الأحد، نوفمبر 20، 2016

درد کی سوداگری
ثناءاللہ صادق تیمی
ہمارے دوست بے نام خاں کو کئی چیزيں پریشان کرتی ہیں اور ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو چیزیں انہیں پریشان کرتی ہیں ، وہ بالواسطہ ہمیں بھی نہیں چھوڑتیں کہ بہر حال بے نام خاں ہم سے تبادلہ خیال کرتے ہی ہیں ۔ ان کے حساب سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا سیدھے طریقے سے نہیں چلتی ، کچھ نہ کچھ گڑبڑ کرتی ہی رہتی ہے ۔ سچ نہيں بولتی جھوٹ بولنے پر آمادہ رہتی ہے ، ایمانداری نہیں برتتی ، بے ایمانی سے کام لیتی رہتی ہے بلکہ المیہ تو یہ ہے کہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرتی ہے، روتی ہے تو اصلا ہنس رہی ہوتی ہے ، آنسو کے پیچھے مفاد کی دنیا آباد رہتی ہے ، چیخ کے پیچھے سودے رہتے ہیں ، ہنگامہ کے پیچھے سیاست رہتی ہے اور تو اور لوگوں کی موتوں پر بھی دنیا اس لیے روتی ہے کہ رونے سے فائدہ ہونے والا ہوتا ہے ۔
ہم نے کہا : خان صاحب ! کہیں آپ حد سے تو نہیں نکل رہے ، اس پر وہ ہنسے اور کہا کہ اے کاش ایسا ہی ہوتا ! لیکن کیا کہا جائے میرے سیدھے سادھے مولانا دوست ! دنیا ویسی ہے جیسی میں بتا رہا ہوں ۔ اب دیکھو ایران کہاں تو اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹانا چاہتا تھا اور کہاں سچائی یہ تھی کہ دونوں ملکوں کے آپسی گہرے رشتے ہیں ، یہودیوں کے بڑے بڑے مراکز ہیں ایران میں ، امریکہ بہادر دہشت گردی کو دنیا سے مٹانا چاہتاتھا ، دینا کو ڈیموکریسی سکھانا چاہ رہاتھا اور کہاں صورت حال یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ جیسا آدمی صدر منتخب کیا گیا جسے بولنے تک کی تمیز نہیں۔ زبان سے بدتمیزی اور بدتہذیبی دونوں نکلتی ہے اور نفرت تو خیر کہنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ ہمارے ملک کے وزیر اعظم کو بھی ملک کا بہت درد ہے ، وقت بے وقت روتے ہیں اور عام جنتا کو لائن میں ایسا کھڑا کرتے ہیں کہ بے چاروں کی موت بھی آجاتی ہے ، درد اتنا ہے کہ ان کے لفظ لفظ سے نکلتا ہے لیکن وہ سجتے دھجتے ہیں کہ لاکھوں کڑوڑوں روپیہ صرف اپنے لباس پر خرچ کردیتے ہیں ۔ ویسے انہیں لوگوں کا خیال بہت ہے تبھی تو لوگ انہیں چاہتے بھی بہت ہیں !!
مسلمانوں کے بہت سے قلمکار، شاعر اور لیڈر قومی زوال پر آنسو بہاتے رہتے ہیں ، ہم ان کے آنسو کے اتنے قدران تھے کہ اکثر ان کے ساتھ خود بھی رونے لگتے تھے بلکہ عام جنتا کی مانند ہم ان سے کہیں زیادہ روتے تھے اور دل ہی دل ان کی سلامتی کی دعا کرتے تھے اور ان کی بے باکی پر رشک بھی آتا تھا ۔ یہ تو بعد میں جاکر کھلا کہ یہ زیادہ تر رونے والے تو مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں ، رونے کا پیسہ لیتے ہیں ، آہیں بھرنے کی فیس مقرر ہے ، چیخنے کا سودا کیا ہوا ہے ، ایک شاعر صاحب کہ اسٹیج پر قوم کی محبت اور زبوں حالی پر وہ وہ آنسو بہا رہے ہیں کہ یا اللہ ! خود بھی بے حال ہیں اور سامعین کا بھی رو رو کر برا حال ہے اور عالم یہ ہے کہ انہیں اس رونے کے لیے اسی غریب اور بد حال قوم کی طرف سے ایک لاکھ روپے دیے گئے ہیں ۔ ایک صاحب قلم کار ہیں ، لکھتے کیا ہیں کلیجہ نکال کر رکھ دیتے ہیں، ایک ایک لفظ سے درد پھوٹتا ہے ، آنسو رواں ہوتے ہیں ، حرف حرف غم و اندوہ کا اشاریہ نہیں اعلانیہ ہے لیکن جب اندر جائیے تو معلوم ہو کہ صاحب کی ساری شہرت اسی جذباتیت ، برانگیختگی اور درد انگیزی پر ٹکی ہے اور قوم کے درد سے ماشاءاللہ گھر اچھا خاصا آباد ہوگیا ہے ۔ حضور والا ! ایک بڑے صحافی ہیں ، اردو میں اپنا رسالہ نکالتے ہیں ، خوب چھپتا اور بکتا ہے عالی جناب کا اخبار ، زرد صحافت کی اس سے عمدہ مثال شاید ڈھونڈنے سے نہ ملے ، وہی صاحب انگریزی میں بھی لکھتے ہیں اور جب انگریزی میں لکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کیا سنجیدہ آدمی ہیں ۔ اردو میں سنجیدگی سے لکھیں گے تو ملی درد کا اظہار کیسے ہوگا !!
لیڈران ہیں کہ ملت کی زبوں حالی پر ہی ان کی لیڈری قائم ہے ، اس لیے آنسو خوب بہاتے ہیں لیکن ملی کسی خدمت کے لیے کبھی کوشاں دکھائی نہیں دیتے ۔ یہ سوداگری کا وقت ہے ، کرایے پر عربوں کے یہاں رونے کے لیے لوگ بلائے جاتے تھے ، یہاں مختلف پیشہ کے لوگ ہیں لیکن اصلا ان کا پیشہ وہی ملی درد ہے ، اس درد میں اتنا خسارہ ضرور ہے کہ انجمن میں رونا پڑتا ہے لیکن فائدے اتنے ہیں کہ آنسو خود بخود جاری ہو جاتے ہیں ۔ ویسے صرف درد کی نہیں حوصلے کی بھی سوداگری ہوتی ہے ، ایک عالم باکمال جب بولتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہو جائے گا اور جب اسٹیج سے اترتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی ہیئت بدلتے ہیں کہ کہیں کوئی پہچان نہ لے ، قوم کو وہ حوصلہ دیتے ہیں کہ پورا پنڈال نعرہ تکبیر سے گونج جاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ابھی کفرستان میں اسلامستان کی فضا پیدا ہو جائے گی ۔

مولوی صاحب ! آپ گدھے ہیں ، آپ کو رونا آتا ہی نہیں ، جوش دلانا بھی نہیں جانتے ، دعویداری بھی نہیں آتی ، چیخنے چلانے کی پریکٹس کافی کمزور ہے اور پھر سوچتے ہیں کہ اس میدان میں کریئر بنے گا تو آپ کیا سچ مچ میں گدھے نہیں ہیں ؟ یہ قوم مسلمان ہے ، گوشت خور قوم ہے ، جذبات اس کے سرد نہیں ، بھڑکائیے اور اونچائی پر پہنچتے جائیے ۔ علم ، سنجیدگی ، حکمت ، شعور، اخلاص اور صفائی لے کر نکلیے گا بے موت مر جائیے گا ۔ 

ليست هناك تعليقات: