غزل
ساگر تیمی
دعا کرو تو دواؤں میں ہو اثر پیدا
خدا جو چاہےغذاؤں میں ہو اثر پیدا
جناب شیخ ! یہی سنت الہی ہے
عمل کرو تو صداؤں میں ہو اثر پیدا
عصا پڑا تو کئی راستہ بنا دریا
کلیمی ہو تو خلاؤں میں ہو اثر پیدا
غریب آج بھی محتاج آب ودانہ ہے
الہی ! اب تو ہواؤں میں ہو اثر پیدا
سنا تھا ان کی جفا ہی نشان الفت ہے
تمنا ہے کہ جفاؤں میں ہو اثرپیدا
کئی فقیر نے دی تھی دعا مسرت کی
دعا یہ ہے کہ گداؤں میں ہو اثر پیدا
کسی کی یاد میں رونے سے آنکھ ساگر جی
دعا کرے گی بلاؤں میں ہو اثر پیدا
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق