ثناءاللہ صادق تیمی
sagartaimi@gmail.com
144, kaveri hostel JNU, New-Delhi-67
9013588985
sagartaimi@gmail.com
144, kaveri hostel JNU, New-Delhi-67
9013588985
کبھی کبھار میں یوں ہی سوچتا رہتا ہوں۔اس سوچنے کی وجہ سے کچھ بڑے اچھے اچھےباشعور لوگ بھی مجھے بے عقل سمجھتے ہیں۔ایک صاحب کا تو اصرار ہے کہ میں جس طرح سوچتے سوچتے دن و رات گزارتا رہتا ہوں وہ کسی عقلمند آدمی کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔وہ تو کوئ پاگل ہوتا ہے جو سوچتا رہتا ہے ،اپنے اپنے میں ہنستا رہتا ہے ، روتا رہتا ہے، منہ بسورتا رہتا ہے اور عجیب غریب حرکتیں کرتا رہتا ہے۔بھلا کوئ عقلمند یہ کیوں کرے۔حالانکہ فلاسفہ کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔وہ کہتے ہیں کہ وہ سوچتے ہیں اس لئے وہ ہیں۔گویا ان کے نزدیک انسان کا سوچنا ہی اس کے ہونے کی دلیل ہے۔اگر انسان سوچنا چھوڑدے تو انسان نہیں رہیگا۔لیکن اردو کا شاعر کچھ اور ہی کہتا ہے۔
سوچنا بہت ضروری ہے
سوچتے رہے تو کیا ہوگا
بہر حال سوچنے کے اپنے فوائد ہیں۔ہم ہمیشہ غیر عملی رہے اس لئے کہ ہم ہمیشہ فکری رہے۔بھائ صاحب!ایک وقت میں تو کوئ ایک ہی کام ہوگا نا!ہم نے سوچنے کی ذمہ داری قبول کی ہوئ ہے آپ کم سے کم عمل کرنے کی ذمہ داری تو قبول کیجیے۔ایسے جو لوگ سوچتے تھوڑا ہیں، وہ عملا بھی تھوڑا برت سکتے ہیں۔اصل مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو انتہائ طور پر سوچتے یا انتہائ طورپرعمل کرتے ہیں۔صاف بتلاؤں تو خاکسار کا تعلق بھی در اصل پہلے گروہ ہی سے ہے۔آج آپ کے سامنے اپنی فکری جولانیوں کا ایک نقشہ کھینچنا چاہتا ہوں۔اور وہ بھی ایک اہم ایشو کی طرف توجہ دلاکر۔
جناب عالی!در اصل ہماری ایک خرابی یہ بھی ہے کہ ہم صرف پڑھتے نہیں بلکہ اس پر غور بھی کرتے ہیں۔تاریخ سے،اسلامی تاریخ سے ،اور اس میں بھی اسلامی علوم و معارف کی تاریخ سے ہمیں خاص لگاؤرہا ہے۔علماء ،مفکرین اور دانشوران کے کارناموں سے ہم روشنی بھی لیتے ہیں لیکن ساتھ ہی ہم اس کےقایل ہیں کہ ان کی اندھی تقلید نہیں کی جانی چاہیے۔ہمارا ماننا ہے کہ بزرگوں کا احترام ضروری ہے ،ان کی عزت ضروری ہے لیکن ان کے ہر صحیح غلط خیال کی تائید کرنا ایک زندہ قوم کا شعار نہیں۔اور خاص طور سے امت محمدیہ کو کسی طرح بھی یہ زیب نہیں دیتا۔آپ کی زندگی بتلاتی ہے کہ اچھائ اپنانا ضروری ہے اور غلط کو پیار سے ،محبت سے،حکمت سےاور حسب ضرورت شدت سے ٹھکرانا ضروری ہے۔
اسی کالم کے تحت کبھی آپ نے محسن قوم وملت سرسید احمد خان رحمۃاللہ علیہ کے کارناموں کا سنہرا تذکرہ پڑھا ہوگا۔ہم سمجھتے ہیں کہ سر سید احمد خان بلا شبہ بہت عظیم انسان تھے۔بڑے کارنامے انجام دئے آپ نے۔ملت کو نئی تعلیم کا تحفہ دیا،اردو زبان وادب کی انگوٹھی کو علم وحکمت کے نگینے سے جڑ دیا اور ذہن و شعور کی سطح بلند کرنے کا کام کیا۔لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دینی مسائل میں اگر ان سے فروگذاشتیں ہوئیں تو انہیں بھی درست مان لیا جائے۔
اگر ان سے جنت ، جہنم ،فرشتے اور اسی طرح دوسرے غیبی امور سے متعلق نادانیاں سر زد ہوئیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سر سید احمد خاں کی عقیدت میں ہم ان نادانیوں کو بھی ان کی عظمت اور اکسٹرا اورڈینری وژڈم سے جوڑ کر دیکھنے لگیں۔در اصل یہ بے محل عقل کا ہی معاملہ ہے۔سر سید احمد اچھے مصلح،تعلیمی ماہر اور سماجی کارکن تھے اور ان راہوں میں انہونے بڑے زندہ اور قابل رشک کارنامے نمونہ چھوڑے،لیکن غلطی سے وہ دینیات کی باریکیوں میں پڑ گئے اور فاش فاس غلطیاں کر بیٹھے۔اس سے ان کے تعلیمی مشن کا بھی نقصان ہوا اور شخصیت بھی مجروح ہو گئی۔شیخ اکرام موج کوثر میں لکھتے ہیں کہ اگر سید احمد خان نے خود کو دینی مسائل میں نہ پھنسایا ہوتا تو وہ اور بھی کامیاب ہوتے۔
یہ صرف سید احمد خان کے ساتھ نہیں ہوا۔مولانا شبلی نعمانی،اسلم جیراجپوری اور ایک حد تک ابوالاعلی مودودی کے ساتھ بھی ہوا۔یہ سارے بزرگ اپنے اپنے فیلڈ کے بڑے کامیاب اور زبردست لوگ رہے ہیں۔ان میں سے ہر ایک نے بڑے کارنامے انجام دیئے۔شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی "الفاروق" "سیرۃ النبی" "موازنہ انیس ودبیر"اور "شعر العجم" تو شاہکار ہے۔ اسلم جیراجپوری کی "تاريخ امت" بڑی عمدہ کتاب ہے۔ان کا ایکاڈمک ریکارڈ بھی اچھا رہا ہے۔ ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ کی "تنقیحات" ،" الجہاد فی الاسلام" "پردہ" اور "شہادت حق" اردو اسلامی لیٹریچر میں بڑے اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔لیکن یہ تمام بزرگان دین حدیث اور اصول حدیث کے آدمی نہیں تھے اور غیر ضروری طور پر اس کی جزئیات میں پڑ گئے اور بعض نادانیاں سر زد ہو گئیں ۔درایت حدیث کا ایسا مفہوم نکالا کہ بہت سی صحیح احادیث پر تلوار لٹکنے لگی اور محدثین کی کاوشیں بے مطلب سی نظر آنے لگیں اور بعض بڑی خرابیوں کو پنپنے کا موقع مل گیا۔ یہ بھی در اصل بے محل عقل کا ہی مسئلہ تھا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ جو فیلڈ ہمارا نہیں اس میں ہمیں پڑنا نہیں چاہیے۔ اس سے بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ہمارا یقین ہے کہ ہمارے یہ سارے کے سارے بزرگ اچھی نیت کے حامل تھے اور ان کا مقصد بھی اسلام کی خدمت ہی کرنا تھا لیکن چونکہ یہ ان کا فیلڈ نہیں تھا اس لیے غلطی کر بیٹھے۔
ڈاکٹر محمد اقبال کی شاعرانہ عظمت اور امت کو بیدار کرنے کیلئے ان کی کاوشوں کا کون کافر منکر ہو سکتا ہے۔ان کی شاعری در اصل فنی کمال اور فکری بلندی کا اعلا نمونہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کو شاعری میں پیش کرنے کی اتنی کامیاب کوشش شاید کہیں اور ملے۔ لیکن وہی اقبال جب افکار اسلامی کی نشئاۃ ثانیہ پر خطبہ پیش کرنے لگے تو پھسل گئے۔ مسئلہ یہاں بھی وہی تھا بے محل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
مثالیں تو اتنی زیادہ ہیں کہ صفحات کے صفحات سیاہ ہوجائیں اور بات پوری نہ ہو۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیتے رہیں کہ یہ غلطیاں ہم سے بھی سر زد نہ ہو جائیں۔ ان دنوں یہ مسئلہ کچھ زیادہ ہی گمبھیر روپ اختیار کرتا جارہاہے۔کچھ لوگ ہر ایشو پر اپنی رائے ضرور سامنے لانا چاہتے ہیں۔ انجینیئر ڈاکٹری نہیں کرسکتا۔ ادیب ٹیکنولوجسٹ نہیں ہو سکتا۔اسی طرح یہ ضروری نہیں کہ زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی مضبوط پہچان رکھنے والے لوگ دینی معاملات میں بھی اتنا درک رکھتے ہوں کہ وہ بھی فتوے بازیاں کرنے لگیں۔ فلمی ایکٹر،کرکٹر،ٹینس اسٹار،سماجی کارکن اورزبان وادب کا ماہر اپنے آپ کو اگر دینی معاملات میں گھیسیٹیگا تو ظاہر کہ وہ ایسی ایسی غلطیاں کرجائیگا کہ خود اسے اس کی خبر تک نہ ہوگی۔
اسی کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ بے محل لوگوں کا بھی ہے اوریہ مسئلہ تھوڑا زیادہ گمبھیر ہے۔ بہت سے بڑے بڑے دماغ ، بڑی بڑی صلاحیت کے مالک افراد برباد ہوتے جارہے ہیں اور ان کی صلاحیتیں ایسی جگہوں پر کھپ رہی ہیں جہاں کے اصلا وہ ہیں نہیں۔ مدارس کے بہت بڑے بڑے فارغین اگر پرائیوٹ سیکٹرس میں کھپ رہے ہوں تو یقینی طور سے وہ پیسے تو ضرور کما رہے ہوتے ہیں لیکن اسی وقت امت بڑی اچھی صلاحیتوں سے محروم بھی ہو جاتی ہے۔ سیاسی شعور کے حامل بہت سے لوگ اگر زبردستی خود کو اکیڈمک سے جوڑنے کی بھول کر بیٹھیں تو جہاں وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں ،وہیں وہ بہت سے دوسرے متعلقین پر بھی ظلم کا ارتکاب کر رہے ہوں۔آدمی اگر مس پلیسڈ ہو تو وہ یقینی طور سے ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔
ہمارے بہت سے دوست اپنے اس درد کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ در اصل یہ پورے سیٹ اپ کی خامی کا خمیازہ ہوتا ہے۔ امت کے بااثر افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرف فوری توجہ مبذول کریں ، اس لئیے کہ بے محل لوگوں کا دائرہ جوں جوں وسیع ہوتا جائیگا توں توں امت کا زوال یقینی ہوتا جائیگا۔ یہ اشارے ہیں ، ان اشاروں کو آپ وسیع پیمانوں پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔اور آپ پر تب کھلیگا کہ یہ معاملہ کتنا سنگین ہے اور کس قدر جلد توجہ کا طالب ہے۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق