الأحد، يناير 01، 2017

سبق
ساگر تیمی
وہی رات کے کوئی تین بج رہے ہوں گے ، عندلیب اپنے کمرے میں سو رہا تھا ، یوں بھی ہاسٹل میں رہنے والے لڑکے بارہ بجے کے بعد ہی سوتے تھے ، اسی لیے اگر کوئی صبح صبح یونیورسٹی پہنچ جاتا تو اسے لگتا کہ یہ مردوں کی آرامگاہ تو نہیں ہے ؟ عندلیب کو ابھی ابھی نیند آئی تھی ، وہ کوئی دوبجے سوپایا تھا ، اسے لگا کہ اس کے گیٹ پر دستک ہورہی ہے ، پہلے تو اس نے نظر انداز کیا کہ اس وقت کون دستک دے گا ، اس کا وہم ہوسکتا ہے لیکن پھر کھٹکھٹ کی آواز تیز ہونے لگی ، اس نے چادر سے اپنا چہرا باہر نکالا ، لائٹ آن کی اور دیکھا تو واقعۃ اسی کا دروازہ پیٹا جارہا تھا ۔
اوئے مولی صاحب ! یار ! کھولو نا دروازہ ! ابے سالے ! کیسی نیند میں سوتا ہے ! کسی کی جان جارہی ہے اور تو گھوڑی بیچ کرسویا ہوا ہے ! کھول نہ یار ! اوئے عندلیب !!
 عندلیب کو پہچانتے دیر نہ لگی کہ یہ تو اس کے کلاس میٹ مصطفی کی آواز ہے ، دروازہ کھولنے پر مصطفی سامنے تھا ، اس کی سانسیں تيز چل رہی تھیں اور ٹھنڈی کے اس موسم میں پسینہ آرہا تھا ۔ عندلیب نے اسے اپنی چادر میں ڈھانپا ۔۔
عندلیب : ابے یہ رات گئے اس وقت کیا ہوا تمہیں ؟ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا تم نے کیا ؟ لاحول پڑھ کر تھکتھکا کر سوجانا تھا ، میری بھی نیند خراب کردی ۔۔
مصطفی : نہیں یار! میں بہت پریشان ہوں ، یار مجھے نیند نہيں آتی ، جب سونے کی کوشش کرتا ہوں ایسا لگتا ہے وہ یہیں ہے میرے سامنے ! دیکھ اگر میں مرجاؤں تو میرے جنازے کی نماز تو پڑھانا !
عندلیب : سالے ! یہ تو کیا بول رہا ہے ، تو مرے گا کیوں الو کہیں کے ، اتنی ایموشنل باتیں کرکے جان لے گا کیا میری ؟ اور یہ کون سامنے آجاتا ہے تیرے ؟ سایہ ہے کوئی ، بھوت پریت ہے ؟ کیا ہے ؟
مصطفی : نہيں یار ! وہ اپنی کلاس میٹ شوبھا نہیں ہے ، یار مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے ، میں اس کے بغیر نہیں جی پاؤں گا ، یار مجھے سوتے جاگتے ہر جگہ وہی نظر آتی ہے ۔ پلیز تم کچھ کرو!
عندلیب : شوبھا !! اوراس کا ذہن تین چار سال پیچھے چلا گیا ۔ وہی برسات کا موسم تھا ، ملک کی ممتاز یونیورسٹی میں اس کا شمار ہوتا تھا ، اس ڈپارمنٹ میں کل پندرہ لڑکوں کا داخلہ ہوا تھا ، ان میں ایک وہ بھی تھا ، شکل و شباہت سے خوبصورت ، مناسب قدو قامت ، بہت ہوشیار نہیں لیکن نسبۃ بے خوف ضرور تھا ، عربی مدرسے سے فارغ ہوکر آیا تھا لیکن داڑھی بس نام کو تھی ، محنتی تھا لیکن جیسے شروع دن سے ہی اسے کسی لڑکی دوست کی تلاش تھی ۔ لڑکے لڑکی کے موضوع پر باتیں کرتے ہوئے اس کی ناآسودگی جھلک جاتی تھی ، شروعاتی چند مہینوں میں اس نے کئی لڑکیوں پر ڈور ڈالے تھے لیکن کہیں سے بھی اسے بہت اچھا ریسپانس نہیں ملا تھا ، جسے وہ اپنی کمزور انگريزی سے جوڑ کر دیکھتا تھا ۔ شوبھا خوب صورت تھی ، شوخ تھی اور ہوشیار بھی لیکن پڑھنے میں اس حساب سے کمزور تھی ، کئی لڑکے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا چکے تھے ، پوری کلاس میں پندرہ لڑکوں میں تین چار لڑکیاں ہی تھیں اور ان چار میں شوبھا نسبۃ زيادہ خوب صورت تھی ۔ دوستی کا ہاتھ بڑھانے والوں میں مصطفی قدرے مختلف تھا ، شوبھا نے ایک ایک کرکے سب کو کہیں نہ کہیں ریجیکٹ ہی کیا تھا البتہ وہ اس معاملے میں عقلمند واقع ہوئی تھی ، بہت سمجھدار ی الگ ہوجاتی تھی اور کسی کو پتہ بھی نہیں چل پاتا تھا ۔ مصطفی سے اس کی دوستی بڑھی تو اس کے لیے مصطفی سے جڑے رہنا گھاٹے کا سودا نہیں تھا ، اس کے اندر بلا کی وفاداری ، خدمت اور مدد کا جذبہ پایا جاتا تھا ، وہ اس کی ہر بات مانتا تھا ، ہر طرح کے معاملات میں اس کے لیے کھڑا رہتا تھا اور یوں دیکھتے دیکھتے سبھوں میں مصطفی ہی شوبھا کے ساتھ رہ گیا تھا ۔ کلاس میٹس میں ان دونوں کے بارے میں ایک پر ایک قصے گردش کرتے ، اپنے اپنے اندازے سے لوگ مزے لیتے ، مصطفی کو جیسے یہ سب سننے میں مزہ بہت آتا ، وہ زيادہ تر مسکراکر طرح دے دیتا یا پھر ایک دو بات ملا کر قصوں کی توثیق ہی کردیتا ۔ امتحانات کے مواقع سے دونوں زیادہ ساتھ نظر آتے ، مصطفی جی جان لگا کر شوبھا کی تیاری کراتا ، کہیں سے کوئی کمپنی کیمپس سیلیکشن کے لیے آتی تو دونوں امتحان میں ساتھ بیٹھتے اور خود سے زيادہ مصطفی شوبھا کے لیے کوشش کرتا ۔ یہ سب باتيں دوستوں میں مشہور تھیں ۔ احباب مزہ بھی لیتے لیکن وہ کبھی برا نہیں مانتا ۔ عندلیب سے کبھی کبھی بتاتا کہ یار یہ سب اسی لیے تو کررہا ہوں کہ آخر آنا تو میرے ہی گھر ہے ، اس لیے سمجھو کہ اس کے لیے نہیں خود اپنے لیے ہی محنت کررہا ہوں اور جب عندلیب اس سے پوچھتا کہ کیا اس نے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے یا شادی کرنے کا ارادہ جتایا ہے تو وہ مسکراتا اور کہتا : مولی صاحب ! فلسفے سے نکلو ، محبت میں اظہار معنی نہیں رکھتا ، سانسیں بولتی ہیں ، نگاہوں کو لب ہوتے ہیں ، حرکتیں بتاتی ہیں ، یہ محسوس کرنے کی ہوتی ہے بولنے کی نہیں ۔۔۔۔
  مصطفی نے عندلیب کا ہاتھ پکڑا اور جب کہا کہ یار میرا کچھ کرو ورنہ میں ہلاک ہو جاؤں گا تب جاکر عندلیب اپنے خیالوں سے باہر آیا اور اسے تسلیاں دینے لگا ۔
عندلیب : دیکھ ! اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، شوبھا یہیں ہے ، ایسا نہيں کہ وہ کہیں چلی گئی ہو ، تم اس سے جاکر صبح میں بات کرلینا ۔ یوں بھی تمہارے اس کے درمیان اچھی خاصی بے تکلفی ہے !
مصطفی : نہیں یار! میں کب سے کہنا چاہتا ہوں لیکن میں کہہ نہیں پاتا ۔ اس سے باتیں کرتے ہوئے میرے الفاظ دم توڑ دیتے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ قوت گویائی چھین لی گئی ہے ۔ نہيں ہوپاتا مجھ سے یار !
عندلیب : تم تو کہتے تھے کہ احساس ہی سب کچھ ہے ، نگاہ بولتی ہے تو کیا اب اس کی نگاہ نے بولنا بند کردیا ؟؟
مصطفی : یار ! نگاہ تو اب بھی بولتی ہے لیکن جب تک بات شروع نہيں ہوگی ، مرحلہ آگے بڑھے گا کیسے ؟ باتوں کے بغیر تو کچھ بھی ہونے سے رہا ۔ پلیز تم کچھ کرو! یار پلیز!
عندلیب : ایسا ہے بیٹے ! چل ابھی تو جاکر سوجا ، میں صبح میں کوئی سیٹنگ کرتا ہوں ، دیکھتا ہوں کیا ہوپا تا ہے ۔
  دوسرے دن پھر صبح سویرے مصطفی اپنی سوجی سوجی آنکھوں کے ساتھ عندلیب کے پاس آگیا ۔ اب کہ عندلیب کے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ کوئی حل نکالے ۔ اس نے دوسری کلاس میٹ لڑکی نہاریکا سے ساری باتیں بتائیں اور گزارش کی کہ وہ کسی طرح شوبھا سے بات کرکے مصطفی کی حالت سے اسے آگاہ کرے ۔ تیسرے دن نہاریکا نے عندلیب سے ڈھابے پر چائے پلانے کو کہا ۔ دونوں چائے پی رہے تھے اور نہاریکا بتارہی تھی ۔۔۔ عندلیب بھائی ! شوبھا تو میری بات سن کر ناراض ہی ہوگئی ، پہلے تو اس نے برا سا منہہ بنایا اور پھر بولی بھی تو یہ بولی : دیکھنا نہاریکا ! میرا ہسبینڈ  دیکھنے لائق ہوگا ۔ عورت اسے شریک سفر بناتی ہے جس کے پیھے وہ چل سکے اسے نہیں جو اس کے پیچھے چلتا ہو ۔ مصطفی اچھا لڑکا ہے ، سیدھا ہے ، دکھتا بھی ٹھیک ہی ہے ، پھر اس نے میری مدد بھی بہت کی ہے ، لیکن یار ! میں اسے ایک اچھے انسان اور دوست کے طور پر دیکھتی ہوں ، وہ کہیں سے بھی میرے آئیڈیل ہسبینڈ جیسا نہیں لگتا ۔ ایسے تم یہ باتیں کسی سے مت بتانا ، کل میں خود اس سے مل کر بات کرلوں گی ۔۔
عندلیب نے مصطفی سے صرف اتنا بتایا کہ کل شوبھا تم سے ملے گی اور دوسرے دن رات کے بارہ بجے جب مصطفی عندلیب کے کمرے میں آیا تو اس کا چہرا اترا ہوا تھا لیکن جنون یا دیوانگی کی کیفیت نہیں تھی ۔
عندلیب : ہاں ! بیٹے کیا ہوا ؟ ملی شوبھا ؟
مصطفی : ہاں یار ملی ، اس نے مجھے ریسٹورانٹ میں کھانے پر بلایا تھا ، کھانے کے بعد اس نے خود ہی اس موضوع کو چھیڑا ، اس نے آج کپڑے بھی بہت اچھے پہنے تھے ، بہت خوب صورت لگ رہی تھی ، مجھے لگا کہ وہ مجھے ہاں بولنے والی ہے لیکن اس نے اس سے زيادہ بڑی بات کی آج مجھ سے ۔ آج مجھے لگا کہ وہ تو مجھ سے کہيں زيادہ سمجھدار ، سنجیدہ اور عقلمند ہے ۔ عندلیب ! اس نے میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے اس کا ساتھ دیا ، اس کا اچھا دوست بن کر رہا ، اسے اس قابل سمجھا کہ اسے چاہ سکوں ، اس نے کئی بار مجھے تھینک یو کہا ۔ آج کھانے کے بل اس نے ہی ادا کیے لیکن پھر آج مجھے اس نے سمجھایا بھی ۔ اس نے کہا کہ میں اسے بہت اچھا لگتا ہوں ، ان فیکٹ وہ مجھ سے محبت بھی کرتی ہے ، میں ایک اسمارٹ اور قابل اعتماد مرد ہوں لیکن وہ ایسا اس لیے نہیں کرسکتی کہ ہم دونوں کی تہذیب الگ ہے ، دین الگ ہے ، رہنے سہنے کے ڈھنگ الگ ہیں ۔ اس نے بتایا کہ کتنے ارمانوں سے اس کے ماں باپ نے اسے پالا پوسا ہے ، اچھی تعلیم دلائی ہے ، یہاں تک بھیجا ہے ، انہیں کتنا فخر ہے اس پر ، اسی طرح اس نے مجھے احساس دلایا کہ میرے والدین نے بھی کتنی محبتوں سے مجھے پالا ہوگا ۔ یار! جب وہ یہ باتیں بتا رہی تھی تو مجھے اپنے والدین کی بہت یاد آرہی تھی ، میرے آنکھوں میں تو آنسو تھے ۔ اس نے مجھ سے کہا : مصطفی ! ہم کتنے برے ہوں گے اگر اپنی چھوٹی سی خواہش کے لیے اپنے ماں باپ اور خاندان کے سارے ارمانوں ، ان کے مان سمان اور عزت و آبرو کا خون کردیں ، تم ایک سمجھدار اور پڑھے لکھے آدمی ہو ، بتاؤ یہ بری بات ہوگی یا نہیں ، یہ مفاد پرستی ہوگی ، کمینگی ہوگی لیکن شرافت یا سلیقہ مندی تو نہیں ہوگی نا !
   عندلیب یار ! آج اس نے میری آنکھوں پر پڑی پٹی کھول دی ، مجھے سبق مل گیا اور عندلیب سوچ رہا تھا کہ جس سبق کے لیے اسے اتنے مرحلوں سے گزرنا پڑا وہ سبق کیا اس کے والدین نے اسے اپنے گھر میں نہیں پڑھایا ہوگا ، کیا اس کے اساتذہ نےاسے مدرسے میں نہيں بتایا ہوگا ، کیا کیا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ليست هناك تعليقات: