الاثنين، يناير 30، 2017

غزل
 ساگر تیمی
لکھنے والے غلط تھے لیکن پڑھنے والے ٹھیک تھے
سطریں جیسے کہہ رہی ہوں مرنے والے ٹھیک تھے
ساری حقیقت جیسے ان افسانوں ہی میں قید ہو
اہل دانش کہہ رہے ہیں گڑھنے والے ٹھیک تھے
ظلم کی تم تائید کرو ہو شہ کے مصاحب بنتے ہو
اور ضمیر کہا کرتا ہے اڑنے والے ٹھیک تھے
کس کے اندر کس میں کتنی رہ گئی ہے بہادری
سارے فوجی سوچتے ہیں ڈرنے والے ٹھیک تھے
میرے اس کے بیچ کتنی قربتوں کا درد ہے
عشق میں روز اول ہی نہ کرنے والے ٹھیک تھے
اب تک ساگر جنگوں کی تاریخ سے کھلنا باقی ہے
 بچ کر جینے والے یا پھر مرنے والے ٹھیک تھے

ليست هناك تعليقات: