الاثنين، أكتوبر 20، 2014

غزل


ساگر تیمی
بجھی ہوئي ہے تو کتنی اداس لگتی ہے
مری گڑیا کسی وحشی کے پاس لگتی ہے
 یہ زندگی کہ جسے میں حیات کہتا ہوں
یہ نک چڑھی مجھے جھگڑالو ساس لگتی ہے
کسی نے کیا دیا باتیں! دعا کے لہجے میں
تمام عمر ہی نذر سپاس لگتی ہے
بہت ہی دور ہے نزدیک جاکے دیکھو تو
وہی وفا جو یہيں آس پاس لگتی ہے
اسی کو کہتے ہیں شاید وفا کی مضبوطی
وہ ڈانٹتی ہے مگر بے ہراس لگتی ہے
نقاب اچھا ہے فتنوں کو روکتا ہے مگر
حیا نہ ہو تو نظر بے لباس لگتی ہے
مزہ تو ویسے بہت ہے کلاس لینے میں 
مزہ بھی آئے جب اپنی کلاس لگتی ہے
یہی ہے زندگی ساگر مرے تجربے میں
حسین ہے مگر اکثر اداس لگتی ہے


ليست هناك تعليقات: