الخميس، يناير 23، 2014

تقدیر پر ایمان : معنی ، مفہوم اور تقاضے

ثناءاللہ صادق تیمی
ایمان کا چھٹا رکن تقدیر پر ایمان لانا ہے ۔ بالعموم ہم تقدیر کے بارے میں گفتگو کرنا نہیں چاہتے ۔ بہت زیادہ قیل قال کرنا یا بال کی کھال نکالنا تو بلاشبہ غلط ہے اور اس سے نقصان ہی ہوتا ہے لیکن سرے سے اسے چھوڑ بھی دینا غلط ہے ۔ اگر تقدیر کو جانا نہ جائے تو پھر اس پر ایمان کیسے لایا جائے گا ۔
        بہت سے لوگوں کو تقدیر کے سلسلے میں پریشانیاں ہوتی ہیں اور وہ کافی کنفیوژن کے شکار رہتے ہیں ۔ ان کو لگتا ہے کہ جب سب کچھ اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے تو پھر انسان تو مجبور محض ہے ۔ وہ چاہے کچھ بھی کرلے ہوگا تو وہی جو لکھا ہوا ہے ۔ وہیں کچھ لوگ اس کے بالکل بر خلاف یہ سوچتے ہیں کہ یہ تقدیر کوئی چیز نہيں ہے بلکہ انسان مختار اور آزاد ہے جو چاہے گا وہی ہوگا ۔ اصطلاح میں ایک زمانے میں پہلے کو جبریہ اور دوسرے کو قدریہ کہا گیا ۔ لیکن یہ جبریے اور قدریے آج بھی موجود ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ حق ان دونوں کے بیچ ہے ۔
       تقدیر کا مطلب ہے اس بات پر ایمان لانا کہ اللہ تعالی کے علم ازلی کے مطابق یہ کائنات چل رہی ہے ۔ جو کچھ ہونے والا ہے اسے اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے اور جو فیصلے اس نے کردیے ہیں اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔ ساری کائنات اس کی مخلوق ہے اور سب کچھ اس کی مشیئت کے مطابق ہی چل رہا ہے ۔
     لیکن تقدیر پر ایمان لانے سے پہلے چند بنیادی باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے ۔
1۔ اللہ تعالی اس کائنات کا خالق و مالک ہے ۔ اللہ خالق کل شیء
2۔ کائنات کا سارا کاروبار اسی کی مشیئت کے مطابق چلتا ہے ۔
3۔ اس کا علم کائنات کے ذرے ذرے کو محیط ہے ۔ احاط بکل شیء علما
4۔ وہ عادل ہے اور ظلم کو اس نے اپنے اوپر حرام کرلیا ہے ۔ یا عبادی انی حرمت الظلم علی نفسی فلا تظالموا علی انفسکم ۔
5۔ اسی نے انسان کے اعمال کو بھی پیدا کیا ۔ خلقکم و ما تعملون
6۔ وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے ۔ اسے یہ پسند نہیں کہ بندے نافرمان ہوجائیں ۔ لایرضی من عبادہ الکفر
7۔ اللہ اپنے بندوں سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے اس سے بھی زیادہ جتنی ایک ماں اپنے بچے سے کرسکتی ہے ۔
8۔ اللہ رحیم ہے اور اس کی صفت رحمت اس کی صفت غضب پر حاوی ہے ۔ ان رحمتی وسعت غضبی ۔
       ان تمام امور پر اگر غور کیا جائے اور ایمان لایا جائے تو پھر انسان کو تقدیر کے بارے میں وہ کنفیوژن نہیں ہوگا جس میں بالعموم پڑ کر وہ پریشان ہوتا ہے اور بسا اوقات اپنا ایمان ہی ضائع کرلیتا ہے ۔  اور ان تمام امور کو ماننا اس لیے ضروری ہے کہ ان کا تعلق اللہ پر ایمان لانے سے ہے ۔ اب اگر اللہ پر ایمان ہی مکمل اور صحیح نہ ہو تو بھلا تقدیر پر ایمان کیسے صحیح ہو سکتا ہے ۔
   مختلف صحیح احادیث کے اندر اس بات کی وضاحت آئی ہے کہ ایک انسان نیکی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کےدرمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس پر اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ گناہ کے کاموں میں لگ جاتا ہے اور وہ جہنمیوں میں سے ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح ایک بندہ گنا ہ کا کام کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس پر تقدیر غالب آجاتی ہے اور وہ نیک کام کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ جنتیوں میں سے ہو جاتا ہے ۔ اس قسم کی احادیث سے بالعموم لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ تب عمل کا کیا فائدہ ہے ؟  بالکل یہی سوال صحابہ کرام نے رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اور آپ نے کہا تھا کہ عمل کرتے رہو اس لیے کہ جو جس کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے وہ کام اس کے لیے آسان کردیا جاتا ہے ۔
          تقدیر کے سلسلے میں لوگ بات کرتے ہوئے بالعموم اس بات کو فراموش کردیتے ہیں کہ تقدیر اللہ کے محیط علم کا حصہ ہے اور ہمیں اس کی کوئی خبر نہيں ۔ دنیا کے کسی بھی میدان سے متعلق اگر آپ ایسی چیز کے بارے میں بولیں جسے آپ نہيں جانتے تو لوگ آپ کو بیوقوف ہی کہینگے ۔ پھر بھلا کس قدر تعجب کی بات ہے کہ لوگ تقدیر میں کیا ہے اس کو نہيں جانتے اور بے مطلب اٹکل پچو مارتے رہتے ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ انسان جان بھی نہیں سکتا تبھی تو اس کی ذمہ داری کرتے رہنے کی ہے ۔ اللہ فرماتا ہے۔ سیقول الذین اشرکوا لوشاءاللہ ما اشرکنا ولا آباؤنا ولا حرمنا من شیء کذلک کذب الذین من قبلھم حتی ذاقوا باسنا قل ھل عندکم من علم فتخرجوہ لنا ان تتبعون الا الظن و ان انتم الا تخرصون، سورۃ الانعام    
دیکھیں یہاں بھی کافروں اور مشرکوں کا استدلال یہی ہے کہ اگر اللہ نے چاہا ہوتا تو ہم ایسا بالکل بھی نہیں کرتے ۔ اللہ نے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس ایسا کوئي علم ہے تو بولو ۔ سچی بات یہ ہے کہ تم صرف گمانوں سے کام لیتے ہو ۔
         یہاں اس بات کو سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ اللہ نے انسان کو محدود اختیار دیا ہے ۔ یعنی انسان نہ تو پورے طور پر مجبور ہے اور نہ پورے طور پر مقید ۔ اسے پروردگار نے اس کائنات میں بھیجا ہے اور اسے اتنی صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنے مطابق جو چاہے کرسکے لیکن اس کا یہ اختیار بہر حال کلی نہیں جس طرح وزیر بہت سارے معاملات میں آزاد ہوتا ہے لیکن بہرحال اسے وزیر اعظم کے اندر ہونا ہوتا ہے ۔ جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ کو اصل طاقت مانا جاتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وزراء کچھ نہيں کرسکتے لیکن کسی نہ کسی کو تو بہر حال سب سے اوپر ماننا ہوگا ۔ یہی حیثيت سب سے بڑے ہونے کی کائنات کے معاملے میں اللہ کو حاصل ہے ۔ و للہ المثل الاعلی ۔ اللہ نے اسی لیے انسان کو ان معاملات میں جوابدہ بتایا ہے جن میں اس کا اختیار کام کرتا ہے اور ان معاملات میں اس سے پوچھ گچھ بھی ہوگی ۔ بقیہ جہاں اس کے اختیارات معدوم اس کی جوابدہی بھی ختم ۔ پاگل سے، بچے سے اور بھول کر کچھ کرنے والے سے نہیں پوچھا جائے گا ۔ کسی معاملے میں ایک دم مجبور انسان سے نہیں پوچھا جائیگا ۔ یہاں تک کہ کلمہ  کفر بھی اگر محبوری کی وجہ سے ہے تو وہ بھی معاف ۔ الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان ۔ انسان کی جوابدہی اس کے اختیار کے مطابق ہے ۔ اللہ نے انسان کو شعور دی ۔ اس کے پاس نبیوں اور رسولوں کو بھیج کر یہ مطالبہ کیا کہ ان اچھی تعلیمات پر چلو اور دنیا آخرت سنوار لو ۔ انا ھدیناہ السبیل  اما شاکراو اما کفورا۔ وہیں اس نے اس بات کی بھی وضاحت کردی کہ اتنا ڈرو جتنا ڈر سکتے ہو ۔ فاتقواللہ استعطتم ۔
 جو لوگ تقدیر کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ اگر کوئی آدمی ان کو نقصان پہنچائے اور کہے کہ تقدیر میں ایسا ہی لکھا ہوا تھا تو کیا وہ مان لے گا یا پھر اس آدمی کو مورد الزام ٹھہرائے گا ۔ اگر اسے کسی چیز کی ضرورت ہوگی تو کیا وہ جیسی تیسی چیز کو قبول کرلے گا یا پھر اس کی کوشش ہوگی کہ وہ اچھی سے اچھی چیز حاصل کرے ۔ تو پھر اللہ اور اس کے حکم کے معاملے میں تقدیر کو بہانا بنانا کہاں کا انصاف ہے ؟
     تقدیر پر ایمان در اصل ایک بڑا ہتھیار ہے کہ انسان کسی قسم کی ناامیدی کا شکار نہ ہو ۔ پریشانی لاحق ہوتو صبر کرے اور اگر خوشی حاصل ہو تو شکر بجالائے اور ہر دو صورت میں راضی بہ رضا رہے ۔ تقدیر در اصل آپ کے لیے قوت ہے لیکن یہ تب جب آپ اسے قوت بنا کر دیکھیں ۔ ایک ہی انسان ذمہ داری کو ذمہ داری سمجھ کر کیا سے کیا کارنامے انجام دیتا ہے اور ایک انسان ذمہ داری کو بوجھ سمجھ کر کیا کیا پریشانیاں کماتا ہے ۔ ذمہ داری تو ذمہ داری ہی رہتی ہے ۔ اس ایمان سے انسان کا اللہ پر ایمان مضبوط ہو تا ہے ۔ اس کے اندر کبر وغرور کی نفسیات جنم نہیں لیتی اور وہ صبر وشکر کے جذبے کے تحت جیتا ہے ۔ اسے یک گونہ سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔ اللہ فرماتا ہے ۔ مااصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل ان نبراھا ان ذلک علی اللہ یسیر۔ لکیلا تاسوا علی ما فاتکم ولا تفرحوا بما اتاکم واللہ لا یحب کل  مختال فخور ۔

تقدیر اللہ تبارک وتعالی کا راز ہے ۔ ہمیں ان باتوں پر ایمان لانا ہے جو بتلائی گئی ہیں اور جو نہیں بتلائی گئيں ان کے پیچھے پڑنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ۔ ایمان والے تقدیر کو اپنی سستی اور کاہلی کا ذریعہ نہيں بناتے وہ اسے اپنی قوت کا ذریعہ اور اپنی سعادت کا زینہ سمجھتے ہیں اور وہ کارہا ئے نمایاں انجام دیتے ہیں جن پر دنیا رشک کرتی ہے ۔ یاد رہے کہ تقدیر کا پتہ ہمیں اس وقت چلتا ہے جب وہ چیز وقوع پذیر ہو چکی ہوتی ہے ۔ واقع ہونے سے پہلے ہنگامہ کرنا حماقت کہ بغیر علم کی دعویداری اور وقوع پذیر ہونے کے بعد ہنگامہ غلط کہ جس پروردگار نے یہ تقدیر لکھی اسی نے صبر وشکر کی بھی تلقین کی ۔ ایک کو پکڑنا  اور ایک چھوڑنا صحیح نہیں ۔ اللہ ہمیں بہتر توفیق دے ۔ آمین ۔

ليست هناك تعليقات: