الخميس، مايو 28، 2015

مسکراتا چہرا
ساگر تیمی
افسر : ہاں تو تم یہ بتاؤکہ دہشت گردوں کے کس کس گروہ سے تمہارا تعلق ہے ؟
ملزم : سر ! کسی سے نہیں ۔  
افسر: جھوٹ مت بولو ۔ اب تم ہمارے چنگل میں ہو تمہیں تو سچ بولنا ہی پڑے گا ۔
ملزم : سر ! جھوٹ بولنا ایسے بھی ہمارے دین میں حرام اور بڑا گناہ ہے ۔
افسر: کیا مطلب ؟
ملزم : سر! اگر ہم جھوٹ بولینگے تو ہمیں اللہ کے یہاں سزا ملے گی جو یہاں کی سزا سے زيادہ بڑی اور خطرناک ہوگی ۔
افسر : اچھا ! تم نے ہمیں بے وقوف سمجھ رکھا ہے ۔ پھر تمہارے لوگ اتنا جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟ لوگوں کی جانیں کیوں لیتے ہیں ؟
ملزم :  سر! اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کو صحیح دین کا پتہ نہیں ہے یا پھر وہ اپنے مفاد کے لیے دین کا غلط استعمال کررہے ہیں ۔
افسر : تو تمہارا دین کیا کہتا ہے ؟
ملزم : سر ! ہمارا دین تو ایک اللہ کی عبادت کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور سارے انسانوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کو کہتا ہے اور ساتھ ہی یہ حکم دیتا ہے اللہ کی جو سچائی ہمارے پاس ہے وہ ہم تمام انسانوں تک پیار ، محبت اور حکمت سے پہنچائیں ،
افسر : پھرتم لوگ جہاد کس لیے کرتے ہو ؟ تم جہاد کو مانتے ہو کہ نہیں ؟
ملزم : سر ! جو جہاد کو نہ مانے وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ۔ ظلم کے خلاف لڑنا ، مظلوم کی مدد کرنا اور ظالم کے خلاف مورچہ سنبھالنے کو کون غلط کہہ سکتا ہے ۔ کیا آپ غلط کہتے ہیں ؟
افسر : اگرایسا ہے تو تم لوگ بم پھوڑ کر معصوموں کی جانیں کیوں لیتے ہو؟
ملزم : سر ! اسلام میں جہاد کا مطلب یہ ہےکہ ہم اپنے دین کی دعوت محبت سے آپ کو دیں ۔ آپ قبول کریں یا نہ کریں یہ آپ کی مرضی لیکن اگر کوي تیسرا فرد بیچ میں آکر یہ کہے کہ ہم تمہیں دین کی دعوت نہیں دینے دینگے ،وہ راستہ روکے تو ایسی صورت میں اگر طاقت ہوگی تو ہم اس سے لڑینگے اور اس رکاوٹ کو دور کرینگے اور طاقت نہيں ہوگی تو صبر کرینگے اور دعا کرینگے اور یہی جہاد ہے ۔ اور ہاں سر یہ فیصلہ عام آدمی نہيں کرے گا بلکہ اگر مسلم حکومت ہوگی تو وہ کرے گی ۔
افسر : اوراگر عام مسلمان جان لینے پر اتارو ہو جائے تو ؟
ملزم : سر! اسے اسلامی اعتبار سے غلط سمجھا جائے گا ، یہ فساد ہے  اور آپ چاہیں تو اسے دہشت گردی بھی کہہ سکتے ہیں ۔
افسر : اچھا ! تو آپ کے حساب سے ہندوستان میں جہاد ہے کہ نہيں ؟
ملزم : سر! یہاں تو ہمیں عبادت اور دعوت دونوں کی آزادی حاصل ہے ۔ ہماری جانیں محفوظ ، مال محفوظ اور ہم محفوظ ہیں بھلا یہاں جہاد کیسے صحیح ہو سکتا ہے ۔ یہاں تو رکاوٹ ہے ہی نہیں !
افسر : یعنی اگر روکاٹ ہوگی تو آپ جہاد کرینگے ؟
ملزم : سر ! ہمارے یہاں طاقت نہ ہونے کی صورت میں صبر ہے فساد نہیں اور اگر طاقت ہو تو جنگ ہے دہشت گردانہ کاروائیاں نہیں ۔
افسر : کمال ہے ۔ تم تو بالکل انوکھی تشریح کررہے ہو ۔ تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو ؟
ملزم : سر! میں اسلام کا عالم ہوں ۔ میں نے قرآن و حدیث پڑھا ہے اور ہم تمام مسلمانوں کو مدرسوں میں یہی پڑھایا جاتا ہے ۔
افسر : اچھا تو یہ بتلاؤ کہ ہم نے جب سے تمہیں پکڑا ہے ۔ تم لگاتار مسکرائے جارہے ہو ۔ ہمارے یہاں تو اچھے اچھوں کی حالت خراب ہو جاتی ہے ۔
ملزم : سر ! میں غلط نہیں ہوں ۔ اس کے باوجود مجھ پر زیادتی ہوگی تو میں صبر کرونگا اور مجھے پتہ ہے کہ اس پر صبر کرنے کی وجہ سے مجھے اللہ کے یہاں اجر ملے گا ۔ میں غلط ہوتا تو پریشان ہوتا ۔
افسر : اور تم جہاد اس لیے کروگے کہ جنت میں تمہیں حور ملے ؟
ملزم : سر! حور کے حصول کے لیے جہاد ضروری نہیں ہے جو کوئی مسلمان جنت میں جائےگا اسے حور ملے گی ۔
افسر : لیکن تم اب بھی کیوں مسکرارہے ہو ؟
ملزم : سر ! مسکرانا میرے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی اچھا ہے ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا بھی ہے کہ جب کسی سے ملو تو مسکراکر ملو ۔
افسر : یار ایسا ہے کہ تم یہاں سے جاؤ ۔ میں سمجھ نہیں پارہا کہ تمہارے ساتھ کیا کروں ؟ تم پہلے آدمی ہوجو ہماری کسٹڈی میں ہمیں ہی سوچنے پر مجبور کررہے ہو ۔ اگر تمہارا دین ایسا ہی ہے تو پھر یہ سب کیوں ہورہا ہے ؟ دیکھو۔ ابھی تم جاؤ ۔ جب ضرورت پڑےگی ہم تم سے بات کرینگے اور ہاں اسی طرح مسکراتے رہنا ۔ مسکراتے ہوئے تم بہت اچھے لگتے ہو ۔
    انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور میں اپنے ڈیرے پر آگیا ۔ عبدل اپنی پوری داستان سنارہاتھا اور میں اخبار کے سب سے پہلے صفحے پہ چھپی اس کی تصویر نہارے جارہا تھا ۔ وہی تصویر جس کے نیچے " دہشت گردانہ کاروائیوں کا ملزم " لکھا ہوا تھا ۔ سچ مچ عبدل تصویر میں بھی مسکرارہا تھا اور اس مسکراہٹ میں بلا کی معصومیت اور کشش تھی ۔





ليست هناك تعليقات: