الخميس، نوفمبر 17، 2016

خانہ كعبہ پر حوثيوں كانا كام حملہ، منظر اورپس ومنظر


بسم الله الرحمن الرحيم
خانہ كعبہ پر حوثيوں كانا كام حملہ
 منظر اورپس ومنظر
ازقلم:       ڈاكٹر محمد يوسف حافظ ابوطلحہ                      

استاذ جامعہ محمديہ منصوره، ماليگاؤں

۲۶محرم الحرام ۱۴۳۸ھ  مطابق ۲۷  اكتوبر ۲۰۱۶ء بروز جمعرات  پورا عالم اسلام لرز اٹها ، جب يہ ہوش ربا، سنسنى خيز خبر پہنچى كہ رات نو بجے حوثى باغيوں نے يمن كے صعده نامى شہر سے خانہ كعبہ پر بيليسٹك ميزائيل سے حملہ كيا ہے۔ جسے الله رب العالمين كى توفيق سے سعودى انبازوں نے مكہ سے ۶۵ كلوميٹر كى دورى پر فضا ميں تباه كرديا ہے، اور الله كے فضل وكرم سے كوئى نقصان  نہيں ہوا۔ حادثہ ہوتے ہى "قومى كونسل برائے مزاحمت ايران" كے صدارتى  بيان ميں كہا گيا كہ يہ حملہ خامنئى كے حكم سے ايرانى فوجى ونگ "القدس " كى نگرانى ميں يمن كى سرزمين سے انجام پايا ہے۔
اس حملہ نے عالم اسلام كے سامنے حوثيوں اور ان كے ہمنواؤں كى بد نيتى كو آشكارا كرديا، خطرناك حوثى ايرانى سازشوں كى قلعى  كھول دى،   ان كے پر فريب نعروں كى حقيقت سے پرده   اٹهاديا،  اور بالكل صاف كهل كر  يہ سامنے آ گيا كہ مشرق وسطى ميں امن وامان كى بحالى اور رافضى امتداد كى روك تهام كيلئے "فيصلہ كن طوفان" كے سلسلے ميں شاه سلمان بن عبد العزيز –حفظہ الله-  كا فيصلہ غايت درجہ دور انديشى پرمبنى تها،  اور يہ ثابت  ہوگيا كہ حوثى باغى ہر طرح كے اخلاق واقدار سے عارى ہيں، جن كى نگاه ميں نہ اسلامى احكامات كى عظمت ہے،   نہ عالمى قوانين كا پاس ولحاظ ، اور نہ صلح كى راه ميں  كى جانے والى كوششوں كا اعتبار۔
يقينا يہ نہايت  گهٹيا درجے كاگهناؤنا جرم ہے جسے كوئى  عام عقل مند آدمى  بهى گوارا نہيں كر سكتا  چہ جائيكہ ايك مسلمان جس كے دل ميں رتى برابربهى ايمان ہے  اسے گوارا كر لے. يہ گهناؤنا حملہ ہر اس آدمى كے لئے كهلا چيلنج ہے جوخانہ كعبہ كا رخ كركے دن ورات نمازيں ادا كرتا ہے،  بلكہ پورى امت اسلاميہ سے اعلان جنگ كے مترادف ہے، يہى وجہ ہے كہ اس واقعے كے بعد پورے عالم اسلام ميں غم وغصہ كى لہر دوڑ گئى۔ اسلامى ممالك، تنظيميں، مراكز، علمائے امت، قائدين ملت بلكہ تمام مسلمانوں نے نہايت سختى كے ساتھ اس نا پاك حملے اور ناپاك ايرانى منصوبوں كى مذمت كى ،  كيونكہ مكہ مكرمہ الله كے نزديك سب سے بہترين اور محبوب ترين شہر ہے، اسى شہر كو سب سے پہلے اور سب سے عظيم مسجد كے ليے الله نے منتخب فرمايا  جو سارے مسلمانوں كا قبلہ ہے، جس ميں نماز پڑھنے كا ثواب عام مساجد (سوائے مسجد نبوى ) كے مقابلے ميں لاكھ گنا ہے۔ اس كا حج كرنا ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے،  اور حج كرنے والوں كے لئے مغفرت اور جنت كى بشارت ہے،  الله تعالى نے اس شہر كو ابتدائے آفرينش سے قيامت تك حرمت اور امن والا شہر قرار ديا ، جہاں نہ خون بہايا جائے،  نہ جانوروں كا شكار كيا جائے، بلكہ بِدكايا بهى نہ جائے، جہاں از خود اُگے پيڑ پودے بهى نہ كاٹے جائيں،  اور  نہ  اِذْخِر نامى گهاس كے علاوه كوئى گهاس اكهاڑى جائے،  اس عظيم شہر كو الله نے اپنے سب سے عظيم اور افضل نبى محمد رسول الله r كى ولادت، نشوونما اور بعثت كے لئے منتخب فرمايا ، يہ سارى تفصيلات  صحيح حديثوں ميں موجود ہيں.
ليكن سوال يہ ہے كہ حوثى باغيوں نے اس ناپاك حملے كى جرأت كيوں كر كى جس سے ديڑھ  ارب مسلمانوں كے جذبات بهڑك اٹهے؟؟   جواب واضح ہے كہ حوثى قائدين نے ايرانى خمينى انقلاب كے سايہ تلے ذہنى وفكرى تربيت پائى ہے  اور  فوجى ٹريننگ حاصل كى ہے،  اور ايران ہى  انهيں جنگى ساز وسامان مہيا كرتا ہے تا كہ يہ لوگ رافضى  خمينى منصوبوں كو ايران كے زير سرپرستى عملى جامہ پہنا سكيں،   اور ان  منصوبوں كى بنياد   رافضى عقيدے پر ہے.
رافضہ كا عقيده  يہ ہے كہ كربلاء كى سرزمين مكہ سے افضل ہے اور مكہ كى فضيلت كربلاء كے مقابلے ميں اتنى ہى ہے جتنا پانى  سمندر ميں سوئى  ڈبونے كے بعد سوئى سے لگا ره جائے،  بلكہ الله نے كعبہ كو حكم ديا كہ تم كربلاء كے
ذليل  دُمچهلے بن كر رہو، ورنہ تمهيں جہنم رسيد  كر  دونگا۔ الله تعالى نے مكہ كو حرم بنانے سے چوبيس ہزار سال پہلے سر زمين كربلاء  كو حرمت وعظمت اور تقدس وبركت والا شہر قرارديا.  اسى پر بس  نہيں بلكہ رافضہ كربلاء  ميں قبر حسين كى زيارت كو حج سے افضل مانتے ہيں،  ان كى كتابوں ميں ہے:  جو قبر حسين كى زيارت عام دنوں ميں كرے گا  الله تعالى اسے بيس مقبول حج اور بيس مقبول عمرے  كا ثواب دے گا،  اور جو عيد كے دن زيارت كرے گا الله اسے سو مقبول حج اور سو مقبول عمرے كا ثواب دے گا،  اور جو عرفہ كے دن زيارت كرے گا   تو الله اسے ايك ہزار مقبول حج ،  ايك ہزار عمرے اور ايك ہزار عزوات  ميں  شركت كا ثواب دے گا.  الله تعالى عرفہ ميں وقوف كرنے والے حجاج سے پہلے قبر حسين كى زيارت كرنے والوں پر نظر كرم فرماتا ہے،  جو قبر حسين كى زيارت كے ليے نكلتا ہے تو ہر قدم پر اسے ايك نيكى ملتى ہے، اور جب فارغ ہوتا ہے تو رب العالمين كا فرشتہ اسے سارے گناہوں كى مغفرت كى بشارت ديتا ہے۔  اسى پر  بس نہيں بلكہ  رافضہ كا عقيده ہے كہ ان كا  امام غائب جب ظاہر ہوگا تو كعبہ اور مسجدِ نبوى كو منہدم كرے گا،   اور خانہ كعبہ كے كليد بردار   بنى شيبہ كے ہاتھ  كاٹ كر كعبہ ميں لٹكا ئے گا،  اور ابو بكر وعمر y كو ان كى قبروں سے نكال كر نذرِ آتش كرے گا۔ يہ سارى خرافات ان كى كتابوں ميں بهرى پڑى ہيں جيسے كلينى كى "فروع الكافى"، طوسى كى " تہذيب الأحكام"، ابن بابويہ كى "من لا يحضره الفقيه" ،  ابن قولويہ كى "كامل الزيارات" ، مجلسى كى  "بحار الأنوار"،   اور حُر عاملى كى "وسائل الشيعة" وغيره وغيره.
اس طرح كے عقيدے كا بنيادى نتيجہ لوگوں كو خانۂكعبہ كے حج سے روكنا ہے۔ اور رافضہ  نے اپنے بعض ائمہ سے نقل بهى كيا ہے كہ اگر ميں قبر حسين كى زيارت كى فضيلت  بيان كردوں تو تم لوگ يقينى طور پر حج كرنا چهوڑدوگے.  اور ان خرافات كو نقل كرنے والے بعض راويوں نے يہتمنا بهى ظاہر كى ہے كاش ! ميں نے قبر حسين كى زيارت كى ہوتى،  اور حج نہ كيا ہوتا۔  يہى وجہ ہے كہ خمينى، خامنئى اور سيستانى نے كبهىحج وعمره  نہيں كيا۔
اسى عقيدے پر خمينى انقلاب قائم ہے،جسكى پورى كوشش ہے كہ ايران مذہبى اور سياسى حيثيت سے عالم اسلام كا مركز بن جائے، اور شيعى مقدس مقامات امت اسلاميہ كا قلبى مركز بن جائيں.
يہ تو اس واقعہ كا اعتقادى پہلو ہے۔ اور سياسى  پہلو يہ ہے كہ حوثى باغى عالمِاسلام كو يہ دكهانا چاہتے ہيں كہ سعودى عرب كے پاس  مقدس مقامات كى حفاظت اور امن وامان  بحال ركهنے كى صلاحيت نہيں ہے۔ لہذا  اسے ايسے ملك كو سونپ دينا چاہيے جو ان كى حفاظت كر سكتا ہو  اور امن  وامان بحال ركھ سكتا ہو. ليكن قابل مباركباد ہيں سعودى عرب كے جانباز جنہوں نے اللہ كى توفيق سے اس حملے كوناكام بنا ديا ،  اور يہ ثابت كرديا كہ سعودى عرب اس كى پورى صلاحيت ركهتا ہے۔ اور يہ سب كچھ الله كى توفيق اور اس كا فضل وكرم ہے۔
جب ان مجرموں نے ديكها كہ اپنے ناپاك مقصد ميں برى طرح نا كام ہوگئے اور پورا عالمِ اسلام سعودى عرب كے ساتھ متحد ہو كر كهڑا ہوچكا ہے،  اور اس گهناؤنے حملے كى مذمت كا جو سلسلہ شروع ہوا  وه تهمنے كا نام نہيں لے رہا ہے،تو ان حوثيوں نے  دعوى كيا كہ نشانہ مكہ نہيں بلكہ جده  كا انٹرنيشنل ايئرپورٹ تها جہاں سے جنگجو جہاز يمن روانہ كئے جاتے ہيں۔ ليكن ہر عقلمند انسان يہ سمجهتا ہے كہ يہ سياسى كهيل ہے، اگر نشانہ فوجى ايئر بيس كو بنانا تها تو يمن سے قريب سعودى سرحدوں پر فوجى  ايئر بيس موجود ہيں، ليكن ان كا مقصد مسلمانوں كے كعبہ وقبلہ كو نشانہ بنانا تها تاكہ عالم اسلام  كے سامنے يہ واضح ہوجائےكہ ايران كا جو دعوى ہے كہ سعودى عرب اسلامى مقدس مقامات كى حفاظت نہيں كرسكتا   وه بالكل درست ہے. مگر الله تعالى نے ان كے ناپاك ارادے كو ناكام بنا ديا.  اور اگر يہ مان بهى ليا جائے كہ نشانہ جده كا انٹرنيشنل ايئرپورٹ تها تو آخر كيوں؟ يہ تو كوئى فوجى ايئرپورٹ نہيں  بلكہ  يہاں كے اكثر مسافرين خانۂ كعبہ كے زائرين ہوتے ہيں، اور يہ سعودى عرب كا سب سے زياده ازدحام والا ايئرپورٹ ہے،  تو پهر  كونسى عقل ياكونسا دين اس بات كى اجازت ديتا ہے كہ اس شديد  ازدحام والى جگہ پر ميزائيل داغا جائے، جہاں بے گناه لوگوں كى جانيں ضائع ہوں،يہ تو نائن اليون كے حملے سے كسى طرح كم نہيں.
يہ حادثہ  اس بات كا  تقاضا كرتا ہے كہ اسلامى حكومتوں اور عام مسلمانوں ميں مكمل بيدارى  پيدا ہو،  اور وه صفوى مجوسى منصوبوں كى خطرناكيوں كو اچهى طرح سمجهيں  اور بالكل متحد ہوكر اس راه ميں پختہ منصوبہ بندى  اور ضرورى  تدابير كے ساتھ ان خطرات سے نمٹيں،  ورنہ حالات خراب سے خراب تر  ہوسكتے ہيں۔ الله ہم سب كا حامى وناصر ہو.
حوثى دہشت گردوں كا يہ حملہ شيعى تاريخ ميں كوئى نئى چيز نہيں، بلكہ تاريخ شاہد ہے كہ قرامطہ اور رافضہ اور ان كے اعوان وانصار نے مكہ مكرمہ كى حرمت اور قداست پامال كرنے ميں كوئى كسر نہيں چهوڑى ہے۔
۳۱۷ھ ميں شيعى قرامطہ نے يوم الترويہ (۸  ذى الحجہ) كو ايسى قتل وغارت گرى مچائى كہ كعبہ سے ليكر مكہ كى گليوں تك انسانى لاشوں كا انبار تها۔ طواف كرنے والے، خانہ كعبہ كا پرده پكڑنے والے سب تہ تيغ كر ديئے گئے۔ تيس ہزار سے زياده لوگ مارے گئے،  پهر انہيں مكہ كى مختلف جگہوں ميں اور مسجد حرام ميں دفن كرديا گيا،  بلكہ زمزم كا كنواں انسانى لاشوں سے پاٹ ديا گيا،  ان بد بختوں نے خانہ كعبہ كا دروازه اكهاڑ ديا،  اور حجر اسود اكهاڑ لے گئے جو ان كے پاس بائيس سال تك رہا،  مختلف تدبيروں كے بعد  ۳۳۹ھ ميں واپس كيا گيا،  إنا لله وإنا إليه راجعون۔
۱۹۷۹ء ميں ايران  كى زمين پر خمينى انقلاب آيا، جس كى اہم خارجہ پاليسيوں ميں سےيہ ہے كہ خمينى فكر كو پڑوسى ممالك اور پهر پورى دنيا ميں عام كيا جائے، اسى مقصد كى خاطر ايران نے خليجى ممالك ميں شيعى اقليتوں كو ورغلايا،  ايران اور ايران سے باہر دہشت گرد تنظيموں كى بنياد ڈالى جيسے القدس فورس، پاسداران انقلاب، حزب اللات وغيره۔ اور بہت سارے اقليتى گروہوں كى ذہنى اور عسكرى تربيت كى اور انہيں ہتهياروں سےمسلح كيا۔ جيسے يمن كے حوثى باغى وغيره،   تاكہ  حسب ضرورت انہيں  دعوتى، سياسى، اور جنگى سرگرميوں ميں استعمال كيا جاسكے. 
 ايران اور اس كى مسلح تنظيموں نے مكہ ميں بہت سارى مجرمانہ حركتيں كى ہيں، ان ميں سے چند سپرد  تحرير كى جاتى ہيں:·   
* ۱۴۰۶ھ مطابق ۱۹۸۶ء ميں حرمين شريفين ميں بارودى مواد   داخل كرنے كى نا كام كوشش  كا گهناؤنا منظر  سامنے آيا ، ۳/۱۲/۱۴۰۶ھ كو  جده انٹرنيشنل ايئرپورٹ پر ايرانى جہاز پہنچا،  عام سسٹم كے مطابق سامانوں كى تفتيش كى گئى، پچانوے ايسے سوٹ كيس پكڑے گئے، جن كے اندرونى طبق ميں بارود ركهے ہوئے تھے،  بارود  كا ٹوٹل وزن اكاون (51)  كيلوگرام تها،  اور  تحقيق كے دوران اس گروپ كےبڑے ذمہ دار نے اعتراف كيا كہ ہمارے مجموعے كو ايرانى قيادت نے حرمين شريفين اور مقدس مقامات پر بلاسٹ كرنے كے لئے مكلف كيا تها۔
*   ۵/۱۲/۱۴۰۷ھ مطابق  ۳۱/جولائى ۱۹۸۷ء  كو ايرانى حاجيوں نے مكہ ميں مسجد حرام سے قريب بہت بڑا ہنگامى جلوس نكالا،  انھوں نےاپنے كپڑوں كے اندر چاقو  اور خنجرچھپا ركها تها،    خمينى كى تصويريں اور مسجد اقصى كا مجسمہ اٹهائے ہوئے خمينى انقلاب كے نعرے لگا رہے تہے،  سارے راستوں اور گذر گاہوں كو بند كرديا تها جس كے نتيجے ميں ايسى زبردست بهگدڑ  مچى كہ چار سو دو (402)  لوگوں نے  اپنى جانيں گنواديں۔
*    ۶/ ذى الحجہ ۱۴۰۹ھ مطابق ۱۰/جولائى ۱۹۸۹ء كو  مكہ ميں دو بم  بلاسٹ ہوئے،  ايك مسجد حرام كے راستے ميں،  اور دوسرا مسجد سے قريب والے بريج  پر،  الله نے رحم وكرم كيا، صرف  ايك آدمى كى وفات  ہوئى ، اور۱۶  لوگ زخمى ہوئے، يہ دونوں بلاسٹ كويت ميں مقيم  بعض ايرانى سفارت كاروں كى منصوبہ بند سازش كے تحت كويت كے كئى رافضہ اور احساء كے ايك سعودى رافضى نے مل كر انجام ديا تها،  ۲۱/ ستمبر ۱۹۸۹ء  كو شاه فہد رحمة الله عليہ كے حكم سے ۱۶ مجرموں كو پهانسى دى گئى، جنہيں آج تك رافضہ شہدائے حرم مكى كے نام سے ياد كرتے ہيں۔
*    ۱۰/ ذى الحجہ ۱۴۱۰ھ مطابق ۲/جولائى ۱۹۹۰ء كو  مكہ كى معيصم سرنگ ميں بهگدڑ مچى جس ميں ہزاروں حاجيوں كى جانيں گئيں، اس كا  سبب وه  زہريلى گيس تهى جسے كويت كے حزب اللات كے ٹرينڈ نوجوانوں نے سرنگ ميں چهوڑا  تها۔
*    ۱۰/ذى الحجہ ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۴/ ستمبر ۲۰۱۵ء كو منىٰ ميں زبردست بهگدڑ مچى، جس ميں لگ بهگ ايك ہزار جانيں گئيں، اس حادثے كا سبب ايرانى  حاجيوں كى ايك بڑى جماعت تهى، بلكہ معروف ايرانى سياستداں فرزاد فرہنگيان نے انكشاف كيا تها كہ يہ حادثہ پاسداران انقلاب كے چھ كمانڈروں كے زير سرپرستى انجام پايا ہے۔
تعجب ہے ايران اور اس كے بازوؤں پر !  يہ سارے جرائم امن وحرمت والے  مقدس شہر ميں انجام دے رہے ہيں، اور نعره لگاتے ہيں:مرگ بر امريكہ، مرگ بر اسرائيل!  ان گهناؤنے جرائم كى  بهينٹ مسلمان چڑھ رہے ہيں يا امريكہ اور اسرائيل؟! ليكن رافضہ كے پاس ايك ظاہرى كامياب ہتهيار ہے، وه  ہے تقِيَّہ جس كا مطلب يہ ہے كہ انسان كے دل ميں كچھ اور ہو مگر  زبان سے كسى اور چيز كا اظہار كرے، يہ عقيده رافضى دين ميں نھايت اہميت كا حامل ہے، بلكہ رافضى دين  كے دس حصوںميں  صرف يہ عقيده نو حصہ ہے، اس لئے علماء كرام كہتے ہيں كہ رافضہ الله كى سب سے جهوٹى مخلوق ہے۔
بہرحال خانہ كعبہ كى عظمت وفضيلت پر جن كا دل حسد وبغض سے پاش پاش ہو رہا ہے  وه يہ جان ليں كہ الله تعالى اپنے گهر كى حفاظت كرنے والا ہے، جيساكہ ابرہہ كے حملوں سے اس كى حفاظت كى ہے،  اور جس كے دل ميں اس كےتئيں برا   اراده ہوگا الله تعالى اسے رسوا كرے گا، دنيا ميں بهى اور آخرت ميں بهى ۔ )ومن يرد فيه بإلحاد بظلم نذقه من عذاب أليم( (سوره حج: 25)
الله تعالى اسلام اور مسلمانوں كى عزت وعظمت كى حفاظت فرمائے. آمين



ليست هناك تعليقات: