الأربعاء، مايو 22، 2013

سب پاور کا کھیل ہے بھائی



ثناءاللہ صادق تیمی
جواہر لال نہرو یونیورسٹی
9560878759

ہمارے دوست جناب بے نام خان کی اپنی ایک دنیا ہے اور اپنا ایک نظام فکر و عمل ۔ اور اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے دوست کو اس بات کا احساس ضرورت سے زیادہ رہتا ہے کہ وہ اپنا مستقل نظام فکروعمل رکھتے ہیں ۔ ایسے اس قسم کے لوگوں کا اپنا تو کچھ بھی نہیں بگڑتا نقصان ہم جیسے دوستی کے ہاتھوں مجبور سامعین کا ہوتا ہے ۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ خوبصورت لڑکی کو اگر اس کا بات کا احساس ہو جائے وہ کہ خوب صورت ہے تو بڑی پریشانیاں جنم لیتی ہیں ۔ بھائی صاحب اگر کسی پڑھے لکھے انسان کو یہ احساس ہو جائے کہ وہ تھوڑا زیادہ پڑھا لکھا ہے تو سچ مانیے اس میں اور خوبصورت دوشیرزہ میں پھر فرق باقی نہیں رہ جاتا ۔ سو ان دنوں ہمارے دوست کی وہ خوبصورت دوشیزہ والی ادا ہے اور ہم ہیں ۔ بات بات' پر ہمارے حساب سے ایسا ہونا چاہیے' اور' میرا فلسفہ اس سلسلے میں یہ کہتا ہے' ۔ ' میری مانیں تو اس مسئلے کو کچھ اس طرح لینے کی ضرورت ہے ' ۔  یہ اور اس قسم کے جملے ہمارے دوست ادا کرکر کے ہماری ناک میں دم کیے ہوئے ہیں ۔ کمال یہ بھی ہے نا کہ وہ اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ پھر اپنے موقف کی تشریح و توضیح میں اپنی ساری قوت علم و فکراور  ہماری ساری قوت صبر وضبط کا جنازہ نکالنے لگتے ہیں ۔  اب پچھلے دن کی بات لے لیجیے آتے ہی کہنے لگے کہ دوست مجھے پتہ چل گیا ہے کہ ہمارے اوپر جو پوری دنیا میں ایک طرح کا ہنگامہ برپا ہے اس کی وجہ کیا ہے اور آخر ہم کیوں ہر جگہ زدوکوب کیے جارہے ہیں ۔ ہمارے اوپر یہ اعتراضات کی بھر مار کیوں ہے ۔ ہر  ایک موڑ پر ہم سے یہ کیوں پوچھا جاتا ہے کہ ہم اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں۔ جب بھی کچھ بھی غلط ہوتا ہے اس کا سرا ہم سے کیوں جوڑ دیا جاتا ہے ۔ آخر کیوں ہمارے چھوٹے چھوٹے جرم کو بڑا بڑا بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور پوری دنیا اگر اس سے بڑا بھی کوئی جرم کرتی ہے تو لوگ پردہ ڈالنے کا کام کرتے ہیں ۔ آخر کیوں یہ ہوتا ہے کہ ادھر کوئی واقعہ رونما ہو تا نہیں اور ادھر اس کا سرا ہم مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے ۔ بلاسٹ ہونے کے فورا بعد مختلف چینلوں کو معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں مسلم آتنکوادی سنگٹھن نے یہ کام انجام دیا ہے۔
مولانا یار اس کی صرف ایک وجہ ہے اوری وہ وہی ہے  جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے اپنے اس شعر کے اندر ۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
دیکھو ہم اس دنیا میں پہلی مرتبہ نہیں رہ رہے ہیں ۔ ہماری تاریخ بہت پرانی اور بھرپور ہے ۔  اس سے پہلے بھی دنیا میں غلط ہوتا رہا ہے ۔ قتل وغارتگری کوئی آج ہی کی پیداوار نہیں ہے لیکن کل ہمارے اوپر انگلی اتنی جلد اٹھادی جائے ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن آج دیکھو تو بالکلیہ صورت حال بدلی ہوئی ہے ۔ میرے دوست یہ اور کچھ نہیں دراصل پاور کا کھیل ہے ۔ جب تم مضبوط ہوتے ہو تو کوئی تمہاری غلطی کو غلطی بھی نہیں مانتا لیکن جیسے ہی کمزور پڑتے ہو شروع ہوجاتا ہے تمہارے ساتھ سارا کھیل ۔ جب کسی بڑے باپ کی بیٹی کسی ساتھ بھاگ جاتی ہے لوگ کہتے ہیں لو میرج ہوئی ہے ۔ آزادی کا اظہار عمل میں آیا ہے اور جب کسی غریب  بے قوت انسان کی بیٹی بھاگتی ہے تو لوگ کہتے ہیں بد ذات اور کمینی نکل گئی ۔ مالداروں کے گھر میں بے پردگی فیشن بن جاتی ہے ۔ دھوکہ دھری عقلمندی کا نشان اور غریبوں کے لیے یہی ساری چیزی ننگ و عار اور مسائل کا پیش خیمہ ۔
کسی کے گھر جو دولت کی مہکنے لگتی ہے خوشبو
تو اس کی ہر رذالت خود شرافت ہونے لگتی ہے
ابھی ملکی سطح پر دیکھو تو بھی اور عالمی سطح پر دیکھو تو بھی ہم پاور لیس ہیں اس لیے ہر جگہ ہمیں اپنی صفائی دینی پڑتی ہے اور یہ پہلے سے مان لینا پڑتا ہے کہ جیسے جرم ہمارے علاوہ کوئی کر ہی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہےکہ شرپسند عناصر خود یہ کام انجام دیتے ہیں اور خوش ہو رہتے ہیں کہ پکڑائیگا بھی کوئی مسلمان اور بدنامی بھی  مسلمانوں کی ہی ہوگی۔
جب بھی فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے مجرم کے خانے مسلمانوں سے بھرے جاتے ہیں ، جیل یہی جاتے ہیں اور املاک بھی ان کے ہی تباہ ہوتے ہیں ۔  باضابطہ طور سے مسلمانوں کی مسجدوں میں حملہ ہوتا ہے اور خود مسلمانوں کو پکڑ کر ٹھونس دیا جاتا ہے جب کہ حقائق کچھ اور چغلی کھارہے ہوتے ہیں ۔ ان سب کے پیچھے بس ایک وجہ کام کرتی ہے کہ مسلمان کو مجرم ثابت کرکے آسانی سے مسئلے کا نپٹارہ ہوجائیگا ۔ مسلمان کمزور ہے سوال تو اٹھائیگا نہیں ، صفائی دینے میں لگ جائیگا ورنہ اگر اصل مجرموں کو پگڑا جانے لگا تو حکومت گر سکتی ہے اور زیادہ اس قسم کے حادثات ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ مسلمان ہی سوفٹ ٹارگیٹ ہيں  ، ان کو ہی مشق ستم بناؤ۔
یہ مسلمان ایسے بھی بے وقوف ہیں ۔ نہ ان کے اندر اتحاد ہے اور نہ دین کا صحیح شعور اور اس پر عمل ۔ سائنس و ٹکنالوجی میں بھی سب سے پیچھے اور پلاننگ وغیرہ کرنے کا تو خیر ان کا کوئی نہ ارادہ نظرآتا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی قوت و طاقت اور ذہنی تربیت ۔
تم دیکھ لینا جیسے ہی ہمارے اندر طاقت و قوت آجائیگی پھر یہ دنیا والے ہمارے سامنے آکر اپنے اچھے اور بررے اعمال کی صفائی دینے آنے لگیںگے ۔ لیکن وہ وقت آئیگا کب ؟ اس کے لیے ہمیں مضبوط پلاننگ کرنی ہوگی ، امتحان کے ان ایام میں صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا ، دین کے حقیقی مفہوم سے واقف ہو کر اس پر عمل پیرا ہونا پڑے گا ۔ اتحاد و اتفاق کے گلاب کھلانے پڑیںگے۔ ہر طرح کی فضول خرچیوں سے بچ کر پائی پائی جمع کرکے قوم کو مضبوط کرنے کا جوکھم مول لینا پڑے گا ، حصول علم کو اولین ترجیح دینی پڑیگی ، اللہ سے لو لگا نا پڑے گا اور رسائنس و ٹکنا لوجی کو اپنا سرمایہ سمجھ کر اس سے نہ صرف یہ استفادہ کرنا پڑے گا بلکہ اس پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کرنی پڑیگی اور یہ ساری چیزیں تب حاصل ہوگی جب انتھل محنت ، لگن ، جنون، استقلال ، بلند نظری ، ايثار ، فنائیت ، قربانی اور للہیت کے ساتھ اس مشن میں پورے طور پر لگا جاياجا ئيگا۔



ليست هناك تعليقات: