الثلاثاء، مايو 14، 2013

مگر اس کی آنکھ بھینگی ہے



ثناءاللہ صادق تیمی
 جواہر لال نہرو یونیورسٹی

        ہمارے دوست شرف کائنات میاں کما ل الدین فخر عالم خاں بہت پریشان تھے ۔جناب اتنے پریشان تھے کہ بس یہ سمجھیے کہ وہ پریشان تھے ۔اب میں آپ سے کیابتاﺅں کہ مجھے ان کے پریشان ہونے کا اندازہ ہواتو کیسے ؟بات اصل یہ ہے کہ وہ جب بھی پریشان ہوتے ہیں خود بخود ان کی ہنسی چھوٹنے لگتی ہے ،جو در اصل آنے والی کسی جانکاہ مصیبت کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔سو ان کو ہنستا دیکھ میرا تودل ہی بیٹھ گیا ۔بہر حال استفسار پر پتہ چلا کہ حضرت کی محترمہ خود حضرت کے سامنے کسی اور لڑکی کی جو اس کی سہیلی ہے،اتنی تعریف کرتی ہیں کہ ان کے دل میں خیالات آنے جانے لگے ہیں۔اس کے حسن و جمال ،ادب و آداب ،سیرت و کردار سب کو مثالی بناکر پیش کرتی ہے۔میں نے سوچا خدانخواستہ کسی لڑکے کی تعریف کر رہی ہوتیں توحضرت کا کیا ہوتا؟؟؟
        میرے مزید کریدنے سے پہلے انہوںنے اس پوری الجھن سے چھٹکارا پانے کے طریقے ڈھونڈنے میں مدد دینے کی درخواست کی ،جی میں آیا کہ بیٹے کو پھنساتے ہیں لیکن پھر معاً بعد اس حساس معاملے میں مذاق کرنے کے خیال کو کھرچ کرالگ کر دینا پڑا ۔اب ہم دونوں اس مصیبت سے نکلنے پر وچار ویمرش کرنے لگے لیکن کوئی راستہ صاف نظر نہیں آیا ۔اور بالآخر خان صاحب تھک ہار پھر گھر چلے گئے ۔
        کئی دنوں بعد ہمارے دوست نے ہمیں دیکھتے ہی چہکنا شروع کر دیا ۔اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔میرے پوچھنے سے پہلے ہی انہوں نے بتلایا کہ آج تو معجزہ ہو گیا۔میری بیوی نے اس لڑکی میں عیب نکال دیا ۔میں نے کہا وہ کیسے اور وہ بولے ،جناب ! میں نے تو آج یوں ہی از راہ مذاق محترمہ سے کہا کہ وہ حسن و جمال والی لڑکی تو وہی لڑکی ہے جس کے والدین نے مجھے اس سے شادی کرنے کو کہا تھا اور میں بھی تیار ہی تھا لیکن میرے دوست ! میرا جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ محترمہ نے کہا وہ خوبصورت تو ہے لیکن اس کی آنکھ بھینگی ہے۔صبح سے اب تک محترمہ نے ایک مرتبہ بھی اس حسین دوشیزہ کا نام میرے سامنے نہیں لیا ہے۔میں تو سکون پا گیا ۔یقین مانیے (نہیں ماننا ہو تو تجربہ کی جیئے )پوری دنیا ہمارے دوست کی محترمہ کی ہی طرح ہے ۔کسی کی تعریف ہو رہی ہو ،کسی کے حسن عمل کا ذکر چل رہا ہو ،کسی کے علمی کارناموں کی تفصیلات بتلائی جارہی ہوں ،کسی کے کردار کی بلندی کا چرچا ہو رہا ہو کہ یکایک ”مگر آنکھ بھینگی ہے “والی بات پیدا ہو جائے گی ۔
        کسی غیر ندوی کے سامنے مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ کی تعریف کیجیے ،ان کی ادبی خدمتوں کو سراہیئے ،ان کے علمی مقام و مرتبہ کا ذکر کیجئے تودیکھئے معا بعد آپ کوکوئی نہ کوئی ”مگر“”لیکن “ضرور ملے گا ۔
        محدث عصر ،مجد دملت علامہ البانی رحمة اللہ علیہ کی حدیث کے باب میں کی گئی کوششوں کا ذکر چھیڑئیے ،اسماءرجال اور فن جر ح و تعدیل میں ان کے مجاہدانہ اور مجددانہ کارناموں کی بات کیجیے او ر آپ کا مخاطب غیر سلفی ہو تو دیکھئے ”مگر “اور ”لیکن “ضرور آدھمکے گا۔
        آپ امام الھند مولانا ابو الکلام آزاد کا نام لے رہے ہوں، ان کی سیاسی بالغ نظری، دوررسی اور عالمانہ وقار کا حوالہ دے رہے ہوں ،تعمیر ہندوستان میں ان کی مساعی جمیلہ کو سنا کر داد طلب نگاہوں سے اپنے مخاطب کو دیکھ رہے ہوں تو یکایک آپ کو ”لیکن “اور ”مگر “کی آواز سنائی دے گی ۔بطور خاص اگر وہ آدمی غیر کانگریسی ہو ۔
        یہ مثالیں میں نے یوں ہی بیان کر دیا ہے ورنہ آپ جدھر نگاہ اٹھا کر دیکھ لیجیے بس یہی منظر نامہ نگاہوں کے سامنے ہوگا ۔میں اپنے دوست میاں کما ل الدین فخر عالم خاں کو کیسے بتاتا کہ تمہاری محترمہ تنہا نہیں ہم سب ہی ان کے جیسے ہیں ۔اسلاف کے بارے میں بتلایا جاتا ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی کسی کی خامیاں گنا رہا ہوتا تو وہ جھٹ سے اس کی خوبیاں بیان کرنے لگتے۔اور ہم اس کے بالکل الٹ کرتے ہیں۔
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
        چاپلوسی بری ہے۔اندھی عقیدت مہلک ہے ۔تقلید جان لیوا ہوتی ہے ۔لیکن کیا تنقیص کا راستہ جنت کا راستہ ہے ۔مخالفت کا راستہ ہدایت کا راستہ ہے۔”مگر “اور ”لیکن “کا راستہ نجات کا راستہ ہے ؟؟؟
        تنقید کسی بھی قوم کو اوپر اٹھانے کا کام کرتی ہے ۔تنقید کے بغیر زندہ قوم کا تصور ہوا کے بغیر زندگی کے تصور جیسا ہی ہے ۔لیکن تنقید ”لیکن “اور ”مگر “کا نام نہیں ۔مخالفت اور مخاصمت کے ساتھ تنقیص وتذلیل کا نام نہیں ۔تنقید اصولوں پر ،کڑے ،واضح ،سچے اور مضبوط اصولوں پر کسی چیز،شخص،خدمات کوپرکھنے کا نام ہے۔
        اصل بیماری یہ ہے کہ ہمارے یہاں یا تو تقریظ پائی جاتی ہے یا تنقیص ۔ہم تنقید کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ اور پھر رزلٹ سامنے ہے ۔وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر علم کی ،شعور کی ،تہذیب کی ،متانت اور سنجیدگی کی ،اصولوں کے پیروی کی سب کی کمی ہی نہیں اسکارسیٹی پائی جاتی ہے ۔ Scarcity
        ہم انسانوں کو ان کے اپنے اعمال وخدمات اور کارناموں کی بجائے ان کی جماعت ،فرقہ اور انتسابات سے تولتے ہیں۔او رپھر جھٹ سے ”لیکن “اور”مگر“کا لاحقہ سابقہ جوڑ دیتے ہیں ۔
        یہ بیماری پوری قوم میں ہے ۔کسی ایک جماعت کو مستثنی نہیں کیا جا سکتا ۔سب ایک ہی پیالی کے چٹے بٹے ہیں ۔حزبیت ،فرقہ پرستی اور مسلکی تشدد سے لے کر علاقائیت ،ذات پات اور زبان کی مختلف جاہلیت نے ہمیں جکڑ رکھا ہے ۔اور ہم اس کی گرفت سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں ۔
        ہماری تعریف عقیدت کی وجہ سے ہوتی ہے یا وابستگی کی وجہ سے اور ہماری تنقید (جسے تنقیص کہنا زیادہ موزوں ہوگا ) مخالفت کی وجہ سے ہوتی یا ناوابستگی کی وجہ سے ۔تنقید و تعریف کا یہ سارا محل اصولوں پر تعمیر نہیں ہوتا ۔
        ایک صاحب کے سامنے مولانا مودودی کا ذکر آیا اور انہوں نے چھٹتے ہی انہیں منکرین حدیث میں شامل کر دیا ۔جب تفصیل معلوم کی گئی تو پتہ چلا کہ حضرت کو ٹھیک سے پتہ بھی نہیں ہے کہ مودودی نے کس حدیث کا انکار کیا ہے اور کیسے کیا ہے؟ہمارے ایک کرم فرما دوست نے علامہ البانی پر اس طرح اپنا عندیہ دیا جیسے البانی نے صرف حدیثوں پر حکم لگا نے کا کام کیا ہو اور یوں ہی حسن،صحیح،ضعیف اور موضوع کا ٹھپہ مار دیا ہو ۔ایک حضرت تو مولانا ابو الحسن علی ندوی کو عالم ہی نہیں مانتے تھے ۔اس لیے کہ مولانا علی میاں مقلد تھے اور مقلد عالم نہیں ہوتا ۔دفاع اسلام اور رد قادیانیت کے باب میں مولانا ثناءاللہ امرتسری کی تاریخ چھپی ہوئی نہیں ۔ہمارے ایک دوست نے بڑے تاﺅ سے کہا کہ رد قادیانیت میں وہابیوں کا کیا کام ؟اور مولانا ثناءاللہ امرتسری تو وہابی تھے !!!کچھ لوگ سر سید احمد خان صاحب پر اس لیے برس رہے تھے کہ وہ خان تھے ۔قصہ مختصر یہ کہ جدھر نظر اٹھائیے یہی سارے تعصبات منہ کھولے کھڑے ہیں ۔”لیکن “او ر”مگر “کی دنیا آبادہے اور انسانیت ،اصول اور سچائی کی جان نکل رہی ہے ۔اصول اور سچائی کی بنیاد وں پر ہم اپنی نئی نسل کی تربیت کرنے کی بجائے نفرت اورتعصب کے زہریلے مواد سے نئی نسل کا خمیر تیار کرنے کی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اسے اچھا نہیں کہا جا سکتا ۔ رہے نام اللہ کا۔        

ليست هناك تعليقات: