السبت، أغسطس 29، 2015

اردو کا اسلامی لٹریچر : جائزے کی ضرورت ہے !

ثناءاللہ صادق تیمی ، مکہ مکرمہ ،  سعودی عرب

 اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری اکثریت تقلیدی ذہنیت رکھتی ہے ۔ یہاں تقلیدی ذہنیت سے مراد ائمہ اربعہ کی فقہی تقلید نہیں ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ملی سطح پر اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جس طرف ایک چل پڑا سب چل پڑے ۔ ہم نئی راہ نکالنے کا کم ہی سوچتے ہيں ۔ اسی لیے بہت کم ایسا دیکھنے کو ملتا ہے جب کوئی ایسی چیز سامنے آتی ہو جسے دیکھ کر آپ مارے خوشی کے بالکل اچھل پڑیں اور ساتھ ہی آپ کو حیرت و استعجاب بھی ہو ۔ وجہ ظاہر ہے کہ ہم کرتے تو ہیں باتیں آزادی ، اجتہاد اور بلندی افکار کی لیکن چلتے ہیں ہمیشہ اسی راہ پر جس پر سب چلتے ہیں ۔ ہمارے یہاں ایک عجیب و غریب رویہ یہ پنپ چکا ہے کہ اگر کبھی کسی بڑے انسان سے کسی رائے میں اختلاف کیجیے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ اس بڑے انسان کی بے عزتی ہوگئی ، حالانکہ اختلاف رائے کا بے عزتی سے کوئی تعلق نہیں ۔ بدتمیزی اور اختلاف رائے میں آسمان زمین کا فرق ہے ۔ اور یاد رہے کہ جب تک ہماری نسل سچ کہنے اور سچائی کی راہ میں بزرگوں سے اختلاف کرنے کا حوصلہ پیدا نہیں کرے گی وہ ترقی کی طرف اپنا قدم نہیں بڑھا پائے گی ۔ ہمیں یہ بات ذہن نشیں کرنی ہوگی کہ خطرہ مول لیے بغیر بڑی بلندیاں مشکل سے ہی ہاتھ آتی ہیں ۔
     اب ذرا اردو کے اسلامی رسالوں اور اردو اسلامی لٹریچر پر ہی ایک نظر ڈال لیجیے ۔ جس مکتب فکر کے رسالے آپ ہاتھ میں اٹھالیں سب کا طرزو انداز یکساں نظر آئے گا ۔ مثال کے طور پر ایک اہل حدیث ادارے سے نکلنے والے کسی ایک ماہنامے کو سامنے رکھیے اور پھر دوسرے کسی اہل حدیث ادارے سے نکلنے والے رسالے کو سامنے رکھیے آپ کو کوئی بہت بڑا فرق نظر نہیں آئے گا ۔ اسی طرح کسی دیوبندی مکتب فکر یا بریلوی مکتب فکر کے رسالے کو اٹھالیجیے آپ کو صورت حال ایسی ہی نظر آئے گی ۔ یہ سب در اصل تقلیدی ذہنیت کی اپج ہے ۔ ایک رسالہ مقبول ہوا سب نے اسی رسالے کی نقالی کرنی شروع کردی ۔ بالکل ایسے ہی جیسے پانچ سال سات پہلے ایم بی اے کرنے والوں کی کھپت زیادہ تھی ، اب جسے دیکھو ایم بی اے کررہا ہے ۔ پتہ چلا کہ اب ایم بی اے ہی ایم بی اے ہے ۔ نہیں ہے تو جاب نہیں ہے ۔
  مجھے یہ بات کم ہی سمجھ میں آتی ہے کہ جب ایک طرح کا رسالہ نکل ہی رہا ہے تو پھر اسی طرح کا ایک دوسرا رسالہ کیا ضروری ہے ۔ ٹھیک ہے کہ ہر ایک کا اپنا دائرہ ہوتا ہے اور ایک سطح پر اس کی افادیت سے انکار بھی نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم تھوڑا الگ نہیں سوچ سکتے ؟ کیا ذرا نیا راستہ نہیں اپنا سکتے ؟ کیا کوئی نیا تجربہ نہیں کرسکتے ؟ کیا نئے تجربوں کی ضرورت نہیں ہے ؟ کیا اور ایسے گوشے نہیں ہیں جن پر توجہ صرف کی جاسکتی ہو ؟ روایتی اور تقلیدی دائرے سے نکل کر ان دائروں تک نہیں پہنچا جا سکتا جہاں ضرورت بھی شدید ہے اور جہاں کچھ پایا بھی نہیں جاتا ؟
         عام طور سے مدارس سے تعلیم مکمل کیے بنا نکل جانے والے لوگ جو ابتدائیہ ، متوسطہ یا زیادہ سے زيادہ ثانویہ تک کی تعلیم حاصل کرپاتے ہیں اور جنہیں اردو پڑھنے آتی ہے ۔ اسی طرح وہ لوگ جو گورنمنٹ اسکولوں میں میٹرک وغیرہ کرکے تعلیم چھوڑ دیتے ہيں اور جنہیں اردو پڑھنے آتی ہے یا پھر وہ خواتین جن کی گھریلو تعلیم ہوتی ہے ۔ جنہیں قرآن کریم اور اردو پڑھنا آتا ہے ۔ کیا ہمارے پاس ان کے لیے کوئی لٹریچر ہے ؟  جب مذکورہ لوگوں کے بارے میں بات ہورہی ہے تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان کی استعداد اتنی زيادہ بھی نہیں ہوتی کہ وہ ان رسالوں سے استفادہ کرسکیں جو ہمارے دینی اداروں سے نکلتے ہیں ۔ ان کی استعداد یہ ہوتی ہے کہ وہ پیام تعلیم ، امنگ اور خاتون مشرق قسم کے رسالوں سے استفادہ کرسکیں ۔ اسی لیے ایسے لوگوں کے یہاں زيادہ تر خاتون مشرق ، پاکیزہ آنچل اور ہما وغیرہ کا ہی رواج دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ہمارے دینی حلقوں کی کمی یہ ہے کہ وہ مذکورہ طبقے کی تربیت کے بارے میں سوچتے ہی نہیں ۔
    شمالی بہار کے اہل حدیث گھرانوں میں پہلے سواء الطریق کا چلن تھا ۔ ارباب حل وعقد کی دانشمندی دیکھیے کہ اب اس کتاب کا تذکرہ ہوتا ہے، کتاب کی صورت دیکھنے کو نہيں ملتی ۔ دیوبندی مکتب فکر کے لوگ اپنی بچیوں کو شادی کے موقع سے بہشتی زیور دیا کرتے تھے لیکن یہ سچ ہے کہ انہوں نے بھی اس کی تہذیب کی طرف دھیان نہیں دیا اور اس طرز پر ذرا بہتر اور جاذب اسلوب میں اس طرح کی کوئی اور چیز تیار کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ بریلوی حضرات کے یہاں اس طرف آکر دینی رسالوں کے نکالنے کا رجحان بڑھا ہے لیکن ان کا رویہ بھی اس معاملے میں یکساں ہے ایسے شاید انہیں اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ خاتون مشرق اور پاکیزہ آنچل وغیرہ کے توسط سے جو دین مسلم گھروں میں داخل ہوررہا ہے وہ وہی دین ہے جن کے یہ ماننے والے ہیں ۔ جماعت اسلامی کا رویہ اچھا رہا ہے انہوں نے حجاب اسلامی ، بتول ، حسنات اور ذکری  جیسے رسالوں سے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی رسائی محدود ہے ۔ ان کا اثر محدود ہے ۔ اگر ایسی کوششیں دوسری جماعتیں اپنی سطح سے بھی کریں توایک اچھی شروعات ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح ہمارے یہاں بچوں کا کوئی دینی رسالہ نہیں پایاجاتا ۔ یہ بوجھ بھی جماعت اسلامی والے ڈھوتے رہے ہیں ۔ حکومتی اداروں سے بعض بچوں کے رسالے نکلتے ہیں جیسے امنگ اور بچوں کی دنیا لیکن ان کا مقصد دینی تربیت نہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح ہمارے دینی اداروں سے ایسے رسالے نہ کے برابر نکلتے ہیں جنہيں خالص علمی اور تحقیقی رسالوں کا نام دیا جاسکے ۔ دوسرے ملکوں کے لوگ جب کبھی یہ پوچھتے ہيں کہ آپ کے یہاں سے کوئی قابل ذکر علمی تحقیقی دینی رسالہ نکلتا ہو تو بتائیے تو ہمیں بغلیں جھانکی پڑتی ہے ۔  سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس جانب توجہ دینے کو تیار ہیں ؟ یا پھر ہمیں لگتا ہی نہیں کہ اس کی ضرورت بھی ہے ؟ کیا خاتون مشرق ، پاکيزہ آنچل اور امنگ کے اسلوب میں صحیح خالص دین کو پیش کرنے کی کوشش نہیں کی جاسکتی ؟ کیا قرآنی قصے خوبصورت اردو میں نہیں ڈھالے جاسکتے ؟ کیا صحابہ کرام کی زندگیوں سے لوگوں کو نہيں جوڑا جاسکتا ؟ کیا اسلامی عقائد کی آسان اور سہل تشریح و تعبیر نہیں کی جاسکتی ؟ کیا اسلامی تاریخ کے روشن واقعات دلچسپ پیرایے میں نہیں پیش کیے جاسکتے ؟
ثناخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں ؟
    پچھلے دنوں مدینہ منورہ کے سفر کی سعادت حاصل ہوئی ۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں فاضل طلبہ سے گفتکو کے درمیان میں نے جب یہ بات رکھی تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا ۔ ہم نے ان سے گزارش کی کہ وہ اپنے دوستوں سے اس موضوع پر گفتگو کریں ، اس کے امکانات پر غور کریں اور پھر ان شاءاللہ اس طرف عملی اقدام کے بارے میں سوچیں ۔ میرا ذاتی طور پر یہ تاثر بہت گہرا رہا ہے کہ اگر اس جانب قدم بڑھایا جائے اور تھوڑی ایماندارانہ کوشش کی جائے تو بڑے حوصلہ افزا نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ۔ اپنی نسل کی تربیت ہماری ذمہ داری ہے ۔ یاد رہے کہ اگر شروع سے ان کے اندر اسلام کو بٹھادیا گیا تو پھر کوئی آندھی انہیں ہلا نہیں پائے گی ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں سسٹم آپ کے پاس نہ ہو اور جہاں قدم قدم پر غیر اسلامی افکار و خیالات اور مظاہر کی دنیا آباد ہو وہاں اس قسم کی کوششیں بہت ضروری ہوتی ہیں ۔ اللہ ہمیں نیک توفیق دے ۔

ليست هناك تعليقات: