تاریخی اضافہ کرکے گویا نتیش کمار نے ایک نیا اقدام کیاہے۔ یہاں پوری ریاست میں سڑک کا نقشہ ہی گویا تبدیل ہوچکا ہے۔ اب گھنٹوں کی دوریاں منٹوں میں طے کی جاسکتی ہيں۔ اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دواﺅں کی مفت تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پروفیشنل وٹیکنیکل کورسز میں مسلم بچوں کے داخلے میں بھی غیرجانبداری وحق پسندی کا ثبوت دیا گیا ہے۔راقم الحروف نے خود دربھنگہ میڈیکل کالج ميں سال 2010-11 ميں داخلہ لينے والوں کا سروے کیا تو پتہ چلا کہ 90طلباءمیں 7 مسلم طلباءکو داخلہ ملا ہے۔ یہ تناسب ملکی سطح پر ایک ماڈل اور کافی حوصلہ افزا ہے۔ بہار میں جہاں میڈیکل میں داخلہ دھاندلی کا اڈہ بنا ہوا تھا۔ جہاں حکومتی میڈیکل اداروں میں ڈاکٹروں کے بچوں یا وزیروں کے رشتہ داروں یا رشوت خور گروپ کے مافیاﺅں تک رسائی حاصل کرنے والوں کے بچوں کو داخلہ مل پاتا تھا ،آج یہاں غریب ، مزدور اور کسانوں کے لعل بھی اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں، یہ ریاست میں رونما ہونے والی اہم تبدیلی ہے اور اس کے لئے نتیش کمار قابل صد مبارکباد ہیں۔ ریاست میں اغوا کے واردات میں زبردست کمی آئی ہے۔ قانون وانتظامیہ کو بھی کافی چست درست بنا دیا گیا ہے۔ لوگ آزادانہ طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ آیا جایا کرتے ہیں۔ تعلیمی نظام کو بھی درست کيا گیا ہے ۔لالو کے زمانے میں بہار کے تقریباً 99 فیصد کالجوں ويونيورسیٹیوں ميں 5 یا 6 سال میں گریجویشن مکمل ہوتا تھا جواب صرف تین سال میں ہو رہاہے۔ نتیش حکومت نے سارے مؤخر سيشنوں کا امتحان کرا کر تعلیمی نظام کو ملکی نظام سے جوڑ دیا تاکہ بچوں کا سال برباد نہ ہونے پائے۔ نتیش حکومت نے کچھ ایسے فیصلے بھی کیے جن کی بنیاد پر عوام میں انہیں کافی مقبوليت نصيب ہوئی۔ انہوں نے خواتین ، زیادہ پچھڑے طبقات (MBCs) اور مہا دلتوں کو ریاست کے علاقائی انتخابات ميں ریزرویشن سے نوازا۔ نتیش کمار کی سلجھی ہوئی کرشماتی شخصیت کے باوجود انہیں اپنے اتحادی بی جے پی سے ہندتوا کے مسئلے پرجنگ چھڑنے کا خطرہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ بابری مسجد کا فیصلہ آنے والا ہے، فیصلہ کے بعد بی جےپی کا تیور کیسا ہوتا ہے، اور ان حالات میں نتیش کمار کس راہ پر چلتے ہیں، یہ بہار کے انتخابی مرحلے کے لئے بہت اہم ہوگا۔حاليہ اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں کو بڑی منصوبہ بندی، حکمت عملی اور شعور وآگہی سے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ نہ تو ہند توا وادی طاقتوں کو فائدہ پہنچے اور نہ ہی جذباتی استحصال کرنے والوں کو سر اٹھانے کا موقع مل سکے۔ جب تک مسلمان اپنی تعلیمی واقتصادی اور سیاسی وسماجی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے کوئی منظم اقدام نہیں کریں گے اور اس کے لئے سیاسی شعور کا مظاہرہ نہیں ہوگا، اس وقت تک وہ اپنی عظمت رفتہ اور شوکتِ گذشتہ کو نہیں پاسکتے۔

هناك تعليق واحد:

غير معرف يقول...

برادرگرامی قدر ظل الرحمن تیمی صاحب ۔ نہایت فکر انگیز اور چشم کشا تحریر ہے یہ آپ کی ،بالکل صحیح کہا آپ نے کہ آج مسلمانوں کے اند ر شعور کا فقدان پایا جاتا ہے ،انتخاب کا جب وقت آتا ہے تو عجیب صورتحال ہوتی ہے ہم سب سے پہلے چند پیسوں میں بکنے والے انسان بن جاتے ہیں ،پیسے کے سامنے ہماری نظر میں اوٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ یہ المیہ نہیں ہے تو اور کیا ہے ۔