الأحد، يناير 08، 2017

ہمارا اسلامی لٹریچر اور بدلتی دنیا
ثناءاللہ صادق تیمی ، اسسٹنٹ پروفیسر امام یونیورسٹی ، ریاض
علامہ اقبال کا بڑا مشہور شعر ہے ۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
مولانا حالی کی اس بات کو خاص طور سے زبانوں کے تناظر میں دیکھیے تو اس کے اندر اور بھی سچائی نظر آئے گی ۔ ایک وقت تھا جب ہندوستان پر مسلمانوں کی سلطنت قائم تھی ، حکمرانوں کی زبان فارسی تھی ، اس لیے دیکھتے دیکھتے ہر پڑھے لکھے انسان کی زبان فارسی ٹھہری اور اس میں کسی دین دھرم مسلک طبقے کا فرق نہیں رہا بلکہ فارسی ہی تعلیم یافتہ ہونے کی دلیل سمجھی جانے لگی ۔ فارسی ہی کے زیر اثر پنپنے والی زبان اردو کا بھی یہی حال رہا ۔ مغلیہ سلطنت کے دور زوال میں اردو کا اٹھان شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے بغیر تفریق مذہب و ملت ہر مہذب انسان کی زبان اردو ہوگئی ۔ آج بھی سکھوں میں اردو کا چلن ہے ۔ ہمیں اس وقت شرم محسوس ہوئی جب ہم نے پٹنہ ایئر پورٹ پر ایک سکھ کو اردو کا اخبار خریدتے ہوئے دیکھا اور ہم نے خود انگریزی اخبار لیا ۔ فارسی اردو کے اثرات آج بھی عدالتوں کے اندر محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔ ایک وقت تو وہ بھی تھا جب اردو کا شاعر کہتا تھا ۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
لیکن جب حالات بدلے توبدلنے والے حالات کو ہمارے اسلاف نے بڑی خوبی سے سمجھا اور آپ جائزہ لیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کتنی مختصر مدت میں اردو کے اندر کتنا اچھا خاصا اسلامی لٹریچر پھیل گیا ۔ کسی مبالغے کے بغیر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ عربی کے بعد اسلامی ادب کا سب سے بڑا اور مضبوط حصہ اردومیں پایاجاتا ہے ۔ ہمارے اسلاف نے لگ بھگ سارے فنون پر اردو میں لکھا اور اس کثرت سے لکھا کہ آج بھی ان کی تابانی قائم ہے ۔ آپ کو اردو میں اسلام کے تمام گوشوں پرکتابیں مل جائیں گیں ، جب انہوں نے لکھا تو یقینا وہ وقت کی ضرورت بھی تھی اور الحمد للہ ان کی تحریروں سے دینی ضرورت کی تکمیل بھی ہوئی ، تب ایک بڑی اچھی بات یہ بھی تھی کہ اعلا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اردو سے بہرور تھا اور کم پڑھا لکھا طبقہ بھی اردو جانتا تھا ، اس لیے اردو کی ایک مہذب تصنیف ہر سطح کے لوگوں کی تشنگی بجھا پانے میں کامیاب ہوجاتی تھی لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ حالات پھر ویسے نہیں رہے ، کافی کچھ بدلاؤ آیا ، مسلمانوں کے ہاتھوں سے اقتدار ہی نہیں گیا ، صرف انگریز حاکم ہی نہیں ہوئے ، ان کے ظلم و ستم کے مسلمان شکار ہی نہیں ہوئے ، ملک کو آزادی ہی نہيں ملی بلکہ آزادی کے ساتھ تقسیم کا گہرا گھاؤ بھی ملا ، ملکی سطح پراردو دشمنی بھی ملی ، مسلم ذہنوں میں مرعوبیت کا بچھو بھی ملا ، بے سروسامانی کی کیفیت بھی ملی اور یوں دیکھتے دیکھتے اردو بےچاری ان غریب مسلمانوں کی زبان بن کررہ گئی جن کے پاس اور کچھ پڑھنے کا ذریعہ نہیں رہا ، اردو روزگارسے الگ رہی اوراس کی جگہ انگریزی نے لیا ، انسان کو زندگی جینے کےلیے بہتر معاش کی بہت ضرورت ہوتی ہے ، وہ انہیں اسباب کو اختیار کرتا ہے جن سے اس کی معیشت مضبوط ہو سکے کہ سارا سماجی مقام اسی سے جڑا ہوتا ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ صورت حال یہ ہوئی کہ تقسیم کے بعد اردو مسلمانوں کی ہی نہیں کمزور مسلمانوں کی زبان ٹھہری ( استثناءات سے انکار نہیں !! ) اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ آج جہاں اردو مدارس کے دم پر زندہ ہے وہیں یونیورسٹیوں کے اندر بھی اردو پڑھنے والوں کی اکثریت کسی نہ کسی شکل میں مدرسہ بیک گراؤنڈ ہی رکھتی ہے !!
جن کے حالات اچھے ہيں وہ عام حالات میں اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے ، ان کی زبان انگریزی ہے اور ہم نے اب تک قابل ذکر صورت میں اسلامی لٹریچر انگریزی میں تیار نہیں کیا ہے ۔ اب کیفیت یہ ہے کہ ویسے اعلا تعلیم یافتہ لوگ اپنی اسلامی معلومات کے لیے جن لوگوں کو پڑھ رہے ہیں ان میں یا تو مستشرقین ہیں یا پھر وہ لبرل لوگ ہیں جن کے قلم نے اسلام کو کمزور کرنے کی ہی کوشش کی ہے ۔ ایسے میں مسلمانوں کے اس تعلیم یافتہ طبقےکا صحیح اسلام سے دور رہنا کوئی ویسی تعجب خیز بات بھی نہیں ۔ مجھے ام القری یونیورسٹی میں میڈیکل سائنس کے ایک ہندوستانی پروفیسر کی اس بات سے تعجب نہیں ہوا کہ قرآن تو خیر ٹھیک ہے لیکن حدیث ہم تک صحیح طریقے سے نہیں پہنچی ، انہوں نے وہی باتیں دہرائیں جو مستشرقین یا لبرلز نے اپنی کتابوں میں لکھی ہیں ۔ ان حالات میں کیا ہمیں اپنے لٹریچر کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیا ہمیں یہ نہیں سجمھنا ہوگا کہ غیروں کو تو چھوڑ دیجیے خود اپنے پڑھے لکھے طبقے تک صحیح دین پہنچانے کے لیے ہمیں انگریزی کی ضرورت ہے ۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے بہر حال خوشی ہورہی ہے کہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہاں تک ان لوگوں نے بھی اس طرف پیش قدمی شروع کردی ہے جن پر عام طور سے دقیانوسیت اور قدامت پرستی کا الزام رہا ہے چنانچہ ملفوظات ، سوانح اور اس قبیل کی دوسری چیزیں بڑے پیمانے پر انگریزی میں ترجمہ کی جاری ہیں اور بازار میں دستیاب کرائی جارہی ہیں ، بعض مسلم جماعتوں کے پاس بھی قابل ذکر نہیں تو بھی ایک حد تک انگریزی میں اسلامی لٹریچر ہے لیکن اس پورے معاملے میں سب سے تہی دست ہم سلفیان ہند نظر آرہے ہیں ، ہم کہ جنہوں نے ہمیشہ علم وحکمت کی راہ میں قیادت کا فریضہ انجام دیا ہے ، ہم کہ جن سے جامعہ رحمانیہ منسوب رہا ہے ، ہم کہ جنہوں نے سب سے پہلے اصلاح نصاب کی آرہ میں تحریک چلائی ہے ، ہم کہ جنہوں نے جمعیت علماء ہند ہی نہیں ندوۃ العلماء کو بھی اپنی رہنمائی سے نوازا ہے ، ہم کہ جنہوں نے ہمیشہ حالات کو سمجھا ہے ۔ آج ہم کہیں نہ کہیں پیچھے نظر آرہے ہیں ۔ ابھی تک ہمارے پاس انگریزی میں کوئی قابل ذکر لٹریچر نہيں ہے ، ہمارے اسلاف کے قابل قدر اور بیش بہا سرمایوں کو انگريزی میں منتقل کرنے کا ہمارے پاس کوئی جذبہ یا منصوبہ بھی نہيں ہے ۔ اقبال کا ایک شعر یاد رہا ہے
چراغ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے
اگراجازت دی جائے تو عرض کروں کہ حالات کا یہ شدید تقاضہ ہے کہ ہم نہ صرف یہ کہ اپنے اسلاف کی متاع بے بہا کو انگریزی میں منتقل کرنے کا سامان کریں بلکہ مختلف موضوعات پر حالات وظروف کو سامنے رکھتے ہوئے لٹریچر بھی تیار کریں ۔ ہم نے اگر اور زيادہ کوتاہی برتی تو نتائج بہر صورت سنگین ہی ہوں گے ۔ اس کے لیے ہمیں کچھ اور نہیں جذبے اورمنصوبے کی ضرورت ہے ۔ آج دوسری زبانوں کے بہ نسبت انگریزی میں کام کرنا زيادہ آسان ہے ۔ اس کام کے لیے جہاں تنظیموں کو سرجوڑکر بیٹھ کرسوچنے کی ضرورت ہے ، حدیث ، تفسیر ، عقیدہ ، تاريخ اور دوسرے موضوعات پر باضابطہ لٹریچر تیار کرنے کی ضرورت ہے وہیں افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جن سے جہاں تک ہو سکے وہ کوتاہی نہ برتیں ۔ اس کا یہ قطعا مطلب نہیں کہ اردو میں کام کرنا چھوڑ دیا جائے کہ بہر حال اس کی اپنی ضرورت اور اہمیت ہے البتہ اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ انگریزی سے اب کسی بھی صورت بے اعتنائی نہ برتی جائے کہ پہلے تو غیروں تک بات پہنچانے کے لیے ہمیں انگریزی ضروری لگتی تھی اب تو اپنوں تک اپنا دین پہنچانے کے لیے بھی یہی ذریعہ رہ گيا ہے ۔ یاد رہے کہ دنیا کا کام چلتے رہنا ہے ، وہ کسی کے لیے نہیں رکتی ۔ حالات کے بدلاؤ کا ہم ساتھ نہیں دے پائیں گے تو یہ ہمارا ہی نقصان ہوگا ۔
لگے ہاتھوں ایک اور سچائی کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا کہ جہاں ہمیں انگریزی پر دھیان دینے کی ضرورت ہے وہیں ہندی سے بے اعتنائی بھی گھاتک ثابت ہوگی ۔ یہ بہر حال افسوسناک بات ہے کہ اتنی مدت سے ہندوستان میں ہم مسلمان جی رہے ہیں اور ہم نے اپنے برادران وطن کو اسلام سے روشناس نہیں کرایا ہے لیکن اب ہمیں نہ صرف یہ کہ اپنے غیر مسلم ہندو بھائیوں کے ایک بڑے طبقے تک پہنچنے کے لیے ہندی کی ضرورت ہے بلکہ خود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تک پہنچنے کے لیے بھی ہندی کی ضرورت ہے ۔ مدرسہ والوں کو چھوڑ دیجیے تو زيادہ تر مسلمانوں کو اردو رسم الخط میں پڑھنا لکھنا نہيں آتا ۔ ہندی کے قومی زبان ہونے کی وجہ سے انہیں ہندی تو آتی ہے لیکن اردو نہیں آتی ۔ اس کا اندازہ بات چیت میں کم ہوتا ہے کہ بہر حال پرورش وپرداخت تو مسلم گھرانوں میں ہوئی ہے ، سبحان اللہ ، ماشاءاللہ اور الحمد للہ جیسے الفاظ ہمیں دھوکہ میں ڈال دیتے ہیں لیکن جیسے پڑھنے لکھنے کی بات آتی ہے ساری حقیقت سامنے آجاتی ہے ۔ آپ کو تعجب ہوتا ہو تو ہوتا ہو لیکن یہ سچ ہے کہ اردو اخبارات کے معتد بہ صحافی ایسے ہیں جو اپنی رپورٹ رومن رسم الخط میں تیار کرتے ہیں وہ اردو کے فارسی رسم الخط سے واقف نہيں ہیں یعنی جو اردو کی روزی روٹی کھاتے ہیں ان کا یہ حال ہے تو سوچیے ان کا کیا حال ہوگا جنہیں اردو سے کوئی مطلب ہی نہیں ۔ شمالی ہندوستان ( جو کہ اردو کا بھی گہوارہ ہے ) کے مسلمانوں کی اکثریت ہندی اخبارات ہی پڑھتی ہے کہ انہيں اردو پڑھنا نہیں آتا ۔ ایسے میں کیا اس ضرورت سے انکار ممکن ہے کہ ہمیں اسلامی لٹریچر کو ہندی میں پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ آسان اردو( جو ہندی سینیما میں استعمال کی جاتی ہے ) میں چيزیں لکھی جائیں اور انہیں رومن رسم الخط میں چھاپا جائے ۔ یاد رہے کہ ہندی اور انگریزی کی طرف یہ توجہ اس لیے ضروری نہیں ہے کہ اس سے ہم غیر مسلموں تک دین پہنچا پائیں گے ، نہیں ، بلکہ یہ توجہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے ہم خود اپنے مسلمان بھائیوں تک اسلام پہنچا پائيں گے !!!

ليست هناك تعليقات: