الاثنين، يناير 20، 2014

غزل

ساگر تیمی

سفر کی بات ہے موت و حیات مت کیجیے
تمام عمر تو رونے کی  بات مت کیجیے
چلی ہے بات جب کردار کے بلندی کی
تو بیچ بیچ میں صوم و صلوۃ مت کجیے
خدا کی ذات کے جب آپ ٹھہرے انکاری
تو بات بات میں پھر اس کی بات مت کیجیے
تمام دن تو  یوں ہی ضائع کردیا بے کار
اسی کی نذر تو اب پوری رات مت کیجیے
کبھی کبھار تو کچھ  اپنے دم ہو سے آخر
ہر ایک کام میں " تیرا ہی ساتھ " مت کیجیے
اسے بڑھائيے لیکن حدود میں رہیے
وہ آنکھ ہے تو اسے کائنات مت کیجیے
اسے غرور ہے ساگر امیر ہونے پر

فقیر آپ ہیں تو التفات مت کیجیے 

ليست هناك تعليقات: