الأربعاء، يونيو 10، 2015

چندہ : تصویر کا دوسرا رخ
ثناءاللہ صادق تیمی ،  مکہ مکرمہ ، سعودی عرب
 ایک ایسا لفظ جس کے بولتے ہی انسان ایک دوسرے ہی احساس کے تلے دب جاتا ہے ۔ مدارس کے وہ طلبہ جو فراغت کے کنارے کھڑے ہوتے ہیں انہیں سب سے زيادہ کوئي لفظ گھبراہٹ میں ڈالتا ہے تو وہ یہی لفظ ہے ۔ ایسے کمال یہ بھی ہے کہ بالعموم اس سے زیادہ گھبرانے والے طلبہ ہی بعد کے زمانے میں اس کی زد میں آتےہیں یا یوں کہیے کہ چندے کی یہ دیوی ان پر ہی زیادہ مہربان ہوتی ہے ۔ مدارس و جامعات کے اندربالعموم اساتذہ چندہ کے دوران کے وہ دلسوز اور پریشان کن تجربات طلبہ سے شيئر کرتے ہیں کہ تھوڑی بہت غیرت رکھنے والا طالب علم بھی رات دن یہ دعا نہیں کرتا بھی تو سوچتا ضرور ہے کہ وہ اس صورت حال کی زد میں نہ آئے ۔ لفظ چندہ در اصل نئے فارغین مدارس کے لیے بڑے باپ کی ایک ایسی بد صورت دوشیزہ ہوتی ہے جس سے وہ کسی صورت میں شادی نہیں کرنا چاہتا لیکن اسے اپنی سماجی صورت حال کی وجہ سے ماں باپ کے آگے ہتھیار ڈال دینا پڑتا ہے ۔
     لیکن تھوڑا ٹھہر کر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا چندہ کو لے کر اپنایا گیا یہ رویہ بجا ہے ؟ کیا چندہ واقعۃ ایک نامعقول اور غیر شریفانہ عمل ہے ؟ کیا چندہ سے منسلک ہماری کوئي تاریخ رہی ہے ؟ یہ ایک سماجی تفاعل ہے یا بنی نوع انسان کی باضابطہ ضرورت ؟
         زیادہ دور نہ جاکر اگر رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کر لیاجائے تو پتہ چلے کہ رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چندہ کیا ۔ غزوہ تبوک کے موقع سے عام منادی اور تمام لوگوں سے چندے کی درخواست کا ہمیں علم ہے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بعض دوسرے مواقع سے بھی سماجی ضرورتوں کے تحت عہد نبوی میں چندہ کیا گیا ۔ زکوۃ کو چھوڑ دیجیے ۔ صدقے پر اسلام میں باضابطہ ابھارا گیا اور بہت سے مسلمان اپنی اس صفت کی وجہ سے مشہور بھی ہوئے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بطور مثال دیکھا جاسکتا ہے ۔     
          سچی بات یہی ہے کہ مشترک خیر پر مشتمل سماجی کاموں کے لیے چندہ کرنا ہی پڑتا ہے ۔ زيادہ بڑا کام ہمیشہ چندے سے ہی ہوتا آیا ہے ۔ حکومت اگر بہت مضبوط ہو تو اور بات ہے ورنہ چندہ کے بغیر کام چلتا کب ہے ۔ آج کی جمہوری دنیا میں بھی چندے کا کاروبار بہت زوروں پر ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اب نام تھوڑے خوب صورت گڑھ لیے گئے ہيں ۔ این جی اوز کیا کرتے ہیں ؟ مختلف ادارے جو فلاحی کاموں کے لیے بنائے گئے ہيں وہ مختلف طریقوں سے چندے وصول کرتےہیں اور پھر مستحقین تک پہنچانے کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ بڑی بڑی جمہوریتوں میں چندے بہت معنی رکھتے ہیں ۔ امریکہ کی ہر بڑی سیاسی پارٹی الیکشن لڑنے کے لیے چندہ کرتی ہے ۔ ہندوستان میں سیاسی پارٹیاں یہی کرتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک میں چندے دھونسیا کربھی لیے جاتےہیں اور آہ و زاری کرکے بھی اور یہ منحصر ہوتا اس بات پر ہے کہ دینے والے کی حیثیت کیا ہے ۔ شریفوں والی ڈھب ہے کیا غنڈوں والا طرز۔ خیر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چندہ سے کہیں چھٹکارا نہیں ہے ۔
سر سید احمد خان نے جب علی گڑھ کالج بنانے کا پروگرام بنایا تو چندہ کے لیے نکلے ۔ بیان کیاجاتا ہے کہ ایک سیٹھ نے یہ کہہ کر ان کے منہ پر تھوک دیا کہ اکثر مولوی ملا ٹائپ کے لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور اپنا پیٹ پالتے ہیں اور سرسید نے اپنی دستی سے تھوک صاف کرکے کہا کہ سیٹھ جی میں ایک اچھے کام میں آپ کا تعاون مانگ رہا تھا ۔ آگے آپ کی مرضی اور پھر سیٹھ جی نے معافی مانگی اور خطیر رقم سے نوازا ۔
         ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے سقوط کے بعد جب دینی اداروں کا جال بچھایا گیا تو ان کے چلانے کا ذریعہ یہی عوامی چندے بنے ۔ اصحاب خیر اور صاحبان دولت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بڑے بڑے تعلیمی اور تصنیفی اور دوسرے رفاہی ادارے قائم ہوئے اور ان سے مسلم سوسائٹی کا فائدہ ہوا ۔ تقسیم ہند وپاک کے بعد ہندوستانی مدارس کے پاس سوائے عوامی چندہ کے اور کوئی ذریعہ نہ بچا اور وہ بھی ایسی صورت حال میں جب قوم تباہی و بربادی کے نہ جانے کیسے کیسے سیاہ دن دیکھ رہی تھی لیکن اللہ کے نیک بندوں کی کوشش اور اہل خیر کی سخاوت سے یہ کام ہوتا رہا ۔
 یہاں غور کرنےوالی بات یہ بھی ہے کہ مدارس کے وہ اساتذہ یا منسوبین جو چندہ کرنے کے لیے نکلتے تھے ان کے لیے سفیر کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا ۔ اور ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ سفیر کسی بھی ملک میں اپنے ملک کا نمائندہ ہوتا ہے ۔ مدارس کے یہ سفیر اپنی عملی زندگی میں دعوت و تبلیغ اور حق و صداقت کے سفیر ہوا کرتے تھے ۔ ہمارا ماضی بتلاتا ہے کہ یہ سفراء دین و دعوت کا کاز سنبھالتے تھے ۔ یہ لوگوں کے بیچ وقت لگاتے تھے ۔ مدرسے کا چندہ بھی ہو جاتا تھا اور ان لوگوں کی دین سے جڑی اصلاح اور تزکیہ بھی ۔ کچھ بڑے مدارس کے ذمہ داران اسی لیے نکلتے تھے کہ دعوت کا کام ہو سکے گا ۔ اس سے رابطہ گہرا رہتا تھا ۔ اپنائیت اور محبت کے گلاب کھلے رہتے ہيں ۔ عوام علماء کی خدمت کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے تھے ۔
       لیکن جب حالات نے ایک اور موڑ لیا ۔ اللہ نے خلیجی ممالک کو تیل کی دولت سے مالا مال کیا اور ان ملکوں نے غریب مسلمانوں کا خیال کرنا شروع کیا ۔ اپنی دولت کے خزانے رفاہ عام کے لیے کھول دیے تو ان کا اچھا خاصا حصہ مدارس اسلامیہ ہندیہ کے ذمہ داران کو بھی ہاتھ لگا ۔ پھر ہوا یوں کہ رفتہ رفتہ پورا اعتماد باہری ڈالروں پر ہوگیا اور ملکی پیمانے پر عوامی چندے کی رفتار دھیمی ہوتے ہوتے نہ کے برابر ہوگئی ۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بالعموم چھوٹے مدارس کے اساتذہ جاتے ہیں یا پھر وہ حضرات جاتے ہیں جنہیں ان کی اپنی ضرورت کھینچ لے جاتی ہے ۔ اللہ کے ان بندوں کی بات نہیں کررہا جنہوں نے بھیک مانگنے کا یہ ایک خوبصورت رستہ چن لیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسے " قلندران باصفا " کی تعداد دن بدن بڑھتی ہی جاتی ہے ۔
بڑے ادارے اور ان کے ذمہ داران کو اب عوام کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ اور مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کا ذہن اس طرح بنا دیا جاتا ہے جیسے چندہ کرنا کوئی نہایت گرا ہوا کام ہو۔ اپنی طالب علمی کے زمانے میں اپنے ایک استاذ سے جو شاعر بھی تھے اور جنہوں نے ہمیں کچھ دن انگلش بھی پڑھایا تھا اور جن کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ چندہ کرنے کے گڑ سے واقف ہیں ، ہم نے ایسے مزاحیہ اندازمیں جس کے اندر ایک قسم کا طنزبھی پوشیدہ تھا، پوچھا تو سر! خوب چندہ کیا آپ نے ؟ انہوں نے ہمارا منشا بھانپ لیا اور کہا : جی جناب ! ہم نے خوب کیا ۔ ایسے آپ کے رئيس الجامعۃ بھی سعودی عرب میں چندہ کرتے ہیں تبھی آپ کا ادارہ چل رہا ہے !!! اور ہم بالکل چپ ہوگئے تھے ۔
       سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہندوستانی جامعات کے ذمہ داران ہندوستان کے باہر چندہ کرسکتے ہیں تو عوامی رابطہ بحال رکھنے کے لیے اور دعوتی نقطہ نظر سے ہندوستان کے اندر یہ کام کیوں نہیں کیا جا سکتا ۔
           چندہ صرف اقتصادی پہلو نہيں رکھتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس اعتبار سے بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہے ۔ جس ملک میں مسلمانوں کا اپنا نظام نہیں ہو ، جہاں بیت المال طرح کی کوئي صورت نہ بن پارہی ہو اور جہاں زیادہ تر لوگ مادیت میں ڈوبے ہوئے ہوں وہاں اگر چندہ کرنے کے لیے نہ نکلا جائے تو صدقہ اور خیرات تو چھوڑ دیجیے لوگ زکوۃ تک نہیں نکالینگے ۔ اور ایسا ہو رہا ہے جب قوم کی بڑی تعداد اپنے مال میں واجب زکوۃ نہيں نکالتی ۔ مجھے نہیں معلوم لیکن کیا اس پوری صورت حال پر طبقہ علماء کو سوچنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اب صاحبان مال و منال کو مدارس کے ذمہ داران سے یہ شکایت ہے کہ وہ مدارس کی چہار دیواری سے نہیں نکلتے ۔ کیفیت ایسی ہے کہ پہلے لوگ چندہ کرنے والے علماء سے پریشان تھے اور اب اچھے علماء کے چندہ نہ کرنے سے پریشان ہیں ۔
ایسے اس پورے معاملے میں لفظ کے اندر آئی تبدیلی سے بھی سبق سیکھا جا سکتا ہے ۔ پہلے سفیر پھر محصل اور اب تو دھڑلے سے مچند بولاجاتا ہے ۔ ایسے ہماری رائے میں اپنے لوگوں اور اپنی مٹی سے ٹوٹتا ہوا یہ منظر نامہ اہل مدارس کبیرہ کے دانشمندانہ رویے کے زمرے میں نہیں آتا !!!





ليست هناك تعليقات: