الجمعة، يونيو 12، 2015

دہشت گرد
ساگر تیمی
گھوپ اندھیرا تھا ۔ تنگی ہی تنگی تھی ۔ جیل کی اس کوٹھری میں حیات کے لیے نہیں موت کے لیے ہی جگہ ہو سکتی تھی ۔ جلال الدین کو اندر زنجیروں میں مقید گھسیٹ کر لایا گیا ۔ چہرے پر بھر کلا داڑھی ، آنکھوں میں چمک اور پیشانی پر سجدے کا نشان جس سے اس کے چہرے کی دمک اور بھی بڑھتی جارہی تھی ۔
جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے کوٹھری کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا : اب سمجھ میں آئے گا کمینے کہ دیش کو بگاڑنے کی کوشش کرنے والوں کے ساتھ ہم کیا برتاؤ کرتے ہیں ۔ جلال الدین کے ہونٹوں پہ پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی جو بہت جلد معدوم بھی ہوگئی ۔ سپرنٹنڈنٹ کے جانے کے بعد جلال الدین نے اپنےنزدیک کانسٹبل سے ایک لوٹے پانی کی درخواست کی ۔ کانسٹبل نے بادل نخواستہ حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہوئے جلال الدین کو پانی کا لوٹا لاکر دیا ۔ جلال الدین نے وضوبنا کر نماز ادا کی اور اپنی جگہ بیٹھ کر قرآن حکیم کی تلاوت میں مصروف ہوگیا ۔ آہستہ آہستہ اس نے لوگوں سے اپنے مراسم بنانے شروع کیے ۔ کانسٹبل جو اس کی دیکھ ریکھ پر مامور تھا ، نسبۃ بڑی عمر کا آدمی تھا ۔ جلال الدین نے اس سے کہہ دیا کہ اسے اس کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ وہ اپنے کام خود کرسکتا ہے بلکہ اس نے اس کی ضرورتوں کا خیال رکھنا شروع کردیا ۔ اس کوٹھری کے اندر موجود دوسرے قیدیوں کی بھی جلال الدین نے خدمت کرنی شروع کردی ۔ بالعموم وہ دو کام کرتا ۔ یا تو رب کی عبادت کرتا یا لوگوں کی خدمت ۔ جیل کے سارے قیدی رفتہ رفتہ اس کے گرویدہ ہوگئے ۔
   چنو کانسٹبل یہ تو دیکھ رہا تھا کہ جلال الدین رب کا گن گاتا ہے اور رب کے بندوں کی سیوا کرتا ہے ۔ لیکن اسے ایسا لگتا تھا کہ یہ آدمی ہے تو بہت خطرنا ک ۔ یہ تو دیش دروہی ہے ۔ معصوم لوگوں کی جان لیتا ہے ۔ ایسا یہ اس لیے کررہا ہے کہ ہمیں اپنے بس میں کرکے جیل سے بھاگ سکے ۔ در اصل یہ اس کی سازش ہے ۔ لیکن اسے ایک بات کھائے جارہی تھی کہ آخر جلال الدین شرماجی کی اتنی خدمت کیوں کررہا ہے ۔ کیا اسے یہ بات نہیں معلوم ہے کہ اسی شرما نے اسے جیل کی اس کال کوٹھری میں بھجوایا ہے اور نہ جانے کیوں خود اسے بھی اسی جیل میں آنا پڑ گیا ہے ۔
جلال الدین کے لیے وہ دن سخت ہوتا جب اعلا افسران کی پوری ٹیم آکر اس سے پوچھ تاچھ کرتی اور مختلف قسم کی گالیوں سے اسے نوازا جاتا۔ وہ سب کی سنتا اور بس اتنا کہتا کہ جن گناہوں کی بات آپ کرتے ہیں وہ نہ اخلاقی اعتبار سے اور نہ ہی دینی اعتبار سے جائز ہیں ۔ میں ایسا نہیں کرسکتا اور نہ میں نے ایسا کیا ہے ۔ اعلا افسران کہتے کہ  پھر جو مسلمان تمہاری طرح داڑھی والے یہ سب کرتے ہیں ان کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ جلال الدین کا ایک ہی جواب ہوتا : غلط کرنے والا چاہے جس نام کا ہو ، غلط غلط ہی ہوتا ہے ، وہ صحیح نہیں ہو سکتا ۔ معصوموں کی جان لینا حیوانیت ہے ، انسانیت نہیں ۔ اسلام تو اعلا انسانیت کا درس دیتا ہے ۔
چنو کانسٹبل یہ باتیں سنتا اور پھر اس کے دل میں طرح طرح کے خیالات گردش کرنے لگتے ۔ وہ سوچتا کہ یہ آدمی اتنے دن سے ہے ، دہشت گرد ہے تو پھر یہ اتنا اچھا کیوں ہے ؟ افسروں کے پاس بھی یہ کوئي غلط بات نہیں بولتا ۔ آج تک اس نے مجھ سے کچھ بھی غلط نہیں کہا ، الٹے میری خدمت کیا کرتا ہے ۔ اس کے ذہن میں ایک بات آئی کہ کیوں نہ شرما کے بارے میں اسے بتایا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ وہ نندو کے ساتھ کس قسم کا رویہ اپناتا ہے ؟ اس نے ایک دن جب کہ وہ اس کی خبر خیریت اور اس کے بچوں کی تعلیم وغیرہ سے متعلق دریافت کررہا تھا ۔ چنو نے بات کاٹ کر بتلایا کہ آپ کو مولانا صاحب! شرماجی ہی کی وجہ سے یہاں آنا پڑا ہے ۔ اسی نے آپ کے بارے میں باضابطہ گواہی دے کر آپ کو پھنسایا ہے ۔ جلال الدین نے خاموشی کے ساتھ اس کی بات سنی اور کہا کہ مجھے تو یہ بات نہیں معلوم تھی اور اگر ایسا تھا بھی تو آپ نے بتاکر اچھا نہیں کیا ۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اب شرما جی کے بارے میں میرا اخلاقی رویہ خراب نہ ہو جائے ۔ انہوں نے ضرور غلط فہمی میں ایسا کیا ہوگا ۔ میری ان کی تو پہلے کی ملاقات بھی نہیں ہے ۔ خیرچلیے کوئي بات نہیں ۔
چنو نے نوٹ کیا کہ اس اطلاع کے باوجود جلال الدین کا رویہ شرما کے بارے میں بدلا نہیں ہے ۔ وہ پہلے ہی کی طرح بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ شرما کا خیال رکھ رہا ہے ۔ اب چنو کے دل کی دنیا بدلنے لگی ۔ اسے لگنے لگا کہ اس آدمی کو ضرور پھنسایا گیا ہوگا ورنہ اتنا اچھا آدمی معصوم لوگوں کی جان کیسے لے سکتا ہے ؟
     اس نے شرما جی  سے ایک روز پوچھ دیا کہ آپ نے جس دہشت گرد کے خلاف گواہی دی تھی وہ کیسا آدمی تھا ؟ وہ بہت خطرناک ، دیش دروہی اور معصوموں کی جانیں لینے والا آدمی تھا ، خونخوار اور نہایت گھٹیا ۔ چنو نے پھر سوال کیا تو کیا آپ نے اس کو دیکھا تھا ؟ تم اس قسم کے سوالات کیوں کررہے ہو ؟ یہ نہ تو تمہاری ذمہ داری ہے اور نہ تمہارا منصب ۔ تم اپنے کام سے کام رکھو ۔ چنو نے ہاں میں سر ہلایا اور کہا وہ تو آپ صحیح کہہ رہے ہیں ۔ ویسے اس آدمی جلال الدین نے میرے ناک میں دم کر رکھا ہے ۔ انتہائی درجے میں خراب آدمی ہے ۔ بے ہودہ اور درندہ قسم کا ہے ۔ میں ۔۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چپ رہو ، وہ تو کتنا شریف ، سشیل ، نیک ، خدمت گزار اور اخلاق مند آدمی ہے ۔ سب کی خدمت کرتا ہے اور بقیہ وقت میں پوجا پاٹ میں لگا رہتا ہے ۔ تم کانسٹبل لوگ کسی اچھے انسان کی اچھائی قبول نہیں کرسکتے ۔ بولتے بولتے شرماجی کی آواز میں جوش کی کارفرمائی بڑھتی چلی گئی ۔ چنو نے کہا یہی تو مسئلہ ہے شرما جی کہ یہ وہی آدمی ہے جس کے خلاف گواہی دے کر آپ نے اسے دہشت گردی کے جرم میں پھنسوایا ہے ۔
شرما : کیا ؟ ایسا نہیں ہو سکتا ۔
چنو : ایسا ہی ہے !
شرما : کیا اسے معلوم ہے کہ میں نے اس کے ساتھ ایسا کیا ہے ؟
چنو : اسے تو میں نے ہی بتایا تھا آپ کے بارے میں ۔
شرما: کب ؟
چنو : کئی دن ہوگئے ۔
شرما : لیکن وہ تو میری خدمت پہلے سے بھی کہيں زيادہ کررہا ہے ۔
چنو : اسی لیے تو میری بھی سمجھ میں نہیں آرہا ۔ آپ نے ضرور کوئی بھول کی ہوگی ۔
شرما : اس کا مطلب ہے ان لوگوں نے مجھے بے وقوف بناکر ایک شریف آدمی کو پھنسا دیا ۔ مجھے تو بتایا گیا تھا کہ وہ معصوموں کی جانیں لیتا ہے ، بم پھوڑتا ہے اور جہاں کہیں مسجد کے علاوہ کوئي دوسری عبادت گاہ دیکھتا ہے اس کا خون کھول جاتا ہے ۔ وہ دیش میں کسی غیر مسلم  کو جینے نہیں دینا چاہتا ۔ مجھ سے تو گھور پاپ ہوگیا ۔
چنو : یعنی آپ نے خود آنکھوں سے اسے جرم کرتے نہیں دیکھا تھا ؟
شرما : اب تم زيادہ تفصیل میں مت جاؤ ۔ میں بھگوان سے صرف یہ پرارتھنا کرتا ہوں کہ اب کی بار مجھے سب کچھ سچ سچ بولنے کی شکتی پردان کردے ۔ میں اس بھلے منش کو اس طرح پھنساکر چین کی زندگی نہیں جی پاؤنگا ۔
دوسرے دن اخبارات کی سرخی تھی کہ جلال الدین کے بارے میں نندو کا سنسنی خیز بیان ۔ نندو نے بتایا کہ جلال الدین نردوش ہے اور مجھے غلط طریقے سے استعمال کیا گیا تھا۔ جیل میں بہت قریب سے اس آدمی کو دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ تو آدمی نہيں فرشتہ ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔  












ليست هناك تعليقات: