السبت، ديسمبر 17، 2016

غزل
ساگر تیمی
کدھر گیا وہ ملاقات میں نہیں آیا
عجیب خواب تھا کہ رات میں نہیں آيا
مجھے وہ کب سے نئی زندگی کا کہتا تھا
ہوا نکاح  تو بارات میں نہيں آیا
اسے ایمان کی دولت ملی تھی کچھ اتنی  
ستا بہت مگر حالات میں نہیں آيا
یہ کیسی مار پڑی موسموں کی قسمت پر
کہ پانی پھر سے کیوں برسات میں نہیں آیا
"فقیر " کھا گیا کتنے غریب لوگوں کو
عذاب کیوں اسی کی گھات میں نہیں آیا
 زبان اس کی کہ قینچی سے تیز چلتی تھی
زہے نصیب کہ تو بات میں نہیں آیا
مجھے بھی عشق نے ساگر بہت بلایا مگر
میں بے وقوف  خیالات میں نہیں آيا


ليست هناك تعليقات: