السبت، يونيو 06، 2015

تنہائی ! تنہائی ! تنہائی !
ثناءاللہ صادق تیمی ، مکہ مکرمہ ، سعودی عرب
اردو کے سب سے بڑے شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب نے جانے کیا سوچ کر رکہا تھا ۔ مجھے تو لگتا ہے وہ بھی مجلسی آدمی تھے ۔ ٹھیک ہے ان کی زندگی میں مسائل بہت تھے اور انہوں نے لوگوں کو قریب سے دیکھا تھا اس لیے بنی نوع انسان کی بے وفائیوں اور جفاؤں سے تنگ آکر انہوں نے کہا ہوگا ۔ جناب اب چاہے انہوں نے جو سوچ کر بھی کہا ہو لیکن جو انہوں نے کہا وہ میرے لیے بڑا عجیب واقع ہوا ۔ ہوا یوں کہ ہم نے غالب کا شعر پڑھا ۔
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئي نہ ہو
ہم سخن کوئي نہ ہو اور ہم زباں کوئي نہ ہو
بے درودیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئي ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئي نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئي نہ ہو
سعودی عرب آئے تو ہم اکیلے تو تھے نہیں ، اس لیے غالب کے مشوروں پر عمل کرپانے سے معذور تھے ۔ ہم رحمان برادران (ڈاکٹر ظل الرحمان تیمی اور حفظ الرحمن تیمی ) کے ہمراہ تھے اور ٹھیک سے ایک ہفتے ہوئے نہ تھے کہ مولانا نور عالم سلفی بھی ہم سے آملے تھے اور یوں پوری انجمن سی سج گئی تھی ۔ اوپر سے جناب عاصم صاحب سلفی کی کٹیا جہاں محفلیں ہی محفلیں تھیں ۔  ہم 19 جنوری کو سعودی عرب پہنچے تھے ۔ تب سے ابھی سے چار دن پہلے تک ہم سب ساتھ تھے ۔ اس لیے غالب کا شعر یاد تو آتا تھا لیکن ہم جھٹک دیا کرتے تھے ۔ لیکن ہوا یوں کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی محترمہ کو بلانے کا پورا انتظام کیا اورادھر مولانا نورنے بھی ان کے نقش قدم کی پیروی کی ۔ (اس وقت پہلی مرتبہ ایسا لگا کہ اے کاش ! ہمارے پاس بھی کم از کم ایک عدد بیوی ہوتی ! ) ہم نے سوچا تھا کہ یہ بندھے ہوئے پرندے جائینگے لیکن ہم تو آزاد پنچھی ہیں اور اس     "  ہم "میں ہم نے مولانا حفظ الرحمن تیمی کو بھی شامل رکھا تھا لیکن جب ان دو بزرگوں کی دیکھا دیکھی مولانا حفظ الرحمن تیمی بھی نکل کھڑے ہوئے تو ہم نے من ہی من غالب کو یاد کیا کہ چلو اب وہ کیفیت آہی گئی ہے جب ان کے مشوروں کو عملی جامہ پہنایا جاسکے ۔
آپ سے کیا پردہ ہم ان کے جانے سے بہت خوش تھے ۔ یوں بھی ایک ساتھ رہنے میں اچھے اچھوں کے ساتھ گڑ بڑ ہونے کے اندیشے رہتے ہیں ۔ عام حالات میں رقابت نہیں ہوتی لیکن ایک ساتھ رہنے میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی غیر ضروری اہمیت اختیار کرجاتی ہیں اور بد مزگی پھیل جاتی ہے ۔ اللہ کا کرم رہا ایسا مرحلہ نہ کے برابر آیا اور ہم نے ایک ساتھ خوب گزارے ۔ " نہ کے برابر" کی ترکیب زیر غور رہے ! بعد میں الزام مت دیجیےگا کہ آپ نے تو سچ کہا ہی نہیں !!!
     خیر ان کے جانے کے بعد ہم نے خوب جھوم جھوم کر غالب کے مذکورہ اشعار پڑھے ۔ ہم خوب خوش تھے جناب کہ شاید پہلی مرتبہ غالب کے ان اشعار کو مکمل عملی پیکر نصیب ہوگا ۔ سب سے الگ ، غریب الدیار ، زبان کا مسئلہ اور وہ تمام کلپنائیں جو غالب کے ان اشعار میں ہیں ہمارے پاس موجود تھیں ، ہم نے اپنی قسمت پر ناز کیا اور غالب بے چارے پر ترس کھاتا رہا کہ بے چارے کو یہ عظیم فرصت مل ہی نہ پائی لیکن جناب عالی ! ہمیں کب خبرتھی کہ تنہائي کی یہ مٹھائی اتنی بھی میٹھی نہیں ہوتی ۔ یہ تو زہر کی گھونٹ ہے جو گلے سے اتارنی پڑتی ہے ۔ ہماری مجبوری یہ کہ ہم دو حیثیتیں رکھتے ہیں ایک شاعر اور ایک مولوی ہونے کی اور آپ مانیں یا نہ مانیں ان دونوں حیثییتوں کے لوگ مجلسی ہوتے ہیں ۔ باتوں کی کمائی کھاتے ہیں ۔ مولوی اگر وعظ نصیحت نہ کرے اور شاعر اگر اپنا دیوان کھول کر اپنی شاعری نہ سنائے تو دونوں بے چارے بے موت مر جائیں ۔ آپ سوچیے کہ اگر یہ دونوں کمی ایک ہی شخص میں جمع ہو جائے اور پھر اس پر تنہائی لاد دی جائے تو اس پر کیا بیتے گی ۔ دوچار دن کے اندر ہی کیفیت ایسی ہے کہ اگر غالب مل جائيں تو انہیں کو یاد رہے کہ کس سے ملاقات ہوئی تھی !!!
شروع شروع میں تو ہم خوب خوش تھے کہ اب کوئي پابندی نہیں ، جو جی میں آئے گا کرینگے ، جب طبیعت چاہے گی لائٹ آن کرینگے اور جب طبیعت چاہے آف کرینگے ۔ من کرے گا تو زور زور سے غزلیں گننگائینگے اور جی میں آئے گا تو دھیمے سروں میں گائینگے لیکن جناب جب پہلی غزل ہوئی ہے اور ادھر ادھر کوئی نظر نہيں آیا ہے تو اب آپ سے کیا بتاؤں کیا قیامت آئی ہے ۔ ایک وقت کو تو ایسا محسوس ہوا کہ درو دیوار ہاتھ جوڑے کھڑیں ہیں کہ اب بس بھی کریں ۔ ہمیں تو معاف کردیں !!!
مجلسی ہونے کا نقصان یہ ہے کہ آدمی خلوتی نہیں ہو پاتا اور جب خلوت آجاتی ہے جیسے ابھی ہمارے اوپر آئی ہوئی ہے تو بڑی اذیت ناک ہوتی ہے ۔ صورت حال ایسی ہوتی ہے کہ ذرا سا کہیں کچھ کھٹکا اور آدمی دروازہ کھولتا ہے کہ کوئی آیا ہوگا ۔ ہم کئی بار اسے تجربے سے گزر چکے ہیں ۔ کیف بھوپالی کے شعر کی گہرائی ان دنوں زیادہ ہی سمجھ میں آرہی ہے ۔
کون آئے گا یہاں کوئي نہ آیا ہوگا
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا
اور جناب ! فرصت اور تہنائی جب دونوں اکٹھے ہوجائیں تو اور بھی عذاب آتا ہے ۔ کاموں میں تو پتہ نہیں چلتا لیکن فرصت کے اوقات میں یہ آوارہ ذہن عجیب و غریب سیاحتیں کرتا رہتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرصت اور صحت کے بارے میں کہا ہے کہ ان کے اندر اکثر لوگ غفلت برتتے ہیں تو ایسے تھوڑے ہی کہا ہے ۔ یہ ایک سچ  ہے اور اتفاق سے ان دنوں جبکہ ہم یہ سطور قلمبند کررہے ہیں ، فرصت کے لمحات ہی سے گزر رہے ہیں ۔ کسی وقت کیف بھوپالی کا مذکورہ شعر دہراتے ہیں اور کسی وقت فیض کی عظیم نظم " تنہائی " کی مالا جپتے ہیں ۔
پھرکوئی آیا دل زار نہیں کو ئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانےلگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سوگئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندھلا دیے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھادو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہين آئے گا
ہمارے دوست بے نام خاں ہماری موجودہ صورت حال پر خوب خوش ہیں ۔ کہتے بیٹے ! تم اس لیے پریشان ہو کہ اللہ والے نہيں ہو ورنہ خلوت تو اللہ والوں کے لیے سکون کا ذریعہ ، دل کے آباد کرنے کا وسیلہ اور خود کو سمجھنے کا سب سے اہم مرحلہ بن کر آتی ہے ۔ تنہائی تو ان کے لیے رحمت ہی رحمت ہوتی ہے ۔ وہ ذکر و اذکار اور عبادت و ریاضت میں لگے رہتے ہیں اور اپنے درجات بڑھاتے رہتے ہیں اور تم کج فہم ہو ورنہ غالب بھی اپنے مذکورہ شعر میں اللہ والوں کی اسی صف میں شامل ہونے کی کلپنا کررہا ہے ۔ تمہيں یہ سنہری موقع ملاہوا ہے لیکن تم اس سے پریشان ہو۔ تم وہ پہلے بے وقوف آدمی ہو جو اس خلوت کو عذاب کے طور پر دیکھ رہا ہے ۔ تم شاید بھول رہے ہو ، معاف کرنا! تمہیں یاد کب رہتا ہے کہ تم بھولوگے ! ورنہ اسی خلوت نے مہاتما بدھ کو گیان دلایا ، غار حراء کی گوشہ نشینی ہی میں رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہم نے بیچ میں بے نام خاں کو روکتے ہوئے کہا لیکن خان صاحب ! اسی خلوت میں شیطانوں کا حملہ بھی خوب ہوتا ہے اور کیسے کیسے کشف و کرامات کے نمونے سامنے آتےہیں جو اول وہلہ ہی میں سمجھ میں آجاتے ہیں کہ شیطانی وساوس ہیں لیکن جنہيں دین و ایمان کی بلندی سمجھ کر اپنا لیا جاتا ہے !! بے نام خاں نے برا سا منہ بنایا اور بولے : تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم مثبت پہلوؤں کو دیکھنے کو تیار ہی نہیں ہو ۔ میں تو چلا ۔ اب تم اس تنہائی کو عذاب سمجھ کر جھیلو یا رحمت سمجھ کر خود احتسابی اور ذکروفکر کی دنیا بسالو یہ تمہارے ہاتھ میں ہے ۔ بے نام خاں ۔۔۔۔۔ بے نام خاں ۔۔۔۔۔ لیکن تب تک بے نام خاں جا چکے تھے ۔ نہ جانے کس گوشے سے رگھوپتی سہائے فراق کورکھپوری کا شعر زبان پر آگیا ۔
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
تو ایسے میں تیری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں









ليست هناك تعليقات: