الأحد، مايو 07، 2017

احمد امین کی" حیاتی "
ثناءاللہ صادق تیمی
  جن دنوں جامعہ امام ابن تیمیہ میں اولی فضیلہ( ثانیہ کلیہ) کا طالب علم تھا ، جامعہ کی ماہانہ میگزین مجلہ طوبی کے سب ایڈیٹر کی حیثيت سے مولانا ابونصرندوی ( مکی صاحب ) جامعہ آئے تھے ۔ ان کی شادی ہماری بستی میں ہے ، گاؤں کے رشتے سے پھوپھا لگتے تھے ، ان کا اپائنٹمنٹ لیٹر میں ہی لے کر گيا تھا ، اس لیے جب وہ جامعہ آئے تو بڑی خوشی ہو ئی ، قربت بڑھی تو اور بھی مزہ آيا کہ پھوپھا تو بڑے باغ وبہار آدمی نکلے ۔ علم وادب کا بڑا ستھرا ذوق ، مست الست قسم کے آدمی ، سب سے کھل کر ملنا اور کسی سے کوئی بیر نہ رکھنا ، کتابوں کے شوقین ، اردو سے خصوصی دلچسپی ، ادبی تحریروں کے رسیا ، اقبال ، آزاد ، سید سلیمان ، شبلی ، مودودی اور وحیدالدین خان سب کے قدرداں ، شخصیات کے بیچ افکار کے اختلافات پر سیدھا اور واضح جواب خذ ما صفا و دع ما کدر ۔ ان سے قربت بڑھی اور انہوں نے پڑھنے لکھنے کا ذوق دیکھا تو ایک ایک کرکے سب کو پڑھنے کا مشورہ دیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی سال تھا جب مجھے درسیات سے دلچسپی کم رہی تھی ، اس سال ششماہی امتحان میں تیسری پوزیشن آئی تھی اور اس وقت سمجھ میں آيا تھا کہ فرسٹ آنے کے بعد تھرڈ آنا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے !!!
  عربی سے تھوڑی بہت دلچسپی خود سے پیدا ہوگئی تھی ، کامل کیلانی ، عبدالرحمن رافت پاشا اور ابوالحسن علی ندوی کو پڑھتا رہتا تھا لیکن اس جانب منظم رہنمائی بھی مولانا ابونصر ندوی نے ہی کی ، کچھ کچھ رہنمائی استاذ محترم مولانا فضل الرحمن ندوی حفظہ اللہ سے بھی ملی ، مکی پھوپھا نے ہی منفلوطی ، طہ حسین ، عقاد اور احمد امین کے نام لیے اور یوں شوق کی اس دنیا میں جس کی جو کتاب ہاتھ لگتی گئی دیکھتا گيا ۔ من بعید ، حدیث الاربعاء ، کتاب الاخلاق ، عبرات ، نظرات، عبقریات وغیرہ جہاں تہاں سے پڑھ ڈالے ۔ احمد امین کی حیاتی  لاکھ تلاش کرنے پر بھی نہ مل سکی اور یوں تشنگی رہ گئی ۔ جے این یو میں ہمارے کلاس فیلو جناب عمران احمد ندوی صاحب نے اپنا ایم فل حیاتی پر کیا تھا ، سو ان کے پاس رکھی کتاب جہاں تہاں سے دیکھنے کو مل جاتی تھی لیکن خود کے کام میں مصروفیت رہتی تھی سو نہ پڑھ سکا۔ البتہ ان کی فجر الاسلام ، ظہر الاسلام اور ضحی الاسلام میں فجر الاسلام پوری اور بقیہ حصے  جہاں تہاں سے جے این یو کے زمانے ہی میں پڑھا ۔
  احمد امین کی کتاب الاخلاق اس لیے کچھ پلے نہ پڑی کہ تب پلے پڑنے کی عمر ہی نہ تھی ، بس شوق تھا کہ جو کتاب مل جائے پڑھ ڈالو ، کتاب الاخلاق کا حوالہ دے کر کہ ہم نے اسے پڑھی ہے، بہت سی جگہوں پر علمی دھونس جمانے کا بھی موقع مل جاتا تھا ۔ ادھر پچھلے دنوں شمس کمال انجم صاحب کے " یومیات " نے پھر سے احمد امین کے حیاتی کی یاد دلادی ، انہوں نے حیاتی میں موجود ایک دلچسپ واقعے کو لکھا تھا ۔
    جریر بک اسٹور گیا تو نصف بہتر کا موبائل تو نہ لیا جاسکا کہ جو ان کو پسند تھا وہ تھا نہیں اور جو تھا انہیں پسند نہیں تھا ، موقع کا فائدہ اٹھا کر ہم نے کتابوں میں تھوڑا وقت صرف کرنا چاہا ، تراجم کےخانے میں حیاتی مل گئی اور جھٹ خرید لیا ۔ ویسے بھی سو ریال جو نکاح پڑھانے کے ملے تھے کہیں اور خرچ کرنا مناسب نہیں تھا !! دو تین انگریزی اور دو تین عربی کتابیں خرید لیں ۔ اس درمیان البتہ محترمہ کا ماتھا ٹھنکا رہا کہ اگر پانچ چھ کتابیں ہی خریدنی تھیں تو یہ دو گھنٹہ کتابوں کے بیچ ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟؟؟
   اس درمیان گھر کی شفٹنگ اور دوسری مصروفیتوں کے بیچ کتابیں کدھر رکھ دی گئیں ، پتہ ہی نہیں چلا لیکن پرسوں جب ہاتھ لگی تو رات دیر گئے تک ختم کرکے ہی دم لیا ۔
  احمد امین اپنے ششتہ اسلوب کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ، انہوں نے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ لوگ اس پس وپیش میں رہتے ہیں کہ انہیں عالم کہا جائے یا ادیب اور سچی بات یہ ہے کہ ان کی نثر میں وضاحت اور سادگی پائی جاتی ہے جو ادبیت سے زیادہ علمیت کے قریب ہے لیکن اس اسلوب کا کمال یہ ہے کہ اس میں کہیں بھی خشکی ، کھردراپن اور اکتاہٹ میں ڈالنے کی کیفیت نہیں پائی جاتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بولنے والی زبان لکھ دی ہے ۔ لگ بھگ یہی کیفیت ان کی فجر الاسلام ظہر الاسلام اور ضحی الاسلام میں بھی پائی جاتی ہے لیکن یہاں یہ رنگ اور چوکھا ہوگيا ہے ۔
 کتاب کا مطالعہ ہمیں جہاں احمد امین سے واقف کراتا ہے وہیں اس وقت کا مصر بھی نگاہوں میں پھر جاتا ہے ، مڈل کلاس لوگوں کی زندگی ، بچوں کی تربیت کا ڈراؤنا انداز، ازہر اور اس کی قدامت پسندی ، استعمار اور کے زہریلے سانپ ، نئی تعلیم اور پرانے علوم کی رسہ کشی ، غلامی اور جد وجہد آزادی کی کوششیں اور ان سب پر ایک انسان کی زندگی میں پیش آنے والے وہ واقعات جو ہمیں بہت کچھ سکھانے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ احمد امین نے شادی سے متعلق جو نقشہ کھینچا ہے ، احباب کی جو باتیں لکھی ہیں ، ہاں اور نا کے کشمکش کی جو تصویرکشی کی ہے اور پھر شادی کے تکمیل پانے سے لے کر شروعاتی ازدواجی زندگی کے جو کوائف بیان کیے ہیں وہ خاصے کی چیز ہے ،انگریزی سیکھنے کی للک ، اس کے اسباب اور پھر اس کا طریقئہ کار بہت دلچسپ ہے ۔ اسفار کی تفصیل بھی اچھی ہے لیکن خاص طور سے ترکی کا سفر مزیدار ہے کہ ابھی ابھی وہاں انقلاب آیا تھا ، اس سلسلے میں ان کی اپنے استاذ سے گفتگو بہت اہمیت رکھتی ہے اور آج کے ترکی کو سمجھنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے ۔ منصب پر ہونے اور نہ ہونے پر احباب اور لوگوں کے رویے کو احمد امین نے ایک خاص درد دے دیا ہے ۔ کتاب کی بہت سی خوبیوں میں ایک اہم خوبی یہ ہے کہ مصنف نے کھلے دل سے اپنے محسنین کا اعتراف کیا ہے اور اس میں کسی مشرق مغرب کی کوئی تفریق نہیں کی ہے ۔ اگر آپ اس کتاب کے مطالعے کا شوق رکھتے ہیں تو عراق کا سفر اور اس میں شیعہ مقرر کی تقریر والا حصہ ضرور پڑھیے گا، آپ کو مزہ بھی آئے گا اور ہنسی بھی چھوٹے گی ۔
   اردو میں بھی بہت سی خود نوشت لکھی گئی ہے ہمیں عبدالماجد دریابادی کی " آپ بیتی " بہت اچھی لگی تھی اور عربی میں حیاتی بھی پسند آئی ہے !!! ویسےالایام اور انا کے بعض حصوں کو چھوڑ دیجیے تو عربی میں پڑھا ہی کیا ہے !!!!




  

ليست هناك تعليقات: